• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام مالک رحمہ اللہ کا قول : ابوحنیفہ کی مدح یا مذمت؟
کفایت اللہ صاحب نے یہ عنوان قائم کیاہے اوراس کے بعد جوکچھ لکھاہے اسکو دیکھ کرعربی شاعر کایہ شعر یقیناتازہ ہوگیاہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم​
ابن ابی حاتم نے اس موقع پر اسی فہم سقیم کا مظاہرہ کیاہے۔ویسے بھی ان کے والد کے بارے میں ابن قیم کہہ چکے ہیں وہ "نرے محدث"ہیں فقیہہ نہیں ہیں۔
وهكذا الناس بعده قسمان.
(قسم حفاظ) معتنون بالضبط والحفظ والأداء كما سمعوا.
ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه.
وقسم معتنون بالاستنباط واستخراج الأحكام من النصوص، والتفقه فيها.
فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن دارة.
وقبلهم كبندار ومحمد بن بشار وعمرو الناقد وعبد الرزاق، وقبلهم كمحمد بن جعفر غندر وسعيد بن أبي عروية وغيرهم من أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه، من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص.الوابل الصیب من الکلم الطیب(1/59)

اوریہی حالت نرے محدث ہونے کی ان کے بیٹے ابن ابی حاتم کی بھی ہے۔اوریہی یہی وجہ ہے کہ ان کویہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ یہ کلام مدح میں ہے یاذم میں ہے۔


اورجہاں کسی مسلکی بھائی دائودارشد کا ذکرکیاہے تواس کی بات اس قابل ہی نہیں کہ اس کی تردید میں وقت ضائع کیاجائے۔ ویسے کفایت اللہ صاحب سے ماقبل میں گزارش کی جاچکی ہے کہ اس قسم کے علمی مباحث میں خواہ مخواہ اس قسم کے لوگوں کے حوالہ جات نہ دیاکریں ۔لیکن شاید ان کو حوالہ جات بڑھانے کا شوق ہے۔

ویسے اس حدیث کو ابن ابی حاتم کتنے واسطوں سے نقل کرتے ہیں ذرااس کو دیکھتے چلیں تاکہ آپ پرکفایت اللہ صاحب کے اس جملہ کی یہ حقیقت کھل سکے۔
چنانچہ خود اس قول کے نقل کرنے والے ابن ابی حاتم رحمہ اللہ امام مالک کے اس قول کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واسطوں پر غورکریں۔
ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ مَالِكًا(آداب الشافعی ومناقبہ 162)
  • 1ابی ابومحمد کے والد ابوحاتم
  • 2ابن سریج
  • 3امام شافعی


تین واسطوں سے نقل کرنے والے کے بارے میں کس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس قول کا نقل کرنے والاہی اس کو زیادہ بہترطورپر سمجھ سکتاہے دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرامام مالک خود بیان کردیتے کہ ان کی مراد مدح ہے یاذم ہے توان کی بات اس باب میں صاحب قول ہونے کی وجہ سے قابل قبول تھی امام شافعی بھی اگرخود وضاحت کردیتے توبھی یہ بات کسی حد تک قاقبل قبول تھی کیونکہ انہوں نے صاحب قول سے سناتھا اورکس حال میں کس قرینہ میں سناتھااس کا ان کو پتہ تھااس لئے وہ مراد سے زیادہ واقف ہوسکتے تھے لیکن تین واسطوں سے نقل کرنے والے شخص کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ وہ قائل کی مراد کو زیادہ جانتاہے ۔بس یہ صرف اس کا ایک اندازہ ہے جو کہ دیگر دلائل کی روشنی میں غلط ہے۔


اس جملہ پر غورکیجئے پہلے ہم دائودارشد کی ہی خبرلے لیں۔موصوف لکھتے ہیں(جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے نقل کیاہے۔
’’اے جی لکڑی وپتھرکوسونا ثابت کرنا فقاہت نہیں ضد اور ہٹ دھرمی ہے ، اور ضد اورہٹ دھرمی قابل تعریف نہیں قابل نفرت ہے، اور مگرآفریں مقلد انوار صاحب پر وہ اسے بطور مدح ومنقبت پیش کرتے ہیں‘‘ [حدیث اوراہل تقلید :ص 75]۔
امام مالک کے اس جملہ سے فقاہت کشید کرنا بجائے خود حماقت ہے۔ امام مالک تواس جملہ سے فقاہت نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کا زوراستدلال بتاناچاہ رہے ہیں۔ یعنی ان کااستدلال اس غضب کاہوتاہے کہ سامنے والا ان کی باتوں کاقائل ہوجاتاہے چاہے ان کا دعویٰ کتناہی عجیب وغریب کیوں نہ ہو لیکن ان کاطرزاستدلال اورزورخطابت سامنے والے کو قائل کراکے ہی دم لیتاہے۔ اگروہ لکڑی کے ستون کو سوناکا ثابت کرناچاہیں توان کیلئے یہ بھی مشکل کام نہیں ہے۔
یہ ہے اس جملہ کا مفہوم لیکن فقہ اورفقہاء سے دشمنی کی وجہ سے یہ نوبت آتی ہی ہے کہ آدمی جملہ کا صحیح مفہوم بھی سمجھ نہیں پاتا۔اورمدح بھی اس کو ذم معلوم ہونے لگتاہے۔


ابن ابی حاتم نے اس کو ضد اورہٹ دھرمی سمجھاہے لیکن یہ ان کے سمجھنے کی غلطی ہے اوراہل الرائے سے ان کی نفرت نے ان کو موقع ہی نہیں دیاکہ وہ اس جملہ کا درست مفہوم معلوم کریں۔ورنہ اگر وہ اس جملہ کی ساخت اوربنیاد پر غورکرتے تومعلوم ہوتاکہ یہ جملہ تعریف میں ہے اورضد وہٹ دھرمی اوراپنی رائے سے رجوع وغیرہ کا اس میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اس میں اگرکچھ ذکر ہے تو وہ صرف امام ابوحنیفہ کا طرزاستدلال اورزورخطابت۔اوریہ بات حدیث میں بھی آئی ہے کہ ان من البیان لسحرا بعض بیان جادو کے مماثل ہوتاہے یعنی کچھ افراد کا طرزگفتگو انداز استدلال بات کرنے کا رنگ اورڈھنگ اس طرح کا ہوتاہے کہ وہ سامنے والے کو فوراًقائل کرلیتاہے جس کو حدیث میں جادو سے تعبیر کیاگیاہے اسی کو امام مالک نے لکڑی کے ستون کو سونے سے ثابت کرنے سے تعبیر کیاہے۔ طرز تعبیر حدیث شریف اورامام مالک کے قول میں الگ ضرور ہے لیکن بنیاد ایک ہی ہے۔
ورنہ اگربات وہی ہوتی کہ اس میں غلطی پر اصرار مراد ہے توامام مالک کا جملہ یہ ہوتاکہ وہ اس دیوارکو سونے کی دیوار کہتے اوراس پر اڑجاتے لیکن امام مالک کا جملہ ہے کہ وہ اس کو ثابت کردیتے لقام بحجتہ ۔یہ آخری جملہ خود بتارہاہے کہ بات وہ نہیں جوابن ابی حاتم ہمیں سمجھاناچاہ رہے ہیں بلکہ بات وہ ہے جس کی جانب نفرت اورعداوت ان کی نگاہ جانے ہی نہیں دیتی۔ یعنی یہ تعریف کا جملہ ہے نہ کہ ذم کا۔
ہوسکتاہے کہ اب کفایت اللہ صاحب کہیں کہ ابن ابی حاتم عربی ہیں محدث ہیں ان کو عربی جملہ کی ساخت اورمفہوم کا زیادہ پتہ ہوگا۔ تواس تعلق سےبھی ان کی غلط فہمی ہم دورکئے دیتے ہیں اوربتائے دیتے ہیں کہ مجھ سے ماقبل دیگر عربی محدثین نے اس سے کیاسمجھاہے ۔
ابن نجارحافظ حدیث ہیں اورانہوں نے خطیب بغدادی کے تاریخ بغداد پر ذیل بھی لکھاہے اوراس کے ساتھ خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوکچھ ذکرکیاہے اس کا پرزور دفاع بھی علیحدہ کتاب لکھ کر کیاہے جو ذیل کے ساتھ ہی شائع ہواہے۔اللہ کی شان ہے کہ وہ اسی جماعت میں ایک آدمی کو امام ابوحنیفہ کی حمایت اوردفاع پر کھڑاکردیتاہے جس جماعت کا ایک فرد امام ابوحنیفہ سے پرخاش رکھ کر ان کی سیرت کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتاہے۔)

ابن نجار اس تعلق سے کہ یہ قول امام مالک کا امام ابوحنیفہ کے حق میں مدح ہے یاذم۔اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لأن مالكا رضى الله عنه كان يثنى على أبى حنيفة وهو ما رواه الخطيب. قال: أنبأنا البرقاني أنبأنا أبو العباس بن حمدان لفظا حدثنا محمد بن أيوب حدثنا أَحْمَد بن الصباح قال سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس قال قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال نعم رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته. وأما قول أبى محمد إن مالكا عنى أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له فمن أين لأبى محمد هذا؟ وهذا القول من مالك في حق أبى حنيفة أقرب إلى المدح منه إلى الذم وأظهر.
تاریخ بغداد وذیولہ22/70
اس لئے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ کی تعریف کرتے ہوئے اوران سے یہ قول مروی ہے کہ مالک بن انس سے کہاگیاکہ کیاآپ نے ابوحنیفہ کو دیکھاہے توفرمایاہاں وہ ایسے شخص ہیں کہ اگر تم سے اس دیوار کے بارے میں بحث کریں کہ یہ سونے کا ہے تواس کو اپنے دلائل سے ثابت کردیں گے۔اورجہاں تک ابومحمد کے قول کا تعلق ہے یعنی ابن ابی حاتم کہ مالک نے اس سے یہ مرادلیاکہ وہ خطاء پر اصرارکرتے تھے اور درست کی طرف رجوع نہیں کرتے ہوئے جب کہ وہ واضح ہوجائے "تویہ بات ابومحمد کو کہاں سے معلوم ہوئی اورمالک کا یہ قول ابوحنیفہ کے حق میں مدح کے حق میں ذم سے زیادہ قریب اورظاہر ہے۔

دوسری جانب خطیب اورانہی شاکلہ اورافتادطبیعت والے کفایت اللہ صاحب وغیرہ حضرات کا ایک طرفہ تماشاملاحظہ ہو۔ایک جانب تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو بار بار بدلنے والے اوراسی وجہ سے فلاں فلاں افراد نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ۔دیکھئے کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ اوراقتباس
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 رقم 316 ،قال المحقق القحطاني: اسنادہ صحیح وھو کذالک]۔
امام اور فقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کی مجلس میں جایا کرتا تھا تو میں نے انہیں سنا وہ ایک ہی دن میں ایک ہی مسئلہ میں پانچ اقوال پر فتوی دیتے تھے لہٰذا جب میں نے یہ چیز دیکھی تو اسے چھوڑ دیا اوراورحدیث کی طرف متوجہ ہوگیا۔
یادرہے کہ امام وفقیہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ کو مقلدین چہل رکنی مجلس تدوین کا رکن بھی بتلاتے ہیں۔

غور کیا جائے کہ امام وفقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ ابوحنیفہ کو ایک مسئلہ میں مختلف فتاوی دینے والا بتلایا بلکہ ابوحنیفہ کی اسی مصیبت کے باعث ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جزاہ اللہ خیرا۔

ابوحنیفہ کی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی امام نے ابوحنیفہ کو نہیں ٹھکرایا بلکہ ایک اورامام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری واسطی نے بھی ابوحنیفہ کو الوداع کہہ دیا:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنبأنا القاضي أبو بكر احمد بن الحسن الحرشي أخبرنا أبو محمد حاجب بن احمد الطوسي حدثنا عبد الرحيم بن منيب قال قال عفان سمعت أبا عوانة قال اختلفت إلى أبي حنيفة حتى مهرت في كلامه ثم خرجت حاجا فلما قدمت أتيت مجلسه فجعل أصحابه يسألوني عن مسائل وكنت عرفتها وخالفوني فيها فقلت سمعت من أبي حنيفة على ما قلت فلما خرج سألته عنها فإذا هو قد رجع عنها فقال رأيت هذا أحسن منه قلت كل دين يتحول عنه فلا حاجة لي فيه فنفضت ثيابي ثم لم أعد إليه[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 401 واسنادہ حسن]۔
امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس آتا جاتا تھا حتی کہ ان کی باتوں کا ماہر ہوگیا پھر جب میں حج کرنے گیا توان کی مجلس میں حاضرہوا ، پھر ان کے اصحاب مجھ سے ان مسائل کے بارے میں پوچھنے لگے جن کو میں نے ابوحنیفہ سے سیکھاتھا ، پھر ان لوگوں نے اس سے مختلف باتیں بتلائیں ، میں نے کہا: میں نے تو ابوحنیفہ سے ایسے ہی سنا ہے جیسے بتلایا ، پھر جب ابوحنیفہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا تو وہ ان سے رجوع کرچکے تھے اورفرمانے لگے : ان نئے مسائل کو میں نے پرانے مسائل سے بہتر پایا ۔ امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: جس مذہب میں اس طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ، پھر میں نے بوریا بستر باندھا اور دوبارہ کبھی پلٹ کر ابوحنیفہ کی طرف نہیں آیا۔

