• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ اہل رائے اور اہل حدیث

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ تحقیق یہاں سے لی گئی ہے


http://www.islamic-belief.net/امام-ابو-حنیفہ-اہل-رائے-اور-اہل-
%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB/


[/CENTER]
تحقیق درکار ہے



امام ابو حنیفہ قلیل حدیث ہیں یعنی انہوں نے بہت کم حدیثیں بیان کی ہیں لیکن یہ کوئی عیب نہیں کیونکہ بعض محدثین حدیث یاد رکھتے تھے لیکن اس کا مفہوم نہیں سمجھتے تھے مثلا محمّد بن اسحاق یہ تاریخ و حدیث کے امام ہیں ان کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے لیکن یہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا کہتیں تھیں کہ قرآن کی کچھ آیات ایسی بھی ہیں جو مصحف میں نہیں اور ان کو بکری کھا گئی. ظاہر ہے کہ حدیث یاد رکھنے کے علاوہ دین کا علم بھی ضروری ہے

محدثین کے دو گروہ تھے ایک وہ تھے جو اگر کسی مسئلہ میں حدیث نہ ہو تو رائے کو پسند کرتا تھا اور ایک دوسرا گروہ تھا جو مسئلہ میں ضعیف روایت کو لینے کا قائل تھا مثلا امام احمد اور ابتداء میں امام بخاری

پہلے گروہ میں جلیل القدر امام المحدیثین يَحْيى بْن سَعِيد القطان ہیں یہ اہل رائے میں سے تھے

ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں

سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من

رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ

میں نے ابن حماد کو سنا … یحیی بن معین کو سنا انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا ہم اللہ پر جھوٹ نہیں بولتے بعض اوقات ہم ابو حنیفہ کی کوئی رائے سنتے ہیں پس اس کو پسند کرتے ہیں اور اپنا لیتے ہیں


قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.


یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید کوفہ کے مذھب (اہل رائے) پر فتوی دیتے تھے


امام شعبہ بن حجاج جن کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے بھی امام ابو حنیفہ کے مدح تھے. ابن عدی لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا ابن حماد قَالَ وحدثني أَبُو بَكْر الأعين، حَدَّثني يَعْقُوب بْن شيبة عن الحسن الحلواني سَمِعْتُ شَبَابَةَ يَقُولُ كَانَ شُعْبَة حسن الرأي فِي أَبِي حنيفة فكان يستنشد فِي هَذِهِ الأبيات


شعبہ امام ابو حنیفہ کے لئے حسن رائے رکھتے تھے اور ان کی تعریف میں اشعار بھی کہتے تھے


امام ابو حنیفہ مطلقا قیاس کے حامی نہیں تھے ابن عدی لکھتے ہیں

سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.


ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے


امام احمد، سُفْيَان بْن وكيع کے لئے کہتے ہیں ما أعلم إلا خيراً میں ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا

عبداللہ بن احمد کتاب السنہ میں اپنے باپ احمد سے نقل کرتے ہیں

سَمِعْتُ أَبِيَ يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ حُسْنِ عِلْمِ الرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ


میں نے اپنے باپ احمد سے سنا کہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ نے کہا کہ آدمی کے علم کا حسن یہ ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی رائے جانتا ہو


امام ابو حنیفہ کی رائے مذموم ہوتی تو اس کو اہل علم ، علم کا حسن کیوں کہتے
دوسرا گروہ

بعض محدثین عمل میں ضعیف حدیث کو لینے کے قائل تھے اور اسی طرح رائے کے مقابلہ میں حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے تھے امام بخاری کا شروع میں یہی منہج تھا جیسا کہ کتاب ادب المفرد اور کتاب الفاتحہ خلف الامام سے ہوتا ہے لیکن صحیح میں انہوں نے اس کو چھوڑ دیا

عبد اللہ بن احمد اپنے باپ احمد سے کتاب السننہ میں نقل کرتے ہیں

سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ


میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے امام احمد نے کہا اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے

افسوس کہ ضعیف راوی کو امام ابو حنیفہ سے بھی بلند کر دیا گیا اور اسی تعصب کی وجہ سے محدثین میں تفریق پیدا ہوئی
اسی تعصب کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص کرنا عبادت تصور ہونے لگا اور جھوٹ کا ایک انبار ان کے حوالے سے بیان کیا گیا مثلا جرح و تعدیل کے امام احمد کتاب السنہ از عبدللہ میں کہتے ہیں

حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»


محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا


مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ مجھول ہے لیکن پھر بھی اسکی بات کو صحیح مانتے ہوئے کتاب میں نقل کرتے ہیں

تاریخ الجرجاں از أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى: 427هـ) میں اس راوی کی تعریف لکھی ہے رجل من ولد قتيبة ایک آدمی جو قتيبة میں پیدا ہوا اس کے علاوہ اس کا احوال نہیں ملتا

امام بخاری کا اصحاب رائے سے فاتحہ خلف الامام پر اختلاف تھا اسی وجہ سے انہوں نے امام ابو حنیفہ کی کوئی رائے صحیح میں نقل نہیں کی اور تاریخ الکبیر میں کہا ہے کہ میں نے ان کی رائے پر خاموشی اختیار کی ہے

لیکن انہوں نے امام احمد کی طرح امام ابو حنیفہ کو جہمی نہیں کہا بلکہ مرجیہ کہا ہے اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جہمی ہونا کفر ہے اور مرجیہ ہونا کوئی برائی نہیں

 
Last edited by a moderator:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

الجہمیہ کا مذھب


جھم بن صفوان کے لئے کتاب العَلو للعلي الغفار از اِمام شمس الدین الذہبی میں ہے کہ

فرقہ جھمیہ والے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اِس باطل قول سے پاک ہے بلکہ اُس کا عِلم ہر وقت ہمارے ساتھ ہے


الذھبی مزید بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں

جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے


امام ابو حنیفہ کا اس سے کیا تعلق ؟

ابن قُطْلُوْبَغَا کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة میں لکھتے ہیں

قلت: التجهم: الكلام في الصفات، وهي مسألة معروفة لا تقتضي عدم

الثقة، وإن صدق القائل عنه أنه قال: القرآن مخلوق؛ فإنما عني الصوت به شَبَه المكتوب، فقد ثبت عنهم أن الصفة قديمة، ومن يوصف بما تقدم من العلم لا يُقَوَّل بما يتوهم من هذا

میں کہتا ہوں جھمیہ ہونا صفات الله میں کلام ہے اور یہ ایک معروف مسئلہ ہے اس سے عدم ثقاہت نہیں ہوتی … اور اس پر وہم نہیں ہونا چاہیے


عبد اللہ بن احمد کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ، عَنْ حَازِمٍ الطُّفَاوِيِّ قَالَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «أَبُو حَنِيفَةَ إِنَّمَا كَانَ يَعْمَلُ بِكُتُبِ جَهْمٍ تَأْتِيهِ مِنْ خُرَاسَانَ


عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ روایت کرتے ہیں کہ …. ابو حنیفہ جھم کی کتابوں پر عمل کرتے تھے جو خراسان سے آئی تھیں


اسکی سند میں عبد الملك بن قريب الأصمعي ہیں. الذھبی میزان الاعتدال میں ان کو ابو داود صدوق کہتے ہیں .الأزدي ، ضعيف الحديث کہتے ہیں اور أبو زيد الأنصاري کذاب کہتے ہیں

عبد اللہ کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں جس میں ابو حنیفہ کو کافر کہا گیا ہے سند ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنِ بْنِ الْخَرَّازِ أَبُو مُحَمَّدٍ، وَكَانَ، ثِقَةً، ثنا شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ: هُو أَبُو الْجَهْمِ فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ” اذْهَبْ إِلَى الْكَافِرِ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْ لَهُ: إِنْ كُنْتَ تَقُولُ: إِنَّ الْقُرْآنَ مَخْلُوقٌ فَلَا تَقْرَبْنَا “


اس کی سند میں شیخ اہل کوفہ مجھول ہے لیکن کتاب کا حجم بڑھانے کے لئے اس مجھول شخص کی بات نقل کر ڈالی

