اصطلاحات
ابن الجوزی رحمہ اللہ اصطلاحات کی بابت کہتے ہیں۔
زُھد: اسلام میں حُب دنیا سے پرہیز کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مال و دولت سے مکمل اجتناب برتا جائے لیکن صوفیاء کے ہاں زُہد یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں خواہ مال حلال طریقہ سے کمایا اور نیک راہ میں خرچ کرے فقراء کیساتھ جنت میں نہ جاسکے گا
"ص272"
صوفیاء کے خیال میں مال نیک مقاصد کےلئے جمع کرنا بھی توکل کے خلاف اور اللہ کے ساتھ سوء ظن ہے۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس نظرئیے کی وجہ سے مال سے دستبردار ہوگئے انہیں پھر صدقات پر بھروسہ کرنا پڑا اب تو صوفیاء کمانے کی طاقت کے باوجود مسجدوں اور خانقاہوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کی خیرات پر بھروسہ کرتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کوئی مالدار صدقہ لے کر آئے اور دستک دے۔ یہ لوگ رسم زہد کی جان کاریوں کا بری طرح شکار ہیں۔ تصوف کی رسم بھی نبھانی ہے اور مال بھی جمع کرنا ہے۔ یہ ان عطیات سے دولت اکٹھی کرتے ہیں ۔ مثلا ابوالحسن متنظم رباط ابن اللحیان کے بسطانی تھے اور زندگی بھر تصوف پوش رہے مرے تو چار ہزار دینار ترکہ چھوڑا۔ صوفیاء کی یہ روش سراسر خلاف اسلام ہے۔
اللہ نے خود مال کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔
وَلَا تُؤتُواْ ٱلسُّفَهَآءَ أَموَٲلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُم قِيَـٰمً۬ا
اپنے مال بیوقوفوں کے سپرد نہ کرو مال کو اللہ نے تمہارے لئے" قوت کا موجب"بنایا ہے۔
لباس کے معاملہ میں بھی صوفیاء کا مسلک اسی قسم کا ہے اسلاف تنگدستی کی بناء پرپیوند لگے ہوئے معمولی اور بعض اوقات ایک جوڑا ہونے کی وجہ سے میلے کپڑے پہنتے ہیں لیکن صوفیاء مختلف رنگوں کے کپڑے لیتے ہیں اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑ کر لباس بنا لیتے ہیں تاکہ پیوند لگا معلوم ہو-
"تلبیس ابلیس ص 286"
ایسے بھی صوفیاء ہیں جو صوف کا لباس پہنتے ہیں تو جبے کی آستینیں ظاہر کردیتے ہیں یا اندر تو نرم لباس پہنتے ہیں اور اس کے اوپر دکھانے کے لئے صوف کا جبہ ڈالدیتے ہیں
"ایضا"
اس کو اسلام نے لباسِ شہرت کہا ہے جس سے ریاکاری جھلکتی ہے۔
کھانے کے معاملے میں بھی زہد کے مخصوص مفہوم نے صوفیاء کو مضحکہ خیز حد تک سخت اور انتہا پسند بنالیا ہے۔ مثلا کئی کئی دن تک نہ کھانا۔ جب کھانا تو بہت کم مقدار میں کھانا، تصوف کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ سہل بن عبداللہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کچھ مدت تک بیری کے پتے کھاتے رہے پھر کچھ عرصہ بھوسے سے گزارا کیا۔
"ص312"
علی روباری کا قول ہے کہ
اگر صوفی پانچ روز کے بعد کہے کہ میں بھوکا ہوں تو اسے کہو کہ بازار میں رہے کوئی دھندا کرے وہ تصوف کے لائق نہیں۔
حالانکہ یہ سب چیزیں کسی طرح بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہد، مکھن ملا کر کھایا، ککڑی چھوہارے ملا کر کھانا پسند کرتے تھے۔ ص 314
توکل: صوفیاء نے توکل کو جو مفہوم عطا کیا ہے اس میں بھی ان کی روایتی انتہا پسندی پوری طرح کار فرما ہے۔
ابو سلیمان دارارنی کا قول ہے
