• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کے شبہات کا رد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اب ہم نام نہاد اہل سنت کے رسالے"انسان کی عظمت" پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہیں۔ بظاہر نام انسان کی عظمت رکھا گیا ہے مگر اس میں عظمت انسانی کو نہ قرآن سے بیان کیا گیا ہے اور نہ حدیث سے۔محض عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے ہیں اور وہ بھی یونانی فلاسفروں کی تقلید میں کہ جن کا نہ سر ہے اور نہ پاؤں۔ کیا انسان کی عظمت یہی ہے کہ جس سے خالق اکبر کی اہانت لازم آتی ہو؟ کیا عظمت انسانی یہی ہے کہ نبی اور امتی کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا جائے(دیکھئے انسان کی عظمت ص43)
یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے انسانی عظمت کو مختصر ترین الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے:
ولقد کرمان بنی آدم وحملنٰھم فی البر والبحر ورزقنٰھم من الطیب وفضلنٰھم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلا (بنی اسرائیل70)
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو بحروبر میں (سفر کے لیے) سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
یہ مختصر مگر جامع کلام مولوی عبدالکریم صاحب کی تھدید کے لیے کافی ہے اور ان کی تقریر سے بے پرواہ کرنے والا ہے کیونکہ اس میں نہ نور کو وزن کرنے کا ذکر ہے اور نہ سورج کے عکس کا اس قسم کی تقریریں بجائے ہدایت کے گمراہی پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ (مزید معلومات آگے آئیں گی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ یہ مجلس میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منعقد کی گئی ہے اور اس قسم کی مجلسیں علمی اداروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ (ص24)
اقول۔ اس قسم کی مجلسیں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں بھی ہوتی رہتی تھیں یا نہیں؟ اگر اس دور میں بھی منعقد ہوتیں تھیں تو ثبوت کیا ہے؟ ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین۔
یاد رکھیں کہ میلاد منانا فرعونیوں کی سنت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے بائبل عربی۔
الاصحاح الحادی والاربعون اور بائبل اردو(صفحہ42)
واہ بہت خوب! کیا یہ انسانی عظمت ہے کہ لوگوں کو فرعون کے طریقے پر چلنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ کیا سلف صالحین کے دور میں علمی ادارے موجود نہ تھے؟ اور کیا انہوں نے اس قسم کی مجالس کو کوئی اہمیت دی تھی؟
نہ پیروی قیس نہ فرہاد کریں گے
ہم طرز جنوں اور ہی ایجاد کریں گے​
میلاد یا سالگرہ منانا عیسائیوں کا طریقہ ہے یا مسلمانوں کا ؟
و سوف تری اذا انکشف الغبار
افرس تحت رجلک ام حمار
کمال انسانی کی جتنی بھی منزلیں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی نشاندہی کی ہے اورتم جس منزل کا ذکر کررہے ہو اس کا وجود کہیں بھی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ ایک ہی قسم کی دو چیزیں جب الگ الگ ہوتی ہیں تو ان کی اپنی اپنی طاقت ہوتی ہے لیکن جب انہی دو چیزوں کو ملا دیا جائے تو پھر الگ سے ایک ایسی قوت پیدا ہوتی ہے جو ان دونوں میں موجود نہیں ہوتی۔ دو چیزوں کو مرکب کرنے سے ایک نئی قوت جنم لیتی ہے۔ (ص25)
