چلیں کچھ تو فائد اٹھایا ہے آپ نے فرصت سے ۔ ویسے یہ کام آپ '' سند '' کے مطالبہ کے بغیر بھی کر سکتے تھے ۔ خیر ۔
خضر حیات
چلئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔
آپ کی سند اور آپ کے اس فورم میں اہل حدیث کی تاریخ سے تو پتا چلتا ہے کہ اہل حدیث کا پہلے سے کوئی وجود تھاہی نہیں
(1)۔
نہ آپ کی سند مکمل طور سے غیر مقلدین کی ہے
(2)
اور نہ ہی تاریخ میں اہل حدیث ہیں ( ایک لنک اسی فورم کا دے رہاہوں اس میں عالمگیر کے زمانے سے اہل حدیث علماء کو دیکھئے کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا ) جو تا ریخ آپ اپنے علماء کی علم حدیث کے سلسلہ میں پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب مقلدین کی ہیں
(3)۔
لنک :ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداء و انتہاء۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/3533/0/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور لنک ہے :۔برّصغیر پاک و ہند میں علمِ حَدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی :۔
اس میں شیخ الکل مولانا سید محمدنذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) کے شاگرد سے تاریخ شروع ہورہی ہے۔
(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری میں تعلیقاً اور صحیح مسلم میں مسنداً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جماعت میں دیر سے آنے لگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلدی آنے اور اگلی صفوں میں نماز پڑھنے کی تاکلید فرمائی،اور ساتھ ہی فرمایا :-
"ایتموابی ولیاتم بکم من بعدکم"
(صحیح بخاری،باب الرجل یاتم بالامام ویاتم الناس بالماموم،جلد1،صفحہ99)
"تم مجھے دیکھ دیکھ کر میری اقتداء کرو اور تمہارے بعد آنے والے لوگ تمہیں دیکھ دیکھ کر تمہاری اقتداء کریں"
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :-
"وقیل معنا تعلموامنی احکام الشریعۃ، ولیتعلم منکم التابعون بعدکم وکذلک اتباعھم الٰی۔۔۔۔۔انقراض الدنیا،"
(فتح الباری،جلد2،صفحہ171،طبع میریہ،1300ھ)
"بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم مجھ سے احکام شریعت سیکھ لو اور تمہارے بعد آنے والے تابعین تم سے سیکھیں،اور یہ سلسلہ دنیا کے خاتمے تک چلتا رہے
(5)"
(1)
پہلےسے آپ کی مراد کیا ہے ؟
(2)
جس طرح آپ کی سند مکمل طور سے حنفیوں کی نہیں ہے ۔ سب مقلدین کہہ کر جان نہ چھڑائیں ۔ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں کہ سب آئمہ کےمقلد ہیں ؟
یہاں جو اعتراض آپ ہم پر کرنا چاہتے ہیں وہی اعتراض آپ پر بھی آتا ہے ۔
اچھا چلیں ذرا کچھ دیر کے لیے آپ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے آپ سے مطالبہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تک کوئی ایک سند بھی ایسی دکھادیں جو آپ کے دعوی کےمطابق ’’ صرف مقلدین ‘‘ پر مشتمل ہو ۔
(3)
یہاں میں آپ کو دونوں قسم کے حوالے پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صاحب الحديث عندنا من يستعمل الحديث ( الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع ص 186 )
ہمارے نزدیک اہل حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے ۔
گویا جب سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہورہا ہے اس دور سے اہل حدیث موجود ہیں ۔
حافظ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
ولا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا واتباعه باطنا وظاهرا ۔ ( مجموع الفتاوی ج 4 ص 95 )
