حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
عن عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
یہ وہی عطابن ابو رباح ہیں کہ جنھوں نے دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے اور ان سے روایات بیان کی ہیں،ان کے اساتذہ میں وہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام(ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،عبد اللہ بن جابر،سیدہ عائشہ،ابن زبیر،عبداللہ بن عمرو،عثمان بن عفان،عروہ بن زبیر،معاویہ بن ابوسفیان،ابو دردا،ابو سعید خدری،ام سلمہ،ام ہانی وغیرہم رضی اللہ عنہم) جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہےاوروہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے۔ان کی بیان کردہ روایت میں ان کا اشارہ ان تمام مرد صحابہ کرام کی جانب ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
ان کو سادات التابعین کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے انھوں صحابہ کی ایک جماعت سے علمی فیض حاصل کر کے اس کو آگے پہچایا،ان کے ساتذہ میں کمی بیشی کے ساتھ مندرجہ ذیل صحابہ کرام و تابعین کا ذکر ملتا ہے:
عثمان بن عفان،علی بن ابی طالب،عبد الله بن عباس ،عبد الله بن عمر ،ابو موسى اشعری،معاويہ بن ابی سفيان،انس بن مالك،جابر بن عبد الله انصاری، معقل بن يسار المزنی،المغيرہ بن شعبہ،ابو برزة اسلمی،نعمان بن بشير، زبير بن العوام ،عقبہ بن عامر الجہنی،عقيل بن ابی طالب،عمرو بن العاص،عمران بن حصين،سعد بن عبادہ،احنف بن قيس،اسامہ بن زيد الكلبی ،جاريہ بن قدامہ التميمی،جندب بن عبد الله البجلی ،قبيصہ بن حريث ، حضين بن المنذر الرقاشی،حطان بن عبد الله الرقاشی،سعد بن ہشام بن عامر انصاری ،سلمہ بن المحبق،سمرة بن جندب ،عبد الله بن مغفل المزنی،عبد الرحمن بن سمرة القرشی،عتبہ بن غزوان ،قيس بن عاصم المنقری،قيس بن عباد،مطرف بن عبد الله بن الشخيروغیرہم رضی اللہ عنہم
بيان كرده روايت میں جناب حسن بصری نے ان ہی صحابہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جناب ابراہم نخعی تو کبار تابعین میں سے ہیں،انھوں نے کبار صحابہ کرام کا زمانہ پایا اور ان سے اس فعل کو بیان کیا۔
دور صحابہ سے لے کر آج تک کے سلفی علما میں اس موقف کو تلقی بالقبول چلا آ رہا ہے،لیکن پندرویں صدی کے بعض علما نے اس مسئلے میں شدت اختیار کی ہے۔
میں تو سلف میں کسی بھی ایسے فرد کو نہیں جانتا جس نے داڑی کاٹنے کو مطلق حرام کہا ہو،جس نے فہم سلف کو دلیل بنا کر داڑی کاٹنے کی حرمت کا دعوی کیا ہے تو وہ اس کو سامنے لائے،عصر حاضر کے بعض معاصرین نے اس جواز کو حرام کا درجہ دیا ہے جو شریعت سازی کے مترادف ہے،اسی لیے اس حرمت کو بدعت کہا گیا ہے،ابن تیمیہ سے لے کر آج تک تمام مستند سلفی علما نے اس خود ساختہ حرمت کے خلاف ہی فتوی دیا ہے،اس لیے مسئلہ ہذا میں میری دعوت فہم سلف کی طرف ہے اور جو مجھے مذہب سلف کے ترک کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس آیت کا مصداق ہے: أتستبدلون الذي هو أدنى بالذي هو خير