اورلطف تو یہ ہے کہ خود ابوحنیفہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے چنانچہ:
عباس دوری رحمہ اللہ نے کہا
قال أبو نعيم وسمعت زفر يقول كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن فكنا نكتب عنه قال زفر فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف ويحك يا يعقوب لا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الرأي اليوم وأتركه غدا وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 504 واسنادہ صحیح]۔
امام زفر کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ نے ایک دن ابویوسف سے کہا: اے یعقوب تیرا ستیاناس ہو تو جو کچھ مجھ سے سنتاہے وہ سب مت لکھا کر کیونکہ آج میں کوئی رائے قائم کرتاہوں اور کل اسے ترک کردیتاہوں اور کل کوئی رائے قائم کرتاہوں اورپرسوں اسے ترک کردیتاہوں۔
یہ آپ نے پوراپڑھ لیاذرا ہمت کرکے اس پوسٹ کوبھی پڑھ لیں جس سے میں نے یہ نقل کیاہے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/مکالمہ-197/کیا-شیخ-الاسلام-ابن-تیمہ-رحمہ-اللہ-کے-مزاج-میں-شدت-تھی-9011/index13.html#post68975
اس پورے کا خلاصہ یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ اپنی بات کو بار بار بدلنے والے تھے
اوریہاں اس کے برعکس دوہرایاجارہاہے کہ امام ابوحنیفہ ضدی طبعیت کے تھے اپنی بات پر اصرار کرتے تھے اورہٹ دھرم تھے نعوذباللہ
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اورجھوٹے کی یادداشت نہیں ہوتی۔ اوریہ سب سے بہترین مثال ہے کہ جھوٹوں کی یادداشت نہیں ہوتی ۔فارسی مثل ہے دروغ گورا حافظہ نہ باشد ۔جہاں ماضی کے ایک مراسلے میں امام ابوحنیفہ کو فوری فوری رائے بدلنے والابتایاگیاتھا۔اب انہی کو ضدی طبعیت کا بتایاجارہاہے۔
اس بات کو ابن نجار نے بھی بیان کیاہے ۔چونکہ خطیب کی طرح کفایت اللہ صاحب بھی کبھی یہ اورکبھی وہ بیان کرتے ہیں لہذا ہم ابن نجار کے الفاظ کو اولاخطیب اورپھر کفایت اللہ صاحب کی شان میں نقل کرتے ہیں۔
فانظر إلى الخطيب كيف يروى الشيء وضده ويجعله عيبا والشيء وضده لا يكونان عيبا، لأنه قال في الحكاية التي ذكر فيها أبا حنيفة: وإن مالكا قال ما ظنكم برجل لو قال هذه السارية من ذهب لقام بحجته، أى لجعلها من ذهب وهي من خشب أو حجارة. ثم قال قال أبو محمد- يعني أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له- ففي هذه الحكاية أخبر أنه لا يرجع وجعله عيبا، وفي هذه أخبر إنه يرجع وجعله عيبا، فهذا أيدك الله يعلم منه أنه انما أراد التشنيع ولم يرد التثبيت ولم يكن له من المعرفة ما يفرق به بين الجيد والرديء، ولا من العلم ما يعرف به الخطأ من الصواب. (تاریخ بغداد وذیولہ22/73)
خطیب کو دیکھو کیسے ایک ہی امر اوراس کی ضد کو نقل کرتاہے اورکسی شے اوراس کی ضد دونوں ہی عیب نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ اس نے ماقبل میں نقل کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاتھاکہ مالک نے کہاکہ تمہاراایسے شخص کے بارے میں کیاخیال جو اس دیوار کو سونے کا ثابت کرناچاہے توثابت کردے پھر خطیب نے کہاکہ ابومحمد نے کہااس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطاء پر ثابت ہرتے تھے اورحجت بگھاڑتے تھے اوردرست کی جانب رجوع نہیں کرتے تھے جب وہ واضح ہوجاتاتھا۔ تواس روایت میں خطیب نے بتایاکہ وہ اپنے قول سے رجوع نہیں کرتے تھے اوراس کو عیب ثابت کیااوراس زیر بحث روایت میں خطیب بتارہاہے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرلیتے تھے اوراس کو عیب ثابت کررہاہے تویہ (اللہ تمہاری مدد کرے) واضح کررہاہے کہ خطیب نے صرف امام ابوحنیفہ پر تشنیع کا ارادہ کررکھاہے اس کا مقصد محض روایات کی نقل اورثبیت نہیں ہے اورخطیب کوعمدہ اورگھٹیا کے درمیان فرق ہی نہیں معلوم اورنہ ہی یہ اس کا علم ہے کہ کس ذریعہ سے درست اورخطاء کو جاناجائے۔

خطیب کی الجھن اورتضادبیانی
ایک جانب توخطیب امام مالک کے اسی جملہ کو ذکر ماقالہ العلماء فی ذم رایہ 15/544میں نقل کرتے ہیں اوراس پر ابن ابی حاتم کا حاشیہ چڑھاتے ہیں کہ اس سے کیامراد ہے۔
سمعت الشافعي، يقول: سمعت مالك بن أنس، وقيل له: تعرف أبا حنيفة؟ فقال: نعم، ما ظنكم برجل لو قال: هذه السارية من ذهب لقام دونها حتى يجعلها من ذهب، وهي من خشب أو حجارة؟ قال أَبُو مُحَمَّد: يعني: أنه كان يثبت على الخطأ، ويحتج دونه، ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له
دوسری جانب خطیب امام مالک کے اسی جملہ کو امام ابوحنیفہ کی فقہ اورمناقب وفضائل کے باب میں بیان کرتے ہیں۔
ما قيل في فقه أبي حنيفة
أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العباس بن حمدان لفظا، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أيوب، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن الصباح، قال: سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس، قال: قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته.

تاریخ بغداد15/459
ایسالگتاہے کہ اس مسئلہ میں خطیب خود ہی کفنیوژن کے شکار ہیں اوران کو معلوم نہیں ہورہاہے کہ اسجملہ کو کس خانہ میں رکھیں۔

ہم توصرف اتنی ہی قیاس آرائی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اولااس جملہ کی بنیادی ساخت کو دیکھتے ہوئے کہ یہ تعریف کا کلمہ ہے اس کو تعریف کے خانہ میں رکھاہوگا۔ بعد ازاں جب اس کو اسی جملہ کے تعلق سے ابن ابی حاتم کا کلام مل گیاکہ اس سے مذمت بھی مقصود ہوسکتی ہے تواس کو مذمت کے خانہ میں بھی ڈال دیا۔لیکن خود خطیب کو یہ خیال نہ آیاکہ ایساکرکے وہ خود ہی اپنی رسوائی کا سامان دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔

دیگر محدثین نے اس قول سے کیاسمجھاہے؟

ابن عبدالبر
یہ تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ حدیث او رفقہ میں ان کی مہارت اوررسوخ مسلمہ امر ہے اسی کے ساتھ عربی ادبیات سے بھی ان کوکافی واقفیت حاصل تھی جس پر ان کی کتابیں شاہد عدل ہیں۔ یہ الانتقاء میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کایہ قول ذرادوسرے الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں اورفضائل والے حصہ میں نقل کرتے ہیں جس سے یہ سمجھنادشوار نہیں رہ جاتاکہ ابن عبدالبر کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا جملہ ہے۔
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ سُئِلَ مَالِكٌ يَوْمًا عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ قَالَ كَانَ رَجُلا مُقَارِبًا وَسُئِلَ عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ فَقَالَ كَانَ رَجُلا مُقَارِبًا قِيلَ فَأَبُو حَنِيفَةَ قَالَ لَوْ جَاءَ إِلَى أَسَاطِينِكُمْ هَذِهِ يَعْنِي السَّوَارِيَ فَقَايَسَكُمْ عَلَى أَنَّهَا خَشَبٌ لَظَنَنْتُمْ أَنَّهَا خَشَبٌ(الانتقائ 1/147)
اب آئیے ہم دیگر محدثین مورخین اورفقہاء کے اقوال اس سلسلے میں نقل کرتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ قول سے مدح سمجھاہے یاذم سمجھاہے ۔
ابن جوزی
ابن جوزی نے المنتظم میں امام ابوحنیفہ پر ہونے والے نقد اوروجوہات سے قبل امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب بیان کئے ہیں اس میں وہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں ۔
وقيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ فَقَالَ: رأيت رجلا لو كلمك فِي هَذِهِ السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته.(المنتظم8/131)
حافظ مزی
حافظ مزی نے اس کو تہذیب الکمال میں نقل کیاہے ۔حافظ مزی کا علم حدیث میں نہایت بلند مقام ہے ۔انہوں نے تہذیب الکمال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں مذمت کا ایک بھی حرف نقل نہیں کیاجس کی حافظ ذہبی نے تذہیب التذہیب میں تحسین کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
قلت:قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
حافظ ذہبی کی اس بات سے اتنامعلوم ہوگیاکہ حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں امام ابوحنیفہ کے حق میں کوئی بات جرح اورذم کی نقل نہیں کی ہے۔لیکن اسی تہذیب الکمال میں ہم یہ جملہ امام مالک کے کا نقل کردہ دیکھتے ہیں ۔
سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس، قال: قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلا لو كلمك فِي هَذِهِ السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته
تہذیب الکمال للمزی 29 /429
اس طرح دواوردوچار کے نتیجہ کی طرح یہ بات سامنے آگئی کہ حافظ مزی اورحافظ ذہبی کے نزدیک یہ جملہ ذم کا نہیں بلکہ مدح کاہے اوریہ دونوں ہی مشہور حافظ حدیث اورناقد رجال ہیں۔اس سے گزر کر خود حافظ ذہبی نے تذہیب التہذیب میں تہذیب الکمال کی ساری باتیں نقل کی ہیں اس میں سے یہ جملہ بھی نقل کردیاہے اورآگے یہ بات بھی کہہ دی ہے کہ ہمارے شیخ نے یہ بات اچھاکام کیاکہ کوئی بھی ضعف والی بات نقل نہیں کی ہے۔اس طرح حافظ ذہبی کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا ہوانہ کی ذم کا۔
حافظ ذہبی
حافظ ذہبی نقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں۔ محدثین کے اورائمہ نقد وتعدیل کےجملوں سے کیامراد ہے اوران کا درست کیامفہوم ہے وہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے چنانچہ انہوں نے مختلف کتابوں میں امام مالک کا یہ جملہ مدح میں ہی نقل کیاہے۔
مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ
یہ حافظ ذہبی کی مشہور کتاب ہے اس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ اورصاحبین کے مناقب اورفضائل نقل کئے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ بھی نقل کیاہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہیں۔
رَأَيْتُ رَجُلًا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِهِ»(مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ31)
سیر اعلام النبلاء
یہ بھی حافظ ذہبی کی مشہور کتاب ہے اس کتاب میں حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے حق میں امام مالک کے جملہ کو نقل کرتے ہیں
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ:قِيْلَ لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيْفَةَ؟قَالَ: نَعَمْ، رَأَيْتُ رَجُلاً لَوْ كُلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَباً، لَقَامَ بِحُجَّتِه.(سیر اعلام النبلاء6/399)

کفایت اللہ صاحب کا اعتراف
کفایت اللہ صاحب کایہ اپنااعتراف ہے کہ حافظ ذہبی نے ان کتابوں میں امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب نقل کئے ہیں اورروات کے عمومی تعارف میں امام ابوحنیفہ کے مذمت کے اقوال نقل نہیں کئے ۔
دراصل امام مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ رواۃ کے عمومی تعارف پر ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ چونکہ امام ابوحنیفہ کے عقیدت مند بہت ہیں اور ان کی تضعیف والی بات سے بدک اٹھتے ہیں اس لئے ان کی تضعیف ہرجگہ ذکر کرنا مصلحۃ مناسب نہیں ہے
اس کے علاوہ کفایت اللہ صاحب امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں والے تھریڈ میں یہ اقرار کرچکے ہیں کہ تاریخ الاسلام ،سیر اعلام النبلاء اوردیگر کتابوں میں صرف امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب نقل کئے گئے ہیں مذمت اورجرح کے اقوال نقل نہیں کئے گئے۔ اس لحاظ سے یہ کفایت اللہ صاحب کا اپنااعتراف نامہ بھی ہواکہ حافظ ذہبی کی مذکورہ کتابوں میں امام مالک کا یہ جملہ پایاجاناحافظ ذہبی کے نزدیک مدح کا کلمہ ہوا نہ کہ ذم کا کلمہ ہوا۔وللہ الحمد

ابن کثیر
یہ مشہور مفسر، محدث اورمورخ ہیں۔ ان کی تفسیر حدیث اورتاریخ میں کتابیں مشہور ہیں۔ تاریخ میں ان کی البدایہ والنھایہ مشہور عالم ہے اس کتاب میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہایت اچھے لفظوں میں لکھاہے اورصرف مدح ومناقب کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے امام مالک کا بھی یہ جملہ نقل کیاہے۔وقال في الشافعي: رَأَيْتُ رَجُلًا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِهِ.(البدایہ والنھایہ 10/114)
اس سے واضح رہے کہ حافظ ابن کثیر جیساعربی کارمزشناس بھی اس جملہ کو مدح کا جملہ سمجھتاہے کہ نہ کہ بہت سارے برخود غلط افراد کی طرح ذم کا ۔

ابواسحاق الشیرازی
یہ مشہور شافعی فقیہہ ہیں اورفقہائے شافعیہ میں ان کا مرتبہ ومقام بہت بلند ہے۔ جب یہ نیشاپور پہنچے تو امام الحرمین جیسی عظیمت شخصیت ان کے جلو میں عقیدت واحترام کے ساتھ چلاکرتی تھی۔اسی سے ان کے مقام کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ان کی ایک کتاب طبقات الفقہاء ہے اس میں انہوں نے فقہائے کرام کا تعارف کرایاہے اورتعارف کے ضمن میں تھوڑے سے مناقب بیان کئے ہیں۔ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے نہ کہ ذم کا۔
قال الشافعي: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.(طبقات الفقہاء86)
حافظ عبدالقادرالقرشی
یہ مشہور حنفی حافظ حدیث ہیں۔ ان نے علم حدیث ورجال حدیث میں مختلف کتابیں لکھیں بعض کتابیں زمانہ کی دست برد کی نذر ہوگئیں۔ ان کی مشہور کتاب الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ہے۔اس میں وہ امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس جملہ کا نقل کیاجاناہی بتارہاہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا ہے ذم کا نہیں ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وَقَالَ الإِمَام مَالك رضى الله عَنهُ وَقد سُئِلَ عَنهُ رَأَيْت رجلا لَو كلمك فى هَذِه السارية أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بِحجَّة (الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ1/29)
حافظ بدرالدین عینی
یہ بھی مشہور حنفی محدث اورفقیہہ ہیں۔ ان کی مختلف کتابیں حدیث میں مشہور ہیں۔ ان کی بخاری کی شرح عمدۃ القاری بخاری کی شروحات میں ایک معتبر شرح مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک شرح معانی الآثار کے رجال پر ایک کتاب مغانی الاخبار کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے۔ ذم کا نہیں ہے۔
عن الشافعى، عن مالك: رأيت رجلاً لو كلمك فى هذه السارية أن يجعلها ذهبًا لقام بحجته (مغانی الاخیارفی شرح اسامی رجال معانی الآثار3/4)
علامہ صفدی
محدثین کے بعد اب مناسب ہے کہ کچھ مورخین کا کلام بھی نقل کردیاجائے چنانچہ مشہور مورخ علامہ صفدی امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف امام ابوحنیفہ کے مناقب نقل کئے ہیں ذم اورجرح کا کوئی بھی کلمہ نقل نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ ان کے نزدیک امام مالک کا یہ کلام مدح کے باب میں ہے نہ کہ ذم اورجرح کے باب میں۔اوریہ بھی خیال رہے کہ علامہ صفدی عربی ادب کے بہت بڑے ماہر اورشناور ہیں اوران کی کتاب الوافی بالوفیات اس پر شاہد عدل ہے۔
قَالَ الشَّافِعِي قيل لمَالِك هَل رَأَيْت أَبَا حنيفَة قَالَ نعم رَأَيْت رجلا لَو كلمك فِي هَذِه السارية أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بحجته (الوافی بالوفیات 27/90)

