باقی پوری کتاب پڑھ لی ہے وہی مافوق الفطرت واقعات ، حافظہ ، تمام علوم کی تحصیل گویا کہ پانی میں گھول کر پی لیے ہیں اور کرامات ، خواب، پیروں سے بیعت
تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص تقیہ کر کے اہل حدیثوں میں داخل ہوا تھا
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی شاگردی ہی کسی کے اہل حدیث ہونے کے لیے کافی ہے
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ایک خریج نے کلیۃ الحدیث الشریف سے فارغ ہونے کے بعد مطعم میں بیٹھے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ الحمدللہ میں نے اپنا دین بچا لیا یہ ساتھی دیوبندی حنفی تھے (وہ تو بعد کی بات ہے کہ ان کا خروج لگوا دیا گیا تھا )
میں کراچی میں پریسٹن یونی ورسٹی میں اسلامیات کچھ عرصہ پڑھاتا رہا ہوں وہاں میرے شاگردوں میں دو یہودی بھی تھے جو ایم بی اے کر رہے تھے
این ای ڈی یونی ورسٹی میں عربی زبان کا کورس کرواتا ہوں دو ہندو بھی مجھ سے عربی زبان سیکھ کر گئے ہیں تو کیا یہ یہودی اور ہندو بھی اہل حدیث مانے جائیں گے
ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور جہاں تک اسحاق بھٹی صاحب کی بات ہے تو ان کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی کچھ فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور انہیں مغالطہ بھی لگ سکتا ہے کیونکہ معصوم عن الخطا کوئی بھی نہیں ہے
جناب فیض الابرار صاحب :
مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ کے نام شیخ الکل فی الکل سید محمد نزیر حسین دہلوی کا جوابی خط پڑھئے ،یہ خط مولانا اسحق بھٹی صاحب نے "تزکرہ مولانا غلام رسول قلعوی" کے ص 51،52پر نقل کیا ہے ۔کیا شیخ الکل فی الکل سید نزیر حسین دہلوی صاحب نے ایک تقیہ باز اہل حدیث کو خط لکھا تھا ؟اور ایک تقیہ باز کو دعا کی درخواست کی تھی؟ کیا ایک تقیہ باز اہل حدیث کا خط شیخ الکل کے بجھے ہوئے دل کو روشن کرنے والا تھا آنکھوں کا سرمہ ثابت ہوا تھا؟
اب صرف میاں غلام رسول صاحب پر نہیں شیخ الکل فی الکل پر بھی فتوی لگانا پڑے گا
اب یہ بات بھی بغور سے پڑھیں جو مولانا اسحق بھٹی صاحب نے اس کتاب میں لکھی ہے اور بلکل واضع لکھا ہے کہ مولانا غلام رسول قلعوی "اہل حدیث "تھے
اب مولانا محمد اسحق بھٹی صاحب بھی فتویٰ سے نہیں بچیں گے۔