اگر ہم اللہ پر توکل کرتے تو کبھی دیواریں تعمیر نہ کرتے، چور کے ڈر سے دروازے بند نہ کرتے۔
ذوالنون مصری کہتا ہے
میں نے برسوں سفر کیا لیکن ایک موقعہ کے علاوہ میرا توکل کبھی درست نہیں رہا اس موقعہ پر ہوا یوں کہ کشتی دریا کے درمیان ٹوٹ گئی۔ پہلے میں نے ایک تختے کا سہارا لیا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اگر اللہ نے میرے ڈوب جانے کا حکم دیا ہے تو یہ تختہ مجھے کوئی فائدہ نہ دے گا میں نے تختہ چھوڑ دیا اور تیر کر کنارے آگیا۔
ص400
اسی طرح عبداللہ بن سالم کے خیال میں
ص405
بعض صوفیاء
علاج کوبھی خلاف توکل سمجھتے ہیں۔
ص405
حالانکہ اسلام میں توکل کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے بلکہ اعتماد القلب علی اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اعقد فتوکل"
اس اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر توکل کر۔
اور اللہ کا ارشاد ہے
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ
اور اپنے اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف اپنی طاقت کے مطابق تیاری کرکے رکھو
صوفیاء کے ہاں توکل سے متعلق جو عجیب و غریب واقعات ملتے ہیں ان پر ابن الجوزی رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
بغیر توشہ لیے سفر پر جانا یا بدبودار مرے ہوئے جانور کے پاس جا کر لیٹنا جیسے عبداللہ بن خفیف سے منقول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جذام زدہ آدمی سے بھاگو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سفر پر روانہ ہوئے تو زادِ راہ ساتھ لیا تو پھر صوفیاء کا توکل کیسا؟
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بعض صوفیاء پر بھی تنقید کی ہے مثلا ابو زید کا قول ہے
میں چاہتا ہوں کہ قیامت جلد قائم ہو اور میں اپنا خیمہ جہنم پر نصب کروں تاکہ اس سے ثابت ہو جائے کہ خدا کا فضل صرف دوستوں پر نہیں دوزخ پر بھی ہوتا ہے
اسی طرح کچھ صوفیاء بعض لوگوں کو اجرت پر مقرر کرتے تھے تاکہ
انہیں (صوفیاء کو) گالیاں دیں تاکہ ان کا نفس حلم و بردباری سیکھے۔
حسن بن علی وامغانی سے ایک شخص نے کہا کہ
میں روزانہ روزہ رکھتا ہوں اور رات کو نماز پڑھتا ہوں مگر آپ کی باتیں میرے دل میں نہیں آتیں تو حسن بن عی نے کہا تیرا نفس ابھی حجاب میں ہے جاکر حجام سے سر اور داڑھی منڈواہ لے اور ایک بوری اخروٹ کی لیکر بازار میں جا اور اعلان کردے کہ جو مجھے ایک تھپڑ مارے گا میں اسے ایک اخروٹ دوں گا۔
اسی طرح کے بے شمار خلاف قرآن، خلاف سنت، خلاف عقل باتیں ہیں۔ جن پر ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلبیس ابلیس میں تنقید کی ہے
اسی طرح امام ابن تیمہ کی صوفیاء پر تنقید نے بھی اپنی کتاب اصحاب صفہ اور تصوف کی حقیقت (جو کہ دراصل انکا ایک فتوی ہے جس کا اردو ترجمہ اس نام سے شائع ہوا ہے) میں صوفیاء کی اصطلاحات پر تنقید کی ہے فرماتے ہیں: ترجمہ:
سیٹیوں، تالیوں اور تصائد سننے کیلیے جمع ہونا (جسے حال کہا جاتا ہے) یہ فعل نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نہ اصحاب صفہ نہ سلف کی کسی جماعت نہ تابعین بلکہ قرون اولی میں سے کسی نے نہیں کیا اس وقت صرف قرآن سماع ہوتا تھا
ص41