• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ابن حزم سے ایک مختصر الفاظ پیش کر دیتا ہوں۔

عید کے نماز کے حوالے سے لکھتے ہیں
بان الناس کانوا اذا صلوا ترکوھم ولم یشھدوا الخطبہ وذلک انھمکانو یلعنوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فکان المسلموں یفرون و حق لھم فکیف ولیس الجلوس للخطبہ واجبا؟
اور لوگ (عید کی نماز) کے بعد ان(خبطبوں) کو چھوڑ جاتے تھےاور خطبہ میں حاضر نہیں رہتے تھے کیونکہ ان میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت(نعوذ باللہ) کی جاتی تھی اور مسلمان وہاں نہیں روکتے تھے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا یہ کوئی وہ خطبے ہوتے تھی جن کا سنا واجب قرار دیا ہے؟
یہ ترجمہ بھی بالکل غلط ہے ،اور عربی عبارت بھی غلط لکھی ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
(1)ملا علی قاری شرح شفا میں رقمطراز ہیں
أي الحقيقة الحقية (بعده ثلاثون سنة ثمّ تكون) أي تصير الخلافة (ملكا) أي سلطنة بالغلبة فقد روى أحمد والترمذي وأبو يعلى وابن حبان عن سفينة بلفظ الخلافة بعدي في أمتي ثلاثون سنة ثم ملك بعد ذلك (فكانت) أي الخلافة (كذلك) أي ثلاثين سنة (بمدّة الحسن بن عليّ) أي بمضي مدة خلافته وهي ستة أشهر تقريبا وفيه دلالة على أن معاوية لم يحصل له ولاية الخلافة ولو بعد فراغ الحسن له بالإمارة ويشير إليه ما رواه البخاري في تاريخه والحاكم في مستدركه عن أبي هريرة بلفظ الخلافة بالمدينة والملك بالشام ثم اعلم أن خلافة أبي بكر كانت سنتين وثلاثة أشهر وعشرين يوما وخلافة عمر عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام وخلافة عثمان إحدى عشرة سنة وإحدى عشر شهرا وثمانية عشر يوما وخلافة علي أربع سنين وعشرة أشهر أو تسعة وتمامها بخلافة الحسن (وقال) أي النبي عليه الصلاة والسلام (إنّ هذا الأمر) أي أمر ملة هذه الأمة (بدأ) بهمزة أي ابتدأ أو بألف أي ظهر (نبوّة ورحمة) أي نبوة مقرونة بالرحمة العامة. (ثمّ يكون) أي الأمر (رحمة وخلافة) أي رحمة في ضمن الخلافة (ثمّ يكون) أي الأمر (ملكا) قال التلمساني وفي أصل المؤلف ثم ملكا (عضوضا) بفتح العين أي سلطنة خالية عن الرحمة والشفقة على الرعية فكأنهم يعضون بالنواجذ فيه عضا حرصا على الملك ويعض بعضهم بعضا
ترجمہ: حقیقت اس حدیث تیس سال کے بعد جو خلافت ہوگی وہ خکومت ہوگی یہ سلطنت غلبہ سے قائم ہو گی جیسا حدیث سفینہ ہے کہ تیس سال خلافت پھر اس کے بعد ملک ہو گا اور یہ خلافت حسن بن علی رضی اللہ کے مدت خلافت میں پوری ہوئی جو تقریبا چھ ماہ بنتے ہے اور یہ دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت میں شامل نہیں ہے اور ان کے امارہ حسن رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئی اور روایت مشہور ہے کہ خلافت مدینہ میں اور اور ملوکیت شام میں ہے(اس کے بعد تیس سال ابو بکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے گنے ہیں پھر فرمایا کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای کہ یہ الامر جو نبو ہ الرحمہ سے ظاہر ہوا جو ساری امت کے لیے ہے اس کے بعد (رحمہ خلافت ہوئی) یعنی یہ رحمہ خلافت کے ضمن میں ہے اسکے بعد ملک ہو گا اور اصل مصنف(یعنی قاضی عیاض)کے مطابق عضوض ہے اور یہ حکومت عوام پر رحمت اور شفقت سے خالی ہے اسے میں عضوض کے معنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرےکو حکومت(حاصل کرنے کے لیے) ہلاک کریں گے۔
عبد اللہ صاحب آپ کی جماعت کوئی ایک آدمی بھی عربی نہیں جانتا جس آپ صحیح ترجمہ کرواسکیں ،
یہاں ملا علی قاری کی عبارت کے پہلے جملے کے ترجمہ میں عجیب گل فشانی کی ہے :
