• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آپ کے ساتھ کیا پروبلم ہے کہ آپ ہر تھریڈ میں قتل عثمان کی دھائی دیتے رہتے ہیں آپ موضوع کی مناسبت سے بات کرے تو بہترہے اور جہاں تک عثمان کے قاتلون کی بات ہے تو پہلے آپ یہ پڑھ لیں
چلیں ہم بھی وہی کرتے ہیں جو آپ پچھلی کئی صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔ آدھی بات۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ (اپنے شیعوں کو) بدُعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش میں تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا (نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔
کہانی میں ٹوسٹ پیدا کرنے سے بھلا تھا کے اوپر جو پوچھا تھا میں نے اس کا جواب دیتے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہرام صاحب،
ہمیں معلوم ہے کہ اہل تشیع میں اس موضوع پر اہل تشیع کی روایات کے تحت بات چیت کرنے کی ہمت نہیں۔ جس قدر توجیہات لاطائل کر لیجئے، آپ موضوع کو کبھی ادھر اور کبھی ادھر گھماتے رہیں، لیکن ہمارے یہ سوالات آپ پر ادھار رہیں گے، جب تک آپ ان سے تعرض نہیں فرما لیتے۔


1۔ آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عزیز از جان بیٹی، اور وہ بیٹی جو خاص حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ہیں، کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا یا نہیں؟
2۔ اگر یہ نکاح ہوا ہے، تو کیا اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
3۔ اگر یہ نکاح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرضی سے نہیں ہوا، بلکہ بزور "غصب" کر کے کر لیا گیا، تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص ہوتی ہے یا نہیں؟


اب آپ جس طور موضوع گھمانے کی کوشش میں ہیں، ان پر اجمالی تبصرہ۔
پہلی بات ہم نے گزارش کی تھی، کہ خاص اس روایت پر بحث کرنی ہو تو علیحدہ موضوع میں بات کر لیں۔ آپ نے نہیں مانی۔ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس روایت کو علیحدہ دھاگے کے تحت جمع کر دیں تاکہ اس میں فقط اسی روایت پر بات چیت آگے بڑھائی جا سکے اور موجودہ دھاگے میں فقط اہل تشیع کے موقف پر گفتگو کرنی ممکن ہو۔

ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ ام کلثوم حضرت عمر کے پاس تھیں اور اس پاس ہونے کی مراد یہ لیتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کی بیوی تھیں جبکہ پاس ہونے سے مراد پاس کھڑی ہوئی تھیں بھی لی جاسکتی ہے اب ایک ایسے لفظ جس کے کئی معنٰی مراد لئے جاسکتے ہوں اس سے صرف یہ معنیٰ مراد لینا کہ ام کلثوم حضرت عمر کی بیوی تھی یہ ناانصافی ہے
ہم فقط پاس ہونے سے یہ مراد نہیں لیتے، بلکہ دیگر قرائن کو بھی مد نظر رکھ کر یہ بات کہتے ہیں۔ اور دیگر احادیث سے ام کلثوم بنت علی و فاطمۃ الزہرا علیہم السلام ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منکوحہ ہونا ثابت ہے۔
دوسری بات یہ کہ روایت کے شروع کے الفاظ یہ ہیں:
قسم مروطا بين نساء من نساء المدينة
(عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ) مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔
آپ یہ ماننے کو تیار ہیں کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، چادریں لینے کے لئے بنفس نفیس آئی تھیں؟ ہمیں یہ ماننے میں تامل ہے۔ شاید آپ کے لئے اس میں تردد کی کوئی بات نہ ہو۔
روایت کے اگلے الفاظ ہیں:
فقال له بعض من عنده
یہ جو بعض حضرات موجود تھے، ان کے سامنے بغیر پردہ کے حضرت امیررضی اللہ عنہ کی بیٹی کھڑی تھیں، نہیں، تو انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فلاں خاتون حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہیں؟
اسی لئے ہم التی عندک سے پاس کھڑا ہونا مراد نہیں لیتے، بلکہ بیوی ہونا مراد لیتے ہیں۔ جس میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی توہین نہیں ہے۔


پھر ان بعض حضرات کا یہ کہنا:
يا أمير المؤمنين أعط هذا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم
اتنے تعارف کی کیا ضرورت تھی، اگر وہ پاس ہی کھڑی تھیں، فقط اشارہ کر دیتے کہ انہیں دے دیجئے۔

اور اس سارے عرصے میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا پاس کھڑی رہیں، مقصد بھی چادر لینا تھا، اور کچھ بولی بھی نہیں۔ دوسرے لوگ ہی ان کے بارے گفتگو کرتے رہے؟
پھر جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ:

اب ایک ایسے لفظ جس کے کئی معنٰی مراد لئے جاسکتے ہوں اس سے صرف یہ معنیٰ مراد لینا کہ ام کلثوم حضرت عمر کی بیوی تھی یہ ناانصافی ہے
لہٰذا ہم نے تو عرض کر دی کہ ہم کن قرائن کی بنا پر اس لفظ کے وہ معنیٰ متعین کرتے ہیں، جن سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہونا قرار پاتا ہے۔ اب آپ اس روایت پر درایت کے اصولوں کی روشنی میں بات کر کے ثابت کیجئے کہ التی عندک کے الفاظ سے یہاں بیوی مراد لینا غلط ہے اور پاس کھڑا ہونا ہی مراد لینا درست ہے؟

کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص سے اپنی بیٹی کا ہاتھ مانگنے پر عمروں کے فرق کا ذکر کرکے منہ موڑ چکے ہوں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابزادی کی بیٹی کی شادی عمر سے ہو
خطب أبو بكرٍ وعمرُ رضِيَ اللهُ عنهما فاطمةَ ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنها صغيرةٌ ، فخطبها عليٌّ فزوَّجها منه

الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 3221

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

ابوبکر اور عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی خواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی علیہ السلام نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
اسے کہتے ہیں تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کرنے کے لئے پوچ اور لچر تاویلات کرنا۔۔ محترم، یہ بتا دیجئے کہ درج بالا روایت میں اس بات کا ذکر کہاں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہی دنوں میں نکاح کی خواستگاری کی تھی؟
حرف "فا" سے یہاں تعقیب بلا مہلت مراد لینے کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
جبکہ یہ عام ہے کہ حرف "فا" فقط ترتیب بیان کے لئے بھی آتا ہے۔

حدیث سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ پہلے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح کی درخواست کی اور بعد میں حضرت علی نے۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ کے استدلال کے تحت یہاں حرف "فا" سے تعقیب بلا مہلت مراد لی جائے تو رسول اللہ ﷺ پر الزام آتا ہے ، کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا یا تقیہ کیا (نعوذباللہ من ذلک) ۔ کیونکہ روایت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو انکار کی وجہ یہ بتلائی:
إنها صغيرةٌ
کہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا چھوٹی ہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ تم عمر میں بڑے ہو۔ یا تمہارے مقابلے میں وہ چھوٹی ہیں۔
کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو مقابلتاً وہ بہت چھوٹی تھیں، تو کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ رشتہ دینے سے انکار کریں، جس میں وہ خود مبتلا ہوئے ہوں؟
لہٰذا ضرور ہے کہ یہاں مانا جائے کہ واقعتاً بی بی فاطمہ صغیرہ سن تھیں اور ابھی بلوغ کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا۔
اور جب بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رشتہ کی درخواست کی ، تو بی بی فاطمہ صغیرہ سن نہیں رہی تھیں، اس لئے قبول کر لیا۔

ہمارے استدلال کے تحت نہ رسول اللہ ﷺ پر کوئی حرف الزام آتا ہے اور نہ آپ کا مدعا ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے استدلال کے تحت دونوں باتوں کا اثبات ہوتا ہے تو آپ فرمائیے کہ اپنے مدعا کے اثبات میں رسول اللہ ﷺ پر تہمت لگانے کو تیار ہیں؟
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
ہمیں معلوم ہے کہ اہل تشیع میں اس موضوع پر اہل تشیع کی روایات کے تحت بات چیت کرنے کی ہمت نہی
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
فاء اور ثمّ میں کیا فرق ہے؟

