• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القاعدہ نے داعش کو ناجائز قرار دے دیا

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
اب بتاؤ کہ آپکے بقول دہشت گرد جن کا مطالبہ بار بار پاکستان سے کیا جارہا ہے.کیا وہ پاکستان کی پیداوار ہیں.کیا اسکی ذمہ پاکستان گورنمنٹ ہے.جس پر امريکہ بار بار پریشر ڈال رہا ہے.

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ايک واقعے کا حوالہ پيش ہے جس ميں امريکی حکومت نے ايک ايسے کيس ميں فردجرم عائد کی جس ميں بليک واٹر فريق تھی۔

يہ رہا لنک

http://online.wsj.com/article/SB122874862056388125.html

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ہم نے حکومت پاکستان کو نا تو کبھی مورد الزام ٹھہرايا ہے اور نا ہی طالبان کے مختلف گروہوں اور دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دہشت گرد کاروائيوں کے ليے ذمہ دار سمجھا ہے۔ بلکہ ہم نے تو حکومت پاکستان، عوام اور افواج کی بے مثال قربانيوں کو ہميشہ تسليم بھی کيا ہے اور انھيں اجاگر بھی کيا ہے جو روزانہ کی بنياد پر اس عفريت کے خلاف نبردآزما ہيں۔

ہم نے ہميشہ خطے ميں تمام فريقين کے مشترکہ مفادات کے ليے پاکستان کی کاوشوں کی حمايت اور انھیں اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور بھی ديا ہے۔

پاکستان کے کچھ اخباروں ميں غلط شہ سرخيوں اور دانستہ تشہير کردہ غلط تاثر کے برعکس، ہم نے پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہگاہوں کے حوالے سے ملک کے طور پر نامزد نہيں کيا۔ ہم نے محض اس بات کی ضرورت پر زور ديا ہے کہ ہر کسی کو اس حقيقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں کی پناہگاہیں سب کے ليے مشترکہ خطرہ ہیں اور پاکستان سميت تمام ممالک کے مشترکہ مفاد ميں ہے کہ دہشت گردی کے عفريت کو جڑ سے اکھاڑ ديا جاۓ۔

ہم يہ بھی سمجھتے ہيں کہ اس سارے عمل ميں پاکستان کا کليدی کردار اور جائز مفاد ہے اور ان مفادات کا احترام اور ان کا جائزہ لينا اشد ضروری ہے۔ خطے ميں ديرپا امن اور سيکورٹی کے لیے پرتشدد دہشت گردی سے پاک مستحکم، جمہوری اور خوشحال پاکستان اہم ضرورت ہے۔ يہ سب کے مفاد ميں ہے کيونکہ امريکی، پاکستانی اور افغانيوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اٹھايا ہے اور ہم ميں سے کسی کو بھی دہشت گردوں کی پناہگاہیں کہيں بھی قبول نہیں ہونی چاہیے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
۔ ایک معروف امریکی صحافی Jeremy Scabill نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں مختلف مقامات پر ہونے والے ڈرون حملے بلیک واٹر کی نگرانی میں کئے جاتے ہیں ۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ميڈيا رپورٹس اور تجزيے کسی فرد کی انفرادی سوچ اور راۓ کی عکاسی کرتی ہيں جس کی بنياد ان افراد کے ذاتی تجربے، ذاتی پسند يا ناپسند اور کسی بھی ايشو پر ان کی مجموعی سوچ ہوتی ہے۔

يہ تجزيے امريکی حکومت کی پاليسی اور راۓ کی ترجمانی نہيں کرتے۔

امريکی حکومت نے واضح کيا ہے کہ امريکی جريدے کے يہ دعوے بالکل غلط اور بے بنياد ہيں جن ميں تنظيم بليک واٹر کی خفيہ سرگرميوں کا الزام عائد کيا گيا ہے۔

کراچی يا پاکستان بھر ميں کہيں بھی کوئ خفيہ آپريشن بيس نہيں ہے جو امريکی فوج کے اہلکاروں کی کسی کمان يا تنظيم کے ذريعے چلايا جا رہا ہو، زير قبضہ ہو يا زير استعمال ہو۔

پاکستان کے ليے حکومت امريکہ کے پروگرام واضح اور شفاف ہيں اور حکومت پاکستان کے تعاون سے چل رہے ہيں۔ امريکی اہلکاروں اور پروگراموں کا پاکستان ميں ايک ہی نصب العين ہے يعنی پاکستان کی حکومت اور لوگوں کی مدد کرنا جبکہ وہ اپنے ملک کو درپيش چيلنجوں سے نبرد آزما ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت ايک نجی کمپنی کے ساتھ محض اپنے معاہدے کے بارے ميں بيان دينے کی مجاز ہے۔ اس حد تک اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے واضح کر ديا ہے کہ امريکی حکومت کا پاکستان کے اندر بليک واٹر کے ساتھ کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے بليک واٹر سے کسی معاہدے کی غير موجودگی کی صورت ميں اس کمپنی کی پاکستان ميں موجودگی کے حوالے سے کسی حتمی بيان کا اختيار حکومت پاکستان کے عہديداروں کی ذمہ داری ہے کيونکہ يہ ايک نجی سيکورٹی کمپنی ہے جس کی خدمات کوئ بھی ملک يا نجی ادارہ حاصل کر سکتا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکی حکومت نے عراق ميں بعض ديگر نجی سيکورٹی کمپنيوں کے علاوہ بليک واٹر سے بھی معاہدہ کيا تھا۔ ليکن پاکستانی ميڈيا ميں بعض عناصر کی جانب سے ديے جانے والے غلط تاثر کے برعکس يہ کوئ خفيہ معاہدہ يا پارٹنرشپ نہيں تھی۔ کانگريس نے نجی سيکورٹی کمپنيوں کے ساتھ معاہدے کے ليے باقاعدہ فنڈز منظور کيے تھے اور اس سے بھی اہم بات يہ ہے کہ عراقی حکومت ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔

پاکستان کے ضمن ميں تو امريکی حکومت نے بالکل واضح کر ديا ہے کہ بليک واٹر کے ساتھ پاکستان کے اندر ہمارا کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ايک طرف تو آپ کا يہ دعوی ہے کہ بليک واٹر اور امريکی ايجنٹس کی کاروائياں اور ان کے مشن اتنے خفيہ ہيں کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے يہ تمام کاروائياں ميری معلومات اور دائرہ کار سے بالاتر ہيں۔ يہاں تک کہ يہ تمام مشنز پاکستانی حکومت بشمول وزيراعظم، صدر، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے علم سے بھی بالاتر ہيں کيونکہ ان سب نے بليک واٹر کی پاکستانی میں موجودگی کے حوالے سے واضح بيانات ديے ہيں۔ اس کے علاوہ ان مشنز اور کاروائيوں کو اتنا خفيہ رکھا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے اہم ترين عہديداروں کو بھی ان کی کوئ خبر نہيں ہے کہ کيونکہ امريکی ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ نے بھی اس حوالے سے واضح بيان ديا ہے۔

ليکن جہاں آپ اپنی تھيوری کے حوالے سے يہ ثابت کر رہے ہيں کہ ان خفيہ امريکی ايجنٹس اور پاکستان کے اندر ان کی کاروائيوں کے حوالے سے ہر ايشو کو صيغہ راز ميں رکھا جا رہا ہے ، وہيں آپ اس بات پر بھی بضد ہيں کہ پاکستان کے اندر ان کی موجودگی کوئ راز کی بات نہيں ہے اور اس ذی شعور شخص ان کی کاروائيوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ يہاں تک کہ اپنے دعوے کی سچائ کے لیے آپ کو کسی ثبوت کی بھی کوئ ضرورت نہيں ہے کيونکہ يہ "سچائ" تو سب پر عياں ہے۔ حالانکہ آپ ثبوت اس ليے پيش کرنے سے قاصر ہيں کيونکہ آپ کے پاس کوئ ثبوت ہے ہی نہيں۔

ان افراد اور صحافيوں کے بيانات اور رپورٹس کے حوالے دينا جو ايک ايجنڈے کے تحت تسلسل کے ساتھ ايک ہی نوعيت کے بے بنياد الزامات لگا رہے ہیں اور جن کی امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے کسی قسم کی کوئ وابستگی نہيں ہے، ثبوت کے زمرے ميں نہيں آتا بلکہ محض سستی نوعيت کا پراپيگنڈہ کہلاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
اگر اس مضحکہ خيز دعوے ميں سچائ ہوتی تو پھر تو امريکی حکومت کے اسلامی دنيا ميں کسی کے بھی ساتھ سفارتی تعلقات نہيں ہونے چاہيے تھے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی کے سياسی تشخص کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اس ضمن میں آپ کو سعودی عرب کی مثال دوں گا جہاں قانونی سازی کے عمل ميں وسيع بنيادوں پر اسلامی قوانين کا اطلاق کيا جاتا ہے۔ يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔
بهائی جان
امریکہ کے سعودی عرب کے ساته ديرينيہ تعلقات نہیں بلکہ تیل کے ساتھ دیرینیہ تعلقات ہیں.

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔
ہاں ڈرون حملے بهی احترام کے اصولوں کے مطابق کیے جاتے ہیں..اور ان ملکوں کی جاسوسیاں بهی احترام کے اصولوں کے تحت کی جاتی ہیں.
ہاں اور ان ملکوں کے بندوں کو بھی احترام کے اصولوں کے تحت اغوا کیا جاتا ہے.
يہ سوچ امريکی معاشرے کے بارے ميں سطحی اور محدود سمجھ کی آئينہ دار ہے اور ان اصول اور ضوابط سے آپ کی ناآگہی بھی ظاہر ہوتی ہے جن کی بنياد پر امريکی حکومت اپنی پاليسی مرتب کرتی ہے اور اہم فيصلے کرتی ہے۔
چلو مان لیتے ہیں کہ امریکی معاشرے کے بارے ميں ہماری سوچ سطحی اور محدود ہے.
اور ان اصول اور ضوابط سے بهی ہم وقف نہیں؟
پر افسوس ہے کہ آپ کی سوچ کا تو لگتا ہے کہ فیوز ہی اڑ گیا ہے.اور شراب کے نشے میں آپ کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ لکه کیا رہا ہوں. ذرا نشہ اترے تو ان کیمنٹس کو پڑھ لینا.تکہ آپکو بهی سمجھ آجائے کہ تمہارے اردگر کیا ہو رہا ہے.اور تم کیا ثابت کررہے ہو.
نام نہاد جنگ کی آڑ لے کر امریکی حکومت نے اپنے عوام کی آزادیاں بھی سلب کرنا شروع کر دیں۔ امریکی کانگریس نے امریکی عوام پر وسیع پیمانے کی جاسوسی کی منظوری دی۔