عبد اللہ کتاب السنہ میں روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سُلَيْمٍ الْمُقْرِئِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادًا، يَقُولُ: ” أَلَا تَعْجَبُ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ يَقُولُ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ، قُلْ لَهُ يَا كَافِرُ يَا زِنْدِيقُ


سفیان کہتے ہیں میں نے حماد کو سنا کہ تم کو ابو حنیفہ کے قول پر تعجب نہیں ہوتا کہتا ہے قرآن مخلوق ہے میں نے اس کو کہا اے کافر اے زندیق


اس کی سند میں إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الطُّوسِيُّ ہے جس کا حال کتابوں میں موجود نہیں دوسرا راوی سليم المقرئ ہے جس کی توثیق نہیں ملی

اگر یہ سلیم بن عيسى المقرئ ہے امام عقیلی کتاب الضعفاء الكبير میںکہتے ہیں

سُلَيْمُ بْنُ عِيسَى مَجْهُولٌ فِي النَّقْلِ، حَدِيثُهُ مُنْكَرٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ


عبدللہ کتاب السنہ میں یہ بھی نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنُ عَمِّ، أَحْمَدَ بْنِ مَنِيعٍ أَخْبَرَنِي غَيْرُ، وَاحِدٍ،: مِنْهُمْ أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ صُبَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: ” لَمَّا وَلِيَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ الْقَضَاءَ قَالَ: مَضَيْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ: الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَهُوَ مَخْلُوقٌ، فَقَالَ: هَذَا دِينِي وَدِينُ آبَائِي، فَقِيلَ لَهُ: مَتَى تَكَلَّمَ بِهَذَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُ أَوْ بَعْدَمَا خَلَقَهُ أَوْ حِينَ خَلَقَهُ، قَالَ: فَمَا رَدَّ عَلَيَّ حَرْفًا، فَقُلْتُ: يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهَ وَانْظُرْ مَا تَقُولُ وَرَكِبْتُ حِمَارِي وَرَجَعْتُ


إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور یہی میرے باپ اور دادا کا مذھب ہے


سند میں سَعِيدُ بْنُ صُبَيْحٍ ہے جو مجھول ہے

عبد الله کتاب السنہ میں روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ ” أَوَّلُ مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ أَبُو حَنِيفَةَ


اسحٰق بن عبد الرحمان کہتے ہیں حسن بن ابی مالک سی وہ ابو یوسف سے جس نے سب سے پہلے کہا قرآن مخلوق ہے وہ ابو حنیفہ ہے


اس کی سند میں اسحاق بن عبد الرحمان مجھول ہے
المرجئہ الفقہاء


ابن تیمیہ کی رائے کتاب مجموعة الرسائل والمسائل میں ہے

دخل في ((إرجاء الفقهاء)) جماعة هم عند الأمة أهل علم ودين، ولهذا لم يكفر أحد من السلف أحداً من ((مرجئة الفقهاء)) ، بل جعلوا هذا من بدع الأقوال والأفعال لا من بدع العقائد؛ فإن كثيراً من النزاع فيها لفظي، لكن اللفظ المطابق للكتاب والسنة هو الصواب؛ فليس لأحد أن يقول بخلاف قول الله ورسوله


إرجاء کی رائے فقہاء کی ایک جماعت میں آئی اور ائمہ دین کے نزدیک وہ اہل دین ہیں اور اہل علم ہیں اور سلف نے اس پر تکفیر نہیں کی بلکہ یہ اقوال و افعال کی بدعت ہے نہ کہ عقائد کی اور اس میں بیشتر لفظی نزاع ہے لیکن یہ سب کتاب الله اور سنت کے موافق ہے اور اس میں کچھ بھی الله اور اس کے رسول کے قول کے خلاف نہیں ہے