أي الحقيقة الحقية (بعده ثلاثون سنة ثمّ تكون) أي تصير الخلافة الخ
اس کا ترجمہ آپ لکھتے ہیں :
ترجمہ: حقیقت اس حدیث تیس سال کے بعد جو خلافت ہوگی وہ خکومت ہوگی
باقی ترجمہ بھی عجیب ہے ، کہاں تک نمایاں کروں ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جناب ،
آپ نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالےسےنقل کیا کہ انہوں نے یزید کی حکومت کے لیے صرف ملک یعنی حکومت کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ ظلم و جبر کی حکومت کہا ہے شکر ہے کہی تو کمند ٹوٹی ہے اپ نے مانا تو صحیح کہ یزید کی حکومت خلافت نہیں تھی تو جناب جب خلافت نہیں تھی بلکہ حکومت تھی اب خلافت کے بعد کی حکومت کس قسم کی ہوگی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلا دیں لیں خودپڑھ لیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَعْيَنَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، ثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، حَدَّثَنِي مُهَنَّدُ الْقَيْسِيُّ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، وَسَتَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
(الطبرانی الاوسط رقم 6581)
اور مسند احمدسے روایت اپ نے خود پیش کی تھی اس لیے میں نے دوسری سند سے یہ روایت نقل کی ہےاس میں صاف موجود ہے کہ خلافت کے بعد جو حکومت ہو گی وہ
مُلْكًا عَضُوضًا ہو گی اور یہ اپ خود مان چکے ہو کہ امام ابن تیمیہ نے یزید کی خکومت کہا ہے تو خلافت نہیں تو خلافت کے بعد ملک عضوض ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا آئمہ اہل سنت کے اقوال نقل کر رہا ہوں
(1) امام الرازی فرماتے ہین
قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم (الْخلَافَة بعدِي ثَلَاثُونَ سنة ثمَّ تصير ملكا عَضُوضًا(معالم اصول دین المسالۃ السادسۃ الامام الحق جلد 1 ص148)
اس میں امام رازی نے خلافت تیس سال اس کے بعد ملک ہے اس میں عضوض کا لفظ بھی لکھا ہے حالانکہ ابوداؤد کی روایت میں عضوض کا لفظ نہیں ہے مگر انہوں نے تصریح کی ہے کہ یہ دونوں روایات ایک دوسرے کا مفہوم بتاتی ہے
کہ وہ ملک جو بتایا گیا ہے ہو کونسا ہو گا وہ ملک عضوض ہو گا۔
(2) مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ
لقَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْخلَافَة بعدِي ثَلَاثُونَ سنة ثمَّ تصير ملكا عَضُوضًا وَقد تمّ ذَلِك بخلافة عَليّ رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ فمعاوية وَمن بعده مُلُوك وأمراء لَا أَئِمَّة وَلَا خلفاء
(شرح المقاصدفی علم الکلام(جلد 3 ص375)
اس میں بھی اسی حدیث میں ملک عضوضا کا لفظ جمع کیا ہے کہ دونوں احادیث سے ایک دوسرے کی تشریح ہوتی ہے اور اس کے بعد انہوں نے لکھا ہے کہ
اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اس پر ختم ہوتی ہےاور معاویۃ رضی اللہ عنہ اور ان کےبعد بادشاہ اور امراء تھے کوئی بھی نہ آئمہ تھا اور نہ خلیفہ۔
دیکھ لیں اور غور سے پڑھ لیں ملک عضوض کے بعد معاوٰیہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا کہ وہ ملوک تھے۔
(3) ابن کثیر نے بھی اسی طرح دونوں احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا کہ اس سے ملک کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
ترجمہ : میں کہتا ہے سنت یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملک کہا جاے اور خلیفہ نہ کہا جائے کیونکہ حدیث سفینۃ ہے کہ خلافت تیس سال ہےاس کے بع ملک عضوض ہے۔
ابن کثیرنے تو واضح کہہ دیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ کہا جائے اور خدیث میں ملک عضوض لکھ دیا ظالم بادشاہت۔
