• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں نے پورا تھریڈ دیکھا، اہل بیت کی فضیلت کا تو کوئی بھی منکر نہیں ہے۔ مسئلہ زیر بحث تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا ابو بکر وعمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنہم اجمعین بالترتیب افضل ہیں یا آپ کے اہل بیت؟؟؟

آپ کی پیش کردہ احادیث کو تو سب تسلیم کر رہے ہیں، آپ کا موقف تو اہل بیت کی افضل ہونے کا ہے تو آپ کو اسی کی دلیل پیش کرنا چاہئے جیسے محترم ابو الحسن علوی صاحب نے خلیفہ اول ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی افضیلت کی احادیث پیش کیں۔
بلا تبصرہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔

البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کے وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ دین کہلاتا ہے مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔
بہت اچھا جواب دیا آپ نے جزاکم اللہ خیرا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بلا تبصرہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔

البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کے رافضیوں کی ٹانگ یہاں آکر کیوں ٹوٹتی ہے؟؟؟۔۔۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
میرا موضوع یہ ہے ہی نہیں نہ میں نے اس پر بات کی ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات شامل ہے یا نہیں یہاں میرا موضوع صرف یہ ہے کہ " اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے "

١۔ اہل بیت اطہار وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے ہر قسم کی گندگی کو دور کردیا ہے
[
بہرام صاحب ان دو رنگ زدہ الفاظ کی دلیل دیں گے براہ کرم!
ایک پوری کائنات کا استدلال آپ نے کہاں سے کیا ہے ؟
آیت میں ہر قسم کس لفظ کا ترجمہ کیا گیا ہے ؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پوری کائنات پر فضیلت کیسے ثابت ہو گئی یا جمیع صحابہ پر فضیلت کیسے ثابت ہو گئی؟
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے کئی ایک دلائل ہم نقل کر چکے ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قوله صلى الله عليه وسلم: لو كنت متخذاً من أهل الأرض خليلاً لاتخذت أبا بكر خليلاً. رواه البخاري ومسلم، وقال صلى الله عليه وسلم: لا يبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بكر. متفق عليه.
اگر میں نے اہل زمین میں سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا۔ اور اہل لغت یہ بات جانتے ہیں کہ خلت، محبت ومودت کا آخری درجہ ہے۔ اہل زبان نے محبت و مودت اور قلبی تعلق کے لیے دس الفاظ استعمال کیے ہیں، جن میں سے آخری درجہ کی محبت اور تعلق کو خلۃ کہتے ہیں اور اسی سے لفظ خلیل بنا ہے۔ مولی کئی ہو سکتے ہیں لیکن خلیل ایک ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرا خلیل، اللہ ہے۔ اور اللہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےتعلق میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نمبر ہے۔ حدیث اس مسئلہ میں واضح ہے۔ خلیل ایک ہی ہوتا ہے اور اگر کوئی اور ہو سکتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے یہ ارشاد نہیں ہے۔ وہاں مولی کا لفظ ہے جو ولایت سے بنا ہے اور تعلق ولایت ایک سے زائد سے بھی ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔

اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ مسجد نبوی میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خیمہ کے علاوہ خیمے اٹھا دو۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا آپ کی جگہ امامت کروانا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کی امامت میں نماز پڑھنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی صریح دلیل ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ثانی اثنین اذ ھما فی الغار میں باجماع مفسرین مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دو میں سے دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے۔ پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ثانی ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ قرآن نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہل بیت پر فضیلت کی کیا دلیل چاہیے؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بلا تبصرہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔
البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
حدثنا أحمد بن حنبل حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد حدثني أبي عن الوليد بن کثير حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الديلي أن ابن شهاب حدثه أن علي بن الحسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما لقيه المسور بن مخرمة فقال له هل لک إلي من حاجة تأمرني بها قال فقلت له لا قال هل أنت معطي سيف رسول الله صلی الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبک القوم عليه وايم الله لن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتی يبلغ إلی نفسي إن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خطب بنت أبي جهل علی فاطمة رضي الله عنها فسمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلک علی منبره هذا وأنا يومذ محتلم فقال إن فاطمة مني وأنا أتخوف أن تفتن في دينها قال ثم ذکر صهرا له من بني عبد شمس فأثنی عليه في مصاهرته إياه فأحسن قال حدثني فصدقني ووعدني فوفی لي وإني لست أحرم حلالا ولا أحل حراما ولکن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مکانا واحدا أبدا