ابن خلکان
ابن خلکان مشہور مورخ ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ لکھاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاہے کہ لایعاب بشئ سوی قلۃ العربیۃ کہ امام ابوحنیفہ کی ذات میں سوائے قلت عربیت کے کوئی عیب نہیں ہے۔ (اس قلت عربیت کا جواب محققین بہت اچھی طرح سے دے چکے ہیں۔جس کے بعد یہ الزام پادر ہواہے)اوراسی کتاب میں انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ بھی نقل کیاہے ۔اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے نہ کہ ذم کا ۔
قال الشافعي (3) ، رضي الله عنه، قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة فقال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.
وفیات الاعیان5/409

علامہ بھاء الدین الجندی الیمنی
ان کی کتاب السلوك في طبقات العلماء والملوك کافی مشہور اورمتداول ہے۔ اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے اوراس کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے حق میں صرف فضائل ومناقب ہی نقل کئے گئے ہیں۔اس سے بھی یہ واضح ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے حق میں امام مالک کا بیان کردہ یہ جملہ ان کے نزدیک مدح کا جملہ ہے نہ کہ ذم اورجرح کا ۔
رَأَيْت أَبَا حنيفَة قَالَ نعم رَأَيْت رجلا لَو كلمك فِي هَذِه السارية وَأَرَادَ أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بحجته (السلوک فی طبقات العلماء والملوک)
ان محدثین مورخین کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام مالک کا بیان کردہ یہ جملہ درحقیقت امام ابوحنیفہ کے حق میں مدح کا جملہ ہے نہ کہ ذم کا جملہ ہے۔ اورجن لوگوں نے اسے ذم کا جملہ بنایاہے انہوں نے درحقیقت غلطی کی ہے۔

علامہ یافعی
یہ مشہور شافعی فقیہہ اورمورخ ہیں۔ ان کی فقہ اورتاریخ میں کتابیں بہت مشہور ہیں۔ تاریخ انہوں نے مرآۃ الجنان فی عبرۃ الیقظان کے نام سے کتاب لکھی جو مشہور ومتداول ہوئی۔ اس میں انہوں نے محض امام ابوحنیفہ کے فضائل نقل کئے ہیں جرح اورذم میں ایک بھی حرف نقل نہیں کیا۔ اس کتاب میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں ۔اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے۔
وقال الإمام الشافعي رضي الله عنه قيل لمالك هل رأيت أبا حنيفة؟ قال نعم رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته
(مرآۃ الجنان وعبرۃ الیقظان1/243)

یوسف بن تغری بردی
یہ مشہور حنفی مورخ ہیں۔ ان کی کتاب النجوم الزاہرہ فی ملوک مصروالقاہرہ مشہور عالم ہے اورمصروقاہرہ کی تاریخ کے معتبر ذرائع میں شمار ہوتاہے اس کتاب میں بھی انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ امام ابوحنیفہ کیلئےمدح کے موقع میں استعمال کیاہے ۔
الشافعي يقول: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.(النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصروالقاہرہ2/14)

الاتلیدی
یہ بھی مشہور مورخ ہیں اوران کی تاریخ کے ایک باب پر کتاب مشہور ہے جس میں انہوں نےبرامکہ کے تعلق سے لکھاہے چنانچہ ان کی کتاب کا نام ہے۔اعلام الناس بماوقع للبرامکۃ مع بنی العباس۔اس کتاب میں عباسی عہد کے حیثیت سے امام ابوحنیفہ کا بھی ترجمہ ہے اوراسمیں انہوں نے امام ابوحنیفہ کے حق میں دیگر مدحیہ کلمات کے ساتھ امام مالک کا یہ کلمہ بھی نقل کیاہے اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ مدح کا ہے ۔
وقال الشافعي: قلت لمالك، هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.( اعلام الناس بماوقع للبرامکۃ مع بنی العباس1/285)

یہ پوری بحث ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے اب آپ کو یہ خود فیصلہ کرناچاہئے کہ یہ مدح کا کلام ہے یاپھرذم کا کلام ہے ۔یاد رہے کہ تقلیدی ذہن سے آزاد ہوکر فیصلہ کیجئے گاکیونکہ کچھ لوگ تقلید کے منکر ہوتے ہیں لیکن اندر سے اپنے کچھ علماء کے بڑے مقلد ہوتے ہیں ۔بات کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اورقائل ہوتے ہیں لیکن فلاں صاحب سے اس بارے میں پوچھیں گے اس کے بعد کچھ عرض کریں گے ۔یہی کام اگرحنفی کرے تواس پر تقلید کی بھپتی کسی جاتی ہے اورخود کریں تو تحقیق کی دہائی دی جاتی ہے۔


واضح رہے کہ بعض حضرات نے اسی طرح کے جملے امام شافعی کی شان میں بھی نقل کئے ہیں جس کو میں نے نقل کرنے سے دانستہ گریز کیاہے ورنہ بات مزید طویل ہوجائے گی ۔کفایت اللہ صاحب اوران کے ہم خیالوں کے مطابق ان حضرات نے امام شافعی کی توہین اورجرح اورذم کے لحاظ سے اس طرح کی بات کہی ہوگی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حضرت عبداللہ بن المبارک اورامام ابوحنیفہ​


حضرت عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ کے خصوصی شاگردوں میں شامل ہیں اسی کے ساتھ وہ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ کے بھی دست گرفتہ ہیں۔ عبداللہ بن المبارک دونوں کی عظمت کے قائل اورمعترف تھے۔عبداللہ ابن المبارک بذات خود بڑے محدث ،بڑے فقیہہ اوربڑے مجاہد اورتاجر تھے لہذا ہراعتبار سے کامل تھے۔وہ محدثین علماء اورفقہاء اورزہاد وعباد پر بڑی کثرت سے خرچ کیاکرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی فقاہت کے معترف تھے اوران کے بارے میں اس کے قائل تھے کہ اگرکسی کیلئے دین میں رائے سے کچھ کہناجائز اوردرست ہوتاتوامام ابوحنیفہ اپنی عقل کامل کی بناء پر اس کا استحقاق رکھتے تھے کہ وہ دین میں اپنی رائے سے بات کریں۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ بعض محدثین مختلف معلوم اورنامعلوم وجوہات کی بناء پر امام ابوحنیفہ سے نفرت رکھتے تھے لیکن چونکہ عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ سے محبت رکھتے تھے اس لئے وہ محدثین بھی عبداللہ بن المبارک کے سامنے امام ابوحنیفہ سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے سے ڈرتے تھے۔

كَانَ ابْن الْمُبَارك يذكر عَن أَبى حنيفَة كل خير ويزكيه ويقرضه ويثنى عَلَيْهِ وَكَانَ أَبُو الْحسن الفزازى يَكْرَهُ أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانُوا إِذَا اجْتَمَعُوا لَمْ يجترىء ابو اسحق أَنْ يَذْكُرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَضْرَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بشئ
الانتقاء133
حضرت عبداللہ بن المبارک نے جوکچھ کہاہے اس کا جائزہ لیں۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول: سمعت على بن خشرم يقول: سمعت على بن إسحق السمرقندى يقول: سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة في الحديث يتيما.[المجروحين - ابن حبان 3/ 71 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں یتیم تھا۔
عبداللہ بن المبارک کے اس قول کامطلب بہت ہی واضح ہے کہ ابوحنیفہ کے پاس بہت کم حدیثیں تھی ، لیکن بے چارے ابوحنیفہ کے گن گانے والے عبداللہ بن المبارک کے اس قول کو ابو حنیفہ کی مدح پرچسپاں کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ یتیم کے معنی نفیس ویگانہ روزگار ہے ۔
اب ذرامیں قارئین کو ابن نجار کے حوالہ سے بتادوں کہ ابن نجار یتیمافی الحدیث کا کیامعنی بیان کرتے ہیں۔تاکہ واضح رہے کہ یہ صرف امام ابوحنیفہ کے گن گان گانے والے ہی نہیں بلکہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے حافظ حدیث اورمورخ بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ابن نجار لکھتے ہیں۔
وروى عن ابن دوما إلى علي بن إسحاق الترمذي قال: قال ابن المبارك: كان أبو حنيفة يتيما في الحديث. هذا بالمدح أشبه منه بالذم فإن الناس قد قالوا درة يتيمة إذا كانت معدومة المثل، وهذا اللفظ متداول للمدح لا نعلم أحدا قال بخلاف، وقيل يتيم دهره، وفريد عصره وإنما فهم الخطيب قصر عن إدراك ما لا يجهله عوام الناس.
خطیب نے ابن دوماتاعلی بن اسحاق الترمذی کی سند سے نقل کیاہے کہ ابن مبارک نے کہاابوحنیفہ حدیث میں یتیم تھے ۔یہ ذم کی بہ نسبت مدح سے زیادہ مشابہہ ہے کیونکہ لوگوں کا قول ہے درۃ یتیمۃ جب کہ وہ بے نظیر ہو اوریہ لفظ مدح میں ہی رائج ہے ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس کے خلاف بھی کچھ کہاہو اوراسی طرح کہاجاتاہے نادرہ روزگار ،وحید عصر۔خطیب نے اپنے سوء فہم سے اس کو ایسے معنی پر محمول کرلیا جس سےعوام بھی جاہل نہیں ہیں۔(یعنی عوام بھی جانتے ہیں کہ یہ کلمہ مدح کا ہے لیکن خطیب نے اس کو ذم میں استعمال کیاہے۔)
دوسراجواب یہ ہے کہ محدثین کرام ایک ہی حدیث کو بہت ساری سندوں سے نقل کرتے تھے اوراس نقل میں ان کی نیت بخیر ہوتی تھی کہ حدیث کے علل اورچھان پھٹک میں آسانی ہو لیکن مجہتدین حضرات کا یہ طریقہ کار نہ تھا۔وہ حدیث کواپنے انداز سے پرکھتے تھے اورجب حدیث صحیح ہوتی تھی یااس حدیث کی صحت وحسن ہونے کے دیگر شواہد وغیرہ مل جاتے یاحدیث ضعیف ہونے کے باوجود مختلف قرائن کی بناء پر قابل قبول ہوتی تواس حدیث سے مسائل کا استنباط اوراستخراج کرتے تھے اوراس حدیث کی دیگر تمام اسانید کے حصول کی کوشش نہیں کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دورآخر میں دیکھتے ہیں کہ جوحدیث بخاری کی پہلی حدیث ہے انماالاعمال بالنیات اوریہ حدیث اوپر جاکر صرف ایک سلسلہ سند سے مروی ہے وہ بعد میں 700سے بھی زیادہ سند سے نقل ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین کہاکرتے تھے کہ اگراحادیث ہمیں کثیر سند سے نہ ملے تو ہم خود کو یتیم سمجھتے ہیں۔ جیساکہ ابراہیم بن سعید الجوہر ی کہاکرتے تھے کہ اگرکوئی حدیث مجھے سو100سند سے نہ ملے تومیں اس حدیث میں خود کو یتیم سمجھتاہوں۔ ہوسکتاہے کہ عبداللہ بن المبار ک کابھی مطمح نظر وہی ہو کہ امام ابوحنیفہ کے پاس حدیث بہت زیادہ سندوں سے نہیں ہے اوراسی معنی میں یتیم اورمسکین کا لفظ استعمال کیاہو۔
حالانکہ عبداللہ ابن المبارک ہی سے منقول دوسری روایت یوں ہے :
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 449 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔
اس روایت میں پوری صراحت کے ساتھ ابوحنیفہ کو مسکین کہا گیا ہے اور اس کا مفہوم سوائے اس کا کچھ نہیں ابوحنفیہ کے پاس حدیث بہت کم تھی ۔
یہ عین ممکن ہے کہ عبداللہ بن المبارک کا یہ جملہ اصل میں یتیماہو۔اوریتیم کے معانی یگانہ روزگار کے توہوتے ہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے ہاں کسی راوی نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے عبداللہ بن المبارک کے اس جملہ یتیم سے مسکین کا مطلب سمجھ لیاہو۔راوی روایات میں تصرف کرتاہے اوریہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بالخصوص جب احادیث تک میں روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے اورراوی کی بے خبری کی وجہ سے بات کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے تویہ تومحض اقوال ہیں۔ اوراس میں حدیث جیسی چھان بین بھی نہیں ہوتی اورنہ ان اقوال کے یاد رکھنے اورمحفوظ رکھنے میں احادیث جیسا طریقہ کار اپنایاجاتاہے لہذا عین ممکن ہے کہ راوی نے عبداللہ بن المبارک کی اس بات یتیماکو مسکینا سے تعبیر کردیاہو ۔اوریہی جملہ یتیما تصحیف ہوکر ابن عبدالبر کی روایت میں تھیما ہوگیاہے۔
قَالَ وَنا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ عِنْدَ صَنَادِيد الْمَرَاوِزَةِ فِي ذِي الْحِجَّةِ قَالَ نَا أَبُو الموجة قَالَ نَا عبد الله ابْن عُثْمَان قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ قَدِيمًا أَدْرَكَ الشَّعْبِيَّ وَالنَّخَعِيَّ وَغَيْرَهُمَا مِنَ الأَكَابِرِ وَكَانَ بَصِيرًا بِالرَّأْيِ يُسَلَّمُ لَهُ فِيهِ وَلكنه كَانَ تهيما فى الحَدِيث
الانتقاء132
اب یہ بات رہ گئی کہ امام ابوحنیفہ کو عبداللہ بن المبارک نے کیاچھوڑدیاتھا تویہ بات قابل قبول نہیں ہے ۔
عبداللہ بن المبارک کو حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ سے صرف استفادہ کنندگان نہیں بلکہ ان کے مخصوص شاگردوں میں قراردیاہے اوربھولے سے بھی یہ اشارنہیں کیاہے کہ عبداللہ بن المبارک نے ان کو چھوڑدیاتھا۔(ملاحظہ سیر اعلام النبلاء ترجمہ عبداللہ بن المبارک)اورصرف اسی کتاب کاحال نہیں حافظ ذہبی نے کسی بھی کتاب میں یہ اشارہ نہیں دیاہے کہ عبداللہ بن المبارک آخر میں امام ابوحنیفہ سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ اسی طرح حافظ مزی نے بھی صرف فضائل نقل کئے عبداللہ بن المبارک کی زبانی افقہ الناس وغیرہ کے اقوال نقل کئے لیکن یہ اشارہ تک نہیں دیاکہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کو آخر میں ترک کردیاتھا۔اسی طرح یہ واقعہ بھی دیکھئے جو ابونصرمروزی نے کتاب الورع میں اسحاق بن راہویہ کے حالات میں نقل کیاہے۔