یہ چند حوالے تھے جن میں اشارہ کیا گیا ہے امام ابن تیمیہ کا حوالہ آخر مین دوں گا اب صراحت کے ساتھ چند آئمہ کے اقوال پیش کرتا ہوں۔
(1)ملا علی قاری شرح شفا میں رقمطراز ہیں
أي الحقيقة الحقية (بعده ثلاثون سنة ثمّ تكون) أي تصير الخلافة (ملكا) أي سلطنة بالغلبة فقد روى أحمد والترمذي وأبو يعلى وابن حبان عن سفينة بلفظ الخلافة بعدي في أمتي ثلاثون سنة ثم ملك بعد ذلك (فكانت) أي الخلافة (كذلك) أي ثلاثين سنة (بمدّة الحسن بن عليّ) أي بمضي مدة خلافته وهي ستة أشهر تقريبا وفيه دلالة على أن معاوية لم يحصل له ولاية الخلافة ولو بعد فراغ الحسن له بالإمارة ويشير إليه ما رواه البخاري في تاريخه والحاكم في مستدركه عن أبي هريرة بلفظ الخلافة بالمدينة والملك بالشام ثم اعلم أن خلافة أبي بكر كانت سنتين وثلاثة أشهر وعشرين يوما وخلافة عمر عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام وخلافة عثمان إحدى عشرة سنة وإحدى عشر شهرا وثمانية عشر يوما وخلافة علي أربع سنين وعشرة أشهر أو تسعة وتمامها بخلافة الحسن (وقال) أي النبي عليه الصلاة والسلام (إنّ هذا الأمر) أي أمر ملة هذه الأمة (بدأ) بهمزة أي ابتدأ أو بألف أي ظهر (نبوّة ورحمة) أي نبوة مقرونة بالرحمة العامة. (ثمّ يكون) أي الأمر (رحمة وخلافة) أي رحمة في ضمن الخلافة (ثمّ يكون) أي الأمر (ملكا) قال التلمساني وفي أصل المؤلف ثم ملكا (عضوضا) بفتح العين أي سلطنة خالية عن الرحمة والشفقة على الرعية فكأنهم يعضون بالنواجذ فيه عضا حرصا على الملك ويعض بعضهم بعضا
ترجمہ: حقیقت اس حدیث تیس سال کے بعد جو خلافت ہوگی وہ خکومت ہوگی یہ سلطنت غلبہ سے قائم ہو گی جیسا حدیث سفینہ ہے کہ تیس سال خلافت پھر اس کے بعد ملک ہو گا اور یہ خلافت حسن بن علی رضی اللہ کے مدت خلافت میں پوری ہوئی جو تقریبا چھ ماہ بنتے ہے اور یہ دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت میں شامل نہیں ہے اور ان کے امارہ حسن رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئی اور روایت مشہور ہے کہ خلافت مدینہ میں اور اور ملوکیت شام میں ہے(اس کے بعد تیس سال ابو بکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے گنے ہیں پھر فرمایا کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای کہ یہ الامر جو نبو ہ الرحمہ سے ظاہر ہوا جو ساری امت کے لیے ہے اس کے بعد (رحمہ خلافت ہوئی) یعنی یہ رحمہ خلافت کے ضمن میں ہے اسکے بعد ملک ہو گا اور اصل مصنف(یعنی قاضی عیاض)کے مطابق عضوض ہے اور یہ حکومت عوام پر رحمت اور شفقت سے خالی ہے اسے میں عضوض کے معنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرےکو حکومت(حاصل کرنے کے لیے) ہلاک کریں گے۔
کیا خیال ہے ملا علی قاری پر فتوی لگانا ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ظالم حکومت فرما رہے ہیں یا ملا علی قاری کو اہل سنت سے خارج کرو گے۔
(2) تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 ہجری خلفاء راشدین کے تیس سال گنے کے بعد لکھتے ہیں
تمت أَيَّام الْخُلَفَاء الرَّاشِدين رَضِي الله عَنْهُم. وَصَارَت الْخلَافَة ملكا عَضُوضًا، أَي فِيهِ عسف وعنف، وانتقل الْأَمر إِلَى بني أُميَّة. وَأول من ولي مِنْهُم مُعَاوِيَة بن أبي سُفْيَان(السلوک لمعرفۃ دول الملوک جلد 1 ص 109)
ترجمہ: اور یہ خلفاء راشدین کے ایام پورے ہوئے اور خلافت ملک عضوض بن گئی اور اس میں تشدد تھا اور یہ الامر بنو امیہ کو منتقل ہے گیا اور اس کے سب سے پہلے ولی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما تھے۔