اور ہم اہل حدیث سے مراد صرف سامعین حدیث ، کاتبین حدیث یا راویاں حدیث ہی نہیں لیتے بلکہ ہم ہر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو اسے کما حقہ یاد رکھتا ہے ، ظاہری و باطنی معرفت و فہم رکھتا ہے ہے ، اور باطنی و ظاہری اتباع کرتا ہے ۔
دیوبندی عالم دین رشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں
’’ تقریبا دوسری تیسری صدی ہدری میں اہل حق فروعی اور جزئی مسائل کےحل کرنے میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر میں قائم ہوگئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث ۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا ۔‘‘ ( احسن الفتاوی ج 1 ص 216 )
محمد ادریس کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں :
’’ اہل حدیث تو تمام صحابہ تھے ‘‘ ( اجتہاد و تقلید کی بیمثال تحقیق ص 48 )
یہ حوالہ جات حافظ زبیر علی زئی صاحب کی کتاب ’’ اہل حدیث ایک صفاتی نام ‘‘ سے ماخوذ ہیں ۔
(4)
برصغیر کے اندر اہل حدیث کا وجود صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے رہا ہے ۔ اور یہ باتیں کتابوں کے اندر کیا اس فورم پر کئی دفعہ ہوچکی ہیں ۔ لہذا وہی گھسے پھٹے اعتراضات کرکے آپ علم وفن کی کیا خدمت سمجھتے ہیں ؟
ایک ہے ’’ اہل حدیث کا وجود ‘‘ دوسرا ہے ’’ برصغیر میں اہل حدیث کا وجود ‘‘ اگر مان بھی لیا جائے کہ برصغیر میں اہل حدیث کچھ دیر پہلے کے تھے تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ ’’ اہل حدیث ‘‘ بعد کی پیداوار ہیں ۔اور ویسے بھی علاقوں میں کسی کا اس طرح سے وجود کب سے ’’ حق ‘‘ ہونے کی دلیل بن گیا ہے ؟ مالکی مذہب ہندوستان میں صرف اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس کی برصغیر میں کوئی تاریخ نہیں ہے ۔ ؟ بلاد اندلس میں مذہبی حنفی کو صرف اس لیے رد کردیا جائے گا کہ وہاں کبھی حنفی مذہب رائج نہیں ہوا ۔ ؟
فکرو نظر کو اسی انداز سے حرکت دی جائے تو پھر ’’ دیوبندیہ ‘‘ اور ’’ بریلویہ ‘‘ کہاں جائیں گے ؟ جو فرقے ہندوستان کی بستیوں کی طرف منسوب ہیں ان کےلیے کیونکر روا ہے کہ ’’ اہل سنت ‘‘ ہونے کا دعوی کرتے پھریں ؟
باقی کسی امام کی تقلید کا ہار گلے میں پہننے کی بجائے تمام سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کا مسئلہ ہے توایسے خوش نصیب صحابہ کے دور سے لے کر آج تک الحمدللہ موجود ہیں ۔
مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل ، بخاری ، مسلم ، ابن خزیمہ ، ابن جریر طبری ، ابو یعلی الموصلی ، ابن المنذر سے لے کر ابن تیمیہ ، ابن قیم تک سب کب کسی کی تقلید کرتے تھے ۔
کیا یہ سب برصغیر میں انگریز کے دور کی پیدائش ہیں ؟
(5)
اس حدیث کے معنی و مفہوم پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ الحمدللہ اہل حدیث حضرات کی اپنی کوئی ڈیڑہ اینٹ کی مسجد نہیں ہے ۔ قرآن وسنت سے اپنے من مانے مفاہیم اخذ کرنے والوں کا ’’ اہل حدیث ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
لیکن اس کو آپ جس انداز سے اہل حدیث پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس طرح تو یہ آپ کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی ۔
مثلا اگر آپ کہیں کہ اس حدیث کی رو سے ’’ اہل حدیث ‘‘ کے پاس ’’ مسلسل بأہل الحدیث ‘‘ سند ہونی چاہیے تو یہی مطالبہ آپ سےبھی ہے کہ آپ کے پاس بھی ’’ مسلسل بالأحناف ‘‘ سند ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ حنفی مذہب ادھر ادھر سے جمع کرنے کی بجائے نسل در نسل ( جیلا بعد جیل ) سند کے ساتھ نقل ہوا ہے ۔
اگر آپ صرف حنفیوں پر مشتمل سند نہ دکھا سکیں تو کیا یہ آپ کی طرف سے اعتراف سمجھا جائے کہ مذہب حنفی پر ایسا وقت بھی آیا تھا جب اس کو آگے پہنچانے والا کوئی موجود نہیں تھا اس لیے دوسرے مقلدین و غیر مقلدین کی ضرورت پڑگی تھی ۔