http://www.wsws.org/en/articles/2007/08/spy-a06.html
اس قانون سے امریکی آئین کی چوتھی ترمیم عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایک امریکی شہری" ہوزے پاڈیلا "پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلانے میں ناکامی کے بعد فلوریڈا کی ایک jury سے چھوٹے موٹے دہشت گردی الزامات میں سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا۔

http://www.wsws.org/en/articles/2007/08/padi-a17.html
کینیڈا کے خفیہ ادارے شہریوں کو غیرقانونی طور پر دوسرے ممالک کے حوالے کرنے میں ملوث رہیں۔

http://m.thestar.com/#/article/opinion/columnists/2007/11/01/jabarah_case_still_a_mystery.html?referrer=
2006ء میں امریکی کانگریس نے سرکار کی طرف سے قید کو عدالت میں اعتراض کا بنیادی انسانی حق (Habeas Corpus) معطل کر دیا۔



دی نیشن، 19 ستمبر 2007ء،

دوسرے مغربی ممالک میں بھی آئینی آزادیاں سلب کرنے کے قانون بنائے گئے جن کی توثیق عدالتی فیصلوں سے ہوئی۔

http://www.wsws.org/en/articles/2007/05/cana-m12.html
جس کسی کو بھی امريکی معاشرے ميں رہنے اور يہاں کے طرز زندگی کو سمجھنے کا تجربہ ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امريکی معاشرہ کسی مخصوص مذہب، کميونٹی يا نسل سے محبت يا نفرت کی ترغيب کی بنياد پر قائم نہيں کيا گيا۔ امريکی آئين کی بنيادی اساس اور اصول يہ غير متزلزل يقين ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کے ليے برداشت کے جذبے کو فروغ ديا جانا چاہيے اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر ہر شخص کو مساوی حقوق حاصل ہيں۔
یہ ہیں آپ کی برداشت اور مساوی حقوق؟
امریکی ایف۔بی۔آئی۔ باقاعدہ مسلمانوں کو پھانسنے کے لیے عادی مجرموں کو بھاری رقوم دیتی ہے جو باتوں باتوں میں نوجوان مسلمانوں سے "قابلِ اعتراض" جملے کہلوا لیتے ہیں جس پر امریکی عدالتوں سے آسانی سے سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔

http://www.theregister.co.uk/2008/03/06/abu_jihaad_verdict
امریکہ میں مقیم 5000 مسلمان افراد کو بغیر کسی الزام کے جیل میں بند کر دیا گیا۔

David Cole، Less safe، Less free,The New Press 2007.
پروفیسر سمیع کے خلاف دہشت گردی کے الزامات میں عدالتی ناکامی کے بعد امریکی انتظامیہ نے اسے ملک بَدر کر دیا۔

http://m.democracynow.org/stories/6707
کچھ راۓ دہندگان کے ليے يہ سہل ہے کہ وہ جانب داری پر مبنی غلط تاثر کی بنياد پر کہانياں تخليق کريں اور اپنی يکطرفہ سوچ کا اظہار کريں۔ ليکن حقيقت يہ ہے کہ اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ واضح ہے کہ امريکہ ميں مسلمان اور مذہب اسلام کسی بھی لحاظ سے زير عتاب نہيں ہيں.
یہ تو نہ ہمارے اعداد وشمار ہیں. بلکہ آپ کی مقدس گائے کے میڈیا کے اعداد و شمار ہیں. اور یہ کہانیاں نہیں ہیں. بلکہ فرعونی معاشرے کی تلخ یادیں ہیں.جن کو آپ کہانیاں کہہ کر جهوٹلا نہیں سکتے.
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جہاں تک امريکہ کی مساجد ميں مسلمانوں کی مبينہ جاسوسی کا معاملہ ہے يا يہ کہ جسٹس ڈيپارٹمنٹ سميت ديگر سيکورٹی ايجنسز کی جانب سے مقامی سيکورٹی اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے ليے کيا مخصوص اقدامات اٹھاۓ گۓ ہيں تو اس ضمن ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے پاس براہراست معلومات تو نہيں ہيں البتہ جو حقائق ناقابل ترديد ہيں وہ کچھ يوں ہيں۔

ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ ميں ايسے کئ افراد گرفتار کيے گۓ تھے جو يا تو القائدہ کو مدد فراہم کرنے ميں ملوث تھے يا امریکہ ميں دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس ضمن ميں مسلم امريکی قائدين نے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بھرپور تعاون کيا تھا تا کہ ان دہشت گردوں کو روکا جا سکے جو اپنے فلسفے سے نوجوانوں کو اپنی صفوں ميں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ تعداد بہت کم ہے ليکن مسلم کميونٹی کے قائدين اور امريکی اہلکار اس بات پر متفق ہيں کہ يہ دہشت گرد بحرحال موجود ہيں اور اپنی کميونٹی اور امريکہ کے ليے ايک خطرہ ہيں۔

