arslanmasoom2
رکن
- شمولیت
- ستمبر 24، 2017
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 30
خضر حیات صاحب آپ نے جواب نہیں دیا؟؟اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)
اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )
کیا یارسول اللہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟؟
وسیلہ والے ٹاپک پے پھر آجائیں گے....
Sent from my GT-I9505 using Tapatalk