وحدثنا القاسم بن محمد (2) قال: سمعت إسحاق بن راهويه يقول: كنت صاحب رأي فلما أردت أن أخرج إلى الحج عمدت إلى كتب عبد الله بن المبارك ، واستخرجت منها ما يوافق رأي أبي حنيفة من الأحاديث ، فبلغت نحو من ثلثمائة حديث ، فقلت: أسأل عنها مشايخ عبد الله الذين هم بالحجاز ، والعراق ، و أنا أظن أن ليس يجترىء أحد أن يخالف أبا حنيفة ، فلما قدمت البصرة جلست إلى عبد الرحمن بن مهدي ، فقال لي: من أين أنت ؟
فقلت: من أهل مرو ، قال: فترحم على ابن المبارك ـ وكان شديد الحب له ـ ، فقال: هل معك مرثية رثي بها عبد الله ؟
فقلت: نعم ، فأنشدته قول أبي تميلة يحي بن واضح الأنصاري :
طرق الناعيان إذ نبهاني * بقطيع من قادح الحدثان
قلت للناعيات من تنعيان * قالا أبا عبد ربِّنا الرحمن
فأثار الذي أتاني حزنا * وفؤاد المصاب ذو أحزان
ثم فاضت عيناي وجدا وشجوا * بدموع تحادر الهطلان
فلئن كانت القلوب تبكي * لقلوب الثقات من إخوان
قد تبكيه بالدماء وفي الاجـ * ـواف لذع كحرقة النيران
لتقي مضى فريدا حميدا ماله * في الرجال إن عد ثاني
يا خليلي يا ابن المبارك عبد الـ * ـله خليتنا لهذا الزمان
حين ودعتنا فأصبحت محمو * دا حليف الحنوط والأكفان
قدس الله مضجعا أنت فيه * وتلقاك فيه بالـرضـوان
أرض هيت فازت بك الدهر إذ * صرت غريبا بها عن الإخوان
لا قريب بها ولا مؤنس يؤ * نس إلا التقى مع الإيمان
ولمرو قد كنت فخرا فصارت * أرض مرو كسائر البلدان
أوحشت بعدكم مجالس علم * حين غاب المغيث للهفان (3)
لهف نفسي عليك لهفا بك الـ * ـدهر وفجعا لفاجع لهفان
يا قريع القراء والسابق الأو * ل يوم الرهان عند الرهان
ومقيم الصلاة والقائم الليـ * ـل إذا نام راهب الرهبان
ومؤاتي الزكاة والصدقات الـ * ـدهر في السر منك والإعلان
صائم في هواجر الصيف يوما * قد يضر الصيام بالضمان
دائبا في الجهاد والحج والعمـ * ـرة يتلو منزل القرآن
دائما لا يمله يطلب الفوز * وليس المُجد كالمتوان
عين فابكيه حين غاب بواكيـ * ـه بهاطل وساكب السيلان
إن ذكرناك ساعة قط إلا * هاج حزني وضاق عني مكاني
ولعمري لئن جزعت على فقـ * ـدك إني لموجع ذو استكان
خافق القلب ذاهب الذهن عبـ * ـدالله اهذي كالواله الحيران
أتلوى مثل السليم لذيغ ال * ـرقش قد مس جلده النابان
بدلا كنت من أخي العلم سفيـ * ـيان ويوم الوداع من سفيان
كنت للسر موضعا ليس يخشى * منك إظهار سره الكتمان
و برأي النعمان كنت بصيرا * حين تبغى مقايس النعمان

قال: فما زال ابن المهدي يبكي ، وأنا أنشده حتى إذا ما قلت:
وبرأي النعمان كنت بصيرا .. ، قال لي: اسكت قد أفسدت القصيدة .
فقلت: إن بعد هذا أبياتا حسانا .
فقال: دعها تذكر رواية عبد الله عن أبي حنيفة في مناقبة ! ما تعرف له زلة بأرض العراق إلا روايته عن أبي حنيفة ولوددت أنه لم يرو عنه ، وأني كنت أفتدي ذلك بعظم مالي .
فقلت: يا أبا سعيد لم تحمل على أبي حنيفة كل هذا ؟! لأجل هذا القول أنه كان يتكلم بالرأي ، فقد كان مالك بن أنس ، والأوزاعي ، وسفيان يتكلمون بالرأي !
فقال: تقرن أبا حنيفة إلى هؤلاء !
ما أشبه أبا حنيفة في العلم إلا بناقة شاردة فاردة ترعى في وادي خصب ، والإبل كلها في واد آخر .
قال إسحاق: ثم نظرت بعد فإذا الناس في أمر أبي حنيفة على خلاف ما كنا عليه بخرسان . اهـ

اس پورے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اسحاق بن راہویہ شروع میں اہل الرائے کے مذہب پر تھے۔ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کی کتاب سے امام ابوحنیفہ کی300 مستدل احادیث تلاش کیں اورپھر وہ بغداد آئے ان کا خیال تھاکہ ان احادیث کا جواب کوئی شخص نہیں دے سکے گااورلاجواب ہوجائے گا۔ وہ گھومتے گھماتے بصرہ پہنچے ان کی ملاقات عبدالرحمن مہدی سے ہوئی۔ عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے پوچھاکہاں کے رہنے والے ہو۔ انہوں نے عرض کیاکہ مرو کا ۔عبداللہ بن المبارک بھی وہیں کے رہنے والے تھے اورعبداللہ بن المبارک سے ابن مہدی کو بڑی عقیدت تھی تو ابن مہدی نے پوچھاکہ ان کا کوئی مرثیہ وغیرہ تمہیں یاد ہے توانہوں نے ابوتمیلہ کا مرثیہ پڑھ دیا۔ابوتمیلہ بھی مشہور محدث اورثقہ ہیں۔جب وہ مرثیہ میں اس شعر پر پہنچے کہ
وبرای النعمان کنت بصیرا
حین یوتی مقایس النعمان
اورتوامام ابوحنیفہ کی فقہ سے آشناتھااس میں درک رکھتاتھا۔جب امام ابوحنیفہ کے قیاسی مسائل پیش کئے جاتے تھے۔
اس ابن مہدی نے ابن راہویہ کو روک دیا اور کہاکہ رک جائو۔بے شک تم نے شعر بگاڑدیاہے۔اسحاق بن راہویہ نے کہاکہ اس کے بعد اچھے اشعار ہیں فرمایاکہ اب اس بات کو چھوڑو۔تم عبداللہ بن المبارک کی ابوحنیفہ سے روایت کو ابن مبارک کے مناقب میں شمار کرتے ہو ۔حالانکہ عبداللہ بن المبارک کی عراق میں یہی ایک بھول چوک تھی اوراس کے بعد ابن مہدی کہتے ہیں
ولوددت أنه لم يرو عنه ، وأني كنت أفتدي ذلك بعظم مالي .
اورمیری شدید خواہش ہے کہ کاش عبداللہ بن المبارک ابوحنیفہ سے روایت نہ کرتے اوراس کے بدلے میں ،میں اپنے مال کا بڑاحصہ فدیہ بھی دینے کو تیار تھا۔
یہ واقعہ درست ہے۔اوراس میں کئی چیزیں قابل غورہیں۔
اولااسحاق بن راہویہ عبداللہ بن المبارک کے شہر کے ہیں ان کوبھی پتہ نہیں کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ کو ترک کردیاہے۔ اس پر یہ عذر پیش کیاجاسکتاہے کہ اسحاق بن راہویہ اس وقت نوجوان تھے حصول علم میں مشغول تھے ان کو زیادہ واقفیت نہ رہی ہوگی۔ لیکن ابوتمیلہ تو پختہ کار تھے اوروہ بھی عبداللہ بن المبارک کے ہی شہر کے تھے ان کو تومعلوم ہوناچاہئے تھاکہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلقات اورقطع علائق کردیاہے۔لیکن ان کو بھی یہ بات معلوم نہ تھی۔
ثانیاابوتمیلہ کے بعد عبدالرحمن بن مہدی جن کو عبداللہ بن المبارک سے بہت محبت تھی ۔عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ربط ضبط اورمیل جول کو وہ بہت ناپسند کرتے تھے ان کوبھی یہ بات معلوم نہ تھی۔ اگریہ بات صحیح ہوتی کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے قطع تعلق کرلیاہے تویہ ابن مہدی کو ضرور پتہ ہوتی اوروہ مرثیہ سنانے کے وقت ابن اسحاق کو ٹوکتے اورکہتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو انہوں نے ابوحنیفہ کے اقوال سے رجوع کرلیاتھالیکن ہم ایساکچھ بھی نہیں دیکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ محدثین نے امام ابوحنیفہ کے مثالث میں چھوٹی اورمعمولی باتوں کو بھی اہتمام کے ساتھ بیان کیاہے توکیاصرف یہ عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کا ہی واقعہ ایساہے جو چپ چاپ اورگمنام ہوکررہ گیا۔اوراس دور کے بڑے بڑے اورنامور محدثین کو اس کی خبر نہیں ہوئی اورخبرہوئی بھی توچوتھی صدی میں جاکر کچھ لوگوں کو اس کی خبر ہوئی کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کرلیاہے۔
ثالثاابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد،احمد ابن القاسم البرتی،ابن رزمہ،ابن عبدان کی سند سے نقل کیاہے کہ اوریہ سند حسن سے کم درجہ کی نہیں ہے کہ عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں کہ جب لوگ ابوحنیفہ کا برائی سے تذکرہ کرتے ہیں تومجھے یہ بات بری لگتی ہے اورمیں ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف کھاتاہوں ۔
رابعااسی طرح ابن عبدالبر الانتقاء میں عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے مدح کے اقوال کے بارے میں لکھتے ہیں۔
وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ رِوَايَاتٌ كَثِيرَةٌ فِي فَضَائِلِ أَبِي حَنِيفَةَ ذَكَرَهَا ابْن زُهَيْر فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَهَا غَيْرُهُ
اس سے ظاہر ہے کہ ابن عبدالبر کے نزدیک بھی یہ بات ثابت شدہ نہیں ہے کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ کو چھوڑدیاتھا۔ اگریہ بات ثابت ہوتی تو وہ یہ بات نہ کہتے کہ فلاں فلاں نے ان کے فضائل ومناقب نقل کئے ہیں۔اورعبداللہ بن المبارک نے سے امام ابوحںیفہ کے فضائل کے سلسلہ میں بہت سی روایتیں ہیں۔
اسی طرح مالکی فقیہہ اورمحدث ابوالولید باجی جن کی بخاری کے رجال پر لکھی گئی کتاب اورموطاکی شرح المنتقی مشہور عالم ہے وہ بھی امام مالک سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں منقول ایک قول شنیع کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک کا امام مالک کے پاس آنا اورامام مالک کا ان کااکرام کرنامشہور ومعروف ہے ۔اوریہ بات بھی مشہور ومعروف ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے اصحاب (شاگردوں )میں تھے لہذا یہ جوامام مالک سے کادالدین اورالداء العضال وغیرہ ہے وہ ثابت شدہ نہیں ہوسکتا۔
خامساابن عبدالبر جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی اس کو ذکر کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ابن مبارک سے پوچھاگیاکہ آپ نے ابوحنیفہ کی فقہ پر کتاب لکھی ہے لیکن امام مالک کی فقہ پر کتاب نہیں لکھی توفرمایا کہ میں اس کو علم نہیں سمجھتا۔
سادسااسی طرح عبداللہ بن المبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف میں جوکچھ منقول ہے۔ اس میں یہ اشعار اورا سکے علاوہ دیگر اشعار بھی شامل ہیں۔
(رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ كُلَّ يَوْم ... يزِيد نباهة وَيزِيد خيرا)
(وينطق بِالصَّوَابِ وَيَصْطَفِيهِ ... إِذَا مَا قَالَ أَهْلُ الْجَوْرِ جَوْرَا)
(يُقَايِسُ مَنْ يُقَايِسُهُ بِلُبٍّ ... وَمَنْ ذَا تَجْعَلُونَ لَهُ نَظِيرَا)
(كَفَانَا فَقْدُ حَمَّادٍ وَكَانَتْ ... مُصِيبَتُنَا بِهِ أَمْرًا كَبِيرَا)
(رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ حِينَ يُؤْتَى ... وَيُطْلَبُ عِلْمُهُ بَحْرًا غَزِيرَا)