الفاء للاتصال والترتیب جلال الدین السیوطی البہجۃ المرضیہ الحروف العاطفہ

آپ سے اسی مسئلہ نکاح پر بحث ہوگی پر۔۔۔۔۔ ایک اچھا اور قابل تحمل فوروم پر چلیں۔۔۔۔ جہاں پوسٹیں ڈلیٹ نا ہوتی ہوں۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
1۔ آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عزیز از جان بیٹی، اور وہ بیٹی جو خاص حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ہیں، کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا یا نہیں؟
2۔ اگر یہ نکاح ہوا ہے، تو کیا اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
3۔ اگر یہ نکاح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرضی سے نہیں ہوا، بلکہ بزور "غصب" کر کے کر لیا گیا، تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب ١۔ نہیں کیا
جواب ٢۔ اول تو یہ نکاح ہوا نہیں اگر اس نکاح سے ہی حضرت عمر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے تو پھر ام کلثوم کے والد گرامی کی فضیلت تو حضرت عمر سے بھی ذیادہ ثابت ہوئی
٣۔ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو پھر دیگر باتوں کا کیا ذکر
یہ تو ہوئے آپ کے سوالوں کے جواب
اب آتے ہیں آپ کی پہلی دلیل کی طرف
ہم فقط پاس ہونے سے یہ مراد نہیں لیتے، بلکہ دیگر قرائن کو بھی مد نظر رکھ کر یہ بات کہتے ہیں۔ اور دیگر احادیث سے ام کلثوم بنت علی و فاطمۃ الزہرا علیہم السلام ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منکوحہ ہونا ثابت ہے۔
یعنی آپ نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ بخاری کی حدیث میں صرف پاس ہونے کا ذکر ہے پاس ہونے سے مراد نکاح میں ہونا وہ دیگ قرائن کو مد نظر رکھ کر کہا گیا ہے لیکن اس تھریڈ کے شروع میں آپ نے بخاری کی روایت نقل کرنے کے بعد یہ حکم لگایا ہے
صحیح بخاری کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
جاری ہے۔۔۔
یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے تسلیم کرلیا کہ بخاری کی اس روایت سے نہیں بلکہ دیگ قرائن سے یہ چابت ہوتا ہے
دوسری بات یہ کہ روایت کے شروع کے الفاظ یہ ہیں:
قسم مروطا بين نساء من نساء المدينة
(عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ) مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔
آپ یہ ماننے کو تیار ہیں کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، چادریں لینے کے لئے بنفس نفیس آئی تھیں؟ ہمیں یہ ماننے میں تامل ہے۔ شاید آپ کے لئے اس میں تردد کی کوئی بات نہ ہو۔
روایت کے اگلے الفاظ ہیں:
فقال له بعض من عنده
یہ جو بعض حضرات موجود تھے، ان کے سامنے بغیر پردہ کے حضرت امیررضی اللہ عنہ کی بیٹی کھڑی تھیں، نہیں، تو انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فلاں خاتون حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہیں؟
اسی لئے ہم التی عندک سے پاس کھڑا ہونا مراد نہیں لیتے، بلکہ بیوی ہونا مراد لیتے ہیں۔ جس میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی توہین نہیں ہے۔


