جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف ہو تو وہ جھوٹ بولنے سے ڈرتا ہے اور کسی پر تہمت لگانے کا سوچ کر ہی لرز جاتا ہے۔ لیکن تقلید ایسی بیماری ہے جو انسان کے دل سے سب سے پہلے شرم وحیا اور خوف خدا کو رخصت کرتی ہے۔ پھر اسکے بعد انسان بے حیا بن کر اور خوف خدا سے عاری ہوکر جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو چاہتا ہے کہتا ہے۔ اکابرین دیوبند بھی ایسے ہی لوگ تھے جنھوں نے قرآن و حدیث میں تحریف کی کوشش کی پھر ان سے یہ امید کیونکر ناممکن تھی کہ یہ اپنے مخالفین پر بہتان نہ گھڑتے۔ سو انھوں نے جب اہل حدیث کے خلاف کوئی دلیل نہ پائی تو اپنی خصلت بد سے مجبور ہوکر خود ہی گستاخیاں گھڑیں، بہتان گھڑے اور علمائے اہل حدیث کی طرف منسوب کرکے اپنی عوام کو جو اپنے علماء پر اندھا بھروسہ کرتی ہے مطمئن کردیا۔
اکابرین دیوبندی کی اتنی ہمت اس لئے ہوئی کہ انہیں معلوم تھا کہ کون سا کوئی اہل حدیث ان سے آکر مطالبہ کرے گا کہ تم نے جو اہل حدیث علماء پر جھوٹ بولا ہے اسے ثابت کرو اور انکی اندھی عوام کی اتنی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ وہ اپنے کذاب علماء سے دلیل طلب کرنے کی جراء ت کریں۔ سو انہوں نے اپنی کتابوں میں جس پر جو چاہا جھوٹا الزام عائد کردیا۔ لیکن انکے علماء کی کبھی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اس طرح کے بے بنیاد الزامات اہل حدیثوں کے سامنے مناظروں میں پیش کریں کیونکہ اسے یہ لوگ ثابت نہیں کرسکتے۔ اسی طرح دیوبندیوں سے یہاں بھی غلطی ہوئی کہ انہوں نے فورم پر براہ راست اہل حدیثوں کے خلاف اپنے علماء کے جھوٹ کو بطور دلیل پیش کردیا۔ اب انکے ثبوت پیش کرنا انکی گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ اب چاہیں یہ مریں یا جئیں انہیں یا تو اپنے علماء کے دعوؤں کا ثبوت پیش کرنا ہوگا یا اپنا اور اپنے علماء کے جھوٹے ہونے کا اعلان کرنا ہوگا۔
دیوبندی عرصہ دراز سے صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک عبارت پیش کررہے ہیں جس سے انکا مقصور اہل حدیث کو مطعون کرنا اور انکے مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں صدیق حسن خان کی اس عبارت سے نہ کوئی پریشانی ہے اور نہ ہی کوئی تکلیف ہوتی ہے ہمیں تو تکلیف اس وقت شروع ہوتی ہے جب دیوبندی علماء ہمارے عالم کی عبارت کو یہ کہہ کر ہمارے ہی خلاف پیش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو تمہارے اپنے اکابر تم سے اور اہل حدیث مذہب سے بے زار تھے۔ پھر جب ہم ان سے صدیق حسن خان کی عبارت کی اہل حدیث کی طرف ناجائز انتساب کی دلیل طلب کرتے ہیں جو کہ ہمارا شرعی حق ہے تو یہ لوگ یا تو تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں یا پھر فاسد تاؤیلات کا دفتر کھول لیتے ہیں۔
صوفی منقار شاہ دیوبندی صدیق حسن خان کی زیر بحث عبارت پیش کرنے سے پہلے بطور تمہید لکھتا ہے:
نواب صاحب نے اپنی جماعت میں جو نقائص و خصائص دیکھے بلا کم و کاست پوری دیانتداری اور صاف گوئی سے قلم و قرطاس کے حوالے کردیا۔ ملاحظہ ہو:
نواب صاحب اپنی مشہور کتاب ’’الحطہ فی ذکرالصحاح الستۃ‘‘ میں غیر مقلدین کی ناپسندیدہ حرکات اور طریق کار کا محاسبہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اس زمانہ میں ایک ریا کار شہرت پسند فرقہ نے جنم لیا ہے جو ہر قسم کی خامیوں اور نقائص کے باوجوداپنے لئے قرآن وحدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کا دعویدار ہے.....الخ (وہابیوں کا مکرو فریب، صفحہ 52)
دیوبندیوں نے واضح طور پر صدیق حسن خان کی اس عبارت سے جماعت اہل حدیث کی مذمت مراد لی ہے حالانکہ دیوبندیوں کے اس مکذبانہ مراد کی تردید صدیق حسن خان کی عبارت کا پہلا ہی جملہ کر رہا ہے دیکھئے:
’’اس زمانہ میں ایک ریا کار شہرت پسند فرقہ نے جنم لیا‘‘۔جب صدیق حسن خان کے زمانہ میں اس نئے فرقہ نے جنم لیا تو اسکا مطلب ہے کہ صدیق حسن خان کا تعلق پہلے سے موجود کسی اور قدیم فرقے سے تھا اور اس پر تو مخالفین بھی متفق ہیں کہ صدیق حسن خان مرتے دم تک اہل حدیث تھے۔پس معلوم ہوا کہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ اہل حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن جس نئے فرقہ کے وجود میں آنے کا تذکرہ وہ کررہے ہیں وہ کوئی اور نیا فرقہ تھا نہ کہ اہل حدیث فرقہ جو قدیم ہے۔
منقار شاہ دیوبندی نے صدیق حسن خان کا ایک اور اقتباس نقل کیاہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
وہ جماعت کامیابی اور فوز و فلاح سے کیسے ہمکنار ہوسکتی ہے جس کا قول اسکے فعل کے اور اس کا فعل اس کے قول کے مخالف و منافی ہو جو سرور کائنات کے اقوال و احادیث تو نقل کرتے ہیں (لیکن ان پر عمل نہ کرنے کی بنا پر )یہ لوگ ساری کائنات میں بدتر اور شریر ہیں۔(وہابیوں کا مکر و فریب، صفحہ 54)
یہ اقتباس بھی صدیق حسن خان کی اسی کتاب یعنی الحطہ کا ہے جس سے پہلی عبارت دیوبندی پیش کرتے ہیں اور اس عبارت کو بھی اہل حدیث کی برائی میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم دیوبندیوں کی بات مان لیں کہ یہ اہل حدیث کے متعلق ہے تو جب خودصدیق حسن خان رحمہ اللہ کومعلوم تھا کہ اہل حدیث جماعت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی کیونکہ انکے قول اور فعل میں تضاد ہے تو خود انکے اہل حدیث رہنے کا جواز کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ لیکن اگر اسکے باوجود بھی وہ اہل حدیث تھے اور یقیناًتھے تو اسکے دو مطلب ہیں ۔
اوّل یا تو انکو دماغی عارضہ لاحق ہوگیا تھا ۔
دوم: یا پھر یہ عبارت جماعت اہل حدیث کے متعلق نہیں بلکہ کسی اور جماعت و فرقے سے متعلق ہے۔
اگر دویوبندی دوسری وجہ کو نہیں مانتے تو پھر پہلی وجہ کا ثبوت پیش کریں کیونکہ ایک صحت مند شخص ہر گز ہرگز کسی ایسے مذہب کو نہیں اپناتا جس کے متعلق اسے یقین ہو کہ یہ باطل اور جھوٹا مذہب ہے۔
منقار شاہ دیوبندی کی اسی کتاب سے صدیق حسن خان کی مزید عبارت پڑھیے:
میں نے انہیں بارہا آزمایا پس میں نے ان میں سے کسی کو سلف صالحین اور مومنین کے طریق کار اور سیرت کو اپناتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ میں نے سب (غیرمقلدوں) کو کمینی دنیا میں منہمک اور اس کے ردی سازو سامان میں مستغرق پایا۔(وہابیوں کا مکرو فریب، صفحہ 53)
یہاں دیوبندی عالم نے یہ بتانے کے لئے کہ یہ کلمات صدیق حسن خان کسی او ر کے لئے نہیں بلکہ اپنی ہی جماعت کے لئے ادا کررہے ہیں اپنی طرف سے بریکٹ میں غیر مقلد لکھ دیا۔ اس دیوبندی عالم کی یہ یہودیانہ حرکت ثابت کررہی ہے کہ یہ اہل حدیث عالم پر بہتان لگا رہا ہے۔ اگر واقعی صدیق حسن خان یہ الفاظ اپنی کی جماعت کے لئے استعمال کررہے ہوتے تو دیوبندیوں کو بریکٹ میں خود غیرمقلد نہ لکھنا پڑتا۔
ہر انسان کا شرعی حق ہے کہ اگر اس پر اسکے کردار یا مذہب وغیرہ کے بارے میں سنگین الزام عائد کیا جائے تو وہ دلیل کا طالب ہو۔ پس اپنے اسی شرعی حق کو استعمال کرتے ہوئے ہم ذریت دیوبندیت سے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
کہاں سوگئے علمائے دیوبند کا دفاع کرنے والے؟؟؟؟ کہاں ہو
جمشید عابدالرحمٰن حبیب زدران ماں کی دعا ہندوستان تلمیذ آج دیوبندی مذہب کے علماء کی عزت خطرے میں ہے ان پر مخالفین پر جھوٹے الزام عائد کرنے کا بدنما داغ لگنے کو ہے۔ آگے بڑھو اور ثابت کردو کہ دیوبندی علماء کذاب نہیں بلکہ سچے اور ثقہ تھے۔
نوٹ: ابھی عبدالحق بنارسی رحمہ اللہ پر دیوبندیوں کا سنگین بہتان بھی ثبوت کا منتظر ہے۔