کسی بھی حکومت کی سب سے اولين ترجيح اس کے مکينوں کے ليے تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت ہر ضروری احتياط اور قدم اٹھا رہی ہے تاکہ امريکہ کی سرزمين پر مزيد کسی حملے کو روکا جا سکے۔ يہاں يہ بات بھی ياد رہے کہ دہشت گردوں نے دنيا کے بے شمار ممالک بالخصوص مسلم ممالک ميں کاروائياں کی ہيں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی اپنے عوام کی حفاظت کے ليے ضروری اقدامات کيے ہيں۔ مثال کے طور پر کچھ حاليہ ميڈيا رپورٹس کے مطابق سعودی حکومت نے کچھ مساجد کے امام کو خطبات دينے سے روک ديا تھا کيونکہ حکومت کے مطابق وہ انتہا پسند رجحانات کو فروغ دے رہے تھے۔ صرف يہی نہيں بلکہ سعودی عرب سميت بہت سے مسلم ممالک ميں ہزاروں کی تعداد ميں افراد کو دہشت گردی کے شعبے ميں گرفتار کيا گيا ہے۔ ميرے خيال ميں آپ اس بات سے اتفاق کريں گے کہ ان حکومتوں کو مسلم مخالف قرار دينا مشکل ہے۔ ان حکومتوں کی جانب سے ممکنہ دہشت گردوں کو ٹارگٹ کيا گيا ہے۔ امريکی حکومت بھی اپنے عوام کو اسی قسم کے کرداروں سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے سيکورٹی کے ضمن ميں کيے جانے والے تمام اقدامات امريکی قوانين اور آئين ميں درج انسانی حقوق کی شقوں سے مشروط ہیں۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے کہ امريکہ ميں مسلمانوں کی ايک بڑی تعداد معاشرے کا اہم حصہ ہيں اور پرامن زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کچھ افراد ايسا نہيں چاہتے تو ان کے ساتھ بالکل وہی سلوک ہو گا جو امريکہ ميں کسی بھی قانون شکن کے ساتھ ہوتا ہے۔ امريکی بحيثيت مجموعی اس امر سے واقف ہيں کہ چند لوگوں کے اعمال مسلمانوں کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتے۔

يہاں پر يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی اس حقي‍ت کو بھی سمجھتے ہيں کہ تمام مذاہب ميں انتہا پسند موجود ہوتے ہيں جو مذہب کی تعليمات کو مسخ کر کے نفرت اور جنگ کے ليے جواز پيدا کرتے ہيں۔ کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کلو کليس کلين ايک عيسائ تنظيم ہونے کی دعويدار تھی۔ جب اس تنظيم کی شرانگيز تقارير کے سبب معاشرے ميں بدامنی پھيلی تو ان جرائم میں مرتکب افراد کے خلاف بھی کاروائ کی گئ۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ عيسائيوں کے خلاف ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے
امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے.
تو پھر یہ کیا ہے؟
امریکی صدر کے ایلچی کارل روو کا بیان ہے کہ:


"we're an empire now – we create our own reality"

"ہم اب ایک بادشاہت ہیں ۔۔ ہم اپنی حقیقت خود بناتے ہیں۔
تو بتاؤ پهر عراق پر حملہ کیوں کیا.کدهر ہیں صدام کے ایٹمی ہتھیار؟
اور اب کمیشن کے فیصلے سے پہلے آپکا ایک فرعونی اتحادی مان رہا ہے کہ عراق پر حملوں کی میں معافی مانگتا ہوں؟
افغانستان پر حملہ کیوں کیا.اگر آپ کہتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ القاعدہ نے کیا تھا تو یہ بهی ایک الزام کے سوا کچھ بهی نہیں.بے شمار تجربہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دھماکے بش انتظامیہ نے خود کروائے.
چلو یہ بتاؤ کے کس عدالت نے یہ ثابت کیا ہے.کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث اسامہ بن لادن پر یہ یہ فرد جرم ثابت ہوگئی ہے.
ویتنام پر حملے کیا تھے؟
حدود اور جغرافیہ کی کیا بات کرتے ہو.
اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں بشمول مسلمنوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ کسی ايک قوم کے خلاف ہے يا پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟
اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے.تو مسڑ یہ بتاؤ کہ یہ "صلیبی جنگ" کیا ہے؟آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کرو ہم کچه کہے گئے تو شکایت ہو گی۔
امریکی صدر جارج بش نے 2001ء میں امریکی ٹریڈ سنٹر پر حملے کو جواز بنا کر "دہشت گردی کے خلاف جنگ" (war on terror) کا اعلان کیا۔ اس جنگ کا پہلا نشانہ افغانستان بنا۔ اس کے بعد عراق۔ شروع ہی میں امریکی صدر جارج بش نے اس جنگ کو صلیبی جنگ (Crusade war) بھی کہا جس سے اس کی اصل نیت واضح ہوتی ہے اگرچہ بعد میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔


جیمز کیرول (20 ستمبر 2004)، "بش کی صلیبی جنگ" (انگریزی میں)

 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
يہ واضح رہے کہ بليک واٹر نہ تو امريکی حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی امريکی فوج سے اس کا کوئ تعلق ہے۔ يہ سيکورٹی سے وابستہ ايک نجی کمپنی ہے جس کی خدمات کوئ بھی حکومت يا نجی کمپنی حفاظت کے زمرے ميں لے سکتی ہے۔ اس تناظر ميں اس کمپنی کے اندر کس قسم کا کلچر موجود ہے يا اس کے ملازمين کس قسم کے خيالات رکھتے ہیں، وہ کسی بھی صورت ميں امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی يا نقطہ نظر کی ترجمانی نہيں کرتے۔
ايک واقعے کا حوالہ پيش ہے جس ميں امريکی حکومت نے ايک ايسے کيس ميں فردجرم عائد کی جس ميں بليک واٹر فريق تھی۔
يہ رہا لنک
http://www.wsj.com/articles/SB122874862056388125
پاکستان نے بھی بار بار امریکی گورنمنٹ کو یہ باوار کروانے کی کوشش کی کہ "ملا عمر"پاکستان میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی امريکی اعلیٰ عہدیداروں کبهی کوئٹہ شوری تو کبهی اسلام آباد ميں "ملا عمر"کی موجودگی ظاہر کرتے رہے.اور ڈومور والا فارمولا بهی بار بار اپلائی کرتے رہے ہیں حالانکہ متعدد بار پاکستانی گورنمنٹ اس الزام کا انکار کرتی رہی ہے. لیکن امریکی گورنمنٹ نے آج تک انکی ایک نہیں سنی.تو پهر ہم کیسے آپکی "زی"کے بارے وضاحت قبول کریں.کیا آپ کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ آپکی بات تو حجت ہے.لیکن جب کوئی آگے سے بات کرے تو..پهر نام نہاد جهوٹے دعووں کے سوا آپ کے پاس بچ کیا جاتا ہے.
زی سروسز ایل ایل سی (Xe Services LLC ) یہ عراق جنگ کی ایک بدنام تنظیم ہے جس نے عراق میں فلوجہ، نجف اور بغداد میں غیر قانونی طور پر عام افراد کو قتل کیا جس کا مقدمہ آپکے لنک کے بقول آج کل ریاستہائے متحدہ امریکہ میں زیرِ سماعت ہے۔ بظاہر اس کا مقصد امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کا تحفظ ہے مگر تیسری دنیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مختلف دانشوروں کے مطابق یہ تنظیم ایسے کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ قانونی وجوہات سے خود نہیں کرنا چاہتا۔
آپ اس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے بیان کی وضاحت کردیں؟
29 اکتوبر 2007ء کو امریکی شعبۂ ریاست (ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ) نے اس تنظیم کو کسی بھی عدالت میں لانے سے استثناء کر دیا تاکہ اس پر کوئی مقدمہ کامیاب نہ ہو سکے۔

آپکے بقول اس تنظیم کا امریکی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟
19 اگست 2009ء کو نیویارک ٹائمز میں مارک مانزیتی نے لکھا کہ سی آئی اے نے "زی" کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ القاعدہ کے افراد کو دنیا کے مختلف حصوں میں قتل کیا جائے۔


جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے
بهائی جان یہ کس طرح کا خودمختار ملک ہے.کہ جو بار بار آپکو باوار کروا چکا ہے کہ ڈرون حملے بند کرو.لیکن آپ کی گورنمنٹ بار بار اس کی خودمختاری کو پامال کرتی رہی ہے اور اب تک کررہی ہے.

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والا ہر شخص رائج عالمی قوانين اور قواعد وضوابط کے عين مطابق کام کر رہا ہے اور اس ضمن ميں امريکی سفارت خانے کو حکومت پاکستان کی مکمل منظوری اور تعاون بھی حاصل ہے۔
ان عالمی قوانین اور قواعد وضوابط کے عين مطابق آپکے ریمنڈڈیوس بهی کام کرکے امریکہ چلے گئے.
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا پاکستان ميں بليک واٹر کے ساتھ کوئ معاہدہ نہيں ہے۔اس ميں کوئ شک نہيں کہ پاکستانی ميڈيا پر کچھ افراد "امريکيوں کی اسلام آباد میں پراسرار سرگرميوں" کے حوالے سے جاری بے بنياد کہانيوں کے خبط ميں مبتلا ہيں۔ باوجود اس کے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ، اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کے ترجمان اور خود امريکی سفير نے بھی متعدد بار سرکاری سطح پر وضاحت پيش کر دی ہے، قياس اور تاثر پر مبنی کہانيوں کی مسلسل تشہير کی جا رہی ہے۔
سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ ہمارے خلاف آپ نے جیو ٹی.وی کے "جرگہ" سیلم سافی کا ایک پروگرام بطور دلیل کے پیش کیا.اس وقت تو آپ نے یہ نہیں سوچا؟ اور اس میڈیا چینل پر کلی یقین بھی ظاہر کیا.
لیکن جب یہی میڈیا...ہم نے آپکے خلاف استعمال کیا تو اب کیوں چیخ رہے ہو.
تهوڑی اور خبریں اور سن لو:

"امریکی سفارت خانے نے تسلیم کیا کہ انہوں نے 200 گھر اسلام آباد میں کرایے پر لے رکھے ہیں اور سفارت خانہ میں ایسی توسیع ہو رہی ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی"
(انگریزی میں)روزنامہ دی نیشن، 7 ستمبر 2009.
حالانکہ چین کے سفیر نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ہم چین کی تشویش دور کریں گے.
پاکستانی روزنامہ دی نیشن 7 ستمبر 2009ء (نقشِ خیال از عرفان صدیقی)
لیکن تشویش آج تک دور نہیں ہوئی.
"ایک اور واقعہ میں چار امریکی افراد کو کالے شیشوں کی جیپ میں آٹومیٹک ہتھیاروں سمیت ایک ناکے پر روکا گیا تو انہوں نے اپنا تعارف بلیک واٹر کے تعلق سے کروایا۔ جب انہیں تھانے لے جایا گیا تو وہاں امریکی سفارت خانے کے افراد پہنچ گئے جن کے ساتھ فوج کے ایک کیپٹن اور پولیس کے ایک ایس پی آفتاب ناصر تھے جنہوں نے پولیس والوں کو ڈرا دھمکا کر ان چاروں کو رہا کروالیا۔"
پاکستانی روزنامہ دی نیشن 7 ستمبر 2009ء (نقشِ خیال از عرفان صدیقی)

"امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق زی کے اہلکار امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام دیتے تھے۔"
http://www.bbc.com/urdu/world/2009/08/090821_black_waters_cia.shtml

"امریکی 'سفارتکار' جعلی اجازہ طبق گاڑیوں میں گھومتے گرفتار ہوئے۔"
http://nation.com.pk/Politics/07-Jan-2010/US-Consulate-car-impounded-in-Gwadar
باوجوداس کے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ، اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کے ترجمان اور خود امريکی سفير نے بھی متعدد بار سرکاری سطح پر وضاحت پيش کر دی ہے، قياس اور تاثر پر مبنی کہانيوں کی مسلسل تشہير کی جا رہی ہے۔ سابق وزير اعظم پاکستان نے بھی يہی کہا تھا کہ بليک واٹر پاکستان کے اندر کام نہيں کر رہی۔ يہ حکومت پاکستان کی جانب سے واضح بيان ہے جسے تسليم کيا جانا چاہيے کيونکہ يہ بے سروپا کہانيوں اور بغير ثبوت اور شواہد کے لگاۓ جانے والے الزامات کے مقابلے ميں زيادہ محترم ہے۔
بهائی جان اس وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی باتیں کسی اور کو سننا.یہ تو جب تمہارے پاس جاتے ہیں تو تمہارے ہو جاتے ہیں. اور جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ہمارے ہوجاتے ہے۔
ہمارے نزدیک ان منافقین کی نہ کوئی ویلییو ہے اور نہ کوئی اہمیت.
ہمارے تو آپ سے یہی مطالبہ ہے کہ تم ہمارے ملک اور افغانستان وغیرہ سے دفع ہوجاو.اور اپنی تہذیب کا گند یورپ اور امریکہ میں پھیلاؤ.اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔
میں جب بھی فرصت ملے گی تو آپکے سارے کیمنٹس کا جواب لکھ دونگا۔
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
اس ايشو کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ کسی بھی ملزم يا دہشت گرد کے خلاف چارج شيٹ اور تفتيشی عمل کا اس کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی حکومت کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔
بهائی جان ذرا یہ تو بتاؤ کہ:
جمہوری دہشت گرد:(دنیا میں امن کے ٹهکیدار)
5ملین سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے"سفاک صہیونی بش"کی جارچ شیٹ کدھر ہے؟
مذہبی دہشت گرد:(آپکے نزدیک)
اور دوسری طرف ان مسلمانوں کا حال دیکھا لو:
"امریکہ نے 2013ء میں بتایا کہ یہاں قید افراد میں سے 46 کو ہمیشہ کے لیے قید رکھا جاوے گا بغیر کسی الزام ثابت ہونے کے"
http://www.theguardian.com/world/2013/jun/17/us-identifies-guantanamo-bay-detainees
ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين رہے ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
میں بهی ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں.کہ القاعدہ کی موجد تمہاری حکومت ہے.اور اس پر" ہلیری کلنٹن"کا بیان شاہد ہے.
اور یہ لنک بهی:
ویسے ایک مسئلہ تو حل کردو کہ جب تم نے القاعدہ کو روس کے خلاف استعمال کیا.اس وقت تو القاعدہ دہشت گرد تنظیم نہیں تھی.لیکن جب القاعدہ نے تمہیں آنکهیں دیکهنا شروع کی تو القاعدہ دہشت گرد ہوگئ؟
جب تم القاعدہ کو روس کے خلاف استعمال کررہے تهے اس وقت انسانیت کے دعوے کہاں تهے.
اور جب تمہاری باری آئی تو تم لوگ انسانیت کے ٹهکیدار بن گئے.
اس ضمن ميں پاکستان ميں گرفتار ہونے والے 5 امريکی شہريوں کا بھی حوالہ ديا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بھی امريکی حکومت پاکستان کے تفتيشی اداروں اور عہديداروں کو ہر ممکن تعاون اور سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔ امريکی حکومت کی پاليسی بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شخص جس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لايا جانا چاہيے۔ جب کسی کے اوپر جرم ثابت ہو جاۓ تو پھر اس کی شہريت، مذہبی وابستگی اور سياسی نظريات کا اس کے جرائم اور اس کی سزا سے کوئ تعلق نہيں رہ جاتا۔
ان کے اوپر کون سی فرد جرم عائد ہوتی ہے؟
امن کے چمپیئن بننے والو!
انسانیت کا رگ الاپنے والو!
اپنے ملک کی حفاظت کے لیے خود ساختہ دہشت گردی کی تعریفیں کرنے والو!
ان صیہونی،سیکولر اور جمہوری خونخوار وحشی درندوں کے خلاف کون سی چارج شيٹ آج تک جمع کروائی گئی ہے.

