• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کے شبہات کا رد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حلول



اسلام میں اس عقیدہ کی داغ بیل عبد اللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی یہ شخص یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا تھا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ قرون اولی میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اسکا انتقام لینے کے لئے منافقانہ طور پر مسلمان ہوا۔ مسلمانوں کے عقائد میں تفرقہ کے بیج بو کرانتشار پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہ شخص درویشی کا لبادہ اوڑہ کر زہد و تقوی کے روپ میں سامنے آیا۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازشوں میں کامیابی کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بطور ہیرو منتخب کیا۔
1۔ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں اور پہلے تینوں خلیفوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ چونکہ خود درویشی کے روپ میں آیا تھا لہذا ظاہر وباطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کئے اور بتلایا کہ علی رضی اللہ عنہ، اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اوراللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ "ص67"
عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکاروں نصیریہ، کیسانیہ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اند داخل ہوگیا۔ حسین بن منصور حلاج اس عقیدہ کے علم بردارِ اعلی تسلیم کئے جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شہرت و دوام

اس عقیدہ کو شہرت و دوام حلاج سے ہی ہوئی اسکا دعوی تھا کہ اللہ اس کے اپنے اندر حلول کرگیا ہے۔
(ص68)
قرآن کا جواب

ابن عربی نے حلاج کے متعلق فتوحاتِ مکیہ میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ مشہور بزرگ شیخ ابو عمر عثمان مکی حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کیا لکھ رہے ہو؟ حلاج نے جواب دیا قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔ حسین بن منصور حلاج جو قرآن کا جواب لکھ رہے تھے اسکی تعریف مولانا روم ، علی ھجویری اور خواجہ نظام الدین نے کی ہے مگر سلیمان ندوی نے رسالہ معارف جلد 2 شمارہ 4 میں حسین بن منصور حلاج پر شدید تنقید کی ہے اور ابن شعد قرطبی، ابن موقل، ابن ندیم، ابن مسکویہ مسعودی، ابن جوزی، ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ حلاج ایک گمراہ اور شعبدہ باز شخص تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر یقینی شجرہ


تصوف میں چار خاندان نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور انکے ذیلی چودہ خانوادے ہیں جن میں رفاعیہ، شطاریہ، مولویہ، بندگیہ، کبرویہ، نوشاہیہ، شاذلیہ، جنیدیہ اور قلندریہ زیادہ مشہور ہیں۔ مجدد الف ثانی کی ذات میں چاروں بڑے خاندانوں کا فیض جمع ہوگیا ہے۔ ان کے احوال و مقامات طرز سلوک اور تربیت سالکین میں کچھ تفاوت اور اختلاف کارفرما ہیں۔ ویسے منزل چونکہ سب کی ایک ہے راہ کی اکثر گھاٹیاں اور موڑ مشترک واقع ہوئے ہیں۔
اکثر سلاسل کا واسطہ علی رضی اللہ عنہ سے حسن بصری کے ذریعہ سے ہے(جبکہ محدثین نے حسن بصری اور علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات اور سماع کو غیر یقینی کہا ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شجرہ خواجگان

(1) چشتیہ:
(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم (2) علی رضی اللہ عنہ (3) حسن بصری رحمہ اللہ۔۔۔۔۔۔ یہ سلسسلہ علی رضی اللہ کے ذریعے ہے۔
(2) نقشبندیہ:
(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم (2) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (3) سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (4) قاسم بن مجتبٰی (5) امام جعفر صادق۔۔۔
(3) قادریہ امامیہ:
(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم (2) علی رضی اللہ عنہ (3) امام حسن مجتبٰی (4) امام حسین رضی اللہ عنہ (5) زین العابدین (6) امام باقر۔۔۔۔۔
(4) سہروردیہ
(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم (2) علی رضی اللہ عنہ (3) حسن بصری
تصوف سے متعلق یہ مختصراحوال و نظریات قارئین کی نظر کی ہیں ان کی شناعت سب پر عیاں ہے ان کا قرآن و سنت تعامل صحابہ رضی اللہ عنہ و تاتعین و ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے تعارض بھی مخفی نہیں ہے۔ کشف و الہام اور علم باطنی و علم سینہ کے ذریعہ ختم نبوت کے عقیدہ کو تارتار کرلیا گیا ہے۔ صحیح اسلام کے مقابل روافض کا خود ساختہ یا یہود سے اخذ کردہ متوازی دین تصوف کے نام سے رائج کرلیا گیا یہ تو اسلام کے دشمنوں کی سازش تھی جسے علامہ اقبال نے غیراسلامی پودا کہا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دینِ حق کی تبلیغ کے دعوےدار۔ عقیدہ ختم نبوت کے علمبردار، اس کے خلاف کچھ کرنے کی بجائے خود اس بیماری میں مبتلا ہوگئے سوائے چند ایک کے اکثریت نے اسے اسلامی ثابت کرنے اور خود کو ان سلاسل میں پرونے کی کوشش کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تصوف کے خلاف اہل السنہ کا رویہ