(3) اب حافظ ابن حجر کو بھی پڑھ لیں

أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔(الاصحابہ فی التمیز الصحابہ جلد 1 ص 64 جھود الخلفائ راشدین نشر)
ترجمہ: حسن رضی اللہ عنہ کی جو خبر دی کہ یہ میرا پیٹا سید ہے اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلاح کروائے گا
اور (صلاح) خلافت پوری ہوئی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ظالم بادشاہت ہو گئی اور انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا وارث مقرر کیا اور اس کے لیے اپنی زندگی میں ہی لوگوں سے جبری طور پر بعیت لینا شروع کی یہاں تک کہ اس میں کوئی تنازعہ نہیں رہا مگر ان کے بعد تنازع کھڑا ہو گیا۔
اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ملک عضوض ہو گا اور یہ تقاضہ کرتا ہے کہ یہ بادشاہت جو غلبے سے ہوئی ہے اس میں شدت کے ساتھ تشدد ہو گا۔
(4)امام ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث میں ملک عضوض شامل کیا ہے
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ يَصِيرُ مُلْكًا عَضُوضًا

ان سب آئمہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کے تحت یہ لکھا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ملک تھے جس کے حوالے میں نے اس سے قبل پوسٹ میں پیش کیے تھے جس پر اپ نے کہا تھا کہ یزید کو حکمران کہا ہے ظالم حکمران نہیں اور میں بار بار عرض کر رہا تھا کہ ملک عضوض کہا ہے جس پر اپ نے فرمایا کہ یہ کہنے کی وجہ سے میرے دل میں صحابہ کرام کی عظمت نہیں ہے اب ان تمام آئمہ پر فتوی لگائیں کیونکہ انہون نے بھی یزید کی نہی معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہا ہے اور ابن حجر نے تو یہ تک لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بعیت بھی جبر سے لی ہے۔
بھائی اپ نے جو اپنے خود ساختہ پیمانے بنا لئے ہیں جن کے مطابق اپ ہر کسی کو تول کر گستاخ صحابہ بنا دیتے ہو آئمہ نے وہ پیمانے نہیں بنائے ہیں صحابہ کرام کی شان میں برائی کرنا ان سب شتم کرنے والی پر میں بھی لعنت بھیجتا ہوئی اور آئم نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ طعن سب و شتم کرنے والا ملعون ہے مگر یہ احادیث کی شرح ہیں اور نبی کے فرمان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے اس لئے حقیقت نہین بدل سکتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت نہیں تھی اس کو ماننے سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی فرق نہین آئے گا کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور ان کا فرمان حق ہے اس لئے آئمہ نے بھی یہی بات بیان کی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی ایک حدیث کا انکار ایمان ختم کر دے گا کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کا انکار ایمان کے لیے خطرہ ہے ۔ اللہ سب کو ہدایت دے
محترم -

اگر آپ میں ذرا بھی ایمان کی رمق ہو تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین خوصو صاً صحابی و مہدی رسول حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے متعلق اس قسم کی نا زیبا زبان استمعال نہ کریں جو آپ ایک ہفتہ سے مسلسل کررہے ہیں - مزید یہ کہ آپ اس زمن میں خلافت سے متعلق یا تو ضعیف پہ ضعیف روایات پیش کررہے ہیں یا جو صحیح روایات ہیں اس کے غلط معنی اخذ کرکے ان سے لوگوں میں صحابہ رسول و مغفورسالار قسطنطنیہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت ان کی حکومت اور ان کی آل اولاد سے متعلق لوگوں میں بد گمانی پیدا کرہے ہیں-

آپ نے ایک ساتھ بہت ساری پوسٹ کردی ہیں اس لئے فرداً فرداً ان کا جواب دینا آسان نہیں کہ اس میں کافی وقت درکار ہے - فلحال آپ کی سفینہ رضی الله عنہ والی تیس سالہ خلافت پر تبصرہ پیش کررہ ہوں -

سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
پہلی بات اس روایت کے حوالے سے ابن ابی حاتم نے لا يحتج به کے الفاظ استمعال کیے ہیں - اگرچہ اکثر مجتحدین کے نزدیک ابن ابی حاتم رحم الله احادیث تعدیل و جرح میں متشدد ہیں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں- امام بخاری رحم الله کو اسی بنا پر پر دوسرے محدثین پرفوقیت ہے کہ احدیث نبوی کی پرکھ میں وہ باقی آئمہ و محدثین کے نسبت متشدد واقع ہوے تھے-

دوسرے یہ کہ حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ کا اپنا عمل یہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف سیدنا معاویہؓ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔ (تاریخ طبری جلد ٧ ، مقدمہ ابن خلدون ، اخبار اطول) -اگر یہ خلافت نہیں ظلم کی بادشاہت تھی تو حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی حکومت کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟؟ محدثین کے اصول کے مطابق جب کسی حدیث کا راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو وہ روایت اپنا اعتبار کھو دیتی ھے چاہے سند کتنی بھی قوی ھو،،قابلِ عمل نہیں رھتی -

تیسرے یہ کہ :
بخاری نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن سمره سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ""یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمه لم اسمعھافقال ابی : انہ قال : کلھم من قریش "" ۔ میرے بعد امیر ہوں گے ، اس کے بعد آپ نے ایک بات کہی جو میں نے نہیں سنی، میرے والد نے کہا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : وہ سب قریش سے ہوں گے (١)