عراق میں امریکی فوج اپنے قبضے کے دوران کیا گل کھلاتی رہی تھی اور اس نے عراقیوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے،اس کی ہوشربا تفصیل ماضی میں منظرعام پر آتی رہی ہے لیکن امریکی فوج کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کی مختصر مگر نئی نَئی کہانیاں وقفے وقفے سے سامنے آرہی ہیں۔یہ کہانیاں بیان کرنے والے کوئی اور نہیں خود امریکی اور برطانوی فوجی ہیں۔
اب کہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی عمارت میں واقع امریکہ کے زیرانتظام حراستی مرکز میں عراقی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی ہوشربا کہانی منظرعام پر آئی ہے۔برطانوی فوج کے ٹو آر اے ایف اسکوارڈرن اور آرمی ائیرکور اسکوارڈرن سے تعلق رکھنے والے فوجی جنگِ عراق کے دوران اس کیمپ نما نامی حراستی مرکز میں محافظ اور ٹرانسپورٹ کی ذمے داریاں انجام دیتے رہے تھے۔
برطانوی اخبار گارجین نے منگل کو ان میں سے ایک فوجی کے بیان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور اس نے کیمپ نما میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی تفصیل بیان کی ہے۔اس برطانوی فوجی نے اخبار کو بتایا کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا جس کو ٹانگ سے پکڑ کر کھینچا گیا اور پھر اس کو سر میں مارتے ہوئے لے جا کر ایک ٹرک میں بے دردی سے پھینک دیا گیا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ایک مشترکہ خصوصی فورسز یونٹ کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جانکاری رکھنے والے افراد کا سراغ لگانے اوران کی گرفتاری کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔اس یونٹ کا کوڈ نام ٹاسک فورس 121 تھا۔جب اس یونٹ کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں تو اس کو تب روپوش صدام حسین اور ان کے وفاداروں کا اتا پتا معلوم کرنے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنے والے افراد کو پکڑنے کی ڈیوٹی دی گئی۔اس کے بعد اس یونٹ کو عراق میں القاعدہ کے جنگجووں کو پکڑنے کا بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ عراق جنگ کی دسویں برسی کے موقع پر مذکورہ ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق فوجیوں نے کیمپ نما میں عراقی قیدیوں پر بہیمانہ تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے قصے بیان کئے ہیں۔ کیمپ نما میں عراقی قیدیوں سے تفتیش کے دوران ظالمانہ طریقے آزمائے جاتے تھے۔انھیں وہاں بجلی کے جھٹکے دئے جاتے،ان کے سر کوکپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا اور اس حالت میں انھیں کئی کئی گھنٹے تک تنگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’عراقی قیدیوں پر تشدد کے اس قدر ظالمانہ حربے آزمائے جاتے تھے کہ اس پر پینٹاگان کو رپورٹ کرنے والا ایک خصوصی تفتیش کار بھی چیخ اٹھا تھا اور امریکہ کے انسانی حقوق کے ایک ادارے نے بھی ان مظالم کی شدید مذمت کی تھی۔‘اس وقت سابق برطانوی وزیر دفاع "جیف ہون" کا بالاصرار کہنا تھا کہ انھوں نے اس خفیہ جیل کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا جبکہ برطانوی وزارت دفاع بھی کیمپ نما میں برطانوی فوج کی کارروائیوں کی منظوری سے متعلق سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہی تھی۔



يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔
فواد بهائی جان یہ ایک ناقابل تردید حقيقت نہیں بلکہ صرف ایک مفروضہ ہے.جس کے کوئی پکے ثبوت آج تک آپ کی گورنمنٹ نے مہیا نہیں کیے.