اقول۔ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کیونکہ ایسی کئی چیزیں ہیں جن کی حقیقت بھی الگ ہےاور قوت بھی الگ۔ مثلا ایسی چیزوں کو ترتیب دینے سے زائد یا الگ طاقت حاصل نہیں ہوتی۔ مثلا کئی متضاد چیزیں اپنی جداگانہ حیثیت میں فائدہ مند ہوتی ہیں لیکن جب انہیں ملا دیا جاتا ہے تو یہ اپنی افادیت کھو کر ضرررساں بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات اور حکماء سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔ ایسی بات پر اپنے مدعا کی بنیاد رکھنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
امام ابن حزم رحمہ اللہ کتاب التقریب ص106 میں فرماتے ہیں:
ما کان بھٰذہ الصفۃ مما یصدق مرۃ ویکذب اخری ولا ینبغی ان یوثق بمقدماتہ ولا بنتائجھاالحادثۃ عنھا ولا یجب ان یلتزم فی اخذ البرھان وانما ینبغی ان یوثق بما قد تیقن انہ لا یخون ابدا
ایسی چیز کہ جس میں دونوں احتمالات پائے جاتے ہوں کہ کبھی صحیح ہے اور کبھی غلط تو ایسی چیز کے مقدمات اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ دلیل کا ہونا لازمی ہے اور مناسب یہ ہے کہ ٹھوس بات پر یقین کی بنیاد رکھی جائے۔
اور تم نے خود جن چار عناصر کا تذکرہ کیا ہے یعنی آگ پانی ہوا اور خاک، انہی پر غور کر لو کہ کیا آگ اور پانی مل سکتے ہیں؟ ہوا اور خاک کا کوئی مقابلہ ہو سکتا ہے؟ لیکن اللہ تعالٰی نے ایسی کئی چیزوں کو ملایا ہے جو باہم متضاد بھی ہیں اور باہم موافق بھی مثلا:
الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ‌ الْأَخْضَرِ‌ نَارً‌ا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ ﴿٨٠ سورہ یسین
وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔
اب تم آگ اور درخت ملا کر دکھاؤ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ جو وجود جس طرف سے بھی کھلے گا لازماََ اسے انہی اجزاء سے بنا ہوا ماننا پڑیگا (ص26)
اقول۔ علاوہ ازیں صفحہ38 دیکھئے فرماتے ہیں کہ علیم کی تجلی آئی تو دماغوں میں علم آیا، کلیم کی تجلی آئی زبانوں میں اثر آیا۔ مرید کی تجلی آئی تو دل میں ارادہ آیا، قدیر کی تجلی آئی تو بدن میں قوت آئی اور وحی کی تجلی نے ہمیں زندہ بنایا۔الخ۔
تمہارے بقول اگر ہر چیز تجلی کی مرہون منت ہے تو پھر ان چار چیزوں کے ملنے سے قوت کیوں نہ آئی آگ، پانی، ہوا اور خاک پر تجلی کا کچھ تو اثر نظر آتا؟ اس عبارت میں جتنے مفسد پہلو ہیں ان کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ اس کا وجود خاکی ہے لہذا اس کا اضافہ بھی خاک سے کیا گیا ہے (ص26)۔
اقول۔ خاک اور غذا میں کیا مناسبت ہے؟ جنات کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے۔
کما ھو نص القرآن والحدیث (خلق الجان من مارج من النار) الرحمن
والحدیث اخرجہ مسلم المشکوۃ باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء علیھم الصلوۃ والسلام الفضل اول

تو جنات کےلیے غذا کس لیے ہے؟
اگر یہ کہو گے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر انسانی غذا زمین کی پیداوار ہے پھر بھی دعوے میں تناقض رہے گا کیونکہ قرآن مجید میں سیدنا عیسی علیہ السلام کی دعا پر آسمان سے المائدہ اترنے کا حکم موجود ہے۔
قَالُوا نُرِ‌يدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا ۔۔﴿١١٣
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم اس میں سے کھائیں۔۔
کیا یہ بھی زمینی پیداور تھی؟
وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ ۔۔﴿٥٧
اور تمہارے لیے من و سلوی اتارا۔
سلوی کے بارے میں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے پرندوں کا شکار مراد ہے اور پرندے زمین پر رہتے ہیں اور زمینی پیداوار کھاتے ہیں مگر من تو آسمان سے نازل کردہ چیز تھی یہ تو زمین کی پیداوار نہ تھی۔ علاوہ ازیں یہ کہ شہداء کی ارواح کو جنت میں سبز پرندے کی شکل دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کما فی الحدیث وقال تعالی عِندَ رَ‌بِّهِمْ يُرْ‌زَقُونَ ﴿١٦٩﴾ آل عمران