قدر آفاقی نے تصوف کی مخالفت سے متعلق اہل سنت کا رویہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں:
اہل سنت و الجماعت نے صوفیاء کے خلاف اپنا طرز عمل کافی آہستگی سے ظاہر کیا نیز وہ کبھی ان کو مطعون کرنے میں متفق رائے نہیں ہوئے۔ سنیوں کے صرف دو گروہوں نے تصوف پر تنقید کی۔ امام احمد بن حمبل رحمہ اللہ نے تصوف پر یہ تنقید کی کہ وہ ظاہر عبادات کے مقابلہ میں مراقبہ پر زور دیتا ہے اور روح کیلئے اللہ کی ذات سے براہ راست تقرب کی راہ نکالتا ہے اور بعد ازاں ایک مسلمان کو شرطی فرائض کی پابندی سے آزاد کردیتا ہے چنانچہ آپ رحمہ اللہ کے شاگرد خاص خشیش رحمہ اللہ اور ابو زرعہ رحمہ اللہ نے تصوف کو زنادقہ کے کفر و الحاد کی ایک شاخ "الروحانیہ " میں شامل کیا ہے۔
ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ معتزلہ اور ظاہریوں پر مشتمل تھا۔ یہ عشق کے ذریعے خالق و مخلوق کے تقرب کو لایعنی سمجھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ نظریاتی طور پر تشبیہ اور عمل ہر لحاظ سے ملامست کے حلول کے مترادف ہے۔ اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تصوف پر تنقید کی ہے
"صفحہ 173"
ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تنقید دیگرتمام ائمہ کی بنسبت زیادہ مفصل اور عام فہم ہے۔ قدر آفاقی لکھتے ہیں:
ابن الجوزی رحمہ اللہ سے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی تصوف کو ہدف تنقید بنایا لیکن ان کی تنقید فلسفہ تصوف اور تصوف کی فکری و نظری اساسوں پرتھی۔ ان کے مقابلہ میں ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تصوف کا ایک معاشرتی ادارے اور ایک مخصوص طرز زندگی کی حیثیت سے جائزہ لیا۔ ابن تیمیہ کا رول ایک فلسفہ اور مفکر کا سا تھا اور ابن الجوزی کا ایک معاشرتی مصلح کا سا
"ص226"
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے صوفیا کے اقوال، اعمال اور اصطلاحات کا موازنہ قرآن، حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے اسوہ حسنہ کے خلاف ہیں اس کی وجہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ صوفیاء کے عدم توازن کا اصل سبب علم دین سے ان کی غفلت ہے۔ فرماتے ہیں۔ ترجمہ :
ابلیس نے صوفیاء پر اس طرح جادو چلایا کہ علم سے انہیں روک دیا اور انہیں باور کرایا کہ مقصود اصلی تو عمل ہے پھر جب علم کا چراغ بجھ گیا تو وہ اندھیرے میں خبط مارنے لگے۔
"ص252"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم دشمنی کا نتیجہ

صوفیاء کی ایک جماعت نے تو اس سلسلہ میں اس حد تک غلو کیا کہ علم شریعت اور طریقت و تصوف کو جدا جدا بلکہ متضاد قرار دیا یہاں تک کہ اپنی کتابیں جو علم کا خزانہ تھیں، دفن کردیں یا دریا برد کردیں یا جلا ڈالیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب مقصود اصلی عمل ہے تو علم بیکار ہے بلکہ حقیقت پرستوں کے باعث ننگ و عار ہے "ص456-457"
اس علم دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصوف اسلام کے مفہوم کی حقیقی تعبیربننے کے بجائے ایک متوازی نظام زندگی بن گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصطلاحات

ابن الجوزی رحمہ اللہ اصطلاحات کی بابت کہتے ہیں۔
زُھد: اسلام میں حُب دنیا سے پرہیز کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مال و دولت سے مکمل اجتناب برتا جائے لیکن صوفیاء کے ہاں زُہد یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں خواہ مال حلال طریقہ سے کمایا اور نیک راہ میں خرچ کرے فقراء کیساتھ جنت میں نہ جاسکے گا
"ص272"
صوفیاء کے خیال میں مال نیک مقاصد کےلئے جمع کرنا بھی توکل کے خلاف اور اللہ کے ساتھ سوء ظن ہے۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس نظرئیے کی وجہ سے مال سے دستبردار ہوگئے انہیں پھر صدقات پر بھروسہ کرنا پڑا اب تو صوفیاء کمانے کی طاقت کے باوجود مسجدوں اور خانقاہوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کی خیرات پر بھروسہ کرتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کوئی مالدار صدقہ لے کر آئے اور دستک دے۔ یہ لوگ رسم زہد کی جان کاریوں کا بری طرح شکار ہیں۔ تصوف کی رسم بھی نبھانی ہے اور مال بھی جمع کرنا ہے۔ یہ ان عطیات سے دولت اکٹھی کرتے ہیں ۔ مثلا ابوالحسن متنظم رباط ابن اللحیان کے بسطانی تھے اور زندگی بھر تصوف پوش رہے مرے تو چار ہزار دینار ترکہ چھوڑا۔ صوفیاء کی یہ روش سراسر خلاف اسلام ہے۔
اللہ نے خود مال کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔
وَلَا تُؤتُواْ ٱلسُّفَهَآءَ أَموَٲلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُم قِيَـٰمً۬ا
اپنے مال بیوقوفوں کے سپرد نہ کرو مال کو اللہ نے تمہارے لئے" قوت کا موجب"بنایا ہے۔
لباس کے معاملہ میں بھی صوفیاء کا مسلک اسی قسم کا ہے اسلاف تنگدستی کی بناء پرپیوند لگے ہوئے معمولی اور بعض اوقات ایک جوڑا ہونے کی وجہ سے میلے کپڑے پہنتے ہیں لیکن صوفیاء مختلف رنگوں کے کپڑے لیتے ہیں اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑ کر لباس بنا لیتے ہیں تاکہ پیوند لگا معلوم ہو-
"تلبیس ابلیس ص 286"
ایسے بھی صوفیاء ہیں جو صوف کا لباس پہنتے ہیں تو جبے کی آستینیں ظاہر کردیتے ہیں یا اندر تو نرم لباس پہنتے ہیں اور اس کے اوپر دکھانے کے لئے صوف کا جبہ ڈالدیتے ہیں
"ایضا"
اس کو اسلام نے لباسِ شہرت کہا ہے جس سے ریاکاری جھلکتی ہے۔
کھانے کے معاملے میں بھی زہد کے مخصوص مفہوم نے صوفیاء کو مضحکہ خیز حد تک سخت اور انتہا پسند بنالیا ہے۔ مثلا کئی کئی دن تک نہ کھانا۔ جب کھانا تو بہت کم مقدار میں کھانا، تصوف کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ سہل بن عبداللہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کچھ مدت تک بیری کے پتے کھاتے رہے پھر کچھ عرصہ بھوسے سے گزارا کیا۔
"ص312"
علی روباری کا قول ہے کہ
اگر صوفی پانچ روز کے بعد کہے کہ میں بھوکا ہوں تو اسے کہو کہ بازار میں رہے کوئی دھندا کرے وہ تصوف کے لائق نہیں۔
حالانکہ یہ سب چیزیں کسی طرح بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہد، مکھن ملا کر کھایا، ککڑی چھوہارے ملا کر کھانا پسند کرتے تھے۔ ص 314
توکل: صوفیاء نے توکل کو جو مفہوم عطا کیا ہے اس میں بھی ان کی روایتی انتہا پسندی پوری طرح کار فرما ہے۔
ابو سلیمان دارارنی کا قول ہے
اگر ہم اللہ پر توکل کرتے تو کبھی دیواریں تعمیر نہ کرتے، چور کے ڈر سے دروازے بند نہ کرتے۔
ذوالنون مصری کہتا ہے
میں نے برسوں سفر کیا لیکن ایک موقعہ کے علاوہ میرا توکل کبھی درست نہیں رہا اس موقعہ پر ہوا یوں کہ کشتی دریا کے درمیان ٹوٹ گئی۔ پہلے میں نے ایک تختے کا سہارا لیا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اگر اللہ نے میرے ڈوب جانے کا حکم دیا ہے تو یہ تختہ مجھے کوئی فائدہ نہ دے گا میں نے تختہ چھوڑ دیا اور تیر کر کنارے آگیا۔
ص400
اسی طرح عبداللہ بن سالم کے خیال میں
کھانا توکل کے خلاف ہے
ص405
بعض صوفیاء
