• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دوستی

شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
السنة لعبد الله بن الإمام أحمد بن حنبل : ثنا أبو الفضل ثنا مسلم بن إبراهيم نا عبد الوارث بن سعيد قال نا سعيد قال: جلست إلى أبي حنيفة بمكة فذكر شيئاً فقال له رجل: روى عمر بن الخطاب رضي الله عنه كذا وكذا قال أبو حنيفة: ذاك قول الشيطان ، وقال له آخر أليس يروى عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: «أفطر الحاجم والمحجوم» ، فقال: هذا سجع فغضبت وقلت: إن هذا مجلس لا أعود إليه فمضيت وتركته .
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السنة لعبد الله بن الإمام أحمد بن حنبل : ثنا أبو الفضل ثنا مسلم بن إبراهيم نا عبد الوارث بن سعيد قال نا سعيد قال: جلست إلى أبي حنيفة بمكة فذكر شيئاً فقال له رجل: روى عمر بن الخطاب رضي الله عنه كذا وكذا قال أبو حنيفة: ذاك قول الشيطان ، وقال له آخر أليس يروى عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: «أفطر الحاجم والمحجوم» ، فقال: هذا سجع فغضبت وقلت: إن هذا مجلس لا أعود إليه فمضيت وتركته .
بھائی جب جواب میں کوئی حدیث یا روایت پیش کی جائے تو میری گذارش ہے ساتھ میں یہ ضرور بتادیا جائے کہ یہ حدیث کس تناظر میں پیش کی کئی ۔ بعض اوقات پیش کرنے والا کسی اور نظریہ سے پیش کرتا ہے اور پڑہنے والا کسی اور تناظر میں دیکھتا ہے ۔ اس سے تھریڈ میں کھچڑی بن جاتی ہے اور بات کہیں کی کہیں نقل جاتی ہے
میں نے کہا تھا
ذرا ہمیں بھی وہ روایات صحیح سند کے ساتھ بتادیں ۔
غالبا اسی لئيے یہ روایت پیش کی گئی ہے
میں اسی تناظر کے حوالہ سے کچھ عرض کرتا ہوں
روایت کے پہلے ٹکڑے میں ہے کہ جب امام ابو حنیفہ کے سامنے کچھ عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہا تو انہوں نے کہا ذاك قول الشيطان ۔
اس پر اہل تشیع بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو قول الشیطان کہا ۔
اس روایت میں عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے قول مذکور نہیں ۔ بس اتنا کہا گيا کذا و کذا
بعض دفعہ ادمی کے سامنے کسی معروف ہستی کے حوالہ سے کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے جو اس معروف ہستی نے نہیں کہی ہوتی اور وہ بات بھی انتہائی ناذیبا ہوتی تو آدمی کہ دیتا ہے کہ یہ شیطان کا قول ہے (یعنی شیطان ایسا کہ سکتا ہے وہ معروف ہستی نہیں )
مثال کے طور پراگر کوئی کہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کو لوٹ مار کر تباہ کردینا ۔ تو اس کے جواب میں کوئی کہے یہ تو شیطان کا قول ہے ۔ تو اس بات سے نہ کہا جائے گا کہ مخاطب نے قائداعظم کو شیطان کہا ۔ بلکہ مخاطب کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ قائداعظم تو ایسا نہیں کہ سکتے یہ نا ممکن ہے ۔ یہ ضرور شیطان کا قول ہے ۔
اس مثال سے روایت کا پہلا ٹکڑا واضح ہوا ۔
دوسرے ٹکڑے میں ھذا سجع کہا گیا ۔ اگر کوئی ایسی حدیث کسی کے سامنے پیش کی جائے جو مخاطب کے نذدیک موضوع ہو اور مخاطب کہ یہ تو جھوٹ ہے ۔ اور حدیث نہیں تو یہ نہیں کہا جائے گا اس نے قول رسول جھٹلایا ۔ بلکہ اس نے موضوع حدیث کے متعلق کہا ۔
اسی حدیث کے متعلق ابی حاتم نے کہا
وهذا الحديث في يفطر الحاجم والمحجوم عندي باطل
تو ایک حدیث کو باطل کہنے پر وہی فتوی ابی حاتم پر لگائیں گے جو ابو حنیفہ پر لگایا
کچھ تو عقل سے کام لو ۔
ویسے تو اصل پوسٹ جس میں ابوحنیفہ پر الزام لگا تھا کہ وہ اپنی رائے کے مقابلے میں حدیث سے صرف نظر کرلیتے تھے ۔ وہ پوسٹ ڈیلیلٹ ہوچکی ہے تو اب ایسی بے تکی باتیں کرنے کیا فائدہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ماشاء اللہ آپ حضرات نے ایک بار پھر ٹودی پوائنٹ جواب دینے سے اجتناب کیا اور دوسرے سوال داغ کر میرے سوال سے منہ موڑ لیا ۔ اس سے کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ کے پاس کوئی ایسی سند والی روایت نہیں ہیں، بس باتیں ہیں
میں نے ایک اصولی اور جائز بات کی ہے کہ بھلا ایک مقلد کیسے صحیح سند کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ ۔آپ کو ایسے مطالبے کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے
مقلدوں کے لئے انتہائی تشویشناک اور قابل غور بات ہے کہ امام ابوحنیفہ کی محدیثین کی نظر میں حیثیت ایک مجروح اور ضعیف راوی کی ہے۔ ایسی صورت میں تو مقلدوں کی جانب سے ابوحنیفہ کو دئے گئے القابات جیسے امام اعظم، محدث، مجتہداعظم، فقیہ وغیرہ خودبخود ہی بے وقعت محسوس ہونے لگتے ہیں۔
صرف دعوی کرنے سے کوئی حق پر نہیں ہو جاتا
اگر آم بیچنے والا تربوز بیچنے کی آواز لگائے تو آم آم ہی رہیں گے ، تربوز نہیں بن جائیں گے
اپنی یہ بات آپ خود ہی ذہن نشین کرلیں کیونکہ محدیثین نے امام صاحب کو گمراہ قرار دیا ہے بلکہ ان کی گمراہی پر اجماع کیا ہے۔ اب چاہیں آپ تربوز کو آم کہیں یا آم کو تربوز کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدیثین کرام نے واضح موقف بیان کردیا ہے اب مقلدین کے جھوٹے واویلے سے امام صاحب حق پر ثابت نہیں ہوسکتے۔تیر کمان سے نکل چکا ہے۔
لیکن ایک اچھی بات میرے سوال کرنے سے یہ سامنے آئی ایک بے تکی پوسٹ جس کوثابت نہیں کیا جاسکتا تھا ڈیلیٹ کر دی گئی
چاہے وہ پوسٹ شاہد نذیر صاجب کی تھی یا انتظامیہ کی طرف سے ترمیم شدہ تھی
میں نے وضاحت کردی تھی کہ پوسٹ کی عبارت میں نے خود ختم کی ہے۔ اور اس لئے نہیں کہ بے تکی تھی اور اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ امام صاحب سے متعلق کوئی ایسی چیز جسے واقعی ثابت نہیں کیا جاسکتا وہ ان کی ثقاہت ہے۔باقی ہم نے تو اپنا دعویٰ ثابت کردیا ہے۔ملاحظہ فرمالیں: حالات ابوحنیفہ صحیح روایات کی روشنی میں
تنبیہ: یہاں روایات کے اصل متن کے ساتھ اسناد بھی ذکر کردی گئیں ہیں اور روای کے نام پر کلک کرنے سے اس کے حالات بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں۔