اس کا چوتھاشعر قابل غور ہے۔ حماد بن زید بڑے محدث تھے عبداللہ بن المبارک کہہ رہے ہیں کہ حماد کاانتقال اگرچہ بڑی مصیبت ہے لیکن آپ اس کے نعم البدل اورکفایت میں ہیں۔ توکیاجوشخص حماد بن زید کا بدل اورکفایت ہو اس کو علم حدیث میں یتیم بمعنی لاچار کہاجاسکتاہے۔ عبداللہ بن المبارک کی جانب سے یہ شعر ہی اس بات کی تردید ہے کہ انہوں نے یتیماسے یگانہ روزگار مراد لیاتھا۔
حسن بن الربیع سے منقول یہ اشعار واضح ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد ہی کہے گئے ہوں گے کیونکہ امام ابوحنیفہ کی وفات 150ہجری میں۔ عبداللہ بن المبارک کی وفات 181ہجری میں اورحسن بن الربیع کی وفات221ہجری میں ہوئی ہے۔ اس طرح امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد حسن ابن الربیع نہایت کم عمر بچے ہوں گے۔
عبداللہ بن المبارک سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں مدحیہ اقوال تاریخ بغداد سے سند صحیح وحسن کے ساتھ ملاحظہ ہوں۔
خْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن نعيم الضبي، قال: سمعت أبا الفضل مُحَمَّد بن الحسين قاضي نيسابور، يَقُولُ: [ص:461] سمعت حماد بن أَحْمَد الْقَاضِي المروزي، يقول: سمعت إبراهيم بن عبد الله الخلال، يقول: سمعت ابن المبارك، يقول: كان أَبُو حنيفة آية، فقال له قائل: في الشر يا أبا عَبْد الرَّحْمَن أو في الخير؟ فقال: اسكت يا هذا، فإنه يقال غاية في الشر، وآية في الخير، ثم تلا هذه الآية، {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً}
تاریخ بغداد اسنادہ حسن
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحريري أن النخعي، حدثهم قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن عفان، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كريب، قال: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول.
وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن نعيم الضبي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سعيد مُحَمَّد بن الفضل المذكر، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن سعيد المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حمزة يَعْلَى بن حمزة، قال: سمعت أبا وهب مُحَمَّد بن مزاحم، يقول: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: رأيت أعبد الناس، ورأيت أورع الناس، ورأيت أعلم الناس، ورأيت أفقه الناس، فأما أعبد الناس: فعبد العزيز بن أبي رواد، وأما أورع الناس: فالفضيل بن عياض، وأما أعلم الناس: فسفيان الثوري، وأما أفقه الناس: فأبو حنيفة، ثم قال: ما رأيت في الفقه مثله

تاریخ بغداد اسنادہ صحیح
أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، قَالَ: أَخْبَرَنَا عثمان بن أَحْمَد الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم أَبُو حمزة المروزي، قال: سمعت ابن أعين أبا الوزير المروزي، قال: قال عبد الله، يعني: ابن المبارك إذا اجتمع سفيان، وأبو حنيفة فمن يقوم لهما على فتيا أَخْبَرَنَا الحسين بن علي بن مُحَمَّد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن الرازي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن الحسين الزعفراني، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن زهير، قَالَ: حَدَّثَنَا الوليد بن شجاع، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن بن شقيق، قال: كان عبد الله بن المبارك، يقول: إذا اجتمع هذان على شيء فذاك قوي، يعني: الثوري، وأبا حنيفة

تاریخ بغداد اسنادہ صحیح
أَخْبَرَنَا أَبُو نعيم الحافظ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم بن علي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عروبة الحراني، قال: سمعت سلمة بن شبيب، يقول: سمعت عبد الرزاق، يقول: سمعت ابن المبارك، يقول: إن كان أحد ينبغي له أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه
تاریخ بغداد اسنادہ صحیح
أَخْبَرَنِي أَبُو القاسم الأَزْهَرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بن عُمَر الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: حَدَّثَنَا جدي، قال: أملى علي بعض أصحابنا أبياتا مدح بها عبد الله بن المبارك أبا حنيفة:
رأيت أبا حنيفة كل يوم يزيد نبالة ويزيد خيرا
وينطق بالصواب ويصطفيه إذا ما قال أهل الجور جورا
يقايس من يقايسه بلب فمن ذا تجعلون له نظيرا
كفانا فقد حماد وكانت مصيبتنا به أمرا كبيرا
فرد شماتة العداء عنا وأبدى بعده علما كثيرا
رأيت أبا حنيفة حين يؤتى ويطلب علمه بحرا غزيرا
إذا ما المشكلات تدافعتها رجال العلم كان بها بصيرا
اسنادہ الی يعقوب بن شيبة بن الصلت صحیح

اگرچہ بعد یعقوب بن شبیہ بن الصلت کی پیدائش 180کی ہے اوراسی کے ایک سال بعد عبداللہ بن المبارک کا انتقال ہوتاہے اوریہ واضح ہے کہ عبداللہ بن المبارک سے ان کا سماع نہیں ہے لیکن یہاں پر ثابت یہ کرنا ہے کہ یعقوب بن شیبہ بن الصلت جو بڑے درجہ کے عالی مقام محدث ہیں وہ یہ اشعار لکھواتے ہیں اوراس کو عبداللہ بن المبارک سے ثابت مانتے ہیں گویاان کے نزدیک بھی عبداللہ بن المبارک کا امام ابوحنیفہ سے رجوع ثابت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھاجائے کہ عبداللہ بن المبارک کو شروع سے ہی طبقات احناف میں شمار کیاگیاہے۔طبقات احناف کی تمام کتابوں میں عبداللہ بن المبار ک کاذکر موجودہے۔ یہ بھی اس کا قرینہ ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کو ترک نہیں کیاتھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اللہ تعالیٰ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کو دونوں جہان میں بہترین اجر عطا فرمائیں۔ ماشاءاللہ آپ نے جمشید صاحب مدظلہ کی ایک ایک سطر کو جس احسن انداز میں تارپیڈو کیا ہے، لائق تحسین ہے۔
جمشید صاحب سے انہی کے الفاظ میں سوال ہے کہ کفایت اللہ بھائی کا مدلل جواب پا کر کیا آپ کے مضمون کو ہم دھوکہ دہی، مغالطہ بازی سے تعبیر کرسکتے ہیں اورکیلابکیل اورصاعابصاع کے طورپر کچھ شرم کی توقع کرسکتے ہیں؟
ویسے اس کا جواب تو ہمیں معلوم ہے کیونکہ ایمنیشیا اور شارٹ ٹرم میموری لاس کے مریض کا رد عمل کم و بیش یکساں ہی رہتا ہے،،،،،

ویسے تو جمشید صاحب کو خود بھی اپنے مضمون کی نامعقولیت اور بودے پن کا بخوبی احساس تھا اسی لئے انہوں نے پہلی ہی پوسٹ میں اعتراف کرنے کی ذلت اٹھائی کہ یہ مضمون فقط مسخرا پن ہے اسے سنجیدہ نہ لیا جائے۔ لیکن جب کفایت اللہ صاحب کا مدلل و مفصل رد ملاحظہ کیا تو ظاہر ہے انا پر چوٹ پڑی اور بجائے اپنی عقل و فہم کے اندھے پن کا ماتم کرتے، غالبا ذلت کے قوی احساس نے چین لینے نہ دیا۔ اور یہاں مضمون ختم ہونے کا انتظار کرنا بھی خود پرستی میں مبتلا نفس پر دشوار ہو گیا اور دوسرے فورم پر جواب دینا شروع کر دیا۔ مزے کی بات یہ کہ اتنی اخلاقی جرات بھی نہ دکھائی کہ وہاں جواب دیتے وقت کفایت اللہ بھائی کے جواب کا لنک ہی دے دیتے، لیکن ایسا کرتے بھی تو بھلا کیسے، خود ستائی کا خوگر نفس جو راہ میں حائل تھا اور جواب دیا بھی تو کیا کہ جی امام ابو حنیفہ کی مدح میں فلاں فلاں کے اقوال بھی ہیں، نیز امام مالک کے قول سے مذمت کشید کرنا غلط ہے بلکہ وہ تو مدح میں ہے اور یہ کہ کیا ہوا میں نے اگر موضوع احادیث کو اپنے مضمون کی بنیاد بنا کر متقدمین اہل حدیث کو مطعون کرنے کے لئے ریت کا محل کھڑا کر دیا، اور اب میرا تھوکا میرے منہ پر آ رہا ہے، یہ بھی تو دیکھئے کہ فلاں اور فلاں اہلحدیث عالم نے بھی تو اپنی تقریر میں موضوع حدیث کو بنیاد بنا کر اہل حدیث کے فضائل بیان کئے ہیں۔۔۔

جمشید صاحب کی پرانی عادت ہے جس برائی میں خود مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں میں وہی برائی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دعویٰ تفصیلی اور جواب اجمالی پر حال ہی میں کسی پر طنز و طعن کےتیر برسا رہے تھے اور یہاں خود اسی میں ملوث ہیں۔ اجی محترم، آپ اپنی پیش کردہ ان تمام روایات کا یا چند ایک کا ہی دفاع کرنے کی ہمت کیجئے جنہیں کفایت اللہ بھائی نے موضوع ثابت کیا ہے اور نہ صرف موضوع ثابت کیا بلکہ جواباً ویسے ہی الزامات بسند صحیح یا حسن آپ کے ممدوح امام پر ثابت کئے ہیں۔ آپ نہ تو اہل حدیث کی مذمت والی روایات کو حسن ثابت کر سکے اور نہ اپنے ممدوح امام کی مذمت والی روایات کو ضعیف یا موضوع ثابت کر پائے۔ بس کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، قے کر کے اسے پھر سے چاٹنے لگ گئے۔

لطف کی بات یہ ہے جس کا ذکر پہلے بھی کیا کہ چلیں اہل حدیث تو احناف کو جو کہیں، وہ تو ہمارے پرائے ہیں۔ متقدمین اہل حدیث آپ کے بقول فقط محدثین ہیں اور محدثین تو آپ کے بھی بزعم خود اپنے ہی ہیں، ان پر اعتراضات کر کے آخر ثابت کیا کرنا چاہتے تھے؟ یا فقط مسخرہ پن اور عقل و فہم کا دیوالیہ پن دکھلانا ہی مقصود تھا؟

میری پوسٹ کے سخت الفاظ کسی کو ناگوار نہ گزریں، اس لئے بطور وضاحت عرض ہے کہ:
"میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ابتداء نہ کروں اورالبادی اظلم کا مصداق نہ بنوں۔"
اور یہ بھی کہ:
ہمیں تو خوہے کہ جوکچھ کہئے بجاکہئے
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
اللہ تعالیٰ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کو دونوں جہان میں بہترین اجر عطا فرمائیں۔ ماشاءاللہ آپ نے جمشید صاحب مدظلہ کی ایک ایک سطر کو جس احسن انداز میں تارپیڈو کیا ہے، لائق تحسین ہے۔
جمشید صاحب سے انہی کے الفاظ میں سوال ہے کہ کفایت اللہ بھائی کا مدلل جواب پا کر کیا آپ کے مضمون کو ہم دھوکہ دہی، مغالطہ بازی سے تعبیر کرسکتے ہیں اورکیلابکیل اورصاعابصاع کے طورپر کچھ شرم کی توقع کرسکتے ہیں؟
ویسے اس کا جواب تو ہمیں معلوم ہے کیونکہ ایمنیشیا اور شارٹ ٹرم میموری لاس کے مریض کا رد عمل کم و بیش یکساں ہی رہتا ہے،،،،،

ویسے تو جمشید صاحب کو خود بھی اپنے مضمون کی نامعقولیت اور بودے پن کا بخوبی احساس تھا اسی لئے انہوں نے پہلی ہی پوسٹ میں اعتراف کرنے کی ذلت اٹھائی کہ یہ مضمون فقط مسخرا پن ہے اسے سنجیدہ نہ لیا جائے۔ لیکن جب کفایت اللہ صاحب کا مدلل و مفصل رد ملاحظہ کیا تو ظاہر ہے انا پر چوٹ پڑی اور بجائے اپنی عقل و فہم کے اندھے پن کا ماتم کرتے، غالبا ذلت کے قوی احساس نے چین لینے نہ دیا۔ اور یہاں مضمون ختم ہونے کا انتظار کرنا بھی خود پرستی میں مبتلا نفس پر دشوار ہو گیا اور دوسرے فورم پر جواب دینا شروع کر دیا۔ مزے کی بات یہ کہ اتنی اخلاقی جرات بھی نہ دکھائی کہ وہاں جواب دیتے وقت کفایت اللہ بھائی کے جواب کا لنک ہی دے دیتے، لیکن ایسا کرتے بھی تو بھلا کیسے، خود ستائی کا خوگر نفس جو راہ میں حائل تھا اور جواب دیا بھی تو کیا کہ جی امام ابو حنیفہ کی مدح میں فلاں فلاں کے اقوال بھی ہیں، نیز امام مالک کے قول سے مذمت کشید کرنا غلط ہے بلکہ وہ تو مدح میں ہے اور یہ کہ کیا ہوا میں نے اگر موضوع احادیث کو اپنے مضمون کی بنیاد بنا کر متقدمین اہل حدیث کو مطعون کرنے کے لئے ریت کا محل کھڑا کر دیا، اور اب میرا تھوکا میرے منہ پر آ رہا ہے، یہ بھی تو دیکھئے کہ فلاں اور فلاں اہلحدیث عالم نے بھی تو اپنی تقریر میں موضوع حدیث کو بنیاد بنا کر اہل حدیث کے فضائل بیان کئے ہیں۔۔۔

جمشید صاحب کی پرانی عادت ہے جس برائی میں خود مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں میں وہی برائی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دعویٰ تفصیلی اور جواب اجمالی پر حال ہی میں کسی پر طنز و طعن کےتیر برسا رہے تھے اور یہاں خود اسی میں ملوث ہیں۔ اجی محترم، آپ اپنی پیش کردہ ان تمام روایات کا یا چند ایک کا ہی دفاع کرنے کی ہمت کیجئے جنہیں کفایت اللہ بھائی نے موضوع ثابت کیا ہے اور نہ صرف موضوع ثابت کیا بلکہ جواباً ویسے ہی الزامات بسند صحیح یا حسن آپ کے ممدوح امام پر ثابت کئے ہیں۔ آپ نہ تو اہل حدیث کی مذمت والی روایات کو حسن ثابت کر سکے اور نہ اپنے ممدوح امام کی مذمت والی روایات کو ضعیف یا موضوع ثابت کر پائے۔ بس کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، قے کر کے اسے پھر سے چاٹنے لگ گئے۔

لطف کی بات یہ ہے جس کا ذکر پہلے بھی کیا کہ چلیں اہل حدیث تو احناف کو جو کہیں، وہ تو ہمارے پرائے ہیں۔ متقدمین اہل حدیث آپ کے بقول فقط محدثین ہیں اور محدثین تو آپ کے بھی بزعم خود اپنے ہی ہیں، ان پر اعتراضات کر کے آخر ثابت کیا کرنا چاہتے تھے؟ یا فقط مسخرہ پن اور عقل و فہم کا دیوالیہ پن دکھلانا ہی مقصود تھا؟