سنن ابوداؤد:
احمد بن محمد بن حنبل، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ولید بن کثیر، محمد بن عمرو بن حلحلہ، ابن شہاب، حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے لوٹ کر مدینہ آئے تو مسور بن مخرمہ ان سے ملے اور کہا کہ میرے لائق خدمت ہو تو فرمائیے میں نے کہا نہیں اس کے بعد مسور بن مخرمہ نے کہا کیا تم مجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار دیتے ہو؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ لوگ تم سے تلوار چھین نہ لیں اور اگر تم مجھے دیدو گے تو بخدا جب تک میرے دم میں دم ہے وہ تلوار مجھ سے کوئی نہ لے سکے گا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے پیغام نکاح دیا تھا تو میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی موضوع پر اسی منبر خطبہ دیا تھا اور ان دنوں میں جوان تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دین کے بارے میں کسی فتنہ میں نہ پڑ جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دوسرے داماد کا ذکر کیا جسکا تعلق بنی عبدالشمس سے تھا (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے دامادی رشتہ کی خوب تعریف کی اور فرمایا اس نے جو بات مجھ سے کہی سچ کر دکھایا اور جو وعدہ کیا اسکو پورا کیا میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کر رہا ہوں البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور دشمن کی بیٹی ایک جگہ ہرگز جمع نہ ہوں گی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ثانی اثنین اذ ھما فی الغار میں باجماع مفسرین مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دو میں سے دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے۔ پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ثانی ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ قرآن نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہل بیت پر فضیلت کی کیا دلیل چاہیے؟
سورة التوبۃ کی درج بالا آیت کریمہ میں سیدنا ابو بکر﷜ کی بہت بڑی فضیلت ذکر ہوئی ہے۔

لیکن یہاں وہ فضیلت یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے بعد انہیں دوسرا قرار دیا ہے۔

بلکہ وہ فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں نبی کریمﷺ کی ہمراہی اور خدمت کا شرف پوری اُمت میں سے انہیں بخشا اور ﴿ إذ يقول لصاحبه فرما کر ان کی صحابیت پر بذاتِ خود مہر ثبت کی۔ علمائے کرام﷭ کے نزدیک اب جو شخص سیدنا ابو بکر صدیق﷜ کی صحابیت کا منکر ہو وہ اس آیت کریمہ کا منکر ہونے کی بناء پر کافر ہو جاتا ہے۔

جہاں تک ثاني اثنين کا تعلق ہے، تو ثاني سے مراد نبی کریمﷺ ہیں، البتہ اثنين میں سیدنا ابو بکر صدیق﷜ بھی شامل ہیں۔ تمام تفاسیر میں ثانی اثنین میں ثانی سے مراد نبی کریمﷺ ہی لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں تمام ضمیریں نبی کریمﷺ کی طرف لوٹ رہی ہیں:
إلا تنصروه
فقد نصره الله
إذ أخرجه الذين كفروا
ثاني اثنين إذ هما في الغار
إذ يقول لصاحبه
فأنزل الله سكينته عليه
وأيده بجنود لم تروها
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=50&surano=9&ayano=40


یہاں ’ثانی‘ سے مراد مقام ومرتبے کے اعتبار سے دوسرا مراد نہیں بلکہ تعداد مراد ہے کہ غارِ ثور میں اس وقت نبی کریمﷺ اکیلے نہیں بلکہ دو افراد موجود تھے اسی لئے نبی کریمﷺ کو ثانی اثنین (بمعنیٰ احد اثنین) قرار دیا۔
صحیح مسلم میں ہے: أن أبا بكر الصديق حدثه قال: نظرت إلى أقدام المشركين على رؤوسنا ونحن في الغار. فقلت: يا رسول الله! لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه. فقال: « يا أبا بكر! ما ظنك باثنين الله ثالثهما » ۔۔۔ صحيح مسلم
اس حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو ثالث قرار دیا گیا ہے، اور واضح سی بات ہے کہ یہاں تیسرا مرتبہ مراد نہیں۔ اور اسی کی مثل یہ آیت کریمہ ہے:
﴿ أَلَم تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ ۖ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلـٰثَةٍ إِلّا هُوَ ر‌ابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ‌ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيـٰمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المجادلة

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
سورة التوبۃ کی درج بالا آیت کریمہ میں سیدنا ابو بکر� کی بہت بڑی فضیلت ذکر ہوئی ہے۔

