باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ہو سکتا ہے کہ آپ کو عربی اور اردو پر تعصب نظر آتا ہو ۔۔۔ لیکن مجھے تو کم از کم نظر نہیں آتا۔ کچھ مثالیں ہوں تو دیجیے۔ ہاں اگر آپ اس چیز کو "تعصب" سمجھتے ہیں کہ کوئی معاشرہ (فرض کیجیے کہ برطانوی معاشرہ) "عربی" کو تو بالکل قبول نہیں کرتا لیکن فرنچ ، اٹالین یا اسپینی زبانوں کو قبول کرتا ہے ۔۔۔ تو مجھے اس چیز کو "تعصب" باور کرنے میں تردد ہے۔ کسی زبان کو قبول یا رد کرنے میں صرف "مذہب" آڑے نہیں آتا بلکہ بہت سارے فیکٹرز بھی اپنا رول ادا کرتے ہیں۔وہ زبان جو کفار و مسلمان دونوں میں یکساں ہوں اس پر تو کوئی ضد نہیں ، ہندی انگریزی اسکی مثال ہے اس پر کوئی تعصب نہیں لیکن عربی اردو پر تعصب ، موجودہ دور کے بھارتی میڈیا اور انگریزی میڈیا سے لگا سکتے ہیں
بطور مثال ۔۔۔ اگر انڈیا میں اردو سے تعصب ہے تو پھر حکومتی یا غیر حکومتی سطح کی سختی کے باعث کسی بھی اردو رسالے اخبار یا جریدے کو نہ شائع ہونا چاہیے تھا اور نہ مدارس و جامعات میں اس زبان کی تعلیم و نشر و اشاعت کی گنجائش ممکن ہونی چاہیے تھی ، جبکہ حقائق تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر اردو سیکھنے بولنے یا لکھنے کے فیصد میں کچھ فرق آیا ہے تو وہ فرق صرف غیرمسلم طبقے کی سطح پر ہے یا مسلم طبقہ بھی اس لہر میں شامل ہے؟ اگر مسلمانان ہند کی اکثریت اردو کی طرف رغبت ظاہر کرنے سے معذور ہے تو کیا یہ مذہب سے دوری کی نشانی ہے؟ پھر پاکستان کے وہ صوبے جہاں اردو کو غیر زبان قرار دیا جاتا ہے ، ان صوبوں کے باشندوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا یہ بھی مذہب سے دور ؟؟
فی الوقت تو یہ بہت اچھا سوال ہے۔لیکن اس حقیقت کو جھٹلانے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں کہ موجودو دور میں زبان کا مذہب سے کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔
ثبوت کے لیے میں جو مثال یا مثالیں دوں گا ، اس کی تصدیق سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک کے غیرمقیمین سے کرائی جا سکتی ہے :)
زبان کا مذہب سے یقیناً کوئی رشتہ نہیں! سعودی عرب میں اسلام قبول کرنے والے غیر مسلمین کی مثال دی جا چکی ہے کہ ان لوگوں نے محض زبان کی بنیاد پر اسلام قبول نہیں کیا۔
دوسری مثال کیرالہ والوں سے لیجیے (جنہیں ملیالی یا ملیباری بھی کہا جاتا ہے) ۔۔۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خلیجی ممالک کے کاروبار میں ان کی شراکت نہ صرف وسیع پیمانے پر ہے بلکہ روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ مشہور ہے کہ کیرالہ سے جو بھی بندہ گلف میں وارد ہوتا ہے وہ عربی زبان پر قابل قبول دسترس رکھتا ہے۔ صرف مسلم نہیں بلکہ غیرمسلم بھی عربی سیکھ کر ہی گلف میں قدم رکھتا ہے۔ اگرتو وہ مسلم ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی بنیاد پر اس نے عربی سیکھی ہوگی لیکن جو غیرمسلم ہے ۔۔۔ اسے تو آپ کے کلیے کے مطابق مسلمانوں کی مخصوص زبان سیکھنی ہی نہ چاہیے تھی! پھر سیکھنے کی جو بھی وجہ پس پشت رہی ہو ۔۔۔ کیا یہ وجہ اس بات کا اظہار نہیں کہ غیر مسلم طبقہ زبان کا لازمی رشتہ مذہب سے جوڑنا ضروری نہیں سمجھتا؟
اسی طرح بی۔بی۔سی کو عربی زبان میں بھی سروس فراہم کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔
تو پھر ہم یہ سعئ لاحاصل پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