علاج کوبھی خلاف توکل سمجھتے ہیں۔
ص405
حالانکہ اسلام میں توکل کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے بلکہ اعتماد القلب علی اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعقد فتوکل"
اس اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر توکل کر۔
اور اللہ کا ارشاد ہے
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ
اور اپنے اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف اپنی طاقت کے مطابق تیاری کرکے رکھو
صوفیاء کے ہاں توکل سے متعلق جو عجیب و غریب واقعات ملتے ہیں ان پر ابن الجوزی رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
بغیر توشہ لیے سفر پر جانا یا بدبودار مرے ہوئے جانور کے پاس جا کر لیٹنا جیسے عبداللہ بن خفیف سے منقول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جذام زدہ آدمی سے بھاگو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سفر پر روانہ ہوئے تو زادِ راہ ساتھ لیا تو پھر صوفیاء کا توکل کیسا؟
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بعض صوفیاء پر بھی تنقید کی ہے مثلا ابو زید کا قول ہے
میں چاہتا ہوں کہ قیامت جلد قائم ہو اور میں اپنا خیمہ جہنم پر نصب کروں تاکہ اس سے ثابت ہو جائے کہ خدا کا فضل صرف دوستوں پر نہیں دوزخ پر بھی ہوتا ہے
اسی طرح کچھ صوفیاء بعض لوگوں کو اجرت پر مقرر کرتے تھے تاکہ
انہیں (صوفیاء کو) گالیاں دیں تاکہ ان کا نفس حلم و بردباری سیکھے۔
حسن بن علی وامغانی سے ایک شخص نے کہا کہ
میں روزانہ روزہ رکھتا ہوں اور رات کو نماز پڑھتا ہوں مگر آپ کی باتیں میرے دل میں نہیں آتیں تو حسن بن عی نے کہا تیرا نفس ابھی حجاب میں ہے جاکر حجام سے سر اور داڑھی منڈواہ لے اور ایک بوری اخروٹ کی لیکر بازار میں جا اور اعلان کردے کہ جو مجھے ایک تھپڑ مارے گا میں اسے ایک اخروٹ دوں گا۔
اسی طرح کے بے شمار خلاف قرآن، خلاف سنت، خلاف عقل باتیں ہیں۔ جن پر ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلبیس ابلیس میں تنقید کی ہے
اسی طرح امام ابن تیمہ کی صوفیاء پر تنقید نے بھی اپنی کتاب اصحاب صفہ اور تصوف کی حقیقت (جو کہ دراصل انکا ایک فتوی ہے جس کا اردو ترجمہ اس نام سے شائع ہوا ہے) میں صوفیاء کی اصطلاحات پر تنقید کی ہے فرماتے ہیں: ترجمہ:
سیٹیوں، تالیوں اور تصائد سننے کیلیے جمع ہونا (جسے حال کہا جاتا ہے) یہ فعل نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نہ اصحاب صفہ نہ سلف کی کسی جماعت نہ تابعین بلکہ قرون اولی میں سے کسی نے نہیں کیا اس وقت صرف قرآن سماع ہوتا تھا
ص41
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
القاب: رہے وہ القاب و اسماء جو اکثر نساک وعوام کی زبانوں پر جاری ہیں مثلا غوث، داتا، اوتار، قطب، نجباء، تو یہ اسماء نہ کتاب اللہ میں وارد ہیں نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں البتہ ابدال سے متعلق منقطع الاسناد روایت ہے۔ ص59
اور یہ اعتقاد روافض کے اعتقاد کی ایک قسم ہے کہ ہر زمانے میں ایک امام معصوم کا ہونا ضروری ہے جو تمام مکلفین پر حجت ہو۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اولیاء کے مراتب قائم کرتے ہیں وہ روافض کی ایک قسم ہیں۔ ص65
ابدال: اس سے متعلق جو مرفوع حدیثیں آتی ہیں اغلب یہ ہے کہ یہ کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے کیونکہ حجاز و یمن میں ایمان اس وقت سے تھا جب شام و عراق فتح بھی نہیں ہوئے تھے اور سراسر کفر وشرک تھے۔ ص67