لیکن یہاں وہ فضیلت یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے بعد انہیں دوسرا قرار دیا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
درست فرمایا آپ نے ہم بھی یہاں پر فضیلت کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا قرار نہیں دے رہے۔۔۔ یہ کام اہلسنت والجماعت کا نہیں ہے بلکہ روافض اور شیعوں کا ہے جو اہل بیت رضی اللہ عنہ کے ناموں کے بعد علیہ السلام لگاتے ہیں۔۔۔ اور فلسفہ یہ دیتے ہیں کے موسٰی علیہ السلام نے جیسے ہارون کو اپنا نائب بنایا تھا اسی طرح سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں اور یہ مولا والی روایت کو گھڑتے ہیں۔۔۔ حالانکہ عقل سے عاری یہ جاہل لوگ جانتے ہیں کے موسٰی علیہ السلام بھی اگر دنیا میں واپس آجائیں تو اُس وقت تک جنت میں نہیں داخل ہوسکتے جب تک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو قبول نہ کر لیں۔۔۔ اور اللہ کا فرمان ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔۔۔ ہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کسی کے نبی ہونے کی بات فرمائی تھی تو وہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ کے اگر میرے بعد میری اُمت میں کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ یہاں بھی ہم فضیلت کی بات کرہے ہیں۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں دوسرا قرار نہیں دے رہے۔۔۔ یہ کام اہلسنت والجماعت کا نہیں ہے۔۔۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پوری کائنات پر فضیلت کیسے ثابت ہو گئی یا جمیع صحابہ پر فضیلت کیسے ثابت ہو گئی؟
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے کئی ایک دلائل ہم نقل کر چکے ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قوله صلى الله عليه وسلم: لو كنت متخذاً من أهل الأرض خليلاً لاتخذت أبا بكر خليلاً. رواه البخاري ومسلم، وقال صلى الله عليه وسلم: لا يبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بكر. متفق عليه.
اگر میں نے اہل زمین میں سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا۔ اور اہل لغت یہ بات جانتے ہیں کہ خلت، محبت ومودت کا آخری درجہ ہے۔ اہل زبان نے محبت و مودت اور قلبی تعلق کے لیے دس الفاظ استعمال کیے ہیں، جن میں سے آخری درجہ کی محبت اور تعلق کو خلۃ کہتے ہیں اور اسی سے لفظ خلیل بنا ہے۔ مولی کئی ہو سکتے ہیں لیکن خلیل ایک ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرا خلیل، اللہ ہے۔ اور اللہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےتعلق میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نمبر ہے۔ حدیث اس مسئلہ میں واضح ہے۔ خلیل ایک ہی ہوتا ہے اور اگر کوئی اور ہو سکتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے یہ ارشاد نہیں ہے۔ وہاں مولی کا لفظ ہے جو ولایت سے بنا ہے اور تعلق ولایت ایک سے زائد سے بھی ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔

اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ مسجد نبوی میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خیمہ کے علاوہ خیمے اٹھا دو۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا آپ کی جگہ امامت کروانا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کی امامت میں نماز پڑھنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی صریح دلیل ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ثانی اثنین اذ ھما فی الغار میں باجماع مفسرین مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دو میں سے دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے۔ پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ثانی ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ قرآن نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہل بیت پر فضیلت کی کیا دلیل چاہیے؟
جزاکم الله خیرا محترم
آپ ضرور شیئر کریں تاکی یہ لوگوں کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبا تو معلوم ہو اور ہمیں بھی دلائل مل جایں ایسے لوگوں کو جواب دینے کے لئے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جہاں تک ثاني اثنين کا تعلق ہے، تو ثاني سے مراد نبی کریمﷺ ہیں، البتہ اثنين میں سیدنا ابو بکر صدیق﷜ بھی شامل ہیں۔ تمام تفاسیر میں ثانی اثنین میں ثانی سے مراد نبی کریمﷺ ہی لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں تمام ضمیریں نبی کریمﷺ کی طرف لوٹ رہی ہیں:
إلا تنصروه
فقد نصره الله
إذ أخرجه الذين كفروا
ثاني اثنين إذ هما في الغار
إذ يقول لصاحبه
فأنزل الله سكينته عليه
وأيده بجنود لم تروها
Error 404 - Page not Found

یہاں ’ثانی‘ سے مراد مقام ومرتبے کے اعتبار سے دوسرا مراد نہیں بلکہ تعداد مراد ہے کہ غارِ ثور میں اس وقت نبی کریمﷺ اکیلے نہیں بلکہ دو افراد موجود تھے اسی لئے نبی کریمﷺ کو ثانی اثنین (بمعنیٰ احد اثنین) قرار دیا۔
جزاکم اللہ خیرا
ثانی کا لفظ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضمیر سے حال بن رہا ہے اور اسے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ لیکن ثانی اثنین سے مراد ابو بکر ہیں یہ نقطہ واضح کرنا مقصود تھا۔ ثانی سے مراد بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں لیکن یہاں ہیں تو اثنین، ان اثنین میں سے ایک تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ اگر یہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دوسرا ہونا، دو میں سے دوسرے ہونے کے معنی میں بھی ہے لیکن یہ ان کی فضیلت کی دلیل بھی ہے کہ دو میں سے ایک تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے کہ جن کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے شخص ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے لیکن یہ ساتھ ہونا صرف عدد بتلانے کا ہی فائدہ نہیں دے رہا بلکہ ساتھی کی فضیلت بھی بیان کر رہا ہے کہ جبکہ کسی اور مدد نہ کی تھی اور جبکہ کوئی اور ساتھ نہ تھا تو اس وقت بھی یہ ساتھ تھے۔ بس یہی واضح کرنا مقصود تھا۔ جزاکم اللہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top