معلوم ہوا کہ وہ اہل علم جو مرجئہ فقہاء میں سے ہیں ان کے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔ انہی مرجئہ فقہاء میں سے ایک گروہ کوفہ کے فقہاءِ اور عابد لوگوں میں سے سے تھا جن میں امام ابو حنیفہ شامل ہیں ان کا قول جہم بن صفوان کے قول کی طرح نہ تھا،وہ جانتے تھے کہ اگر قدرت رکھنے کے باوجودانسان زبان سے ایمان کا اقرارنہیں کرتا۔تو وہ مومن نہیں ہوسکتا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ابلیس اور فرعون دل سے تصدیق کرنے باوجود کافرتھے . ان فقہاء کے نزدیک ایمان کا بڑھنا شریعت کے مکمل ہونے سے پہلے تھا اس کا مطلب (ان کے ہاں) یہ تھا کہ اﷲ نے جب بھی کوئی آیت نازل کی اس کی تصدیق واجب ہو گئی تویہ تصدیق اس تصدیق میں ضم ہوگئی،جو پہلے سے تھی

ابن تیمیہ اپنے فتوی، مجموع الفتاوى ج ٧ ص ٥٤٧ میں کے الْمُرْجِئَةِ کے دس گروہ بتاتے ہیں ان میں سے ایک کے لئے کہتے ہیں

مِنْ الْمُرْجِئَةِ الْمُنْتَسِبِينَ إلَى أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْإِيمَانَ الْمَعْرِفَةُ بِاَللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَالْإِقْرَارُ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فِي الْجُمْلَةِ


اور وہ الْمُرْجِئَةِ جو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی طرف منسوب ہیں ان کا دعوی ہے کہ ایمان الله کی معرفت اور رسول کا اقرار ہے جو الله کی طرف سے ہے


ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں

إذْ كَانَ الْفُقَهَاءُ الَّذِينَ يُضَافُ إلَيْهِمْ هَذَا الْقَوْلُ مِثْلَ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا هُمْ مَعَ سَائِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ مُتَّفِقِينَ عَلَى أَنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ مَنْ يُعَذِّبُهُ مِنْ أَهْلِ الْكَبَائِرِ بِالنَّارِ ثُمَّ يُخْرِجُهُمْ بِالشَّفَاعَةِ كَمَا جَاءَتْ الْأَحَادِيثُ الصَّحِيحَةُ


جب الْمُرْجِئَةِ کا لفظ فقہاء کی طرف مضاف کیا جاتا ہے مثلا حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ یا ابو حنیفہ کے قول کی طرف اور دوسروں کی طرف تو وہ سب اہل سنت کے ساتھ متفق ہیں کہ الله گناہ گاروں کو عذاب دے گا پھر شفاعت پر اگ سے نکالے گا جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے


معلوم ہوا مرجئہ فقہاء کوئی برائی نہیں تھی

امام ابو حنیفہ کو بعض محدثین نا پسند کرتے تھے لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر جرح نہیں کی گئی لیکن وہ بیشتر جرح تعصب یا عدم تحقیق پر مبنی ہے مثلا

کتاب الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم کے مطابق

نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى


اسحاق بن راهويه کہتے ہیں میں نے جریر کو سنا کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں


الذھبی کتاب میں مُحَمَّدُ بنُ جَابِرِ بنِ سَيَّارٍ السُّحَيْمِيُّ اليَمَامِيُّ پر لکھتے ہیں. ضَعَّفَهُ: يَحْيَى، وَالنَّسَائِيُّ. اس کی تضعیف یحیی اور نسائی نے کی ہے وَقَالَ البُخَارِيُّ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ. بخاری نے کہا ہے قوی نہیں وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: سَاءَ حِفْظُهُ، وَذَهَبتْ كُتُبُهُ ابو حاتم کہتے ہیں اس کا برا حافظہ تھا قُلْتُ: مَا هُوَ بِحُجَّةٍ، وَلَهُ مَنَاكِيْرُ عِدَّةٌ كَابْنِ لَهِيْعَةَ

میں الذھبی کہتا ہوں یہ حجت نہیں اس کی منکر روایات ہیں جیسا ابْنِ لَهِيْعَةَ ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


عبد اللہ بن احمد کتاب السنہ میں اسی راوی کی ایک اور روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْخُرَاسَانِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، ثنا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: «سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ، يَشْتِمُ أَبَا حَنِيفَةَ


حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ امام ابو حنیفہ کو گالیاں دیتا تھا


بعض مخالفین نے اسی طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے خلاف پیش کے ہیں لیکن ان کی مدح میں جو باتیں اتی ہیں ان گول کر جائے ہیں

بہت سے ثقہ راوی اور حدیث کے امام ، امام ابو حنیفہ کے مسلک پر تھے

تاریخ بغداد از الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) ج ١٥ ص ٦٤٧ کے مطابق

يحيى بن معين، قال: ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح، قيل له: ولا ابن المبارك؟ قال: قد كان لابن المبارك فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة، ويحفظ حديثه، ويقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا، قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقوله أيضا.