خاتم الاولیاء: اسی طرح خاتم الاولیاء بھی ایک بے معنی اور باطل لفظ ہے سب سے پہلے یہ لفظ محمد بن علی الحکیم الترمذی نے استعمال کیا اس کے بعد ایک خاص گروہ نے اسے لقب کے طور پر اختیار کیا اور اس گروہ کا ہر فرد خاتم الاولیاء ہونے کا دعوی کرتا ہے مثلا ابن حمویہ اور ابن العربی وغیرہ یہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ "معاذاللہ" بعض اعتبارات سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل ہیں اور یہ تمام کفریہ دعوی محض اس لالج میں کہ خاتم الانبیاء کی مسند ریاست مل جائے حالانکہ یہ لوگ سخت غلطی اور گمراہی پر ہیں۔۔۔۔۔۔۔ص72-73
قلندری: رہے یہ داڑھی منڈھے قلندری تو یہ جاہل و گمراہ ہیں۔ ضلالت و جہالت کے مجسمے ہیں۔ ان میں سے اکثر اللہ اور رسول سے کافر ہیں۔ نماز روزہ کو واجب نہیں جانتے جو کچھ اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے۔ص73
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آخر میں سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب قرآن سے تقابل سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ہندوستان میں انگریز کے خلاف شاہ اسماعیل اور سید احمد کی تحریک جہاد کیوں ناکام ہوئی؟ ہم پر انگریز کیوں مسلط ہوا اور آج تک انکی تعلیمات و تمدن سے نجات نہ مل سکی۔
یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ اسماعیل صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسباب ناکامی: اسکی آخری مجددانہ تحریک کی ناکامی کے اسباب پر بحث کرنا عموما ان حضرات کے مذاق کے خلاف ہے جو بزرگوں کا ذکر عقیدت ہی کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ جو کچھ میں اس عنوان کے تحت عرض کروں گا وہ میرے بہت سے بھائیوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے گا اگر ہمارا مقصد اس تمام ذکر و اذکار سے محض سابقین بالایمان کو خراج تحسین ہی پیش کرنا نہیں ہے بلکہ آئندہ تجدید دین کے لیے انکے کام سے سبق حاصل کرنا ہے تو ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تاریخ پر تنقیدی نگاہ ڈالیں اور ان بزرگوں کا سراغ لگانے کے ساتھ ان اسباب کا کھوج بھی لگائیں جن کی وجہ سے یہ اپنے مقصد کو پہنچنے میں ناکام ہوئے۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور انکے صاحب زادوں نے علماء حق اور صالحین کی عظیم القدر جماعت پیدا کی اور پھر سید صاحب اور شاہ صاحب نے صلحاء و اتقیاء کا جو لشکر فراہم کیا ہے اسکے حالات پڑھ کر ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرون اولی کے صحابہ اور تابعین کی سیرت پڑھ رہے ہیں اور یہ خیال کرکے ہمیں حیرت ہوتی ہے ہم سے اس قدر قریب زمانہ میں اس پایہ کے لوگ گزرے ہوئے ہیں مگر ساتھ ہی ہمارے دل میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے اتنی زبردست انقلابی و اصلاحی تحریک جس کے لیڈر متقی اور صالح اور ایسے سرگرم مجاہد تھے انتہائی ممکن سعی عمل کے باوجود ہندوستان پر اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوئے اور اسکے برعکس کئی ہزار میل سے آئے ہوئے انگریز یہاں خالص جاہل حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس سوال کو عقیدت مندی کے جوش میں لاجواب چھوڑ دینے کے معنی ہیں لوگ صلاح وتقوی اور جہاد کو اس دنیا کی اصلاح کے معاملہ میں ضعیف الاثر سمجھنے لگیں اور یہ خیال کر کے مایوس ہوجائیں جب ایسے زبردست متقیانہ جہاد سے کچھ نہ بنا تو آئندہ کیا بنے گا اس قسم کے شبہات فی الواقع لوگوں کی زبان سے سن چکے ہیں بلکہ حال ہی میں جب مجھے علی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا تو اسٹریچی ہال کے بھرے جلسے میں میرے سامنے یہی شبہہ پیش کیا گیا تھا اور اسے رفع کرنے کے لیے مجھے ایک مختصر تقریر کرنی پڑی تھی۔ نیز مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے اس وقت علماء صالحین کی جو جماعت ہمارے درمیان موجود ہے وہ بالعموم اس مسئلہ میں بالکل خالی الذہن ہے حالانکہ اگر اس کی تحقیق کی جائے تو بہت سے ایسے سبق ہمیں مل سکتے ہیں جن سے استفادہ کر کے آئندہ زیادہ اور بہتر اور صحیح کام ہوسکتا ہے۔
 
Top