امام بدر الدین عینی ان بارہ کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ھیں، 1 ابوبکرؓ 2 عمرؓ 3 عثمانؓ 4 علیؓ 5 حسن بن علیؓ 6 معاویہ بن سفیانؓ 7 یزید بن معاویہ 8 عبداللہ بن زبیرؓ 9 عبدالملک 10ولید بن عبالملک 11 سلیمان بن عبدالمک 12 عمر بن عبدالعزیز ( عمدۃ القاری شرح بخاری )- اس بارہ خلفاء والی حدیث کی فہرست میں نہ صرف حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ موجود ہے بلھے ان کے فرزند یزید بن معاویہ راضی الله عنہ کا نام بھی بنفس نفیس بوجود ہے-

چوتھے یہ کہ :
آپ بار بار ایک ہی راگ الاپ رہے ہے کہ خلافت تیس سال ہے اس کا بعد " ملک عضوضا کا لفظ جمع کیا گیا ہے" - تو اکثر مفسرین جن کے نزدیک یہ روایت صحیح تسلیم کی گئی ہے - تو پھر بھی اس روایت سے وہ مطلب اخذ کرنا جو آپ کررہے ہیں سراسر گمراہی ہے- تیس سال بعد "ملک " کا مطلب حکومت وقت ہے اور یہ کہ "ملک" کی خواہش کرنا کوئی ایسا خلاف دین بھی نہیں- قرآن میں الله رب العزت خود فرماتا ہے کہ:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سوره آ ل عمران ٢٦
کہو کہ اے الله! حاکموں کے حکم ہے- تو جیسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے -اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-

ظاہر ہے جب یہاں الله رب العزت خود "ملک" حاصل کرنے کے لئے دعا بیان فرما رہے ہیں - تو اس "ملک" سے غلط مطلب اخذ کرنا جو صحابہ کرام کی عظمت و منزلت کے منافی ہے کہاں کی عقلمندی ہے -

پھر یہ کہ اس لفظ "ملک" کے ساتھ عضوضا" کا اضافہ بھی کردیں تو اس کا مطلب بنتا ہے "مضبوطی سے پکڑی ہوئی حکومت یا مضبوط حکومت" - مثال کے طور پر ملاحظه ہو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ جس میں یہ لفظ " عَضُّوا کا مطلب دانتوں سے مضبوطی پکڑنا بیان کیا گیا ہے :

"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔ ((ترمذی، صحیح)
سو جو تم میں سے یہ (فتنوں کا) زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں کے زور سے لازم پکڑے۔

یہاں واضح ہے کہ عَضُّوا سے مراد "مضبوطی سے پکڑنا" ہی لیا گیا ہے- نہ کہ "کاٹ کھانا یا ظلم و ستم " مراد ہے -

تو پھر رافضیوں کی اقتداء اور صحابہ دشمنی میں "ملک عضوضا" سے کاٹ کھانے والی بادشاہت مراد لینا کہاں کی دانشمندی ہے - یہ ٹھیک ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں کچھ خارجی و داخلی انتشار کے با عث ان کی خلافت "خلافت راشدہ " کے نہج سے ہٹ گئی تھی لیکن ان کی حکومت کا ظلم و ستم اور فسق و فجور سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا -

آخر میں آپ سے یہی درخواست ہے کہ :-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سوره المائدہ ٨

اے ایمان والو! الله کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور الله سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک الله اس سے خبردارہے-
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
امام أبي عيسى العوام بن حوشب الشيباني الواسطي رحمہ الله نے فرمایا:
"أذكروا محاسن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم تؤلفوا عليهم القلوب ولا تذكروا مساويهم فتحرشوا الناس عليهم"
ترجمہ:رسول الله صلى الله عليه وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم کی خوبیاں بیان کیا کرو تاکہ (لوگوں کے) دِلوں میں اُنکی محبت هی محبت هو
اوراُنکی خامیاں بیان نہ کیا کرو تاکہ(لوگوں کے) دِلوں میں اُنکے خلاف نفرت نہ پیدا هو جائے

*** المرجع: "تثبيت الإمامة وترتيب الخلافة"
للإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني رحمه الله: 217،
وسنده: حسن
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
امام أبي عيسى العوام بن حوشب الشيباني الواسطي رحمہ الله نے فرمایا:
"أذكروا محاسن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم تؤلفوا عليهم القلوب ولا تذكروا مساويهم فتحرشوا الناس عليهم"
ترجمہ:رسول الله صلى الله عليه وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم کی خوبیاں بیان کیا کرو تاکہ (لوگوں کے) دِلوں میں اُنکی محبت هی محبت هو
اوراُنکی خامیاں بیان نہ کیا کرو تاکہ(لوگوں کے) دِلوں میں اُنکے خلاف نفرت نہ پیدا هو جائے

*** المرجع: "تثبيت الإمامة وترتيب الخلافة"
للإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني رحمه الله: 217،
وسنده: حسن
جناب،
میرے تمام کیے ہوئے تراجم غلط ہیں تو پھر ذرا اپ تقی الدین المقریزی اور ابن حجر کی ان عبارات کا ترجمہ خود فرما دیں۔


(2) تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 ہجری خلفاء راشدین کے تیس سال گنے کے بعد لکھتے ہیں
تمت أَيَّام الْخُلَفَاء الرَّاشِدين رَضِي الله عَنْهُم. وَصَارَت الْخلَافَة ملكا عَضُوضًا، أَي فِيهِ عسف وعنف، وانتقل الْأَمر إِلَى بني أُميَّة. وَأول من ولي مِنْهُم مُعَاوِيَة بن أبي سُفْيَان(السلوک لمعرفۃ دول الملوک جلد 1 ص 109)



أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔

باقی رہا اپ کے حدیث سفینہ پر اعتراض اور امام عینی کے مطابق 12 خلیفہ کی کیا حقیقت ہے خود وہی بتائیں گے جو میں اپ کو نقل کروں گا اور اپ نے جو ملک کے معنی قرآن سے کیے ہیں یہ وہ ملک عضوض نہیں جس کا آپ دفاع کررہے ہیں یہ بھی ابن حجر نے ہی بیان کیا ہےفحال اپ اپنے بھائی کی اصلاح کریں اور اس کو سیدی راہ پر لانے کی خاطر ان دونوں عبارات کا صحیح ترجمہ پیش کریں بڑی مہربانی ہو گی کیونکہ میرا کیا ہوا ترجمہ غلط ہے تو اپ میری اصلاح کریں تاکہ میں راہ راست پر آ سکوں۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اور ہاں اگر اپ کے پاس وقت ہو تو ملا علی قاری کی اس عبارت کا بھی ترجمہ کر دیں تو اپ کا یہ بھائی انشاء اللہ راہ راست پر آ جائے گا۔اللہ مجھے سمجھنے کی توفیق دے
قال التلمساني وفي أصل المؤلف ثم ملكا (عضوضا) بفتح العين أي سلطنة خالية عن الرحمة والشفقة على الرعية فكأنهم يعضون بالنواجذ فيه عضا حرصا على الملك ويعض بعضهم بعضا
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
اب خلافت کے بعد کی حکومت کس قسم کی ہوگی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلا دیں لیں خودپڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، وَسَتَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
(الطبرانی الاوسط رقم 6581)
اور مسند احمدسے روایت اپ نے خود پیش کی تھی اس لیے میں نے دوسری سند سے یہ روایت نقل کی ہےاس میں صاف موجود ہے کہ
خلافت کے بعد جو حکومت ہو گی وہ
مُلْكًا عَضُوضًا ہو گی

(1) امام الرازی فرماتے ہین۔۔۔۔
۔۔۔۔
دونوں روایات ایک دوسرے کا مفہوم بتاتی ہے
۔۔۔۔۔۔
(2) مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی نے بھی یہی نقل کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں احادیث سے ایک دوسرے کی تشریح ہوتی ہے
(3) ابن کثیر نے بھی اسی طرح دونوں احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا کہ اس سے ملک کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
(1)ملا علی قاری شرح شفا میں رقمطراز ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وقال) أي النبي عليه الصلاة والسلام (إنّ هذا الأمر) أي أمر ملة هذه الأمة (بدأ) بهمزة أي ابتدأ أو بألف أي ظهر (نبوّة ورحمة) أي نبوة مقرونة بالرحمة العامة. (ثمّ يكون) أي الأمر (رحمة وخلافة) أي رحمة في ضمن الخلافة (ثمّ يكون) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ رحمہ خلافت کے ضمن میں ہے اسکے بعد ملک ہو گا اور اصل مصنف(یعنی قاضی عیاض)کے مطابق عضوض ہے اور یہ حکومت عوام پر رحمت اور شفقت سے خالی ہے اسے میں عضوض کے معنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرےکو حکومت(حاصل کرنے کے لیے) ہلاک کریں گے۔
کیا خیال ہے ملا علی قاری پر فتوی لگانا ہے

(3) اب حافظ ابن حجر کو بھی پڑھ لیں
برادرعزیز۔۔۔۔ آپ کے نزدیک حضرت امیر معاویہؓ اور دوسرے اموی ملوک بھی برابر ہی ہیں۔؟
اور کیا ان ’’مجمل الفاظ‘‘ سے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو بھی استثنٰی مل سکتا ہے ۔؟
آپ کسی ایک مجمل لفظ سے کیوں استدلال کرتے ہیں۔۔۔۔اور اسلاف کے ائمہ کی بھی عبارات کو علی الاطلاق سب پر لاگو کرتے ہیں۔۔۔وہ حدیث کی تشریح بیان کرتے ہیں ۔۔اور آپ کا نتیجہ صرف ایک صحابیؓ ہیں۔۔
اب اوپر آپ نے جو کئی بار لکھا کہ احادیث میں جمع ، اور اسی طرح جو شروع کی حدیث طبرانی سے نقل کی اس میں جو ہائیلائٹ فقرہ ہے ۔۔۔وہ مجمل ہے ۔۔۔۔۔اور اس کے بعدعضوض ہے ۔۔۔تو ایک اور حدیث میں پیش کرتا ہوں شاید آپ واقف ہوں ۔۔۔لیکن چونکہ آپ نے پیش نہیں کی ۔۔اسلئے۔۔۔۔

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً،
ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكَادَمُونَ عَلَيْهَا تَكَادُمَ الْحَمِيرِ، فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جِهَادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رِبَاطِكُمْ عَسْقَلَانُ» ".
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

مجمع الزوائد ۵۔۱۸۹​
اب اس میں اس میں اس روایت
خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
میں موجود کذا و کذا کی بھی وضاحت ہو گئی ۔۔۔کہ وہ دور بادشاہت اور رحمت ہے اس کے بعد عضوض ہے ۔۔
اس لئے حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ قطعاََ عضوض میں شامل نہیں۔۔۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
برادرعزیز۔۔۔۔ آپ کے نزدیک حضرت امیر معاویہؓ اور دوسرے اموی ملوک بھی برابر ہی ہیں۔؟
اور کیا ان ’’مجمل الفاظ‘‘ سے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو بھی استثنٰی مل سکتا ہے ۔؟
آپ کسی ایک مجمل لفظ سے کیوں استدلال کرتے ہیں۔۔۔۔اور اسلاف کے ائمہ کی بھی عبارات کو علی الاطلاق سب پر لاگو کرتے ہیں۔۔۔وہ حدیث کی تشریح بیان کرتے ہیں ۔۔اور آپ کا نتیجہ صرف ایک صحابیؓ ہیں۔۔
اب اوپر آپ نے جو کئی بار لکھا کہ احادیث میں جمع ، اور اسی طرح جو شروع کی حدیث طبرانی سے نقل کی اس میں جو ہائیلائٹ فقرہ ہے ۔۔۔وہ مجمل ہے ۔۔۔۔۔اور اس کے بعدعضوض ہے ۔۔۔تو ایک اور حدیث میں پیش کرتا ہوں شاید آپ واقف ہوں ۔۔۔لیکن چونکہ آپ نے پیش نہیں کی ۔۔اسلئے۔۔۔۔

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً،
ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكَادَمُونَ عَلَيْهَا تَكَادُمَ الْحَمِيرِ، فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جِهَادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رِبَاطِكُمْ عَسْقَلَانُ» ".
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

مجمع الزوائد ۵۔۱۸۹​
اب اس میں اس میں اس روایت
خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
میں موجود کذا و کذا کی بھی وضاحت ہو گئی ۔۔۔کہ وہ دور بادشاہت اور رحمت ہے اس کے بعد عضوض ہے ۔۔
اس لئے حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ قطعاََ عضوض میں شامل نہیں۔۔۔
محترم،
یہ حدیث منفرد ہے اس میں فطر بن خلیفہ مدلس راوی ہے اور معنن سے روایت کر رہا ہے اور یہ 3 درجے کا مدلس ہے دوسری بات اس میں ابن شھاب اکبر نے جن سے روایت کیا ہے اس میں فطر شامل نہیں ہے اور نہ فطر کے روایت میں ابن شھاب الاکبر شامل ہے تیسری بات ابن شھاب کو امام احمد نے منکر الحدیث کہا ہے اور جب امام کسی روای کے بارے میں ایسا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی منفرد روایات میں کمزوری ہے ھدی الساری جلد ا ص 453) اور یہ ابن شھاب کی منفرد روایت ہے اور اس میں سعید بن حفص النفیلی بھی موجود ہے یہ اگرچہ ثقہ ہے مگراس کو اخر میں تغیرہ ہو گیا تھا اور اس سے ذیادہ ثقہ رواۃ نے صرف ملک عضوض کا لفظ نقل کیا ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس روایت میں ملک عضوض کی جگہ ملک رحمہ کا اضافہ کیا ہے جو اس کے حافظہ کی خرابی سے ہوا ہے اس لئے یہ روایت کسی طرح بھی ان دیگر صحیح روایات کے مقابلے پر نہیں آ سکتی ہے جس میں ملک عضوض کا لفظ ہے واللہ اعلم۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اگر اپ کی بات برائے بحث مان لی جائے کہ یہ روایت صحیح ہے تو اس میں سے ان سب کا لاڈلہ یزید بھی نکل جائے گا اور اس کی حکومت ظالم ہو جائے گی اور یہ ان میں سے کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے کہ یزید ظالم ہو جائے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
یہ حدیث منفرد ہے اس میں فطر بن خلیفہ مدلس راوی ہے اور معنن سے روایت کر رہا ہے اور یہ 3 درجے کا مدلس ہے
سب سے پہلے یہ بتلائیں کہ فطر کو مدلس کس امام نے کہاہے؟
اس کے بعد یہ بتلائیں کہ اسے تیسرے طبقہ کامدلس کس امام نے کہا ہے؟
عصرحاضر کے علماء کاحوالہ دینے کی زحمت نہ کریں !