میری پوسٹ کے سخت الفاظ کسی کو ناگوار نہ گزریں، اس لئے بطور وضاحت عرض ہے کہ:

اور یہ بھی کہ:
Raja ji insaf ki baat ye hai k Jamshed Mian ki wapasi aap ki bechaini ka sabab zaroor bani hai kuch baeed nahi ye halat Jamshed Mian ki napi tuli baton ne aap ka kar diya ho
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
Raja ji insaf ki baat ye hai k Jamshed Mian ki wapasi aap ki bechaini ka sabab zaroor bani hai kuch baeed nahi ye halat Jamshed Mian ki napi tuli baton ne aap ka kar diya ho
آپ کی ’انصاف‘ کی بات پر یہی کہا جا سکتا ہے:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
غلطی میری تھی کہ میں نے سوچاکہ لوگ ہوشیار ہیں عقل مند ہیں وہ خود ہی سمجھ جائیں گے انہیں ہربار ٹریٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن جیساکہ ہوتاہے کہ ہرسوچی ہوئی بات اورہرخواہش پوری نہیں ہوتی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوئی۔اورلوگوں نے جواب مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے مراسلات کی گولہ باری شروع کردی ۔یہ صحیح ہے کہ انسان عجلت پسند ہے اوریہ عجلت پسندی شیطان کی جانب سے ہوتی ہے لیکن ایسابھی کیاکہ اگرکوئی آدمی "جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔نہ لکھے توآپ قرائن سے اس بات کی سمجھ ہی نہ سکیں کہ ابھی جواب مکمل نہیں ہواہے مزید جواب آناہے۔
اب چونکہ کچھ لوگ ظاہریت پسند ہے ان کیلئے ضروری ہے کہ ہرچیز اورہربات ظاہرکردی جائے لہذا پوسٹ میں ترمیم کرتے ہوئے جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔لکھاجارہاہے اورامید کی جارہی ہے کہ ایسے حضرات ا پنے "لب بند"رکھیں گے اورچاہے نام کے ہی "راجا"کیوں ںہ ہو لیکن اپنی حیثیت عرفی کا خیال رکھیں گے۔ والسلام
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
جمشید بھائی آپ ماشاء اللہ قابل آدمی ہیں خدارا کوئی تعمیری کام کیجئے۔
ابو القاسم بھائی! غلطی سے میں نے آپ کی یہ پوسٹ پڑھ لی :)
ورنہ جب ایک قابل فرد کے قلم سے سے یہ جملہ پڑھا تھا :
اس سے پتہ چلتاہے کہ جولوگ خود کو الٹے سیدھے اورغلط طورپر اہل حدیث کہتے ہیں اوران میں اہل حدیث کی صفات نہ پائی جائیں یاخواہ مخواہ دوسروں کے القاب وآداب کو اپنے اوپر اوراپنی جماعت پر چسپاں کیاجائے تو ابن معین کی تقلید میں ان کو خبیث الحدیث بھی کہاجاسکتاہے۔
تب سے میں نے سمجھ لیا تھا کہ اس تھریڈ کا مطالعہ دراصل اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اولا:
آپ یہاں بھی آئینہ دیکھ رہے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے حالت غضب میں امام المغازی محمدبن اسحاق رحمہ اللہ کو دجال من الدجالہ کہہ دیا تو آپ کی پوری براداری نہ صرف یہ کہ اسے عمومی حالت پر محمول کرتی ہیں بلکہ ہرخاص عام کے سامنے اس کا اعلان وپرچار کرتی ہے ، حالانکہ محدثین کی اکثریت نے ان کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہے ، اس طرزعمل کو اختیار کیا جائے تو ابوحنیفہ کو بھی دجال کہنا چاہے کیونکہ ابوحنیفہ کو بھی دجال من الدجاجلہ کہا گیا ہے ۔
پہلے ذرا اس پربات کرلینی چاہئے کہ غیرمقلدین کا اورغیرمقلدین میں سے بھی کریلا اورنیم چڑھاکااس باب میں کیاحال ہے۔اولاغیرمقلدین نے سب سے پہلے مصر سے تاریخ بغداد شائع کرناچاہا مقصد یہی تھاکہ اس میں امام ابوحنیفہ کے مثالب ہیں جب تیرہویں جلد شائع ہوئی اوراس میں امام ابوحنیفہ کے مثالب تھے۔ غیرمقلدین نے اس کو یوں ہی بغیر کسی حاشیہ اوروضاحت کے شائع کیا۔اس پر ہنگامہ ہوا اورمصری وزارت داخلہ کے حکم سے تاریخ بغداد کی تمام تیرہویں جلد ضبط کرلی گئی۔ اورناشرین کو حکم دیاگیاکہ وہ یہ کتاب شائع کرین تواس پر ملک معظم نے جوخطیب کے رد میں لکھاہے اس کوبھی حاشیہ میں شائع کریں ۔ اب اس سے غیرمقلدین کے مقاصد کو زک پہنچ رہی تھی لیکن مرتے کیانہ کرتے انہیں یہ کرناہی پڑا۔

پھر غیرمقلدین نے اسی تاریخ بغداد سے مثالب ابوحنیفہ پر مشتمل ترجمہ علاحدہ کرکے ہندوستان میں چھاپا۔پھراسی کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیاگیا۔ چونکہ شیعوں اورحنفیوں میں ہندوستان میں ٹھنی رہتی تھی لہذا شیعیہ حضرات مثالب ابوحنیفہ کے نہایت متمنی رہاکرتے تھے غیرمقلدین کی بدولت ان کو اپنے مقاصد میں اوربھی آسانی حاصل ہوئی ۔تاریخ بغداد کے شائع ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ بعض مقاصد کے حصول کیلئے میاں نذیرحسین صاحب نے شیعوں کے غیرمجتہد سے مثالب امام ابوحنیفہ طلب کیا۔اس کے بعد کسی صاحب نے الجرح علی ابی حنیفہ کے نام سے کتاب لکھی ۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس نے صرف تاریخ بغداد سے مثالب امام ابوحنیفہ نقل کیاہے یادوسری کتابوں سے بھی اس سلسلے میں استمداد اوراستفادہ کیاہے۔ان سب کے رد میں علامہ کوثری نے تانیب لکھااورتانیب کے مقدمہ میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بات لکھی کہ اب تک غیرمقلدین کی کیاکارستانی رہی ہے۔ اس کے باوجود معلمی نے التنکیل میں یہی جھوٹ دوہرایاہے کہ اب اس زمانہ میں امام ابوحنیفہ پر جوجرح کا سلسلہ شروع ہواہے اس کی وجہ شیخ زاہد الکوثری کی یہ کتاب تانیب ہے۔حالانکہ معلمی ہندوستان میں کام کرچکے تھے یہاں مثالب ابوحنیفہ چھپ چکی تھی مصر وغیرہ کے حالات سے بھی وہ ناواقف نہیں ہوں گے ۔ لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے یہی مناسب سمجھاکہ اس کا الزام وہ شیخ زاہد الکوثری پر ڈال دیں ۔ کیونکہ اپنی کتاب طلیعہ اوراس کے جواب ترحیب کے بعد انہوں نے اپنی کتاب تبھی شائع کی جب شیخ زاہد الکوثری کا انتقال ہوچکاتھا۔

اب دورحاضر میں مقبل الوادعی نے کتاب لکھی نشرالصحیفہ ۔ اس کتاب میں مقبل الوادی کا طرز رہاہے کہ امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جتنی اورجیسی روایتیں ہیں اگراس کی سند صحیح ہے تواس کوماناجائے اوراس کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی بھی تاویل نہ کی جائے اوراگرکوئی شخص تاویل کرتاہے تووہ اس شخص کے نزدیک کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ مصطفے السباعی مصرکے نامور قانوں داں تھے ان کی کتاب السنۃ ومکانتہافی الشریعۃ الاسلامیہ اپنے موضوع پر بیش قیمت تالیف ہے اس میں انہوں نے محدثین کی جرح کے تعلق سے کچھ باتیں کی ہیں اوراس کے دیگرمحامل تلاش کئے ہیں اس پر اس شخص مقبل الوادعی کو اتناتائو آیاکہ اس نے کہاکہ مصطفے السباعی نے ابوحنیفہ کا دفاع کرکے ان تمام باتوں کو منہدم کردیاجس کا اس نے السنۃ ومکانتہافی التشریع الاسلامی میں اثبات کیاتھا۔اسی طرح مقبل الوادعی نے کتاب میں جہاں کہیں کسی نے بھی کچھ امام ابوحںیفہ کی جانب سے دفاع کیاہے اس کی خبرلی ہے۔اورتواور اس نے اپنے پیرومرشد معلمی کوبھی نہیں چھوڑااورکہاکہ جومعلمی ہمیں التنکیل میں نظرآتے ہیں وہ التاریخ الکبیر للبخاری میں بدلے بدلے سے نظرآتے ہیں۔

خود معلمی کا طرز اورصنیع ملاحظہ ہو۔انہوں نے توتنکیل میں کہاکہ امام ابوحنیفہ پر کسی جرح کے اثبات کیلئے یہ ضروری ہے کہ 12چیزیں ثابت کی جائیں اس کے بعد ہی سمجھاجائے گاکہ ہاں محدثین کی جرح ثابت ہے ۔لیکن پوری کتاب میں ان کا طرز اس کے برعکس ہے۔
معلمی التنکیل میں لکھتے ہیں۔
فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية.
التنکیل 138

معلمی کا مقصود یہ ہے کہ محدثین کی جرح کے اثبات کیلئے ان دس امور کی ضرورت ہے اس کے بغیر محدثین کی جرح ثابت نہ مانی جائے گی۔ لیکن خود معلمی کا طرز عمل اس کے برعکس رہاہے اورایسے معاملات میں بھی انہوں نے جانبداری اورطرفداری کی حد کردی ہے جہاں کہ یہ بات نہیں ہونی چاہئے تھی۔
مثلاحمیدی امام ابوحنیفہ کو مسجد حرام میں نہایت شنیع لقب سے یاد کرتے تھے ان کو ابوجیفہ کہتے تھے۔ یہ بات جوشخص بھی سنے گاجس کی فطرت سلیم ہے اورفطرت ابھی مسخ نہیں ہوئی ہے تووہ پہلی نظر میں ہی یہ بات کہے گاکہ اختلاف اپنی جگہ لیکن تنابز بالالقاب نہیں ہوناچاہئے بالخصوص ایک ایساشخص جو دنیا کو درس حدیث دے رہاہے تواسے اس سے اوربھی زیادہ بچناچاہئے اوراس میں مسجد حرام میں کسی گناہ کا ارتکاب تواورزیادہ منع اورسخت ہے ۔لیکن یہاں پربھی معلمی نے طرفداری کی حد کرتے ہوئے کہاکہ ان تک امام ابوحنیفہ کے کچھ ایسے اقوال پہنچے تھے جس کے راوی ثقہ تھے اوراس پر ان کویقین آگیااوراسی غصہ میں انہوں نے ایسی بات کہہ دی اوراس پر حمیدی معذور بلکہ ماجور ہیں۔ یہاں معلمی کویہ خیال نہ رہا کہ وہ ان دس امور کااثبات کریں اوراس کے بعد جرح کو تسلیم کریں۔حد تویہ ہے کہ ابن نجار نے بھی ذیل میں اس بات کو تسلیم کیاہے کہ ایسے اقوال کی وجہ سے حمیدی کی مذمت کی جانی چاہئے ۔
ویسے معلمی غیرمقلدین کی نظروں میں ذہبی العصر ہیں۔ البانی صاحب نے ان کو یہ خطاب دیاہے اورالبانی صاحب خود غیرمقلدین کی نگاہ میں محدث العصر ہیں امید ہے کہ کفایت اللہ صاحب آئندہ امام ابوحنیفہ پر کوئی بھی جرح پیش کرتے وقت ان دس امور کا خیال رکھیں گے اپنے محدث العصر کے ذہبی العصر کے فرمان کے مطابق ۔ ورنہ ان کی بات محدث العصر کے ذہبی العصر کے مطابق قابل قبول نہ ہوگی۔

اسی دورحاضر میں رئیس ندوی نے بھی اللمحات نامی کتاب لکھی ۔بظاہر اس میں انوارالباری کے رد کو بہانہ بنایاگیاہے لیکن اس میں مثالب کی تمام روایتوں کے اثبات کی بھرپور کوشش کی گئی ہے چاہے اس کیلئے تاویل کی کوئی بھی حد پار کرنی پڑے چاہے اس کیلئے تضادبیانی تک کی نوبت کیوں نہ آجائے چاہے ان کی بات پورے عالم کیلئے مضحکہ خیز ہی ثابت کیوں نہ ہو۔ ان کی تضادبیانی اورمضحکہ خیزی کیلئے میرے دومضامین رئیس ندوی اورامام ابوحنیفہ کی تابعیت اور رئیس ندوی کی تحقیق کا شاہکار ملاحظہ کریں۔اپنے معنوی اساتذہ زبیر علی زئی ،رئیس ندوی ،مقبل الوادعی کی کرتوتوں کو دیکھنے کے بعد کفایت اللہ صاحب کی معصومیت نہایت قابل غورہے۔

