lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ تحقیق یہاں سے لی گئی ہے
http://www.islamic-belief.net/امام-ابو-حنیفہ-اہل-رائے-اور-اہل-
%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB/
[/CENTER]
امام ابو حنیفہ قلیل حدیث ہیں یعنی انہوں نے بہت کم حدیثیں بیان کی ہیں لیکن یہ کوئی عیب نہیں کیونکہ بعض محدثین حدیث یاد رکھتے تھے لیکن اس کا مفہوم نہیں سمجھتے تھے مثلا محمّد بن اسحاق یہ تاریخ و حدیث کے امام ہیں ان کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے لیکن یہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا کہتیں تھیں کہ قرآن کی کچھ آیات ایسی بھی ہیں جو مصحف میں نہیں اور ان کو بکری کھا گئی. ظاہر ہے کہ حدیث یاد رکھنے کے علاوہ دین کا علم بھی ضروری ہے
محدثین کے دو گروہ تھے ایک وہ تھے جو اگر کسی مسئلہ میں حدیث نہ ہو تو رائے کو پسند کرتا تھا اور ایک دوسرا گروہ تھا جو مسئلہ میں ضعیف روایت کو لینے کا قائل تھا مثلا امام احمد اور ابتداء میں امام بخاری
پہلے گروہ میں جلیل القدر امام المحدیثین يَحْيى بْن سَعِيد القطان ہیں یہ اہل رائے میں سے تھے
ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں
سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من
رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ
میں نے ابن حماد کو سنا … یحیی بن معین کو سنا انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا ہم اللہ پر جھوٹ نہیں بولتے بعض اوقات ہم ابو حنیفہ کی کوئی رائے سنتے ہیں پس اس کو پسند کرتے ہیں اور اپنا لیتے ہیں
قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.
یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید کوفہ کے مذھب (اہل رائے) پر فتوی دیتے تھے
امام شعبہ بن حجاج جن کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے بھی امام ابو حنیفہ کے مدح تھے. ابن عدی لکھتے ہیں
حَدَّثَنَا ابن حماد قَالَ وحدثني أَبُو بَكْر الأعين، حَدَّثني يَعْقُوب بْن شيبة عن الحسن الحلواني سَمِعْتُ شَبَابَةَ يَقُولُ كَانَ شُعْبَة حسن الرأي فِي أَبِي حنيفة فكان يستنشد فِي هَذِهِ الأبيات
شعبہ امام ابو حنیفہ کے لئے حسن رائے رکھتے تھے اور ان کی تعریف میں اشعار بھی کہتے تھے
امام ابو حنیفہ مطلقا قیاس کے حامی نہیں تھے ابن عدی لکھتے ہیں
سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.
ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے
امام احمد، سُفْيَان بْن وكيع کے لئے کہتے ہیں ما أعلم إلا خيراً میں ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا
عبداللہ بن احمد کتاب السنہ میں اپنے باپ احمد سے نقل کرتے ہیں
سَمِعْتُ أَبِيَ يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ حُسْنِ عِلْمِ الرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ
میں نے اپنے باپ احمد سے سنا کہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ نے کہا کہ آدمی کے علم کا حسن یہ ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی رائے جانتا ہو
امام ابو حنیفہ کی رائے مذموم ہوتی تو اس کو اہل علم ، علم کا حسن کیوں کہتے
بعض محدثین عمل میں ضعیف حدیث کو لینے کے قائل تھے اور اسی طرح رائے کے مقابلہ میں حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے تھے امام بخاری کا شروع میں یہی منہج تھا جیسا کہ کتاب ادب المفرد اور کتاب الفاتحہ خلف الامام سے ہوتا ہے لیکن صحیح میں انہوں نے اس کو چھوڑ دیا
عبد اللہ بن احمد اپنے باپ احمد سے کتاب السننہ میں نقل کرتے ہیں
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ
میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے امام احمد نے کہا اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے
افسوس کہ ضعیف راوی کو امام ابو حنیفہ سے بھی بلند کر دیا گیا اور اسی تعصب کی وجہ سے محدثین میں تفریق پیدا ہوئی
http://www.islamic-belief.net/امام-ابو-حنیفہ-اہل-رائے-اور-اہل-
%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB/
[/CENTER]
تحقیق درکار ہے
امام ابو حنیفہ قلیل حدیث ہیں یعنی انہوں نے بہت کم حدیثیں بیان کی ہیں لیکن یہ کوئی عیب نہیں کیونکہ بعض محدثین حدیث یاد رکھتے تھے لیکن اس کا مفہوم نہیں سمجھتے تھے مثلا محمّد بن اسحاق یہ تاریخ و حدیث کے امام ہیں ان کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے لیکن یہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا کہتیں تھیں کہ قرآن کی کچھ آیات ایسی بھی ہیں جو مصحف میں نہیں اور ان کو بکری کھا گئی. ظاہر ہے کہ حدیث یاد رکھنے کے علاوہ دین کا علم بھی ضروری ہے
محدثین کے دو گروہ تھے ایک وہ تھے جو اگر کسی مسئلہ میں حدیث نہ ہو تو رائے کو پسند کرتا تھا اور ایک دوسرا گروہ تھا جو مسئلہ میں ضعیف روایت کو لینے کا قائل تھا مثلا امام احمد اور ابتداء میں امام بخاری
پہلے گروہ میں جلیل القدر امام المحدیثین يَحْيى بْن سَعِيد القطان ہیں یہ اہل رائے میں سے تھے
ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں
سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من
رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ
میں نے ابن حماد کو سنا … یحیی بن معین کو سنا انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا ہم اللہ پر جھوٹ نہیں بولتے بعض اوقات ہم ابو حنیفہ کی کوئی رائے سنتے ہیں پس اس کو پسند کرتے ہیں اور اپنا لیتے ہیں
قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.
یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید کوفہ کے مذھب (اہل رائے) پر فتوی دیتے تھے
امام شعبہ بن حجاج جن کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے بھی امام ابو حنیفہ کے مدح تھے. ابن عدی لکھتے ہیں
حَدَّثَنَا ابن حماد قَالَ وحدثني أَبُو بَكْر الأعين، حَدَّثني يَعْقُوب بْن شيبة عن الحسن الحلواني سَمِعْتُ شَبَابَةَ يَقُولُ كَانَ شُعْبَة حسن الرأي فِي أَبِي حنيفة فكان يستنشد فِي هَذِهِ الأبيات
شعبہ امام ابو حنیفہ کے لئے حسن رائے رکھتے تھے اور ان کی تعریف میں اشعار بھی کہتے تھے
امام ابو حنیفہ مطلقا قیاس کے حامی نہیں تھے ابن عدی لکھتے ہیں
سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.
ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے
امام احمد، سُفْيَان بْن وكيع کے لئے کہتے ہیں ما أعلم إلا خيراً میں ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا
عبداللہ بن احمد کتاب السنہ میں اپنے باپ احمد سے نقل کرتے ہیں
سَمِعْتُ أَبِيَ يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ حُسْنِ عِلْمِ الرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ
میں نے اپنے باپ احمد سے سنا کہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ نے کہا کہ آدمی کے علم کا حسن یہ ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی رائے جانتا ہو
امام ابو حنیفہ کی رائے مذموم ہوتی تو اس کو اہل علم ، علم کا حسن کیوں کہتے
دوسرا گروہ
بعض محدثین عمل میں ضعیف حدیث کو لینے کے قائل تھے اور اسی طرح رائے کے مقابلہ میں حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے تھے امام بخاری کا شروع میں یہی منہج تھا جیسا کہ کتاب ادب المفرد اور کتاب الفاتحہ خلف الامام سے ہوتا ہے لیکن صحیح میں انہوں نے اس کو چھوڑ دیا
عبد اللہ بن احمد اپنے باپ احمد سے کتاب السننہ میں نقل کرتے ہیں
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ
میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے امام احمد نے کہا اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے
افسوس کہ ضعیف راوی کو امام ابو حنیفہ سے بھی بلند کر دیا گیا اور اسی تعصب کی وجہ سے محدثین میں تفریق پیدا ہوئی
اسی تعصب کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص کرنا عبادت تصور ہونے لگا اور جھوٹ کا ایک انبار ان کے حوالے سے بیان کیا گیا مثلا جرح و تعدیل کے امام احمد کتاب السنہ از عبدللہ میں کہتے ہیں
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»
محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا
مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ مجھول ہے لیکن پھر بھی اسکی بات کو صحیح مانتے ہوئے کتاب میں نقل کرتے ہیں
تاریخ الجرجاں از أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى: 427هـ) میں اس راوی کی تعریف لکھی ہے رجل من ولد قتيبة ایک آدمی جو قتيبة میں پیدا ہوا اس کے علاوہ اس کا احوال نہیں ملتا
امام بخاری کا اصحاب رائے سے فاتحہ خلف الامام پر اختلاف تھا اسی وجہ سے انہوں نے امام ابو حنیفہ کی کوئی رائے صحیح میں نقل نہیں کی اور تاریخ الکبیر میں کہا ہے کہ میں نے ان کی رائے پر خاموشی اختیار کی ہے
لیکن انہوں نے امام احمد کی طرح امام ابو حنیفہ کو جہمی نہیں کہا بلکہ مرجیہ کہا ہے اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جہمی ہونا کفر ہے اور مرجیہ ہونا کوئی برائی نہیں
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»
محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا
مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ مجھول ہے لیکن پھر بھی اسکی بات کو صحیح مانتے ہوئے کتاب میں نقل کرتے ہیں
تاریخ الجرجاں از أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى: 427هـ) میں اس راوی کی تعریف لکھی ہے رجل من ولد قتيبة ایک آدمی جو قتيبة میں پیدا ہوا اس کے علاوہ اس کا احوال نہیں ملتا
امام بخاری کا اصحاب رائے سے فاتحہ خلف الامام پر اختلاف تھا اسی وجہ سے انہوں نے امام ابو حنیفہ کی کوئی رائے صحیح میں نقل نہیں کی اور تاریخ الکبیر میں کہا ہے کہ میں نے ان کی رائے پر خاموشی اختیار کی ہے
لیکن انہوں نے امام احمد کی طرح امام ابو حنیفہ کو جہمی نہیں کہا بلکہ مرجیہ کہا ہے اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جہمی ہونا کفر ہے اور مرجیہ ہونا کوئی برائی نہیں
Last edited by a moderator: