اس ايشو کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ کسی بھی ملزم يا دہشت گرد کے خلاف چارج شيٹ اور تفتيشی عمل کا اس کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی حکومت کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔
بهائی جان ذرا یہ تو بتاؤ کہ:
جمہوری دہشت گرد:(دنیا میں امن کے ٹهکیدار)
5ملین سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے"سفاک صہیونی بش"کی جارچ شیٹ کدھر ہے؟
مذہبی دہشت گرد:(آپکے نزدیک)
اور دوسری طرف ان مسلمانوں کا حال دیکھا لو:
"امریکہ نے 2013ء میں بتایا کہ یہاں قید افراد میں سے 46 کو ہمیشہ کے لیے قید رکھا جاوے گا بغیر کسی الزام ثابت ہونے کے"
http://www.theguardian.com/world/2013/jun/17/us-identifies-guantanamo-bay-detainees
ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين رہے ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
میں بهی ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں.کہ القاعدہ کی موجد تمہاری حکومت ہے.اور اس پر" ہلیری کلنٹن"کا بیان شاہد ہے.
اور یہ لنک بهی:
ویسے ایک مسئلہ تو حل کردو کہ جب تم نے القاعدہ کو روس کے خلاف استعمال کیا.اس وقت تو القاعدہ دہشت گرد تنظیم نہیں تھی.لیکن جب القاعدہ نے تمہیں آنکهیں دیکهنا شروع کی تو القاعدہ دہشت گرد ہوگئ؟
جب تم القاعدہ کو روس کے خلاف استعمال کررہے تهے اس وقت انسانیت کے دعوے کہاں تهے.
اور جب تمہاری باری آئی تو تم لوگ انسانیت کے ٹهکیدار بن گئے.
اس ضمن ميں پاکستان ميں گرفتار ہونے والے 5 امريکی شہريوں کا بھی حوالہ ديا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بھی امريکی حکومت پاکستان کے تفتيشی اداروں اور عہديداروں کو ہر ممکن تعاون اور سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔ امريکی حکومت کی پاليسی بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شخص جس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لايا جانا چاہيے۔ جب کسی کے اوپر جرم ثابت ہو جاۓ تو پھر اس کی شہريت، مذہبی وابستگی اور سياسی نظريات کا اس کے جرائم اور اس کی سزا سے کوئ تعلق نہيں رہ جاتا۔
ان کے اوپر کون سی فرد جرم عائد ہوتی ہے؟
امن کے چمپیئن بننے والو!
انسانیت کا رگ الاپنے والو!
اپنے ملک کی حفاظت کے لیے خود ساختہ دہشت گردی کی تعریفیں کرنے والو!
ان صیہونی،سیکولر اور جمہوری خونخوار وحشی درندوں کے خلاف کون سی چارج شيٹ آج تک جمع کروائی گئی ہے.
عراق میں امریکی فوج اپنے قبضے کے دوران کیا گل کھلاتی رہی تھی اور اس نے عراقیوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے،اس کی ہوشربا تفصیل ماضی میں منظرعام پر آتی رہی ہے لیکن امریکی فوج کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کی مختصر مگر نئی نَئی کہانیاں وقفے وقفے سے سامنے آرہی ہیں۔یہ کہانیاں بیان کرنے والے کوئی اور نہیں خود امریکی اور برطانوی فوجی ہیں۔
اب کہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی عمارت میں واقع امریکہ کے زیرانتظام حراستی مرکز میں عراقی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی ہوشربا کہانی منظرعام پر آئی ہے۔برطانوی فوج کے ٹو آر اے ایف اسکوارڈرن اور آرمی ائیرکور اسکوارڈرن سے تعلق رکھنے والے فوجی جنگِ عراق کے دوران اس کیمپ نما نامی حراستی مرکز میں محافظ اور ٹرانسپورٹ کی ذمے داریاں انجام دیتے رہے تھے۔