پھر ان بعض حضرات کا یہ کہنا:
يا أمير المؤمنين أعط هذا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم
اتنے تعارف کی کیا ضرورت تھی، اگر وہ پاس ہی کھڑی تھیں، فقط اشارہ کر دیتے کہ انہیں دے دیجئے۔
متن حدیث سے پہلے اگرسندپر بات کرلی جائے تو مناسب ہوگا اس کے بعد متن حدیث پر بات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ان شاء اللہ
اس سند میں یونس بن یزید ایلی موجود ہے جو اہل سنت بزرگ علماء کے نظریہ کے مطابق جس میں خود بخاری بھی شامل ہے ، شھاب زھری کی روایات میں کثیر خطا کا مرتکب ہوا ہے اور زھری سے منکر روایات نقل کرتا ہے ۔
مزى نے تهذيب الكمال میں اسکے احوال میں لکھا ہے
وقال محمد بن عوف عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الأيلي وكان سيء الحفظ. .
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا ۔
قال أبو عبد الله: ويونس يروي أحاديث من رأي الزهري يجعلها عن سعيد. قال أبو عبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزهري وعقيل أقل خطأ منه.
ابوعبد الله (ظاهرا احمد بن حنبل) نے کہا یونس زھر ی سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
وقال أبو زرعة الدمشقي: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزهري
وقال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزهري? قال: معمر قيل له: فيونس قال: روى أحاديث منكرة.
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات روایات نقل کرتا ہے ۔
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث كثيره وليس بحجة ربما جاء بالشيء المنكر.
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے ۔
تهذيب الكمال
لنک: تهذيب الكمال في أسماء الرجال
بنی امیہ کا درباری راوی زهري
ابن حجر نےعسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب میں ترجمه سلیمان بن مہران المعروف اعمش میں لکھا ہے
وحكى الحاكم عن ابن معين :أنه قال : أجود الأسانيد : الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له إنسان : الأعمش مثل الزهري ? فقال : برئت من الأعمش أن يكون مثل أزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن
حاكم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو ںاور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
تهذيب التهذيب ابن حجر العسقلاني الصفحة : 563
لنک: تهذيب التهذيب
امید ہے اب آپ کو اس روایت کو کیوں بیان کیا گیا اور کس کے اشارے پر تیار کیا گیا معلوم ہوگیا ہوگا !
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
1
۔ آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عزیز از جان بیٹی، اور وہ بیٹی جو خاص حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ہیں، کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا یا نہیں؟
جواب ١۔ نہیں کیا
تو جانے آپ کو اہل تشیع کے مؤقف کی وضاحت پیش کرتے کس بات کی شرم محسوس ہو رہی ہے۔ صاف بتائیے کہ اس موضوع پر آپ کے نزدیک درست بات کیا ہے؟ کیا وہ جھوٹ جو گیارہویں صدی ہجری کے بعد اہل تشیع نے پھیلایا کہ اصل نکاح ام کلثوم بنت ابوبکر سے ہوا تھا؟ اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر رہتی تھیں؟ یا آپ ان علمائے اہل تشیع سےا تفاق رکھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل ام کلثوم کی جگہ بطور معجزہ ایک جنیہ (مؤنث جن) حضرت عمر کے پاس بصورت ام کلثوم رہتی تھیں۔ یا اپنے ائمہ معصومین کی طرح پر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرضی سے نکاح نہیں ہوا، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی غصب کر لیا تھا؟صاف کہئے تاکہ آپ کی کتب سے آپ کو حقائق واضح کئے جائیں۔ معلوم نہیں کیوں اہل تشیع کے مؤقف پر بات کرنے سے آپ احتراز کر رہے ہیں اور بار بار کتب اہل سنت کی طرف آ دھمکتے ہیں۔

2۔ اگر یہ نکاح ہوا ہے، تو کیا اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب ٢۔ اول تو یہ نکاح ہوا نہیں اگر اس نکاح سے ہی حضرت عمر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے تو پھر ام کلثوم کے والد گرامی کی فضیلت تو حضرت عمر سے بھی ذیادہ ثابت ہوئی
آپ اتنے بھولے نہیں ہیں۔ آپ کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کافر اور جہنمی ہیں۔ (نعوذباللہ من ذلک)۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینا، یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ پکے مومن تھے۔ اور ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان ثابت ہو جائے تو مذہب تشیع کی بنیادیں ڈھے جاتی ہیں۔ خیر، یہ موضوع بعد میں۔ پہلے نکاح کا ثبوت ہو جائے ذرا۔