ثانیاکفایت اللہ صاحب ملتقی اہل الحدیث پر جاتے ہی ہوں گے وہاں پر کافی سارے ایسے غیرمقلدین ملتے ہیں جن کا ماننایہ ہوتاہے کہ اگرسند صحیح ہے تو بات چاہے توکتنی بھی بعید ازعقل کیوں نہ ہو لیکن امام ابوحنیفہ کے جرح کے سلسلہ میں قبول ہے۔ اگرکفایت اللہ صاحب نے اصرار کیاتوآئندہ کے مراسلے میں مقبل الوادعی ،رئیس ندوی اوراسی طرح کے کچھ جلے بھنے سلفیون کے اقوال استشہاداپیش کردیئے جائیں گے ۔
ویسے کفایت اللہ صاحب نے ماقبل میں یہ جوکہاہے۔
اولا:
آپ یہاں بھی آئینہ دیکھ رہے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے حالت غضب میں امام المغازی محمدبن اسحاق رحمہ اللہ کو دجال من الدجالہ کہہ دیا تو آپ کی پوری براداری نہ صرف یہ کہ اسے عمومی حالت پر محمول کرتی ہیں بلکہ ہرخاص عام کے سامنے اس کا اعلان وپرچار کرتی ہے ، حالانکہ محدثین کی اکثریت نے ان کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہے ، اس طرزعمل کو اختیار کیا جائے تو ابوحنیفہ کو بھی دجال کہنا چاہے کیونکہ ابوحنیفہ کو بھی دجال من الدجاجلہ کہا گیا ہے ۔
اس جملہ میں کفایت اللہ صاحب نے دومغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔نمبرایک یہ مغالطہ کہ پورے احناف محمد بن اسحاق کو مجروح مانتے ہیں یہ بنیادی طورپر غلط ہے جب کہ محمد بن اسحاق کو علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری میں حسن درجے کا راوی قراردیاہے ۔ان سے قبل علامہ زیلعی بھی نصب الرایہ میں یہی بات کہہ چکے ہیں اوراگرکفایت اللہ صاحب نے مطالبہ کیاتومزید اقوال پیش کردیئے جائیں گے۔ لیکن یہ دوحوالے ہی ان کے اس بات کی تردید کیلئے کافی ہے کہ
آپ کی پوری براداری نہ صرف یہ کہ اسے عمومی حالت پر محمول کرتی ہیں
دوسرے یہ خیال رہے کہ امام مالک کے جواقوال ہیں امام ابوحنیفہ کے سلسلہ میں کادالدین اورالداء العضال ۔اس کوتوآپ کی جماعت بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتی ہے ۔مقبل الوادعی نے بیان کیاہے۔رئیس ندوی نے بیان کیاہے۔ معلمی نے اس کے اثبات کی جانب زورلگایاہے۔اورآپ بھی ماشاء اللہ وقتافوقتااس کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگراسی امام مالک نے محمد بن اسحاق کو دجال میں دجاجلہ کہاتواس کو غضب اورغصہ پر محمول کرتے ہیں ۔ یہ دورنگی کیوں ہے۔
اگرامام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاجائے کہ انہوں نے ایساحالت غضب میں کہہ دیاتھاجیساکہ ابوالولید الباجی نے کہاہے تواس کو آپ حضرات تسلیم نہیں کرتے لیکن یہی بات محمدبن اسحاق کے بارے میں ہروقت تسلیم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں کہ وہ حالت غضب کی بات تھی ۔اگرکہاجائے کہ محمد بن اسحاق کی دوسرے ائمہ سے تعدیل منقول ہے توہماری جانب سے کہاجائے کہ خود امام مالک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف ثابت ہے ۔ اسی کو ہم ڈبل اسٹینڈر ڈ اوردوہرامعیار کہتے ہیں اوراگرآپ حضرات نے جس طرح امام مالک کے قول کو امام ابوحںیفہ کے بارے میں مانتے ہیں اسی طرح کچھ احناف نے امام مالک کے قول کو محمد بن اسحاق کے بارے میں ماناہے تواس میں اتنے چراغ پاہونے کی ضرورت کیاہے انہوں نے توآپ ہی کے نقش قدم کی پیروی کی ہے ۔

اگرمالک کی ہی بات ماننی ہے توپوری بات مانو یہ کیاکہا مام ابوحنیفہ کے سلسلے میں توامام مالک کی بات تسلیم میٹھا میٹھاہپ ہپ اورمحمد بن اسحاق کے بارے میں ناقابل تسلیم کیونکہ وہ ایک ایسے حدیث کے راوی ہیں جو ہماری مستدل اورکام کی ہے۔
ویسے جب بات آگے بڑھ ہی چکی ہے توآج کل کے غیرمقلدین حضرات کے طرز اورصنیع پر کچھ ائمہ اورعلماء کے اقوال پیش کردیتاہوں تاکہ غیرمقلدین اس میں اپناچہرہ دیکھ سکیں۔
حافظ ابن عبدالبرحدیث کے ساتھ فقہ کے بھی امام ہیں اسی لئے وہ فقہاء کی عظمت کو دیگر محدثین محض سے زیادہ سمجھتے ہیں اوراس کابرملااعتراف کرتے ہیں۔حافظ ابن عبدالبر کاترجمہ تراجم کی کتابوں میں دیکھاجاسکتاہے بطورخاص سیراعلام النبلاء اورمالکی فقہاء ومحدثین پر لکھی گئی کتابوں میں جس سے ان کی عظمت شان معلوم ہوسکتی ہے وہ لکھتے ہیں۔
(باب حکم قول بعض العلماء بعضھم فی بعض)2/152و 162''قول الائمہ المجلة الثقات السادة بعضھم فی بعض :ممایجب ان لایلتفت فیھم الیہ،ولایعرج علیہ ،ومن لم یحفظ من اخبارھم الا مابدر فی بعضھم فی بعض علی الحسد والھفوات ،والغضب والشھوات دون ان یعنی بفضائلھم ویروی مناقبھم حرم التوفیق ،ودخل الغیبة وحاد عن الطریق جعلنااللہ وایاک من یستمع القول فیتبع احسنہ
اب اس تصریح میں دیکھاجاسکتاہے کہ حافظ ابن عبدالبرنے صاف صاف صراحت کردی ہے کہ ائمہ کرام سے کسی کے مثالب میں اگرکچھ منقول بھی ہے تواس کے درپے نہ ہوناچاہئے اورجوایساکرتاہے کہ اسے صرف مثالب کی تلاش ہے اوران کے مناقب اورفضائل کی پرواہ نہیں کرتا۔توایساشخص توفیق الہی سے محروم ہے اورائمہ کرام کی غیبت کامرتکب اورراہ راست سے دور ہے۔ابن عبدالبر کے اس کلام میں ہم مقبل کی تصویر اچھی طرح دیکھ سکتے ہیںاوربطورخاص مقبل پر فریفتہ ہونے والے دیکھیں۔
حافظ ابن عساکر
حافظ ابن عساکر الدمشقی بہت مشہور محدث اورحافظ حدیث ہیں۔ان کی کتاب تاریخ دمشق شہرہ آفاق ہے۔ان کی ایک کتاب کانام تبئین کذب المفتری ہے جس میں انہوں نے بیان کیاہے کہ بہت سے لوگوں نے امام ابوالحسن اشعری سے جومن گھڑت اقوال منسوب کررکھے ہیں وہ غلط ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں
ویحبون اثبات الطعون فی الائمة ویرتاحون لذلک ،ویشیون قالة السوء ویطیرون بھافرحاونشاطا لمرض فی طبعائعھم وغرض فی نفوسھم نسال السلامة من الامراض والاغراض والعافیة من کل بلاء والتوفیق لتعظیم ائمہ الدین والعلماء ومنھم ابوحنیفة ومالک والشافعی واحمد رضی اللہ عنھم اجمعین۔(تبیین کذب المفتری ص96بحوالہ الانتقاء تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ)(کچھ لوگوں کاحال یہ ہے کہ)وہ ائمہ کرام کے بارے میں جو مطاعن اورمثالب مذکور ہیں ان کو ثابت کرنے کی فراق میں رہتے ہیں اوراس کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں
ایساکیوں ہوتاہے
وہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اوریہ چیز ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے جس سے ان کے نفس کو تسکین ملتی ہے ۔
آج کل کے اہل حدیث،سلفی،اثری ،غیرمقلد یاجوکچھ بھی کہیں۔وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کایہ کلام بھی دیکھیں
قال الحافظ الامام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ فی کتابہ ''منہاج السنة النبویة 1/259-2/619ان اباحنیفة وان کان الناس خالفوہ فی اشیاء وانکروہ علیہ فلایستریب احد فی فقھہ وعلمہ وقد نقلوہ عنہ اشیاء یقصدون بھاالشناعة علیہ ،وھی کذب علیہ قطعا کمسالة الخنزیر البری ونحوھا''
وقال شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ ایضا فی مجموع الفتاوی20/304ومن ظن بابی حنیفة اوغیرہ من ائمہ المسلمین انھم یتعمدون مخالفة الحدیث الصحیح لقیاس اورغیرہ،فقداخطأ علیھم وتکلم امابظن وامابھوی،
اب مقبل پرفریفتہ حضرات خود فیصلہ کرلیں کہ حضرت ابن تیمیہ کے کلام کی روشنی میں وہ مقبل کے بارے میں کیاکہناچاہیں گے۔تکلم بظن اوبھوی
اتنے پرہی کیوں بس کریں چلئے سن لیتے ہیں کہ اس بارے میں قاضی القضاةعبدالوہاب بن علی الشافعی طبقات الشافعیہ کے مصنف تاج الدین السبکی کے والدکیافرماتے ہیں ۔
وقال الامام قاضی القضاة تاج الدین السبکی (عبدالوہاب بن علی)الشافعی الفقیہ الاصولی المحدث فی آخرکتابہ ''جمع الجوامع''فی اصول الفقہ 2/441عند ذکر العقیدہ
''ونعتقد ان اباحنیفة ومالکا والشافعی احمد والسفانین والاوزاعی واسحاق بن راہویہ ودائود الظاہری وابن جریر وسائر ائمہ المسلمین علی ھدی من اللہ تعالی فی العقائد وغیرھا ولاالتفات الی من تکلم فیھم بماھم بریئون منہ،فقد کانوا من العلوم اللدنیہ والمواھب الالھیة والاستنباطات الدقیقة والمعارف الغزیرة والدین والورع والعبادة والزہادة والجلالة بالمحل الذی لایسامی''

خداکی شان ایک حافظ حدیث اورفقیہ اوراصول فقہ کا ماہرتویہ کہہ رہاہے اورایک مقبل ہے جو امام ابوحنیفہ کی شان میں مثالب کو جمع کررہاہے اورامام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کو سنت کے انہدام سے تعبیرکرتاہے ۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجرکے شاگرد خاص حافظ سخاوی کیافرماتے ہیں
قال السخاوی فی ''الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التوریخ ص65''لنحو ھذاالذی ذکرہ ابن حباب وغیرہ فقال:وامامااسندہ الحافظ ابوالشیخ ابن حیان فی کتاب السنة لہ من الکلام فی حق بعض الائمة المقلدین (ویعنی بھذا اباحنیفة)وکذا الحافظ ابواحمد بن عدی فی کاملہ والحافظ ابوبکر الخطیب فی تاریخ بغداد وآخرون ممن قبلھم کابن ابی شیبہ فی مصنفہ والبخاری والنسائی مماکنت انزھھم عن ایرادہ مع کونھم مجتھدین ومقاصدھم جمیلة ،فینبغی تجنب اقتفائھم فیہ ،ولذا عزر بعض القضاة الاعلام من شیوخنا :من نسب الیہ التحدث ببعضہ ،بل منعناشیخنا الحافظ ابن حجر حین سمعنا علیہ ''ذم الکلام للھروی من الروایة عنہ لمافیہ من ذلک
دیکھئے حافظ سخاوی فرماتے ہیں کہ امام بخاری اوراسی طرح دیگر ائمہ جرح وتعدیل نے امام ابوحنیفہ پر جوکلام کیاہے اس میں ان کی نیت بخیرتھی (کہ ان کو جوکچھ غلط خبریں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے پہنچی اسی کے مطابق انہوں نے کلام کیا)لیکن اب اگرکوئی تاریخ کے کوڑے دان سے ان غلاظتوں کو لے کر امام ابوحنیفہ کو متہم کرنے کی کوشش کرتاہے توقاضی اس کی تعزیر کرے اورسزادے اوریہ صرف حافظ سخاوی کی فہمائش نہیں ہے بلکہ ایساکیابھی گیاہے۔ولذاعزربعض القضاة الاعلام من شیوخنامن نسب الیہ التحدث ببعضہ،اورحافظ ابن حجر نے توایسی کتاب کی روایت سے ہی روک دیاہے کیاشوافع علماء اورحافظ ابن حجر کے اس فعل میں مقبل کیلئے اقتداء کاکوئی پہلونہیں تھا؟
ویسے بھی مقبل اوررئیس ندوی جیسے لوگ اس دورمیں ہوتے توشرعی سزا کے مستحق ہوتے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ثانیا:
اگر ہمارا یہ طرزعمل ہوتا جو جمشید صاحب بتلارہے ہیں تو ہم دنیا بھر میں ابوحنیفہ کو شیطان ثابت کرتے پھرتے کیونکہ کسی ثقہ ومستند امام نے ابوحنیفہ کو شیطان بھی کہا ہے ، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ غصہ کی حالت میں ابوحنیفہ کو شیطان کہا گیا ورنہ حقیقت میں ابوحنیفہ شیطان نہیں بلکہ انسان ہیں۔
کفایت اللہ صاحب ہمیں یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ انہوں نے ایسانہیں کیا لیکن کبھی مقبل اوررئیس ندوی کی کتابوں کی جانب بھی نگاہ دوڑائی ہے یااسی طرح غیرمقلدین جو امام ابوحنیفہ کے مثالب کی کتابوں کی اشاعت کی جانب بڑے سرگرم رہتے ہیں ان سرگرمیون پر بھی کبھی نظرکی ہے ۔اورتواور ان مسائل میں خود سلفیوں میں ہی اختلاف ہوجاتاہے۔ جب کتاب السنۃ شائع ہوئی تو نجدی سلفیوں نے اس میں سے امام ابوحنیفہ کے مثالب والا پوراباب ہی نکال دیا۔ اس پر اے گریڈ سلفی بہت تلملائے کہ اس سے توہمارامقصد ہی فوت ہورہاہے ہمارے فرقہ کی وجود کی بنیاد پر ہی ضرب پڑرہی ہے توانہوں نے علمی امانت کا نام لے کر اس کو دوبارہ شائع کردیا۔
ثالثا:
رہی بات ابوحنیفہ کو منحوس کہنے کی تو ہم پر اسے ظاہر پر محمول نہیں کرتے اور یہ ہرگز نہیں کہتے اگر ابوحنیفہ کو منحوس کہتے وقت نحوست کا وہی عقیدہ کار فرما ہے جسے اسلام نے باطل قراردیا ہے بلکہ ابوحنیفہ کو منحوس کہنے سے مراد یہ ہے کہ موصوف کے فتاوی اور ان کی آراء سے امت کو بہت نقصان پہنچا ہے، امت کا اتنا نقصان کسی بھی امام کی آراء وفتاوی سے نہیں ہواہے۔ اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے ، آج بھی امت کا ایک طبقہ ان آراء و فتاوی کو بھگت رہاہے۔
کفایت اللہ صاحب نے ثالث میں جوکچھ فرمایاہے وہ محض معلمی کی صدائے بازگشت ہے ۔اورکفایت اللہ صاحب اسے اپنے ہی الفاظ میں سنناچاہیں تو سنیں کہ
کفایت اللہ نے یہ تاثر دیناچاہاہے کہ یہ ان کی تحقیق ہے لیکن ایسانہیں ہے بلکہ معلمی صاحب التنکیل میں اس کو لکھ چکے ہیں اور وہیں سے انہوں نے پڑھ کر یہ تاویل حاصل کی ہے۔
اوریہ معلمی کی اپنی خانہ زارد تاویل ہے جس کی کسی بھی امام نے توثیق اورتائید نہیں کی ہے۔چونکہ راقم الحروف اس پر اپنے مضمون فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں تفصیل سے کلام ہے لہذا مناسب ہے اس کو یہاں پر ذکر کردیاجائے۔
اب معلمی بجائے اس کے کہ صحیح بات کااعتراف کرتے کہتے کہ جوش تنقید میں ابن عینیہ اوراوزاعی کی زبان پھسل گئی اوراس میں انہوں نے حدود شرع سے تجاوز کیا۔تاویلات کرنی شروع کردیں۔ حالانکہ یہی تاویلات اگرامام کوثری کی جانب سے ہوئی ہیں توان کو اس پرسوسواعتراضات ہیں۔