میں اسی تناظر کے حوالہ سے کچھ عرض کرتا ہوں
روایت کے پہلے ٹکڑے میں ہے کہ جب امام ابو حنیفہ کے سامنے کچھ عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہا تو انہوں نے کہا ذاك قول الشيطان ۔
اس پر اہل تشیع بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو قول الشیطان کہا ۔
اس روایت میں عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے قول مذکور نہیں ۔ بس اتنا کہا گيا کذا و کذا
بعض دفعہ ادمی کے سامنے کسی معروف ہستی کے حوالہ سے کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے جو اس معروف ہستی نے نہیں کہی ہوتی اور وہ بات بھی انتہائی ناذیبا ہوتی تو آدمی کہ دیتا ہے کہ یہ شیطان کا قول ہے (یعنی شیطان ایسا کہ سکتا ہے وہ معروف ہستی نہیں )
مثال کے طور پراگر کوئی کہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کو لوٹ مار کر تباہ کردینا ۔ تو اس کے جواب میں کوئی کہے یہ تو شیطان کا قول ہے ۔ تو اس بات سے نہ کہا جائے گا کہ مخاطب نے قائداعظم کو شیطان کہا ۔ بلکہ مخاطب کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ قائداعظم تو ایسا نہیں کہ سکتے یہ نا ممکن ہے ۔ یہ ضرور شیطان کا قول ہے ۔
جب بھی ابوحنیفہ کے دفاع کی بات آتی ہے مقلدین کا کشکول دلائل سے خالی ہوجاتا ہے اور اگر کچھ رہ جاتا ہے تو وہ بودی، لولی لنگڑی تاویلیں۔ میرے بھائی اگر آپ نے امام صاحب کا دفاع خود پر واجب کرلیا ہے تو کم ازکم دفاع میں کچھ ایسا پیش کرو جس میں کچھ معقولیت ہو۔دفاع کے نام پر ایسے لطیفے پیش کرنے سے احتراز کرو۔ میں اسی روایت کو مکمل پیش کررہا ہوں اردو ترجمے کے ساتھ۔جس کو پڑھ کر سب کو معلوم ہوجائے گا کہ تلمیذ صاحب نے کتنی بھونڈی تاویل کی ہے۔ ملاحظہ کریں:
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى:643) نے کہا:
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ. قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ. قال: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ. فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. [تاريخ بغداد:13/ 388 ، السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 226 واسنادہ صحیح]۔