3۔ اگر یہ نکاح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرضی سے نہیں ہوا، بلکہ بزور "غصب" کر کے کر لیا گیا، تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص ہوتی ہے یا نہیں؟
٣۔ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو پھر دیگر باتوں کا کیا ذکر
آپ کو جو مشکل درپیش ہے، اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ یہ نکاح گلے کی وہ ہڈی ہے جسے نگلیں تو مذہب ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور اگلیں تو تمام اگلے پچھلے، ائمہ ، محدثین، مؤرخ، فقیہہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ آپ نکاح کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کریں تب ہم آپ کو سمجھائیں گے کہ اس نکاح کا ثبوت آپ کی صحاح اربعہ کی تین کتب سے اور آپ کے ائمہ معصومین کی روایات سے کیسے ثابت ہوتا ہے۔ ویسے درج بالا سوال کا برسبیل تنزل جواب دے دیجئے ، جیسے آپ نے سوال 2 کا جواب دیا۔ اگر یہ نکاح ہوا ہے تو کیا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی توہین ہے یا نہیں؟ کہ ایک کافر یا مرتد یا منافق اعظم (نعوذباللہ) ان کی بیٹی کو غصب کر کے لے گیا اور ذوالفقار میان ہی میں پڑی رہی۔ نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی غیرت کو جوش آیا کہ اس کا سر قلم کر ڈالتے اور وہ تلوار جو ایک کاٹ میں ہزاروں جنوں کو ذبح کر ڈالتی تھی، حضرت عمر اور ان کے حامیان کے لئے کیوں نہ نکالی۔ شیر خدا کی بیٹی ہو اور دشمن غصب کر جائیں، تو اس میں توہین ہے ان کی یا نہیں؟ یا پھر آپ یوں کہیں کہ مومنہ کا نکاح ناصبی سے جائز ہے۔ آخر کو ایک مرتبہ اپنا عقیدہ تو پیش کریں، پھر ہی ہم اس کی تردید کریں۔ ورنہ تو خاص اس معاملے میں اہل تشیع نے اتنے رنگ بدلے ہیں، کہ ذرا تحقیق کرنے والا شخص حیران ہو جاتا ہے کہ روشن صبح میں، جب کہ قارئین سورج کو اپنے سامنے دیکھتے ہوں، کیسے علمائے اہل تشیع نے بدلائل کالی رات ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے۔


یعنی آپ نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ بخاری کی حدیث میں صرف پاس ہونے کا ذکر ہے پاس ہونے سے مراد نکاح میں ہونا وہ دیگ قرائن کو مد نظر رکھ کر کہا گیا ہے لیکن اس تھریڈ کے شروع میں آپ نے بخاری کی روایت نقل کرنے کے بعد یہ حکم لگایا ہے

یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے تسلیم کرلیا کہ بخاری کی اس روایت سے نہیں بلکہ دیگ قرائن سے یہ چابت ہوتا ہے
ہم نے دیگر قرائن ، دیگر روایات سے بھی پیش کئے ہیں اور خود بخاری کی اس روایت سے بھی۔ لہٰذا درایت کے اصولوں کی روشنی میں بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نکاح ہوا ہے اور شواہد سے بھی۔ صاحب تحریر کے منہ پر اس کی ہی تحریر پیش کر کے جھوٹ بولنے کی جسارت آپ ہی کر سکتے ہیں۔

متن حدیث سے پہلے اگرسندپر بات کرلی جائے تو مناسب ہوگا اس کے بعد متن حدیث پر بات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ان شاء اللہ
کیا لطیفہ ہے۔ آپ بھی اعتصام صاحب کی طرح دائرے میں گھومنے کے شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ محترم، جب ہم نے صحیح بخاری کی حدیث پیش کی تھی، تب تو آپ نے متن حدیث میں سقم نکالا۔ اور بڑی تعلی سے بار بار اس کو پیش کیا، گویا اس کا کچھ جواب ہی نہیں۔ اور جب آپ کو مفصل جواب مل گیا تو بڑی معصومیت سے فرماتے ہیں کہ سند پر بات کر لی جائے تو متن حدیث پر بات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ گویا اب ہم متن حدیث پر آپ کے اعتراضات اور اپنے جوابات کو بھول جائیں اور آپ سے جواب الجواب کا مطالبہ کئے بغیر نئی بحث کھول کر بیٹھ جائیں۔ نہ پہلی بحث تکمیل تک پہنچے اور نہ آپ کو جواب دہی کی ضرورت محسوس ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہم کٹہرے میں کھڑے ہیں اور جناب والا جو سوال کریں گے بس ہمیں اسی کا جواب دینا ہے۔

