محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
عقیدہ توحیدملاحظہ ہو
ایک کفن چورکے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ایک قبر کھودی تو اندر سے ایک شخص تخت پر بیٹھے قرآن پاک سامنے رکھے تلاوت میں مصروف نظر آئے نیچے نہر چل رہی تھی یہ بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔لوگوںنے اسے قبر سے نکالا تین دن بعد ہوش آیا اور قصہ سنایا بعض لوگوں نے اسکی قبر دیکھنے کی تمنا کی ۔اس سے پوچھا کہ قبر بتا دے ۔اس نے ارادہ بھی کیا کہ ان کو لیجا کر قبر دکھاؤں۔ رات کو خواب میں ان قبر والے بزرگ کو دیکھا کہہ رہے ہیں اگر تو نے میری قبر بتائی تو ایسی آفتوں میں پھنس جائے گا کہ یاد کرے گا۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص 659)
اس قصہ کا جھوٹ ہونا خود اسی قصہ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ایک طرف لوگوں نے اسے قبر سے نکالا اور دوسری طرف لوگوں نے اس سے قبر کا پتہ پوچھا ۔
مشہور بزرگ ابن الجلاءفرماتے ہیں میرے والد کا انتقال ہوا ۔انہیں نہلانے کیلئے تختہ پر رکھا گیا تو وہ ہنسنے لگے نہلانے والے چھوڑ کر چل دیئے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرید کو غسل دیا اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔میں نے کہا میرا انگوٹھا چھوڑ دو مجھے معلوم ہے کہ تو مرا نہیں بلکہ یہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال ہے ۔ اس نے میر ا انگوٹھا چھوڑ دیا ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
غور فرمائیں کیا دین اسلام میں روایت کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں ان بزرگ کا نام و نشان تک نہیں آخر روایت بیان کرنے کیلئے کو ئی تو اصول ہونا چاہئے ۔
شیخ ابو یعقوب سنو سی کہتے ہیں میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا میں کل ظہر کے وقت مر جاؤں گا ۔ چنانچہ وہ واقعی مر گیا میں نے اسے غسل دیا اور دفن کیا ۔جب میں نے اسے قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں میںنے کہا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کہنے لگا میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر عاشق زندہ ہی رہتا ہے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ابو سعید خزار کہتے ہیں مکہ مکرمہ میں باب بنی شیبہ کے باہر مجھے خوبصورت آدمی کی میت پڑی نظر آئی۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگا ۔
فضائل صدقات حصہ دوم ص671)
کیا ان واقعات کو ماننے سے قرآن کریم کا انکار لازم نہیں آتا ؟ فیصلہ قارئین پر ہے ۔
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں کیسے آتا ہے ؟
سفیان ثوری ایک شخص سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میرے والد حج کو جارہے تھے راستے میں ان کا انتقال ہو گیا اور منہ کالا ہو گیا میں دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوااور انا للہ پڑھی اور کپڑے سے انکا منہ ڈھک دیا اتنے میںمیری آنکھ لگ گئی ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب بہت زیادہ حسین ' صاف ستھرا لباس اور بہترین خوشبو میں تیزی سے قدم بڑھائے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے میرے باپ کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اس کا چہرہ سفید ہو گیا۔واپس جانے لگے تو میں نے انکا جلدی سے کپڑا پکڑ لیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ کو ن ہیں کہ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے باپ پر مسافرت میں احسان فرمایا ۔ وہ کہنے لگے تو مجھے نہیں پہنچانتا ؟ میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب قرآن ہوں یہ تیرا باپ بڑا گنہگار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرتا تھا جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو میں اسکی فریاد کو پہنچا اور میں ہراس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پرکثرت سے درود بھیجے ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ نمبر 43ص 102)
سفیان ثوری ایک نوجوان سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میری والدہ حج کو جارہے تھے ۔میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی ) اور اسکامنہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ کوئی سخت گناہ ہو گیا ۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میںنے دیکھا کہ تہامہ (حجاز ) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔میں نے ان سے عرض کیا آپ کون ہیں ؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت دور کی۔انہوں نے فرمایا میں تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ46 ص104)
ان واقعات سے تبلیغی جماعت اور بریلویت ایک ہو جاتے ہیں ۔نیز گستاخی کی بھی حد کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ عورت کے منہ اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔(استغفراللہ)