کیا اس رزق کو بھی زمینی پیداوار کہیں گے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ جب کوئی چیز ترقی کرتی ہے تو اپنے اردگرد کے ماحول کی کچھ چیزوں کو اپنے وجود میں شامل کر لیتی ہے جبھی ترقی ہوتی ہے۔ (ص26)
اقول۔ یہاں انسان کی کونسی ترقی مراد ہے، جسمانی یا روحانی؟ اگر جسمانی ترقی مراد ہے تو وہ چار عناصر تو پہلے ہی اس میں تسلیم کئے ہیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً۔۔۔﴿٥٤﴾ الروم
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں (ابتداء میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔
جب ماحول میں تمام اشیاء موجود ہیں تو پھر ترقی کی راہ مسدود کیوں ہوئی؟ کمزوری کیوں آئی؟ پیرانہ سالی کا شکار کیوں ہوا؟
اور اگر یہاں روحانی ترقی مراد ہے تو تمہارے بقول ہمارے وجود کو اس ذات بابرکت کے نوری وجود سے ایسے ذرات ملتے رہتے ہیں کہ جن سے ہمارا وجود ہمیشہ جوان رہتا ہے(ص37)
اس عبارت میں جو گوہر افشانیاں کی گئی ہیں ان کا ذکر اپنے اپنے موقع پر آئے گا، ان شاء اللہ۔ مگر اتنا تو بتاؤ کہ کیا ان ذرات کو انسان کی کشش کھینچ کر لاتی ہے؟ معلوم نہیں کہ محویت کے کس عالم میں یہ الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُ‌وحًا مِّنْ أَمْرِ‌نَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِ‌ي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ۔۔۔ ﴿٥٢
اور ا سی طرح ہم نے تمہاری طرف روح القدس کے ذریعے سے قرآن بھیجا تم نہ تو کتا کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو۔
وَمَا كُنتَ تَرْ‌جُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ۔۔ ﴿٨٦
اور تمہیں امید نہ تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی جائے گی مگر تمہارے رب کی مہربانی سے (نازل ہوئی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ مرجان ایک پتھر ہے جو سمندر کی گہرائیوں میں پیدا ہوتا ہے اور سال میں منوں کے حساب سے بڑھتا رہتا ہے۔ ص29
اقول۔ مرجان خالص پتھر نہیں ہے، سندھی ادبی بک بورڈ کی طرف سے شائع کردہ فرہنگ جعفری ص356 ج1 ، دیکھیئے۔ وہاں مرجان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سمندر میں ایک درخت کی پیداوار ہے نیز علامہ حکیم طنطاوی تفسیر الجواہر ص101ج 8 میں لکھتے ہیں:
واما المرجان فانہ صنع حیوانات الصغیرۃ تصنعہ من مواد کلیۃ فتجعلھا مساکن لھا وتبنی تلک المساکن متلاصقۃ متلاھمۃ فتکون منھا تلک الصخور علی اختلاف صورھا واشکالھا۔
مرجان چھوٹے چھوٹے جانوروں کی بنائی ہوئی چیز کا نام ہے جنہیں یہ رنگ کے مواد سے بناتے ہیں پھر اسی کو اپنا جائے مسکن بناتے ہیں۔ یہ گھر تو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں مگر ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پھر اس سے مختلف شکلوں اورصورتوں کے مرجان (پتھر) بنتے ہیں۔
علامہ طنطاوی مزید لکھتے ہیں:
انبات المرجان انہ حیوان اذا کنا قطعنا منہ قطعۃ راینا کانہ جسم حی ووجعلنا فیہ خاصیۃ النبات وخاصیۃ الحیوان ولذا سمیناہ نباتا حیوانا (ص102ج8)
جب یہ مرجان پھوٹتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حیوان ہیں اور جب ہم اس کا کوئی ٹکڑا کاٹتے ہیں تو ہمیں زندہ جسم کی طرح لگتا ہے، جب ہم نے دیکھا کہ اس میں جڑی بوٹیوں اور دیگر جاندار اشیاء کی خاصیات ہیں تو ہم نے اس کا نام جاندار بوٹی رکھ دیا۔