برطانوی اخبار گارجین نے منگل کو ان میں سے ایک فوجی کے بیان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور اس نے کیمپ نما میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی تفصیل بیان کی ہے۔اس برطانوی فوجی نے اخبار کو بتایا کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا جس کو ٹانگ سے پکڑ کر کھینچا گیا اور پھر اس کو سر میں مارتے ہوئے لے جا کر ایک ٹرک میں بے دردی سے پھینک دیا گیا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ایک مشترکہ خصوصی فورسز یونٹ کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جانکاری رکھنے والے افراد کا سراغ لگانے اوران کی گرفتاری کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔اس یونٹ کا کوڈ نام ٹاسک فورس 121 تھا۔جب اس یونٹ کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں تو اس کو تب روپوش صدام حسین اور ان کے وفاداروں کا اتا پتا معلوم کرنے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنے والے افراد کو پکڑنے کی ڈیوٹی دی گئی۔اس کے بعد اس یونٹ کو عراق میں القاعدہ کے جنگجووں کو پکڑنے کا بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ عراق جنگ کی دسویں برسی کے موقع پر مذکورہ ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق فوجیوں نے کیمپ نما میں عراقی قیدیوں پر بہیمانہ تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے قصے بیان کئے ہیں۔ کیمپ نما میں عراقی قیدیوں سے تفتیش کے دوران ظالمانہ طریقے آزمائے جاتے تھے۔انھیں وہاں بجلی کے جھٹکے دئے جاتے،ان کے سر کوکپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا اور اس حالت میں انھیں کئی کئی گھنٹے تک تنگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’عراقی قیدیوں پر تشدد کے اس قدر ظالمانہ حربے آزمائے جاتے تھے کہ اس پر پینٹاگان کو رپورٹ کرنے والا ایک خصوصی تفتیش کار بھی چیخ اٹھا تھا اور امریکہ کے انسانی حقوق کے ایک ادارے نے بھی ان مظالم کی شدید مذمت کی تھی۔‘اس وقت سابق برطانوی وزیر دفاع "جیف ہون" کا بالاصرار کہنا تھا کہ انھوں نے اس خفیہ جیل کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا جبکہ برطانوی وزارت دفاع بھی کیمپ نما میں برطانوی فوج کی کارروائیوں کی منظوری سے متعلق سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہی تھی۔
يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔
فواد بهائی جان یہ ایک ناقابل تردید حقيقت نہیں بلکہ صرف ایک مفروضہ ہے.جس کے کوئی پکے ثبوت آج تک آپ کی گورنمنٹ نے مہیا نہیں کیے.
اس بارے میں یورپ میں متعدد تحقیقاتی رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا کہ نائن الیون مسلمانوں کی نہیں بلکہ موساد کی کارستانی تھی۔
جرمن اخبار ڈائی ٹیگس ذی ٹنگ (Die Tegszeitung) کے ایڈیٹر میتھس پروکرز، فرانسیسی صحافی تھیری میسان کی کتاب"9/11: The big lie" ، جرمنی کے سابق وزیر انڈریس وون بلو کی کتاب"The CIA and September 11"، جرمن صحافی گیراڈ وینیویکی کی کتاب "Operation 9/11" میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ نائن الیون سب سے بڑا جھوٹ تھا۔ یہ بتایا گیا کہ جس طرح امریکہ کی جانب سے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کرکے اس ملک پر قبضہ کیا گیا لیکن کوئی ناقابل اعتراض ہتھیار نہ مل سکا اسی طرح نائن الیون بھی بڑا فراڈ تھا جس کا مقصد امریکا کے مفادات کا حصول تھا۔ مبصرین حیران ہیں کہ دنیا کی سُپرپاور جس کا فضائی ڈیفنس نظام اتنا مضبوط ہے، چار کمرشل جہازوں کا اغوا اور اہم تنصیبات سے ٹکرانے سے روک کیوں نہ سکا۔ اس سلسلے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی ڈیفنس نظام کو حرکت میں نہ لانے کی وجہ یہی ہے کہ وہ پہلے سے اس منصوبے سے باخبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جہاز کو گرانے کی کارروائی نہ کی گئی۔ دراصل امریکی حکومت چاہتی تھی کہ یہ حملے کامیاب ہوں۔ یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پنٹاگون، جوکہ امریکا کی وزارتِ دفاع ہے ،پر حملے سے قبل راڈار ناکارہ کیوں بنے تھے۔ امریکا کا ایئر ڈیفنس نظام ناکام کیوں ہوا؟ مغرب میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دیگر عمارتیں جہاز ٹکرانے یا آگ لگنے سے تباہ نہیں ہوئیں بلکہ انہیں بارودی دھماکوں سے تباہ کیا گیا تھا۔ ورنہ عمارتیں مکمل طور پر تباہ نہ ہوتیں۔ ان کو تھرمائٹ یا نانو تھرمائٹ کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمارتیں لوہا پگھلنے کے باعث زمین بوس ہوئیں جبکہ لوہا ایک ہزار درجہ حرارت میں پگھلتا ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی چیوٹ آف سٹنڈارڈز اینڈ ٹیکنالوجی نے بھی اعتراف کیا کہ لوہا پگھلا نہیں تھا بلکہ اس کی بنیادوں کی کمزوری کے باعث عمارتیں ایک دم زمین بوس ہوگئیں تھیں۔ بعض محققین نے انکشاف کیا ہے کہ پینٹاگون سے جہاز نہیں ٹکرایا بلکہ اسے میزائل کا نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا تھا اور یہ میزائل حکومتی مرضی سے فائر کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پینٹاگون پر جہاز حملے کی وجہ سے ۶۰ فٹ چوڑا سوراخ بنا تھا جبکہ جہاز کا سائز اس سوراخ سے کہیں بڑا تھا۔ بوئنگ۷۵۷ کا سائز ۱۵۵x ۱۲۵ فٹ ہے۔ اتنا بڑا جہاز ۶۰ فٹ میں کیسے داخل ہوگیا تھا؟ جبکہ پنسلوانیا میں گرنے والے جہاز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے حکومت نے مار گرایا تھا۔ جبکہ اس کا ملبہ میلوں دور سے ملا۔ تباہ ہونے والے جہازوں کا ملبہ نزدیک سے ہی برآمد کیا جاتا ہے۔ محققین سوال کرتے ہیں کہ اس جہاز کا ملبہ میلوں دور کیسے پہنچ گیا۔
ویسے فواد صاحب آپ ایک سوال کا جواب دیں.کہ حملہ کرنا تھا آپکو افغانستان پر اور ثبوت آپ دے رہے تھے مشرف کو.یہ عجیب آپکی پالیسی ہے.
اور افغان طالبان کے بارے بهی آپ کا بیان بے بنياد ہے.آپ کو کس نے کہا کہ افغان طالبان نے القاعدہ کے خلاف کارروائی سے انکار کیا تھا.ہے کوئی ثبوت تو پیش کرو.
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اصل ماجرہ ہے کیا.
اسامہ بن لادن کی حوالگی اور ملا متوکل:
العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا احمد متوکل نے بتایا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو سنہ 2001ء میں امریکا کے حوالے کیوں نہ کیا۔ محمود الورواری نے استفسار کیا کہ جب ملا عبدالحکیم مجاھد نے آپ سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی گذارش کی تھی تو آپ نے انہیں ملا عمرسے مشورے کے بعد آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ ملا عمرنے کیا مشورہ دیا تھا۔
ملا احمد متوکل نے بتایا کہ میں اس وقت وزیرخارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بن لادن کی امریکا حوالگی کا مطالبہ صرف ملا عبدالحکیم کی طرف سے نہیں بلکہ کئی عرب اور مسلمان ملکوں کی طرف سے بھی کیا جا رہا تھا۔ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا۔ ہم مسلمان ہیں اور افغانستان میں اسلامی حکومت قائم تھی۔ اس لیے ہم بن لادن کو کسی غیرمسلم ملک کے بجائے مسلمان ریاست کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔
اس حوالے سے ابھی ہم کوئی فیصلہ کر ہی نہیں پائے تھے کہ امریکیوں نے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔ ملا عمر حقیقی معنوں میں بن لادن کا معاملہ حل کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
(پیر 10 صفر 1437هـ - 23 نومبر 2015م)