اب ذرادیکھئے معلمی نے اس "غلط "بات کی کیا"صحیح"تاویل کی ہے پڑھئے اورپڑھ کر سردھنئے۔
أقول: لم يريدا الشؤم الذي نفاه الشرع وإنما أرادا الشؤم الذي يثبته الشرع والعقل، إذا كان في أخلاق الإنسان وأقواله وأفعاله ما من شأنه ديانة وعادة وقوع الضرر والمصائب بمن يصحبه ويتبعه ويتعدى ذلك إلى غيرهم ووقع ذلك ولم يزل ينتشر ودلت الحال على أنه لن يزال في انتشار صح أن يقال إنه مشيءوم وإذا ظن أن ما يلحق الأمة من الضرر بسبب رجل آخر صح أن يقال: إنه لم يولد مولود أشأم على الأمة منه.
(التنکیل 1/472)
اس پورے پیراگراف میں جوپہلاجملہ ہے۔وہ بیت الغزل ہےان کی اس تاویلی غزل کا۔لیکن اس بیت الغزل پرتبصرہ کرنے سے پہلاان کے اس جملہ پرتبصرہ کرتے چلیں۔
أقول: لم يريدا
میں کہتاہوں(معلمی)ان دونوں نے شوم سے اس کاارادہ نہیں کیا۔
یہ معلمی کوبالتحقیق اوربالجزم کہاں سے معلوم ہوگیاکہ انہوں نے واقعتااسی کاارادہ کیاہےجس کامعلمی کوخیال آیاہے اوردوسری شق نہیں ہوسکتی۔کیامعلمی کوالقاء ہوایاالہام یادونوں نے خواب میں آکر اپنے مراد کی وضاحت کردی ۔اس مقام پر توصرف اتناکہاجاسکتاہے کہ اس کا یہ مطلب بھی لیاجاسکتاہے۔ اس کا یہ محمل بھی ہوسکتاہے۔ اس کاراجح معنی یہ ہے۔وغیرہ وغیرہ۔لیکن ان سب کے بجائے بالجزم یہ کہہ دینامعلمی کاہی کام ہے کہ ۱۳۰۰ صدی پہلے کے بزرگ نے جوکچھ کہاتھااس کاظاہری معنی مراد نہیں بلکہ باطنی معنی مراد ہے۔
میں نے معلمی کی بیت الغزل کے بارے میں کہاتھاذرادوبارہ پڑھئے۔
أقول: لم يريدا الشؤم الذي نفاه الشرع وإنما أرادا الشؤم الذي يثبته الشرع والعقل
میں (معلمی)کہتاہوں کہ ان دونوں نے وہ شوم مراد نہیں لیاجس کی شریعت نفی کرتی ہے بلکہ وہ شوم مراد لیاہے جس کاشریعت اورعقل اثبات کرتی ہے۔

صنعت تضاد شعروادب میں ایک قابل تحسین صنعت ہے لیکن ایک نقد کی کتاب میں کوئی صنعت تضادبرتے تواس کو بس امام ابوحنیفہ کی شدت عداوت میں عقل ماءوف ہونے سے ہی تعبیرکیاجساسکتاہے۔
شوم یانحوست کی وہ کون سی قسم ہے جس کاشریعت انکار کرتی ہے اورشریعت اورعقل اقرارکرتی ہے۔ایسی کسی نحوست کا ذکر پورے قرآن اورحدیث میں نہیں ہے۔ معلمی نے خود سے ایک نئی شریعت گڑھ لی ہوتواس کی بات الگ ہے لیکن شریعت کے وسیع ذخیرے میں کہیں بھی کسی بھی قسم کے نحوست کاانکار کے ساتھ اثبات نہیں ہے۔
آگے چل کر معلمی جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت میں حدیث شوم کی مکمل معنوی نفی ہے۔کسی شخص کے تعلق سے نحوست کااعتقاد ہی اسی وقت کیاجاتاہے جب اس سے دوسروں کوضررپہنچتاہے چاہے وہ کسی بھی قسم کاہو۔ کسی اچھے اورنافع شخص کوکوئی بھی منحوس اورمشئوم نہیں کہتا۔اس کے باوجود جب شریعت نے نحوست کی نفی کی ہے توصاف واضح ہے کہ اگرچہ کوئی شخص اپنی ذات میں کتناہی نقصاندہ ہواوردوسروں کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچے لیکن نحوست کاعقیدہ باطل اورغلط ہے۔کیاحجاج بن یوسف ثقفی،مسیلمہ بن کذاب اوردیگر مدعیان نبوت اورشرارامت سے امت کونقصان نہیں پہنچالیکن کس نے انکو منحوس کہا۔یاکس نے ماقبل میں یہ تاویل کی ہے کہ جس سے امت کونقصان پہنچے وہ منحوس ہے اوراس کومنحوس کہنادرست ہے ۔

معلمی کایہ کہناکہ اس کو شریعت اورعقل بھی ثابت کرتی ہے شریعت پر محض بہتان ہے اوراپنی عقل کے وہ خود مالک ہیں جوچاہیں سوچیں لیکن دوسروں کی عقل پرخواہ مخواہ کی تہمت نہ لگائیں۔
معلمی کی یہ مضحکہ خیز تاویل پڑھئے
إذا كان في أخلاق الإنسان وأقواله وأفعاله ما من شأنه ديانة وعادة وقوع الضرر والمصائب بمن يصحبه ويتبعه ويتعدى ذلك إلى غيرهم ووقع ذلك ولم يزل ينتشر ودلت الحال على أنه لن يزال في انتشار صح أن يقال إنه مشيءوم وإذا ظن أن ما يلحق الأمة من الضرر بسبب رجل آخر صح أن يقال: إنه لم يولد مولود أشأم على الأمة منه.
کیاآپ نے قبل ازیں ایسی مضحکہ خیز تاویل پڑھی ہے۔آپ میں سے نہ جانے کتنوں نے اس حدیث کی تاویل اورتشریح پڑھی ہوگی لیکن ایسی انوکھی ،اورنادر تاویل کہیں پڑھی ہے؟اسے محفوظ کرلیجئے یہ تاویل کہیں اورنہیں ملے گی یہ صرف معلمی کی ہی کتاب میں مل سکتی ہے۔

معلمی نے یہ بتاناضروری سمجھا کہ اس سخت جرح کی وجہ بیان کی جائے لیکن جووجہ انہوں نے بیان کی ہے اس کو پڑھ کر سفیان ثوری اورامام اوزاعی کے علم وفضل پر شک ہونے لگتاہے کہ آیاکتب تاریخ وتراجم میں جوان کے فضائل ومناقب منقول ہیں وہ درست بھی ہیں یانہیں!کیونکہ جووجہ بیان کی ہے اس کو ایک معمولی طالب علم بھی درست نہین سمجھے گا۔

كان الثوري والأوزاعي كجمهور الأئمة قبلها وفي عصرهما يريان الإرجاء و رد السنة بالرأي والقول ببعض مقالات الجهمية كل ذلك ضلالة من شأنها أن يشتد ضررها على الأمة في دينها ودنياها ورأيا صاحبكم واتباعه مخطئين أو مصيبين جادين في نشر ذلك ولاتزال مقالاتهم تنتشر وتجر إلى ما هو شر منها حتى جرت قوما إلى القول بأن أخبار الآحاد مردودة مطلقا وآخرين إلى رد الأخبار مطلقا كما ذكره الشافعي ثم جرت إلى القول بأن النصوص الشرعية لا يحتج بها في العقائد ! ثم إلى نسبه الكذب إلى أنبياء الله عز وجل واليه سبحانه كما شرحته في قسم الاعتقاديات .

شاهد الثوري والأوزاعي طرفا من ذلك ودلتهما الحال على ما سيصير إليه الأمر فكان كما ظنا وهل كانت المحنة في زمن المأمون والمعتصم والواثق إلا على يدي أصحابكم ينسبون أقوالهم إلى صاحبكم ؟ وفي كتاب ( قضاة مصر ) طرف من وصف ذلك . وهل جر إلى استفحال تلك المقالات إلا تلك المحنة ؟ وأي ضر نزل بالأمة أشد من هذه المقالات ؟

معلمی لکھتے ہیں کہ ارجاء اورسنت کو رائے سے ردکرنااوردیگر باتوں کو وہ گمراہی سمجھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی معلوم تھاکہ یہ گمراہی مزید آگے بڑھے گی ۔بعض لوگ مطلقاخبرواحد کو ہی رد کردیں گے،پھربعض لوگ نصوص شرعیہ سے عقائد میں حجت نہیں پکڑیں گے پھر بعض لوگ انبیاء کی جانب کذب کی نسبت کریں گے۔ثوری اوراوزاعی نے اس قسم کاخیال کرکے اورآگے جوکچھ ہونے والاہے جیساکہ خلق قرآن میں علماء کی سخت آزمائش ہوئی وغیرہ کاخیال کرکے یہ بات کہی۔
یہ معلمی کی دوسری لچر اورباطل تاویل ہے اورلچرپوچ ہونے میں پہلے کے مماثل ہے۔کیاکسی پر جرح مایکون کے بھی اعتبار سے کیاجاتاہے۔کیاکسی مجرم کوسزاآئندہ ہونے والے واقعہ کے اعتبار سےبھی دیاجاتاہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو فراست سے معلوم ہوگیاتھاکہ ابولولو مجوسی انکاقتل کرے گاانہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہابھی کہ یہ مجھے قتل کی دھمکی دے رہاہے جب کسی نے کہاتوپھراس کو سزاکیوں نہیں دیتے یاگرفتارکیوں نہیں کرتے توفرمایاکہ جرم سے پہلے سزاکیسی؟
کیااگرکسی کے متعبین اس کے بارے میں غلو کریں، یااس کے بتائے راستے سے ہٹ کر اپنی الگ راہ بنالیں تواس کاالزام متبوع پر آئے گا اوراس وجہ سے اس پر جرح کی جائے گی ؟اگرایسی بات ہے توپھرتمام انبیاء کرام پر جن کی امت گمراہی ہوئی ۔گمراہی کاالزام آئے گا۔نعوذباللہ من ھذہ الخرافات والھذیانات ۔

اگرکچھ لوگوں نے خلق قرآن کا عقیدہ اختیار کیا۔اگرکچھ لوگ سنت اورحدیث کے بارے میں راہ راست سے ہٹ گئے اگرکچھ لوگوں نے نصوص شرعیہ کووہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق ہیں توکیااس کا الزام امام ابوحنیفہ پر آئے گااورمایکون کے اعتبار سے امام ابوحنیفہ پر جرح کی جائے گی۔اگرایساہے توجارح اورجارح کی جانب سے دفاع کرنے والا دونوں جاہل اورجہالت مین شریک ہیں۔

امام زاہد الکوثری کو تعصب کو طعنہ دینے سے پہلے معلمی اگرخلوص دل کے ساتھ اپنے تعصب پر غورکرتے توانہیں اچھی طرح معلوم ہوجاتاکہ ان کےدل میں تعصب زیادہ ہے اوربہت ہے ۔لیکن انسان کو اپنی آنکھ کاشہتیردکھائی نہیں دیتااوردوسروں کی آنکھ کا تنکابھی کھٹکنے لگتاہے۔

شیخ زاہد الکوثری کاکہنایہ ہے کہ یہ دونوں کلام ان سے ثابت نہیں،کیونکہ یہ دونوں بزرگ اس طرح کی زبان استعمال کرنے سے بری ہیں۔ہاں یہ بعد کے کسی راوی کاکام ہوسکتاہے ۔اگریہ ماناجائے کہ انہوں نے اس طرح کی بات کہی ہے تو اس سے ان کی ذات ہی مجروح ہوگی ۔

اولاجرح دراصل غیبت ہے جیساکہ علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔

شریعت کااصول ہے کہ ضرورت کو ضرورت کے بقدر ہی رکھاجائے۔

ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ اگرایک کلمہ سے بات پوری ہوسکتی ہوتو دوکلمہ نہیں کہناچاہئے۔ اگرکسی پر مختصرجرح سے کام چل سکتاہے تو توطویل جرح نہیں کرناچاہئے۔اگرکسی پر ضعیف کے اطلاق سے مقصدپوراہورہاہوتوپھرضعیف لیس بالقوی نہیں کہناچاہئے۔

اب ہمیں دیکھناہے کہ کیااس جرح میں تشدد ،اسراف اورمبالغہ آمیزی نہیں ہے؟
جس شخص کا دماغ تعصب سے خالی ہوگااورمحدثین کی اندھی تقلید کاقائل نہ ہوگاوہ یہی کہے گاکہ اس میں جرح نہیں ہے بلکہ دل کابخار نکالاگیاہے۔

جن حضرات کو اس تعلق سے تفصیل چاہئے وہ یہ مراسلہ مکمل طورپرپڑھ لیں
http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-155/فقہ-حنفی-کی-نشرواشاعت-کے-اسباب-وعوامل-9720/#post65785
اوراگرانہیں اچھالگے تویہ تھریڈ بھی پڑھ لیں۔
 
Top