السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
میں نے ساری گفتگو پڑھی ، جو حقیقتا ، محمد آصف مغل اور القول السدید کے مابین تھی، درمیان میں ایک دو فضول ٹانگیں اڑانے والے بھی ٹپکے ، مگر بحث چلتی رہی ، اور میں شکرگزار ہوں دونوں اطراف کا جنہوں نے اس سخت بحث میں کچھ نہ کچھ آداب اخلاقیات کا خیال ملحوظ رکھا۔
مجھے اس بحث سے جو بات سمجھ آئی وہ درج ذیل ہیں:
1-
الشیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جس بنیاد پر تاتاریوں کی تکفیر اور انسے قتال کیا ، ان میں سے آج کوئی بھی ظاہرہ طور پر ان خواص کا حامل نہیں ، اگر کسی کے باطن میں ایسا کچھ ہے تو ہمیں اس پر کلام کا اختیار نہیں۔
2-
اگر کسی شخص کا تعلق کسی ایسے گروہ سے کہ ان کے لٹریچر میں کفریہ شرکیہ عقائد موجود ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ شخص بھی اسی کفریہ و شرکیہ عقائد کا حامل ہے۔
مثلا ہم جانتے ہیں دیوبندی اور بریلوی حضرات کی کتابیں اور تحریریں کفریہ و شرکیہ عقائد پر مبنی ہیں مگر ہم ہر ایک دیوبندی اور بریولوی پر خود قضاء کے عہدہ کو ہاتھ میں لیکر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
3-
اور اگر کسی مسلمان سے کسی کفریہ وشرکیہ عمل کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر اس عمل پر حکم لگے نہ کہ اس فاعل شخص پر، کیونکہ کسی خاص فاعل پر حکم لگانا "خالہ جی دا ویڑہ نہیں"۔
4-
کچھ لوگ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ انکی زندگی کا مقصد ہی صرف لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا تھا، اور وہ ہر وقت اس کام کے لئے مظطرب رہتے تھے کہ مجھے موقع ملے اور میں مزید کچھ مسلمانوں کو مخرج عن الملۃ قرار دوں، اور آج کے تکفیری حضرات ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے چہرہ کو پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ورنہ موصوف امام صاحب اس مسئلے پر جتنے محتاط پا گئے ہیں تو اس کو دیکھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یاد تازہ ہوجاتی ہے۔۔
کہ ایک ایسا بادشاہ جو سرعام کفر کر رہا تھا، اور پھر اس کفر کو بزور بازو نافذ کر رہا تھا، اور امام احمد بن حنبل جیسا عالم انکو سمجھا رہا تھا ، مگر پھر بھی وہ باز نہیں آرہا تھا ، اس الٹا اسنے امام اہل السنہ رحمہ اللہ اور دوسرے اہل السنہ کو ظلم کی چکی میں پیسا، قتل کیا ، قید کیا ۔۔۔
اس کے باوجود امام اہل السنہ جیسا عالم بھی اس کی تکفیر سے "جہالت" کی وجہ سے توقف کیا ہوا تھا، اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔ جب سمجھانے والا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مگر کفریہ عقیدہ کا مرتکب حکمران سمجھے تو امام اہل السنہ اس پر جہالت کا اندیشہ خیال کر کے کفر و ارتداد کا حکم نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آج کے حکمران کو کس ایسے عالم نے دربار میں جا کر ، ون ٹو ون بیٹھ کر سمجھا لیا ہے کہ وہ یہ سکے کہ حجت تمام ہوگئی ہے اور اب میں اسے کافر کہنے لگا ہوں؟؟؟
کوئی بھی نہیں ، کوئی بھی نہیں ۔۔۔
تو پھر فیس بک اور فورمز پر بیٹھ کر حجتیں تمام کرنے والے اور قضاء کا کام کرنے والوں کو اس خطرناک کام سے باز رہنا چاہیئے۔
آخر میں ایک عرض :
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کی طرح بے ڈھنگ و بے ھنگم اور انتقامی کاروایئ کے طور پرنہیں بلکہ دلائل،قوائد و ظوابط اور اصولوں میں تفقہ کے التزام کے بعد!
آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔
اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔
آج ایسا تفقہ، خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟
ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔
یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !
وما توفیقی الا با للہ