ایک کفن چورکے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ایک قبر کھودی تو اندر سے ایک شخص تخت پر بیٹھے قرآن پاک سامنے رکھے تلاوت میں مصروف نظر آئے نیچے نہر چل رہی تھی یہ بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔لوگوںنے اسے قبر سے نکالا تین دن بعد ہوش آیا اور قصہ سنایا بعض لوگوں نے اسکی قبر دیکھنے کی تمنا کی ۔اس سے پوچھا کہ قبر بتا دے ۔اس نے ارادہ بھی کیا کہ ان کو لیجا کر قبر دکھاؤں۔ رات کو خواب میں ان قبر والے بزرگ کو دیکھا کہہ رہے ہیں اگر تو نے میری قبر بتائی تو ایسی آفتوں میں پھنس جائے گا کہ یاد کرے گا۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص 659)
اس قصہ کا جھوٹ ہونا خود اسی قصہ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ایک طرف لوگوں نے اسے قبر سے نکالا اور دوسری طرف لوگوں نے اس سے قبر کا پتہ پوچھا ۔
مشہور بزرگ ابن الجلاءفرماتے ہیں میرے والد کا انتقال ہوا ۔انہیں نہلانے کیلئے تختہ پر رکھا گیا تو وہ ہنسنے لگے نہلانے والے چھوڑ کر چل دیئے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرید کو غسل دیا اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔میں نے کہا میرا انگوٹھا چھوڑ دو مجھے معلوم ہے کہ تو مرا نہیں بلکہ یہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال ہے ۔ اس نے میر ا انگوٹھا چھوڑ دیا ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
غور فرمائیں کیا دین اسلام میں روایت کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں ان بزرگ کا نام و نشان تک نہیں آخر روایت بیان کرنے کیلئے کو ئی تو اصول ہونا چاہئے ۔
شیخ ابو یعقوب سنو سی کہتے ہیں میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا میں کل ظہر کے وقت مر جاؤں گا ۔ چنانچہ وہ واقعی مر گیا میں نے اسے غسل دیا اور دفن کیا ۔جب میں نے اسے قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں میںنے کہا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کہنے لگا میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر عاشق زندہ ہی رہتا ہے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ابو سعید خزار کہتے ہیں مکہ مکرمہ میں باب بنی شیبہ کے باہر مجھے خوبصورت آدمی کی میت پڑی نظر آئی۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگا ۔
فضائل صدقات حصہ دوم ص671)
کیا ان واقعات کو ماننے سے قرآن کریم کا انکار لازم نہیں آتا ؟ فیصلہ قارئین پر ہے ۔
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں کیسے آتا ہے ؟
سفیان ثوری ایک شخص سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میرے والد حج کو جارہے تھے راستے میں ان کا انتقال ہو گیا اور منہ کالا ہو گیا میں دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوااور انا للہ پڑھی اور کپڑے سے انکا منہ ڈھک دیا اتنے میںمیری آنکھ لگ گئی ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب بہت زیادہ حسین ' صاف ستھرا لباس اور بہترین خوشبو میں تیزی سے قدم بڑھائے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے میرے باپ کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اس کا چہرہ سفید ہو گیا۔واپس جانے لگے تو میں نے انکا جلدی سے کپڑا پکڑ لیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ کو ن ہیں کہ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے باپ پر مسافرت میں احسان فرمایا ۔ وہ کہنے لگے تو مجھے نہیں پہنچانتا ؟ میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب قرآن ہوں یہ تیرا باپ بڑا گنہگار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرتا تھا جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو میں اسکی فریاد کو پہنچا اور میں ہراس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پرکثرت سے درود بھیجے ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ نمبر 43ص 102)
سفیان ثوری ایک نوجوان سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میری والدہ حج کو جارہے تھے ۔میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی ) اور اسکامنہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ کوئی سخت گناہ ہو گیا ۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میںنے دیکھا کہ تہامہ (حجاز ) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔میں نے ان سے عرض کیا آپ کون ہیں ؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت دور کی۔انہوں نے فرمایا میں تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ46 ص104)
ان واقعات سے تبلیغی جماعت اور بریلویت ایک ہو جاتے ہیں ۔نیز گستاخی کی بھی حد کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ عورت کے منہ اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔(استغفراللہ)