عرض ہے کہ متن کے حوالے سے جو آپ نے اعتراضات پیش کئے ، اور جن کے مفصل جوابات گزشتہ پوسٹ میں بیان کئے گئے، کیا آپ ان سے متفق ہیں؟ اگر ہاں تو اپنے اتفاق کا اظہار کیجئے اور پھر سند کی بحث کی طرف آ جائیں اور اگر آپ متفق نہیں ہیں، تو بدلائل ہمیں غلط ثابت کیجئے۔ متن کی بحث کو کسی انجام تک پہنچائیں اور پھر سند کی طرف آجائیں۔ یہ ضرور یاد رکھئے گا کہ صحیح بخاری کی اس حدیث کو سنداً اہل سنت کے اصول پر آپ نے ضعیف ثابت کرنا ہے۔ بس، آگے کی بات ہم آپ سے کر لیں گے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تو جانے آپ کو اہل تشیع کے مؤقف کی وضاحت پیش کرتے کس بات کی شرم محسوس ہو رہی ہے۔ صاف بتائیے کہ اس موضوع پر آپ کے نزدیک درست بات کیا ہے؟ کیا وہ جھوٹ جو گیارہویں صدی ہجری کے بعد اہل تشیع نے پھیلایا کہ اصل نکاح ام کلثوم بنت ابوبکر سے ہوا تھا؟ اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر رہتی تھیں؟
ایک روایت دو ام کلثوم
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، نا شُعْبَةُ ، نا جَبْرُ بْنُ حَبِيبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ تُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُكَلِّمَهُ فِي حَاجَةٍ , وَعَائِشَةُ تُصَلِّي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا عَائِشَةُ , عَلَيْكِ بِالْجَوَامِعِ وَالْكَوَامِلِ , قُولِي : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ , مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ , مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِمَّا سَأَلَكَ مِنْهُ مَحَمَّدٌ , وَأَعُوذُ بِكَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، اللَّهُمَّ مَا قَضَيْتَ لِي مِنْ قَضَاءٍ فَاجْعَلْ عَاقِبَتَهُ لِي رُشْدًا " .

مسند إسحاق بن راهويه » زِيَادَاتُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ ...رقم الحديث: 1029
لنک: http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=101&pid=26722&hid=1029

(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخْبَرَنِي جَبْرُ بْنُ حَبِيبٍ , عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهَا هَذَا الدُّعَاءَ : " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ , عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ , مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ , عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ , مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ , اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ , اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ , وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ , وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ , وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا " .

سنن ابن ماجه » كِتَاب الدُّعَاءِ » بَاب الْجَوَامِعِ مِنَ الدُّعَاءِ رقم الحديث: 3844
لنک: http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=173&pid=43670&hid=3844

