- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
پہلا سبب
پہلی چیز جو مجھ کو مجدد الف ثانی کے وقت سے شاہ صاحب اور انکے خلفاء تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پوار اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرنے کی ضرورت تھی۔ حاشا کہ مجھے فی نفسہ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت احسان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کہہ رہا ہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کو محتاج نہیں ہے اس کے لیے دوسرا قالب بھی ممکن ہے اس کے لیے زبان بھی دوسری اختیار کی جاسکتی ہے۔ رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جاسکتا ہے۔ پیری مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں پھر کیا ضرورت ہے اس پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہورہی ہے اسکی کثرت اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی بھی تعلیم دے بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواج عام سے اسکے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔
پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہوجاتی ہے جب وہ مریض کے لیے نقصان دہ ہو اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بناء پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کا چسکا لگا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چینا بیگم یاد آجاتی ہے جو صدیوں ان کو تھپک تھپک سلاتی رہی ہیں بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہوچکی ہے یعنی سجادہ رنگین کن گرتے پیر مغاں کوید۔ والی ذہنیت جس کے بعد پیر صاحب میں اور اربان من دون اللہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ فکرونظر مفلوج قوت تنقید ماوف علم وعقل کا استعمال موقوف اور دل و دماغ پر بندی شیخ کا ایسا مکمل تسلط کہ گویا شیخ ان کا رب ہے اور یہ اس کے مربوب پھر جہاں کشف و الہام کی بات شروع ہوئی معتقدین کی ذہنی غلامی کے بند اور زیادہ مضبوط ہونے شروع ہوجاتے ہیں اس کے بعد صوفیانہ رموز و اشارات کی باری آتی ہے جس سے مریدوں کی قوت واہمہ کو گو تازیانہ لگ جاتا ہے اور وہ انہیں لے کر ایسی اڑتی ہے کے بے چارے ہر وقت عجائبات و طلسمات ہی کے عالم میں سیر کرتے رہتے ہیں واقعات کی دنیا ٹہرنے کا موقع غریبوں کو کم ملتا ہے۔ مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد ناواقف تھے نہ شاہ صاحب دونوں کے کلام میں اس پر تنقید موجود ہے مگر غالبا اس مرض کی شدت کا انہیں پورا اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کو پھر وہی غذا دے دی جو اس میں مہلک ثابت ہوچکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونوں کا حلقہ پھر اسی پرانے مرض سے متاثر ہوتا چلا گیا اگرچہ مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر وہی روش اختیار کی جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی تھی لیکن شاہ ولی اللہ کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی نہ تھا جس کا اشارہ شاہ اسماعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی سید صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا اس لیے مرض صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی حتی کہ سید صاحب کی شہادت کے بعد ہی ایک گروہ وہ ان کے حلقہ میں ایسا پیدا ہو گیا جو شیعوں کی طرح ان کی غیبوبیت کا قائل ہوا اور اب تک ان کے ظہور ثانی کا منتظر ہے۔
اب جس کسی کو تجدید دین کے لیے کام کرنا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ متصوفین کی زبان و اصطلاحات سے رموز و اشارات سے لباس و اطوار سے پیری مریدی سے اور ہر اس چیز سے جو اس طریقہ کی یاد تازہ کرنے والی ہو مسلمانوں کو اس طرح پرہیز کرئے جیسے ذیابطیس کے مریض کو شکر سے پرہیز کرایا جاتا ہے۔ (تجدید و احیائے دین ص 114-122 ملخص)۔