ترجمہ: بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو شیطان کی بات ہے ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے سندکے تمام طبقات میں تحدیث کی صراحت ہے یعنی سندمتصل ہے اورسارے راوی ثقہ ہیں ، اس سند کے کسی بھی راوی کے بارے میں جاننے کے لئے اس پر کلک کرتفصیل معلوم کرلیں۔ بشکریہ: کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

پس اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ ابوحنیفہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو شیطان کہا ہے۔ کیونکہ امام صاحب نے یہ سننے اور جان لینے کے بعد کہ عمربن خطاب﷜ نے ایسا کہا ہے ایک جلیل القدر صحابی کے بارے ایسے توہین آمیز کلمات کہے۔ اور اس مجلس میں موجود لوگوں نے بھی امام صاحب کے ان الفاظ کو عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی سمجھا اسی لئے انہوں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا بلکہ حاضرین میں سے ایک شخص نے تو یہ تک کہہ دیا کہ تمہیں عمر رضی اللہ عنہ کو شیطان کہنے پر حیرت ہورہی ہے۔ ابوحنیفہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو تک بندی کہہ کررد کردیا ہے۔ حنفیوں کے امام کے نزدیک حدیث کی کوئی اہمیت نہیں تھی اسی لئے وہ صحابہ تک کو بڑی آسانی سے شیطان کہہ دیتے تھے۔ نعوذباللہ من ذالک۔ہم ایسے امام سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔

اب تلمیذ صاحب کو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان کا یہ کہنا کہ امام صاحب نے صحابی کو شیطان نہیں کہا کتنا غلط ہے۔امام ابوحنیفہ کے ساتھ اس وقت موجود لوگوں نے یہی سمجھا کہ امام صاحب نے صحابی رسول کی گستاخی کی ہے اسی لئے عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان نے آئیندہ ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کرلی تھی۔ثابت ہوا کہ تلمیذ صاحب کی الٹی سمجھ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔یہ صاحب محض اپنے امام کے دفاع میں دھوکہ دہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

تنبیہ!
نامناسب الفاظ کو نکال دیا گیا ہے۔(انتظامیہ)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
شاہد نذیر بھائی! بس ایک التماس کہ شرم و حیا کو جگانے کوشش نہ ہی کی جائے!! کیونکہ اس سے شرم وحیا جاگنے سے زیادہ ضد ہی مزید چاک وچوبند ہو اٹھتی ہے!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ملاحظہ کریں:
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى:643) نے کہا:
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ. قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ. قال: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ. فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. [تاريخ بغداد:13/ 388 ، السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 226 واسنادہ صحیح]۔

ترجمہ: بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو شیطان کی بات ہے ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے سندکے تمام طبقات میں تحدیث کی صراحت ہے یعنی سندمتصل ہے اورسارے راوی ثقہ ہیں ، اس سند کے کسی بھی راوی کے بارے میں جاننے کے لئے اس پر کلک کرتفصیل معلوم کرلیں۔ بشکریہ: کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
ں۔
اولا
ایک تو ہم اس دعوی پر بات کر رہے ہیں کہ جس کا اب تحریری وجود اس تھریڈ میں نہیں اور بقول شاہد نذیر صاحب کے انتظامیہ کی طرف ترمیم کے بعد انہوں نے احتجاجا ڈیلیٹ کردی تو اب بحث کس دعوی پر کروں
ثانیا
ذاک قول الشیطان کا تعلق اس دعوی سے نہیں اور اس کے متعلق پہلے وضاجت کی جاچکی ہے اس لئیے میں في الحال کچھ نہیں لکھ رہا
دعوی تو یہ تھا امام ابوحنیفہ حدیث رسول کر ٹھکرا کر اپنے قول پر فتوی دیتے تھے تو بھائی اگر کسی مخاطب کے سامنے کوئی حدیث رکھی جائے اور مخاطب کے نذدیک وہ موضوع ہے تو آگر وہ کہے کہ یہ تو جھوٹ ہے یا یہ کہے کہ یہ تو باطل ہے تو کیا فتوی لگے گا پہلے یہ بتائیں
ثالثا
باقی آپ کی پوسٹ میں بلا دلییل جذباتی باتیں ہیں میں انتظامیہ سے بات کرلوں پھر کچھ عرض کروں گا
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
شاہد نذیر بھائی! بس ایک التماس کہ شرم و حیا کو جگانے کوشش نہ ہی کی جائے!! کیونکہ اس سے شرم وحیا جاگنے سے زیادہ ضد ہی مزید چاک وچوبند ہو اٹھتی ہے!!
شرم وحیا تو ایمان کا حصہ ہے وہ تو موجود ہے جب اس طرح کی بات جاتی ہے تو اسلاف کے لئیے غیرت جاگتی ہے
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
الكتاب : السنة
المؤلف : عبد الله بن أحمد بن حنبل الشيباني
الناشر : دار ابن القيم - الدمام
الطبعة الأولى ، 1406
تحقيق : د. محمد سعيد سالم القحطاني
حدثني محمد بن علي ثنا ابراهيم بن بشار قال سمعت سفيان بن عيينة يقول كان أبو حنيفة يضرب بحديث رسول الله صلى الله عليه و سلم الأمثال فيردها بلغه أني أحدث بحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فقال أبو حنيفة أرأيتم أن كانا في سفينة كيف يتفرقان فقال سفيان فهل سمعتم بأشر من هذا // رجاله ثقات
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دوستی

امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ الیشکری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں تھا کہ ان کے پاس کسی قاضی کا خط آیا جس میں اس نے کچھ چیزوں کے بارےمیں پوچھا تھا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہنے لگے
لکھو (ہاتھ) کاٹا جائے گا، کاٹا جائے گا
میں نےکہا :رک جاؤ
رسول اللہﷺ نے فرمایا:انہوں (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نے فرمایا:اسے(یعنی میرے فتوے کو) کاٹ دو اور لکھو:(ہاتھ) نہیں کاٹا جائے گا۔
(الطیوریات ج٣ ص٩٧١ ح٩٠٣ وسندہ صحیح ، السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ج١ ص٢٢١ ح٣٨٠ وسندہ صحیح)​
أبو الحسن الدیباجی کی توثیق کس نے کی ہے ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
الكتاب : السنة
المؤلف : عبد الله بن أحمد بن حنبل الشيباني
الناشر : دار ابن القيم - الدمام
الطبعة الأولى ، 1406
تحقيق : د. محمد سعيد سالم القحطاني
حدثني محمد بن علي ثنا ابراهيم بن بشار قال سمعت سفيان بن عيينة يقول كان أبو حنيفة يضرب بحديث رسول الله صلى الله عليه و سلم الأمثال فيردها بلغه أني أحدث بحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فقال أبو حنيفة أرأيتم أن كانا في سفينة كيف يتفرقان فقال سفيان فهل سمعتم بأشر من هذا // رجاله ثقات
فقیر الی اللہ صاحب
آپ صرف روایت لکھ دیتے ہیں اور نہ اس کا ترجمہ کرتے ہیں اور نہ کچھ ذکر کرتے ہیں کہ یہ روایت کس حوالہ سے پیش کی ۔ پہلے بھی آپ نے ایک روایت پیش کی اس کی میں نے کچھ تشریح کی تو جواب ملا یہ تو لنگڑی تاویلیں ہیں ۔ آپ کچھ اس روایت کے حوالہ سے بات کریں کہ اس روایت اور موضوع میں کی مطابقت ہے ۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے عربی ڈراما دیکھ رہا تھا جس میں ایک ایسی عورت کو دکھا گیا تھا جو ہر بات کی جواب میں قرآنی آیت پڑہتی تھی ۔ آپ بھی کچھ اسی طرح صرف روایت نقل کردیتیں ہیں ۔
پہلے میری پچھلی تشریح کے بارے میں بتائیں کہ صحیح یہ غلط ہے اگر غلط تو اس پر بات پہلے کرتے نئی روایت کیوں پیش کردی پھر اس روایت کی تشریح کرکے اس تھریڈ کے موضوع سے مطابقت کرتے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اولا
ایک تو ہم اس دعوی پر بات کر رہے ہیں کہ جس کا اب تحریری وجود اس تھریڈ میں نہیں اور بقول شاہد نذیر صاحب کے انتظامیہ کی طرف ترمیم کے بعد انہوں نے احتجاجا ڈیلیٹ کردی تو اب بحث کس دعوی پر کروں
دعویٰ کا تحریری وجود نہیں ہے تو کیا ہوا بحث تو اسی موضوع پر ہورہی ہے۔ لیجئے دعویٰ ایک مرتبہ پھر پیش خدمت ہے: کلیم حیدر بھائی نے ایک روایت پیش کی جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا کہ ابوحنیفہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اپنی رائے کو چھوڑ دیتے تھے۔ (اگرچہ کلیم حیدر بھائی کا یہ دعویٰ ابھی محل نظر ہے کیونکہ رفیق طاہر حفظہ اللہ نے اس پر ایک مضبوط اعتراض قائم کردیا ہے)۔ اس پر میں نے جواباً کہا کہ تصویر کا دوسرا اور حقیقی رخ بھی لوگوں کو بتائیں اور وہ یہ ہے کہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ ابوحنیفہ اپنی رائے کے بالمقابل آنے والی احادیث کو رد کردیتے تھے۔