يحيى بن معين کہتے ہیں میں نے وكيع بن الجراح سے افضل کسی کو نہیں پایا ان سے پوچھا گیا اور ابن مبارک کھا ابن مبارک افضل ہیں لیکن وكيع بن الجراح جیسا میں نے نہیں دیکھا حدیث کو یاد رکھتے .. اور ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے ان سے بہت کچھ سنا اور يحيى بن معين کہتے ہیں کہ يحيى بن سعيد القطان بھی ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے


اگر اتنے بڑے امام الحدثین، امام ابو حنیفہ کو پسند کرتے تھے تو اس کا مطلب ہے ان کی رائے بھی پسند کی جاتی تھی اور ضعیف حدیث کے مقابلے میں وہ قابل قدر تھی

الذھبی کتاب سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.
وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ


یحیی بن معین کہتے ہیں ابو حنیفہ ثقه تھے.


زبیر علی زئی رحم الله نے اعتراض کیا ہے کہ اس کی سند ثابت نہیں لیکن اگر اس طرح جرح و تعدیل کی چھان بین کی جائے تو شاید ہی کوئی مجروح رہے اور کوئی ثقه. دوسرے اس طریقہ کار کو صرف چند شخصیات تک محدود کرنا صریح تعصب ہے

عبد اللہ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَ «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ مُرْجِئًا وَكَانَ مِنَ الدُّعَاةِ وَلَمْ يَكُنْ فِي الْحَدِيثِ بِشَيْءٍ وَصَاحِبُهُ أَبُو يُوسُفَ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ


ابن معین کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ، مُرْجِئًہ تھے اور اس کی دعوت دیتے تھے اور ان کی حدیث میں کوئی چیز نہیں ہے اور ان کے صاحب ابو یوسف میں کوئی برائی نہیں


واضح رہے کہ ابن معین نے ابو حنیفہ کو لیس بشی نہیں کہا( جو جرح کے الفاظ ہیں ) بلکہ کہا ہے ان کی حدیث میں کوئی (قابل اعتراض) چیز نہیں یعنی کوئی برائی نہیں

کتاب سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں جنید کہتے ہیں

قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي


میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان کے لئے شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے


اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں

وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: (أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به


یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں


معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ کے حوالے سے بعض محدثین ان کی رائے کو ناپسند کرتے جن کی مخالفت ابن معین اور یحیی بن سعید القطان کرتے تھے اور امام احمد اور ان کے بیٹے قبول کرتے تھے

امام عقیلی اپنی کتاب ضعفا میں امام ابو حنیفہ کی راوی پر جرح بھی نقل کرتے ہیں اگر ان کے نزدیک امام صاحب خود ضعیف ہوتے تو ان کی جرح نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی دیکھئے جابر الجعفی ، نَصْرُ بْنُ بَابٍ کا ترجمہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
امام ابو حنیفہ تابعی ہیں

امام ابو حنیفہ تابعی ہیں یا نہیں اس میں اختلاف ہے

کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية از ابن الجوزی کے مطابق

قال الدارقطني: وَأَبُو حَنِيفَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ إِنَّمَا رَأَى أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ بِعَيْنِهِ


دارقطنی کہتے ہیں ابو حنیفہ نے کسی صحابی سے نہیں سنا انہوں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو آنکھ سے دیکھا


سوالات حمزہ میں دارقطنی کہتے ہیں

ولم يلحق أبو حنيفة أحدا من الصحابة


ابو حنیفہ کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی


السلمی سوالات میں کہتے ہیں کہ دارقطنی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ

ولا تصحُّ له رؤيةُ أنسٍ ولا رؤيةُ أحدٍ من الصحابةِ


ان کا انس کو دیکھنا صحیح نہیں اور انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا


جبکہ

أبو بكر الخطيب کہتے ہیں رأى أنس بن مالك


أبو بكر الخطيب کہتے ہیں انہوں نے أنس بن مالك کو دیکھا


کتاب أخبار أبي حنيفة وأصحابہ از الحسين بن علي بن محمد بن جعفر، أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي (المتوفى: ٤٣٦ ھ) کے مطابق

امام ابو حنیفہ نے انس کو عبد الله بن أبي أوفى کو اور أَبا الطُّفَيْل عَامر بن وثلة کو دیکھا


کتاب الوافي بالوفيات از الصفدی کے مطابق

وَرَأى أنس بن مَالك غير مرّة بِالْكُوفَةِ قَالَه بن سعد


ابو حنیفہ نے کوفہ میں کئی مرتبہ انس بن مالک رضی الله عنہ کو دیکھا ایسا ابن سعد نے کہا

لیکن الطبقات ابن سعد میں یہ قول نہیں ملا


اہل قبلہ پر تلوار دراز کرنا


کتاب جزء فيه مسائل أبي جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن شيوخه في مسائل في الجرح والتعدي از محمّد بن عثمان بن ابی شبہ کے مطابق عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں امام ابو حنیفہ اہل قبلہ پر تلوار دراز کرنے کا کہتے تھے پھر کہا کہ

ابو نعيم حدثني عمار بن رزيق قال كان ابو حنيفة يكتب الى ابراهيم بن عبد الله بالبصرة يساله القدوم الى الكوفة ويوعده نصره


ابو نعیم کہتے ہیں نے کہا کہ ابو حنیفہ نے ابراہیم بن عبدللہ کو بصرہ سے کوفہ انے کے لئے لکھا اور اس سے مدد کا وعدہ کیا


لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں کیونکہ محمّد اور ابراہیم کا یہ خروج عباسی خلیفہ المہدی کے دور میں ہوا جبکہ امام ابو حنیفہ اس فتنہ سے دور رہے اگر وہ اس طرح کا کوئی اقدام کرتے تو بچ نہیں پاتے

ممکن نے ابو حنیفہ محمّد بن عبد اللہ اور ابراہیم کے اس خروج کے خلاف ہوں اور ان کے خلاف فتوی دیا ہو

عبد اللہ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْخُرَاسَانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ، يَقُولُ: «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَرَى السَّيْفَ» قُلْتُ: فَأَنْتَ؟ قَالَ: «مَعَاذَ اللَّهِ


الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ نے ابو یوسف کو سنا کہ ابو حنیفہ تلوار دراز کرنے کا کہتے تھے میں نے پوچھا اور اپ انہوں نے کہا الله کی پناہ


الذھبی کتاب سیر الاعلام میں لکھتے کہ الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ کو حمص کا قاضی مقرر کیا گیا پھر طبرستان اور موصل کا ہیں

وَلِيَ قَضَاءَ حِمْصَ، وَقَضَاءَ طَبَرِسْتَانَ، ثُمَّ وَلِيَ قَضَاءَ المَوْصِلِ، وَكَانَ مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ، لاَ يُقَلِّدُ أَحَداً.
قَالَ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمَّارٍ الحَافِظُ: كَانَ بِالمَوْصِلِ بَيْعَةٌ قَدْ خَرِبَتْ، فَاجْتَمَعَ النَّصَارَى إِلَى الحَسَنِ الأَشَيْبِ، وَجَمَعُوا مائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ، عَلَى أَنْ يَحْكُمَ لَهُم بِهَا حَتَّى تُبْنَى، فَقَالَ: ادْفَعُوا المَالَ إِلَى بَعْضِ الشُّهُودِ.
فَلَمَّا حَضَرُوا بِالجَامِعِ، قَالَ: اشْهَدُوا عَلَيَّ بِأَنِّي قَدْ حَكَمْتُ بِأَنْ لاَ تُبْنَى.
فَنَفَرَ النَّصَارَى، وَرَدَّ عَلَيْهِمُ المَالَ


حسن الْأَشْيَبُ پر موصل کے نصاری جمع ہوئے اور ان کو نصاری نے ایک لاکھ درہم دے لیکن انہوں نے وہ مال واپس کر دیا


