اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ثانی اثنین اذ ھما فی الغار میں باجماع مفسرین مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دو میں سے دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے۔ پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ثانی ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ قرآن نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہل بیت پر فضیلت کی کیا دلیل چاہیے؟
سورة التوبۃ کی درج بالا آیت کریمہ میں سیدنا ابو بکر کی بہت بڑی فضیلت ذکر ہوئی ہے۔
لیکن یہاں وہ فضیلت یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے بعد
انہیں دوسرا قرار دیا ہے۔
بلکہ وہ فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں نبی کریمﷺ کی ہمراہی اور خدمت کا شرف پوری اُمت میں سے انہیں بخشا اور
﴿ إذ يقول لصاحبه ﴾ فرما کر ان کی صحابیت پر بذاتِ خود مہر ثبت کی۔ علمائے کرام کے نزدیک اب جو شخص سیدنا ابو بکر صدیق کی صحابیت کا منکر ہو وہ اس آیت کریمہ کا منکر ہونے کی بناء پر کافر ہو جاتا ہے۔
جہاں تک
ثاني اثنين کا تعلق ہے، تو
ثاني سے مراد نبی کریمﷺ ہیں، البتہ
اثنين میں سیدنا ابو بکر صدیق بھی شامل ہیں۔ تمام تفاسیر میں
ثانی اثنین میں
ثانی سے مراد نبی کریمﷺ ہی لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں تمام ضمیریں نبی کریمﷺ کی طرف لوٹ رہی ہیں:
إلا تنصروه
فقد نصره الله
إذ أخرجه الذين كفروا
ثاني اثنين إذ هما في الغار
إذ يقول لصاحبه
فأنزل الله سكينته عليه
وأيده بجنود لم تروها
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=50&surano=9&ayano=40
یہاں ’ثانی‘ سے مراد مقام ومرتبے کے اعتبار سے دوسرا مراد نہیں بلکہ
تعداد مراد ہے کہ غارِ ثور میں اس وقت نبی کریمﷺ اکیلے نہیں بلکہ دو افراد موجود تھے اسی لئے نبی کریمﷺ کو ثانی اثنین (بمعنیٰ احد اثنین) قرار دیا۔
صحیح مسلم میں ہے:
أن أبا بكر الصديق حدثه قال: نظرت إلى أقدام المشركين على رؤوسنا ونحن في الغار. فقلت: يا رسول الله! لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه. فقال: « يا أبا بكر! ما ظنك باثنين الله ثالثهما » ۔۔۔ صحيح مسلم
اس حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو
ثالث قرار دیا گیا ہے، اور واضح سی بات ہے کہ یہاں تیسرا مرتبہ مراد نہیں۔ اور اسی کی مثل یہ آیت کریمہ ہے:
﴿ أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۖ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلـٰثَةٍ إِلّا هُوَ رابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيـٰمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المجادلة
واللہ تعالیٰ اعلم!