ثانیا
ذاک قول الشیطان کا تعلق اس دعوی سے نہیں اور اس کے متعلق پہلے وضاجت کی جاچکی ہے اس لئیے میں في الحال کچھ نہیں لکھ رہا
جب اس کا تعلق دعوے سے نہیں تو آپ نے اس کا جواب کیوں دیا؟ اور آپ نے وضاحت کے نام پر جو انتہائی بھونڈی تاؤیل کی ہے اس کا بھونڈا پن ہم نے واضح کردیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوحنیفہ اتنے بے باک اور جری تھے کہ صحابہ کی عزت کا بھی پاس ولحاظ نہیں رکھتے تھے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کی گالی دے دیتے تھے۔

ثانیا دعوی تو یہ تھا امام ابوحنیفہ حدیث رسول کر ٹھکرا کر اپنے قول پر فتوی دیتے تھے تو بھائی اگر کسی مخاطب کے سامنے کوئی حدیث رکھی جائے اور مخاطب کے نذدیک وہ موضوع ہے تو آگر وہ کہے کہ یہ تو جھوٹ ہے یا یہ کہے کہ یہ تو باطل ہے تو کیا فتوی لگے گا پہلے یہ بتائیں
الحمداللہ ہم نے جو دعویٰ کیا تھا اس پر حدیث پیش کردی ہے جس میں ابوحنیفہ نے اپنی رائے کے خلاف آنے والی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تک بندی کہہ کر توہین امیز انداز میں ٹھکر دیا تھا۔

موضوع،ضعیف، منکر وغیرہ تو ابوحنیفہ سے بہت بعد کی اصطلاحات ہیں۔ابوحنیفہ کے دور میں تو اسماء الرجال کا فن مکمل حالت میں موجود ہی نہیں تھا۔ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ابوحنیفہ کے نزدیک فلاں حدیث موضوع تھی؟ اور پھر آپ کے اکابرین کا تو دعویٰ ہے کہ ابوحنیفہ تک جو احادیث پہنچیں وہ صحیح تھیں بعد میں کسی ضعیف راوی کے روایت کرنے کی وجہ سے ہم تک ضعیف پہنچیں ہیں۔اس بارے میں کیا خیال ہے؟

اگر کسی شخص کے سامنے کسی صحابی کا ضعیف یا موضوع قول پیش کیا جائے اور اس پر وہ کہہ دے کہ یہ تو جھوٹ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ واقعی اسے اس بات کا علم ہوکہ میرے سامنے بیان ہونے والا قول موضوع ہے اور وہ اس صحابی کی دشمنی میں ایسا نہ کہہ رہا ہو۔ تو اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگے گا لیکن اس کے باوجود بھی اس شخص کو ایسے انداز میں یہ بات کہنی ہوگی جس سے صحابی پر کوئی کسی طعن یا توہین کا گمان نہ ہوتا ہو۔وگرنہ اس پر صحابہ کی توہین کا الزام ضرور لگے گا۔ یہ تو ہوا تلمیذ صاحب کے سوال کا جواب۔
اب ہمارا سوال تلمیذ صاحب سے یہ ہے کہ کسی شخص کے سامنے کسی صحابی کا قول ذکر ہوا اور اس کے نزدیک وہ ضعیف یا موضوع تھا لیکن اس شخص نے قول کے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی شیطان کہہ دیا۔جو اسکے بغض صحابہ کا ثبوت ہے۔تو اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہوگا؟؟؟

ثالثا
باقی آپ کی پوسٹ میں بلا دلییل جذباتی باتیں ہیں میں انتظامیہ سے بات کرلوں پھر کچھ عرض کروں گا
ہماری پوسٹس تو جذباتیت سے کافی حدتک پاک ہوتی ہیں لیکن آپ ہی لوگ امام صاحب کا دفاع کرتے وقت کافی جذباتی ہو جاتے ہیں حتی کہ یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ دفاع کا فریضہ سچ کے بجائے جھوٹ در جھوٹ سے انجام دینے لگتے ہیں۔
 
Top