کیا اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا گیم کھیلا جارہا ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہم نے دیگر قرائن ، دیگر روایات سے بھی پیش کئے ہیں اور خود بخاری کی اس روایت سے بھی۔ لہٰذا درایت کے اصولوں کی روشنی میں بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نکاح ہوا ہے اور شواہد سے بھی۔ صاحب تحریر کے منہ پر اس کی ہی تحریر پیش کر کے جھوٹ بولنے کی جسارت آپ ہی کر سکتے ہیں۔
جب آپ یہ اعتراف فرماچکے کہ بخاری کی حدیث سے نہیں بلکہ دیگر قرآئن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نکاح ہوا اب اس حدیث کے متن یا سند پر بات کرنے کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے اور جب سند سے ہی ثابت ہوگیا کہ اس کا ایک راوی مولا علی علیہ السلام سے بغض رکھنے والوں کا وظیفہ خور درباری ہے تو اس نے اس طرح کی روایت یقینا اپنے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے گھڑی ہونگی ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہرام صاحب،
آپ کو حرب بن شداد صاحب پر اعتراض تھا کہ وہ موضوع پر نہیں ٹکتے۔ ہم نے سوچا شاید آپ واقعی مخلصانہ انداز میں ایک بات کو کسی نتیجہ تک پہنچانے کی فکر رکھتے ہیں۔ لیکن آپ کی یہ کاپی پیسٹنگ دیکھنے کے بعد اندازہ ہو رہا ہے کہ غلطی میری ہی تھی۔ آپ کا مقصد فقط شکوک و شبہات کے کانٹے بونا ہے، نا تو آپ بات چیت میں سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں اور نا بات کو کسی انجام تک پہنچانے کی فکر میں مبتلا معلوم ہوتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ ہم نے آپ سے گزارش کی کہ اس موضوع پر اہل تشیع کی کتب سے بات کریں، اور جو دلائل اس ضمن میں پیش کئے گئے ہیں، ان سے اپنی گفتگو کا آغاز کریں لیکن آپ نے فقط اپنی توجہ کتب اہل سنت کی جانب مرکوز رکھی تو ہم نے سوچا چلیں پہلے یہی بحث ختم کریں۔ آپ کا بار بار صحیح بخاری کے متن پر پیش کئے گئے اعتراض کا جواب دیا، تو آپ اس کا جواب دینے کے بجائے صحیح بخاری کی سند پر اعتراض لے کر بیٹھ گئے۔ جب آپ سے گزارش کی کہ پہلے متن کی بات ختم کر لیں، تو آپ نے دوسری دلیل پر اعتراضات شروع کر ڈالے۔ محترم، کسی ایک جگہ ٹک کر بات کرنی ہو تو میں حاضر، اور فقط اپنے فورمز سے کاپی پیسٹنگ کرنے تشریف لاتے ہیں تو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، میں ایک نیا دھاگا بنا کر اس میں اہل تشیع کے تمام اعتراضات اور ان کے جوابات دینا شروع کر دیتا ہوں، وہاں مکالمہ نہیں ہوسکے گا۔

آپ ایک وقت میں ایک بات پر ہی توجہ دیجئے۔ اور یہ فرمائیے کہ صحیح بخاری کی حدیث پر جو اعتراضات آپ نے کئے، ان کے جو جوابات پیش کئے گئے ہیں، ان پر آپ کو کیا اشکالات ہیں؟ کیا آپ متفق ہیں؟ اگر متفق نہیں تو وجہ بتائیے۔

دوسری بات یہ کہ صحیح بخاری کی سند پر جو آپ نے اعتراضات کئے وہ دو حال سے خالی نہیں:

1۔ یا تو آپ اہل تشیع کا مؤقف صحیح بخاری کی حدیث کی سند پر پیش کر رہے ہیں، تو وہ ہم پر حجت نہیں۔ جیسے ہمارا کافی کی کسی روایت کو ضعیف کہنا آپ پر حجت نہیں ہو سکتا۔
2۔ یا آپ اہل سنت ہی کا مؤقف باور کرانا چاہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی حدیث ، خود اہل سنت کے اصول پر ضعیف ہے۔ تو یہ بہتان ہے۔ کیونکہ اہل سنت کے تمام گروہ صحیح بخاری کی احادیث کی صحت پر متفق ہیں۔

چونکہ اہل سنت کے اصول پر یہ حدیث سنداً بالکل صحیح و ثابت ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح بھی ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی سے بھی ثابت ہے۔ اور یہی بات کتب اہل تشیع سے بھی ثابت کی جا سکتی ہے۔ اب اگر آپ کو یک طرفہ مؤقف پیش کرنے کے بجائے مکالمہ سے دلچسپی ہے تو ایک وقت میں ایک بات پر توجہ کیجئے اور اس کے بعد اگلی بات شروع کریں۔ اور فقط کاپی پیسٹنگ کرنی ہے تو زحمت نہ فرمائیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ ایک معمہ ہے جو سلجھ کے نہیں دے رہا
تو بھائی اس کو معمہ ہی رہنے دو۔۔۔
جو پچھلے چودہ سوسالوں میں حل نہیں ہوسکا ۔۔۔
اس کو چودہ سو سال بعد کیوں حل کرنا چاہتے ہیں؟؟؟۔۔۔
 
Top