دوسری بات اس میں ابن شھاب اکبر نے جن سے روایت کیا ہے اس میں فطر شامل نہیں ہے اور نہ فطر کے روایت میں ابن شھاب الاکبر شامل ہے
ابن شہاب یہ طباعت کی غلطی ہے اصل مخطوطہ میں ابوشہاب ہے اوریہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورثقہ ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کیا کتب تراجم کے مؤلفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہرراوی کے اساتذہ اور تلامذہ کے فہرست بتلائیں گے؟

تیسری بات ابن شھاب کو امام احمد نے منکر الحدیث کہا ہے اور جب امام کسی روای کے بارے میں ایسا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی منفرد روایات میں کمزوری ہے ھدی الساری جلد ا ص 453) اور یہ ابن شھاب کی منفرد روایت ہے
امام احمد رحمہ اللہ کے منکرالحدیث کی یہ تشریح ابن حجر رحمہ اللہ نے کہیں پر نہیں کی ہے ۔
آپ معلوم نہیں کیونکہ ہرجگہ جھوٹ اورخیانت سے کام لیتے نظر آرہے ہیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کے اصل الفاظ دیکھیں
وروى أبو عبيد الآجري عن أبي داود عن أحمد أنه قال منكر الحديث قلت هذه اللفظة يطلقها أحمد على من يغرب على أقرانه بالحديث عرف ذلك بالاستقراء من حاله(ھدی الساری لابن حجرص: 453)
یہاں ابن حجررحمہ اللہ نے یہ کہاہے کہ امام احمدایسے راوی کو بھی منکرالحدیث بولتے ہیں جو اپنے ساتھیوں میں منفرد روایت بیان کرے ۔
لیکن ایسی منفرد روایت میں کمزوری کی بات ابن حجررحمہ اللہ نے امام احمد کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔جیساکہ آپ نے بڑی بے باکی سے لکھا ہے۔
اورامام احمد نے اس راوی کو صرف منکر الحدیث کہنے پراکتفاء نہیں کیا ہے بکہ اس کی توثیق بھی کی ہے۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں:
امام احمد نے ابوشہاب کو ’’ ما أرى به بأسا أو قال ليس به بأس‘‘ کہاہے (سؤالات أبي داود ص: 313)

اور اس میں سعید بن حفص النفیلی بھی موجود ہے یہ اگرچہ ثقہ ہے مگراس کو اخر میں تغیرہ ہو گیا تھا اور اس سے ذیادہ ثقہ رواۃ نے صرف ملک عضوض کا لفظ نقل کیا ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس روایت میں ملک عضوض کی جگہ ملک رحمہ کا اضافہ کیا ہے جو اس کے حافظہ کی خرابی سے ہوا ہے اس لئے یہ روایت کسی طرح بھی ان دیگر صحیح روایات کے مقابلے پر نہیں آ سکتی ہے جس میں ملک عضوض کا لفظ ہے واللہ اعلم۔
اخیر میں تغیر کی بات صرف ابوعروبہ الحرانی نے کہی ہے ابن حجر ان کے الفاظ نقل کرتے ہیں:
وقال أبو عروبة الحراني كان قد كبر ولزم البيت وتغير (تهذيب التهذيب 4/ 17)
اس قول سے تو یہ پتہ چلتاہے کہ تغیر ان کی زندگی کے بالکل آخری مرحلہ میں لاحق ہوا تھا اوراس کے بعدانہوں نے اپنے گھر کو لازم پکڑلیا تھا۔
یعنی اس تغیر کے بعد ان کا حدیث روایت کرنا ثابت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ابوعروبہ الحرانی کے علاوہ کسی بھی دوسرے محدث نے ان کے تعلق سے تغیر کی بات نہیں کی ہے۔
اس لئے اس بات کوبنیاد بنانا ہی حماقت ہے۔
آپ تحریر التقریب کا حوالہ بڑے شوق سے دیا کرتے ہیں اسی تحریر کے مؤلفین فرماتے ہیں:
ثقة ، وقوله تغير في آخر عمره ، لم يقله غير أبي عروبة الحراني ، ونصه : كبر ولزم البيت وتغير في آخر عمره ، وهذا لا يدل على أنه حدث في حال تغيره(تحرير رقم2285)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top