اہل تصوف جو خود کو اہل حقیقت کہتے ہیں انکی اور اہل حق کی یہ چپقلش تا حال جاری ہے اس سلسلہ کی ایک کڑی پیش نظر کتاب:انسانی عظمت کی حقیقت، ہے یہ دراصل علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ کا لکھا ہوا مقدمہ ہے اسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مولوی عبدالکریم بیر شریف کی ایک متصوفانہ تقریر بزبان سندھی انسان کی عظمت تھی اس کا جواب ایک حنفی المسلک جناب محمد حیات لاشاری صاحب نے لکھا اور اس پر شاہ صاحب سے مقدمہ لکھوایا ( بعد میں لاشاری صاحب اہلحدیث ہوگئے) لاشاری صاحب کی اصل کتاب تو کسی وجہ سے مفقود ہو گئی مگر شاہ صاحب رحمہ اللہ کا تحریر کردہ مقدمہ علیحدہ مسودہ کی صورت میں موجود رہا جسے سندھی زبان میں شائع کرایا گیا اور علماء نے اسے قبول عام بخشا موضوع اور کتاب کی افادیت کے پیش نظر والدارالرشیدیہ نے اپنی شاندار روایات کے مطابق اسکو اردو میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ترجمہ کی اہم ذمہ داری حافظ عبدالحمید گوندل صاحب نے احتیاط سے بحسن و خوبی نبھائی ہے راقم کو مقدمہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی چونکہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا انداز نہایت علمہ ہوتا ہے اسلیے عوام الناس ان کی کتب سے کما حقہ استفادہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اسلیے راقم نے حتی الوسع موضوع کو عوام الناس کے لیے آسان فہم بنانے کی غرض سے تفصیلی مقدمہ لکھا ہے اگرچہ تصوف کی تردید و تحقیق پر مزید کام ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ علمائے حق کرتے رہیں گے یہ کتاب اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے امید ہے کہ اہل حق عوام اس سے استفادہ کریں گے مزید تحقیق و تنقید کے لیے کتاب "انسانی عظمت کی حقیقت" ایک سنگ میل کا کردار ادا کرے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مصنف رحمہ اللہ کی اعلی مترجم، ناشر اور راقم کی ادنی سی کوششوں کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور تمام معاونین کیلیے ذریعہ نجات اخروی بنائے۔ آمین۔
پہلی چیز جو مجھ کو مجدد الف ثانی کے وقت سے شاہ صاحب اور انکے خلفاء تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پوار اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرنے کی ضرورت تھی۔ حاشا کہ مجھے فی نفسہ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت احسان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کہہ رہا ہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کو محتاج نہیں ہے اس کے لیے دوسرا قالب بھی ممکن ہے اس کے لیے زبان بھی دوسری اختیار کی جاسکتی ہے۔ رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جاسکتا ہے۔ پیری مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں پھر کیا ضرورت ہے اس پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہورہی ہے اسکی کثرت اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی بھی تعلیم دے بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواج عام سے اسکے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔
پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہوجاتی ہے جب وہ مریض کے لیے نقصان دہ ہو اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بناء پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کا چسکا لگا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چینا بیگم یاد آجاتی ہے جو صدیوں ان کو تھپک تھپک سلاتی رہی ہیں بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہوچکی ہے یعنی سجادہ رنگین کن گرتے پیر مغاں کوید۔ والی ذہنیت جس کے بعد پیر صاحب میں اور اربان من دون اللہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ فکرونظر مفلوج قوت تنقید ماوف علم وعقل کا استعمال موقوف اور دل و دماغ پر بندی شیخ کا ایسا مکمل تسلط کہ گویا شیخ ان کا رب ہے اور یہ اس کے مربوب پھر جہاں کشف و الہام کی بات شروع ہوئی معتقدین کی ذہنی غلامی کے بند اور زیادہ مضبوط ہونے شروع ہوجاتے ہیں اس کے بعد صوفیانہ رموز و اشارات کی باری آتی ہے جس سے مریدوں کی قوت واہمہ کو گو تازیانہ لگ جاتا ہے اور وہ انہیں لے کر ایسی اڑتی ہے کے بے چارے ہر وقت عجائبات و طلسمات ہی کے عالم میں سیر کرتے رہتے ہیں واقعات کی دنیا ٹہرنے کا موقع غریبوں کو کم ملتا ہے۔ مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد ناواقف تھے نہ شاہ صاحب دونوں کے کلام میں اس پر تنقید موجود ہے مگر غالبا اس مرض کی شدت کا انہیں پورا اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کو پھر وہی غذا دے دی جو اس میں مہلک ثابت ہوچکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونوں کا حلقہ پھر اسی پرانے مرض سے متاثر ہوتا چلا گیا اگرچہ مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر وہی روش اختیار کی جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی تھی لیکن شاہ ولی اللہ کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی نہ تھا جس کا اشارہ شاہ اسماعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی سید صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا اس لیے مرض صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی حتی کہ سید صاحب کی شہادت کے بعد ہی ایک گروہ وہ ان کے حلقہ میں ایسا پیدا ہو گیا جو شیعوں کی طرح ان کی غیبوبیت کا قائل ہوا اور اب تک ان کے ظہور ثانی کا منتظر ہے۔
اب جس کسی کو تجدید دین کے لیے کام کرنا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ متصوفین کی زبان و اصطلاحات سے رموز و اشارات سے لباس و اطوار سے پیری مریدی سے اور ہر اس چیز سے جو اس طریقہ کی یاد تازہ کرنے والی ہو مسلمانوں کو اس طرح پرہیز کرئے جیسے ذیابطیس کے مریض کو شکر سے پرہیز کرایا جاتا ہے۔ (تجدید و احیائے دین ص 114-122 ملخص)۔
اہل تصوف جو خود کو اہل حقیقت کہتے ہیں انکی اور اہل حق کی یہ چپقلش تا حال جاری ہے اس سلسلہ کی ایک کڑی پیش نظر کتاب:انسانی عظمت کی حقیقت، ہے یہ دراصل علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ کا لکھا ہوا مقدمہ ہے اسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مولوی عبدالکریم بیر شریف کی ایک متصوفانہ تقریر بزبان سندھی انسان کی عظمت تھی اس کا جواب ایک حنفی المسلک جناب محمد حیات لاشاری صاحب نے لکھا اور اس پر شاہ صاحب سے مقدمہ لکھوایا ( بعد میں لاشاری صاحب اہلحدیث ہوگئے) لاشاری صاحب کی اصل کتاب تو کسی وجہ سے مفقود ہو گئی مگر شاہ صاحب رحمہ اللہ کا تحریر کردہ مقدمہ علیحدہ مسودہ کی صورت میں موجود رہا جسے سندھی زبان میں شائع کرایا گیا اور علماء نے اسے قبول عام بخشا موضوع اور کتاب کی افادیت کے پیش نظر والدارالرشیدیہ نے اپنی شاندار روایات کے مطابق اسکو اردو میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ترجمہ کی اہم ذمہ داری حافظ عبدالحمید گوندل صاحب نے احتیاط سے بحسن و خوبی نبھائی ہے راقم کو مقدمہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی چونکہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا انداز نہایت علمہ ہوتا ہے اسلیے عوام الناس ان کی کتب سے کما حقہ استفادہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اسلیے راقم نے حتی الوسع موضوع کو عوام الناس کے لیے آسان فہم بنانے کی غرض سے تفصیلی مقدمہ لکھا ہے اگرچہ تصوف کی تردید و تحقیق پر مزید کام ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ علمائے حق کرتے رہیں گے یہ کتاب اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے امید ہے کہ اہل حق عوام اس سے استفادہ کریں گے مزید تحقیق و تنقید کے لیے کتاب "انسانی عظمت کی حقیقت" ایک سنگ میل کا کردار ادا کرے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مصنف رحمہ اللہ کی اعلی مترجم، ناشر اور راقم کی ادنی سی کوششوں کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور تمام معاونین کیلیے ذریعہ نجات اخروی بنائے۔ آمین۔
عبدالعظیم حسن زئی
استاد جامعہ ستاریہ اسلامیہ کراچی