لہٰذا آپ کی پیش کردہ مثال صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قال۔ اسی طرح انسان کا اس انسانیت میں رہنا جو تمہیں نظر آرہی ہے کمال کی بات نہیں ہاں اگر اس پر وحی نازل ہو، اللہ تبارک و تعالی کا حکم سیدھا اس کے پاس آئے اور پھر یہ ساری قوم کی رہنمائی کرے تو یہ کمال کی بات ہے۔ ص13
اقول۔ یہ صفات تو نبی کی ہیں اور نبوت کا سلسلہ تو منقطع ہوچکا اور اختتام کماہل تو ہے ہی نہیں کیونکہ ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی ہے:
رَ‌بَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّ‌يَّاتِنَا قُرَّ‌ةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾الفرقان
اے ہمارے رب ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔
سیادت و امانت تو قیامت تک جاری رہے گی جو بنا کمال کے ممکن نہیں بلکہ حدیث میں مذکور ہے کہ:
کمل من الرجال کثیر، ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران، و آسیۃ امراۃ فرعون وفضل عائشۃ علی النسآء کفضل الثرید علی سائر الطعام (اخرجہ البخاری ومسلم من حدیث ابی موسی)
مردوں میں تو کتنے ہی کامل انسان گزرے ہیں مگر عورتوں میں عمران کی بیٹی مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے علاوہ کوئی بھی کامل عورت نہیں گزری اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کافی عرصہ تک زندہ رہیں، ان کے لیے کون سا کمال مانو گے؟ بصورت دیگر آپ کی یہ عبارت اجرائے نبوت کو متقضی ہے علاوہ ازیں یہ سوال ہی غلط ہے۔ انسان کا نبی ہونا باعث تعجب بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے کتنے ہی انبیاء کو مبعوث فرمایا ہے:
اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النَّاسِ۔۔﴿٧٥﴾الحج
بلکہ اس بارے میں متعجب ہونا کافروں کا کام ہے، جن کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے:
أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَ‌جُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ‌ النَّاسَ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَ‌بِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُ‌ونَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٢﴾ یونس
کیا لوگوں کو تعجب ہوا ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈراؤ اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے رب کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے۔ (ایسے شخص کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگر ہے۔
آپ نے پتھر کے بڑھنے ، درخت کے حرکت کرنے اور جاندار کے کلام کرنے کو تعجب انگیز انداز میں پیش کرکے انتہا کردی۔ لیکن یاد رکھنا کہ انسانوں میں نبی آنے پر تعجب کا اظہار صرف کفار نے کیا تھا حالانکہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ گذشتہ امتوں میں بھی رسول آئے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْ‌سِلَ الْأَوَّلُونَ ﴿٥﴾ الانبیاء
تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے اسی طرح یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے۔
اب آپ کے سامنے دو راستے ہیں، یا یہ کہو کہ نبوت اب بھی جا ری ہے۔ (معاذ اللہ)۔ خود آپ کو رسالے کے مقدمے میں امام الوقت کہا گیا ہے، لہٰذا تم بخوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد مناؤ اور ان کی شان میں قصیدے پڑھو مگر ذرا غور کرنا کہ تمہارے ہی ایک بزرگ کیا فرماتے ہیں:
یعنی اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمد میں فرق نہیں آئے گا (تحذیر الناس ص12 طبع دیوبند)۔
بالصورت دیگر یہ کہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوسکتا اور اپنی بیان کردہ مثال کو اپنی جیب میں رکھو۔
 
Top