یہ جرح یا مدح واضح نہیں

حسن الاشیب امام ابو حنیفہ کی رائے نقل کر رہے ہیں بعض اوقات امت میں فتنہ پرداز لوگ فساد مچاتے تھے لہذا ان کے خلاف خلفاء تلوار دراز کرتے ہی رہے ہیں
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
آپ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو چھوڑ دیجئے ، وہ کذاب تھے یا ثقہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔وہی فیصلہ کرے گا۔۔ وہ کوئی امام یا محدث یا علم نہین تھے بس ایک عام مسلمان تھے ان سے سب کچھ منسوب کیا گیا ہے بلکہ کچھ تو ان کے مسلمان ہونے پر ہی شک کرتے ہیں۔
 

asad farhan

مبتدی
شمولیت
اگست 29، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
جاہل جی ! آپکو کس نے کہا کہ امام اعظم ابی حنیفہ عام انسان تھے ؟؟؟ محدثین و مفسرین اور مورخین تو انکو امام اعظم کا خطاب دیتے ہیں یعنی اماموں کے امام تو آپ کہتے ہیں وہ عام شخص تھے کس غار سے آپ منہ اٹھا کر آگئے ہو یہ جہالت پھیلانے ؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جاہل جی ! آپکو کس نے کہا کہ امام اعظم ابی حنیفہ عام انسان تھے ؟؟؟ محدثین و مفسرین اور مورخین تو انکو امام اعظم کا خطاب دیتے ہیں یعنی اماموں کے امام تو آپ کہتے ہیں وہ عام شخص تھے کس غار سے آپ منہ اٹھا کر آگئے ہو یہ جہالت پھیلانے ؟
محترم آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ جہالت سے چار قدم آگے نکل چکا ہے بغضِ ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں۔

وہ کوئی امام یا محدث یا علم نہین تھے بس ایک عام مسلمان تھے ان سے سب کچھ منسوب کیا گیا ہے بلکہ کچھ تو ان کے مسلمان ہونے پر ہی شک کرتے ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جنہیں کھانا کھانے کا سلیقہ نہیں وہ فقہاء پر بھونکتے ہیں۔
 

asad farhan

مبتدی
شمولیت
اگست 29، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
محترم آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ جہالت سے چار قدم آگے نکل چکا ہے بغضِ ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں۔
جی بھائی یہاں کوئی ہے جو مجھ سے بات کر لے امام اعظم کی شخصیت پر یہ ابو حمزہ کیا وہی ہے جو فیسبک پر ابو حمزہ رد حنفیت کے نام سے آئی ڈی چلاتا ہے ؟ اگر وہی ہے تو اسکی چھترول فیسبک پر میں کئی عرصے سے کر رہا ہوں ۔۔۔ باقی کسی کو مسلہ ہے امام اعظم کی شخصیت سے تو مجھے ٹیگ کر کے یہاں بات چلا سکتا ہے ان جیسے بغض سے بھرے مجہولین کا رد تو ہم آرام سے کرسکتے ہیں بلکہ ایسے مجہولین کے لیے غیر مقلدین کے محققین نے چھوٹے رافضی کا فتویٰ دے رکھا ہے
upload_2020-2-2_18-36-29.png
 

اٹیچمنٹس

asad farhan

مبتدی
شمولیت
اگست 29، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
محترم آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ جہالت سے چار قدم آگے نکل چکا ہے بغضِ ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں۔
بھائی یہ قول یہ امام ابن عبدالبر کے نقل کردہ ابن الجارود سے ہے اسکی بات کر رہا ہے جبکہ ابن الجارود نے مجہول صیغہ سے یہ بات کی ہے کہ ابی حنیفہ کے اسلام میں اختلاف کیا گیا یہ اختلاف کرنے کس صدی کے مسلمان اور ناقدین تھے ؟ ایسی فضول باتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر نے انکی اصلیت بیان کر دی ہے جس کو ہضم کرنا حاسدین امام اعظم ابی حنیفہ نعمان بن ثابت کے لیے بہت مشکل ہے
 

اٹیچمنٹس

Top