میں نے یہ بحث پڑھی کہ جس میں یوسف بھائی سند کے پیچھے لگے ہوئے ہیں
یوسف بھائی ہر چیز کی تحقیق کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور جس چیز کی تحقیق کی جاتی ہے اسکی پہچان ہونا بھی لازمی ہوتی ہے
میرے خیال میں ایک تو آپ کا اہل حدیث کی سند کی تحقیق کا مقصد بھی سامنے نہیں آیا اور دوسرا کم از کم مجھے تو واضح نظر آ رہا ہے کہ آپ کو سند کی کوئی معرفت نہیں
یاد رکھیں یہاں سند کی معرفت سے مراد سند سند کی رٹ لگانا یا مستشرقین کی طرح اپنے مفاد کے لئے کوئی سند یاد کرنا نہیں بلکہ سند کے سلسلے میں مندرجہ ذیل چہزوں کی معرفت لازمی ہے
1-سند کی دین میں کیا افادیت ہے جیسا کہ امام مسلم نے اپنے مقدمے میں بیان کی ہے یعنی اسکے بغیر ہر کوئی اپنی مرضی سے دین کی بات کرنا اور دعوت دینا شروع کر دے گا
2-سند کے لئے کیا چیزیں ضروری ہیں (محدثین کے سخت اصولوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے)
3-سند کا متبادل بھی کچھ ہوتا ہے کہ جس وقت سند کی وقعت دعوت کے لحاظ سے اتنی نہیں رہ جاتی اور انسان سند کے سہارے کے بغیر بھی دعوت دے سکتا ہے اس صورت میں اگر سند کا سہارا لیا بھی جائے تو سخت اصول لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی مثلا قرآن جب تواتر سے مل گیا تو اب سند کی ضرورت نہیں بلکہ ہم دعوت دیتے ہوئے قرآن کی آیت پڑھ کر یہ کہ دیں کہ قرآن میں ایسے ہے تو کوئی سند نہیں مانگے گا اسی طرح بخاری کی حدیث پڑھ کر ہم دعوت دیں تو عوما کوئی اسکی سند نہیں مانگے گا حالانکہ بخاری کے مصنف کے بعد اب تک کتنی سندیں آ چکی ہیں پس اب اگر آپ یوسف بھائی کے واسطے سے ہمارے کسی اہل حدیث کی سند کوئی پینچتی ہے تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے ہمارے ہاں تو یہ صرف آپ لوگوں کو سند سے مانوس کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ آپ کو بھی بیچ میں لے لیتے ہیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
ہم میں سے کوی اپنے بچے کو مجاہد یا سپاہی یا فوجی بنانا چاہتا ہے اور بچہ اسکے سخت خلاف ہوتا ہے تو شروع سے والدین اسی کی پریکٹس کسی نہ کسی طریقے سے کرواتے ہیں کہ اسکو نقلی گولیاں اور پستول دے کر اسکی ریہرسل کرواتے ہیں تاکہ اسکا دل اس میں لگے پس ہم تو آپ کا دل لگانے کے لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ آپ (میری مراد آپ جیسی ذہنیت رکھنے والا ایک حنفی طبقہ) سند کو کچھ نہیں سمجھتے اور اپنے بزرگوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں
یاد رکھیں سند اور بزرگوں کی بے جا بزرگی آپس میں متضاد ہیں پس میں نے آپ جیسی ذہنیت والوں کو دیکھا ہے کہ اگر آپ کے بزرگ کوئی ایسا شرکیہ فعل بھی کر لیں جو بالکل بریلویوں کی طرح ہو تو آپ مر مر کر اسکی تاویل کر رہے ہوتے ہیں اور اسکی سند کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ دوسری جگہ خود اس سند کے غیر مستند ہونے کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں
نتیجہ
میں نے اوپر دو طرح کی سندوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ جس کو متبادل تقویت کے لئے کچھ نہیں ملتا اس سند کو یہ بھائی کچھ اہمیت نہیں دیتے اور دوسری وہ سند کہ جس کا متبادل تقویت دینے والا موجود ہو اس سند کے یہ پیچھے پڑے ہوتے ہیں اصل میں یہ ویسے ہی ہے جیسے بدعتی ساری رات شب معراج کی نمازیں پڑھتے رہیں اور صبح فجر پڑھے بغیر سو جائیں
گل اس دور کے زخم رسیدوں میں مل گئے
یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گئے