اس بارے میں یورپ میں متعدد تحقیقاتی رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا کہ نائن الیون مسلمانوں کی نہیں بلکہ موساد کی کارستانی تھی۔
جرمن اخبار ڈائی ٹیگس ذی ٹنگ (Die Tegszeitung) کے ایڈیٹر میتھس پروکرز، فرانسیسی صحافی تھیری میسان کی کتاب"9/11: The big lie" ، جرمنی کے سابق وزیر انڈریس وون بلو کی کتاب"The CIA and September 11"، جرمن صحافی گیراڈ وینیویکی کی کتاب "Operation 9/11" میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ نائن الیون سب سے بڑا جھوٹ تھا۔ یہ بتایا گیا کہ جس طرح امریکہ کی جانب سے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کرکے اس ملک پر قبضہ کیا گیا لیکن کوئی ناقابل اعتراض ہتھیار نہ مل سکا اسی طرح نائن الیون بھی بڑا فراڈ تھا جس کا مقصد امریکا کے مفادات کا حصول تھا۔ مبصرین حیران ہیں کہ دنیا کی سُپرپاور جس کا فضائی ڈیفنس نظام اتنا مضبوط ہے، چار کمرشل جہازوں کا اغوا اور اہم تنصیبات سے ٹکرانے سے روک کیوں نہ سکا۔ اس سلسلے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی ڈیفنس نظام کو حرکت میں نہ لانے کی وجہ یہی ہے کہ وہ پہلے سے اس منصوبے سے باخبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جہاز کو گرانے کی کارروائی نہ کی گئی۔ دراصل امریکی حکومت چاہتی تھی کہ یہ حملے کامیاب ہوں۔ یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پنٹاگون، جوکہ امریکا کی وزارتِ دفاع ہے ،پر حملے سے قبل راڈار ناکارہ کیوں بنے تھے۔ امریکا کا ایئر ڈیفنس نظام ناکام کیوں ہوا؟ مغرب میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دیگر عمارتیں جہاز ٹکرانے یا آگ لگنے سے تباہ نہیں ہوئیں بلکہ انہیں بارودی دھماکوں سے تباہ کیا گیا تھا۔ ورنہ عمارتیں مکمل طور پر تباہ نہ ہوتیں۔ ان کو تھرمائٹ یا نانو تھرمائٹ کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمارتیں لوہا پگھلنے کے باعث زمین بوس ہوئیں جبکہ لوہا ایک ہزار درجہ حرارت میں پگھلتا ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی چیوٹ آف سٹنڈارڈز اینڈ ٹیکنالوجی نے بھی اعتراف کیا کہ لوہا پگھلا نہیں تھا بلکہ اس کی بنیادوں کی کمزوری کے باعث عمارتیں ایک دم زمین بوس ہوگئیں تھیں۔ بعض محققین نے انکشاف کیا ہے کہ پینٹاگون سے جہاز نہیں ٹکرایا بلکہ اسے میزائل کا نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا تھا اور یہ میزائل حکومتی مرضی سے فائر کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پینٹاگون پر جہاز حملے کی وجہ سے ۶۰ فٹ چوڑا سوراخ بنا تھا جبکہ جہاز کا سائز اس سوراخ سے کہیں بڑا تھا۔ بوئنگ۷۵۷ کا سائز ۱۵۵x ۱۲۵ فٹ ہے۔ اتنا بڑا جہاز ۶۰ فٹ میں کیسے داخل ہوگیا تھا؟ جبکہ پنسلوانیا میں گرنے والے جہاز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے حکومت نے مار گرایا تھا۔ جبکہ اس کا ملبہ میلوں دور سے ملا۔ تباہ ہونے والے جہازوں کا ملبہ نزدیک سے ہی برآمد کیا جاتا ہے۔ محققین سوال کرتے ہیں کہ اس جہاز کا ملبہ میلوں دور کیسے پہنچ گیا۔

ویسے فواد صاحب آپ ایک سوال کا جواب دیں.کہ حملہ کرنا تھا آپکو افغانستان پر اور ثبوت آپ دے رہے تھے مشرف کو.یہ عجیب آپکی پالیسی ہے.
اور افغان طالبان کے بارے بهی آپ کا بیان بے بنياد ہے.آپ کو کس نے کہا کہ افغان طالبان نے القاعدہ کے خلاف کارروائی سے انکار کیا تھا.ہے کوئی ثبوت تو پیش کرو.
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اصل ماجرہ ہے کیا.

اسامہ بن لادن کی حوالگی اور ملا متوکل:
العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا احمد متوکل نے بتایا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو سنہ 2001ء میں امریکا کے حوالے کیوں نہ کیا۔ محمود الورواری نے استفسار کیا کہ جب ملا عبدالحکیم مجاھد نے آپ سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی گذارش کی تھی تو آپ نے انہیں ملا عمرسے مشورے کے بعد آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ ملا عمرنے کیا مشورہ دیا تھا۔
ملا احمد متوکل نے بتایا کہ میں اس وقت وزیرخارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بن لادن کی امریکا حوالگی کا مطالبہ صرف ملا عبدالحکیم کی طرف سے نہیں بلکہ کئی عرب اور مسلمان ملکوں کی طرف سے بھی کیا جا رہا تھا۔ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا۔ ہم مسلمان ہیں اور افغانستان میں اسلامی حکومت قائم تھی۔ اس لیے ہم بن لادن کو کسی غیرمسلم ملک کے بجائے مسلمان ریاست کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔
اس حوالے سے ابھی ہم کوئی فیصلہ کر ہی نہیں پائے تھے کہ امریکیوں نے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔ ملا عمر حقیقی معنوں میں بن لادن کا معاملہ حل کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
(پیر 10 صفر 1437هـ - 23 نومبر 2015م)
 
Top