• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

عن عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔

یہ وہی عطابن ابو رباح ہیں کہ جنھوں نے دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے اور ان سے روایات بیان کی ہیں،ان کے اساتذہ میں وہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام(ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،عبد اللہ بن جابر،سیدہ عائشہ،ابن زبیر،عبداللہ بن عمرو،عثمان بن عفان،عروہ بن زبیر،معاویہ بن ابوسفیان،ابو دردا،ابو سعید خدری،ام سلمہ،ام ہانی وغیرہم رضی اللہ عنہم) جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہےاوروہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے۔ان کی بیان کردہ روایت میں ان کا اشارہ ان تمام مرد صحابہ کرام کی جانب ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )

ان کو سادات التابعین کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے انھوں صحابہ کی ایک جماعت سے علمی فیض حاصل کر کے اس کو آگے پہچایا،ان کے ساتذہ میں کمی بیشی کے ساتھ مندرجہ ذیل صحابہ کرام و تابعین کا ذکر ملتا ہے:

عثمان بن عفان،علی بن ابی طالب،عبد الله بن عباس ،عبد الله بن عمر ،ابو موسى اشعری،معاويہ بن ابی سفيان،انس بن مالك،جابر بن عبد الله انصاری، معقل بن يسار المزنی،المغيرہ بن شعبہ،ابو برزة اسلمی،نعمان بن بشير، زبير بن العوام ،عقبہ بن عامر الجہنی،عقيل بن ابی طالب،عمرو بن العاص،عمران بن حصين،سعد بن عبادہ،احنف بن قيس،اسامہ بن زيد الكلبی ،جاريہ بن قدامہ التميمی،جندب بن عبد الله البجلی ،قبيصہ بن حريث ، حضين بن المنذر الرقاشی،حطان بن عبد الله الرقاشی،سعد بن ہشام بن عامر انصاری ،سلمہ بن المحبق،سمرة بن جندب ،عبد الله بن مغفل المزنی،عبد الرحمن بن سمرة القرشی،عتبہ بن غزوان ،قيس بن عاصم المنقری،قيس بن عباد،مطرف بن عبد الله بن الشخيروغیرہم رضی اللہ عنہم
بيان كرده روايت میں جناب حسن بصری نے ان ہی صحابہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جناب ابراہم نخعی تو کبار تابعین میں سے ہیں،انھوں نے کبار صحابہ کرام کا زمانہ پایا اور ان سے اس فعل کو بیان کیا۔
اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان جلیل القدر ہستیوں نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں۔
دور صحابہ سے لے کر آج تک کے سلفی علما میں اس موقف کو تلقی بالقبول چلا آ رہا ہے،لیکن پندرویں صدی کے بعض علما نے اس مسئلے میں شدت اختیار کی ہے۔
میں تو سلف میں کسی بھی ایسے فرد کو نہیں جانتا جس نے داڑی کاٹنے کو مطلق حرام کہا ہو،جس نے فہم سلف کو دلیل بنا کر داڑی کاٹنے کی حرمت کا دعوی کیا ہے تو وہ اس کو سامنے لائے،عصر حاضر کے بعض معاصرین نے اس جواز کو حرام کا درجہ دیا ہے جو شریعت سازی کے مترادف ہے،اسی لیے اس حرمت کو بدعت کہا گیا ہے،ابن تیمیہ سے لے کر آج تک تمام مستند سلفی علما نے اس خود ساختہ حرمت کے خلاف ہی فتوی دیا ہے،اس لیے مسئلہ ہذا میں میری دعوت فہم سلف کی طرف ہے اور جو مجھے مذہب سلف کے ترک کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس آیت کا مصداق ہے: أتستبدلون الذي هو أدنى بالذي هو خير
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس فورم کے بعض محققین نے اس بات کا دعوی کیا تھا کہ امت کی اکثریت مشت سے زائد داڑی کاٹنے کے فعل کو حرام کہتی ہے،لیکن افسوس اب تک ا سپر کوئی دلیل نہیں آئی،اس کے بعد ایک دوسرے بھائی نے یہ کہہ کر اسی بات کو دہرایا کہ ایک جماعت یک مشت سے زائد داڑی کٹانے کے فعل کوحرام کہتی ہے،میں نے مذکورہ مسئلے کو صحابہ کرام کی جماعت سے ثابت کیا اور اب تابعین کی جماعت سے اس کا ثبوت حاضر خدمت ہے،عطا بن ابو رباح،امام شعبی،حسن بصری،ابرہیم نخعی،مجاہد بن جبر وغیرہ سے یک مشت سے زائد داڑی کٹانے کا ثبوت حاضر ہے:محدثین نے یہ آثار کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیے ہیں:
جلیل القدر تابعی جناب امام طاؤوس بھی(مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے قائل تھے۔ (الترجل للخلال:ص:96،سنده صحيح)
سيدنا ابو بكر كے پوتےقاسم بن محمد بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور(مشت سے زائد) داڑی کے بال کاٹتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ:رقم الحدیث:25476،سندہ صحیح)
محمد بن کعب القرظی نامور تابعی اور ثقہ عالم حج میں داڑی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن)
ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:110/17،سندہ صحیح)
وكان قتادة يكره أن يأخذ من لحيته إلا في حج أو عمرة
جناب قتادہ بن دعامہ سدوسی حج و عمرہ کے علاوہ داڑی کاٹنے کو ناپسند کرتے تھے۔
وكان الحسن يأخذ من طول لحيته، وكان ابن سيرين لا يرى بذلك بأسًا
جناب حسن بصری اپنی ڈاڑھی کو لمبائی سے کاٹتے تھے،اور امام ابن سیرین داڑی کاٹنے کو جائز سمجھتے تھے۔
وروى الثوري، عن منصور، عن عطاء أنه كان يعفي لحيته إلا في حج أو عمرة. قال منصور: فذكرت ذلك لإبراهيم، فقال: كانوا يأخذون من جوانب اللحية".
جناب سفیان ثوری نے بیان کیا ہے کہ منصور عطاء بن ابو رباح سے بیان کرتے ہیں کہ وہ حج و عمرہ کے موقع پر ہی داڑی کاٹتے تھے،منصور کا کہنا ہے کہ میں نے ابراہیم نخعی سے اس بات کاذکر کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ (صحابہ کرام) داڑی کو اطراف و جوانب سے کاٹا کرتے تھے۔
اسی طرح مفسر شہیر جناب مجاہد بن جبر سے داڑی کے کٹانے کا جواز موجود ہے۔​
(تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علمی بحث پڑھنے کا موقع ملا ۔
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ داڑھی کو کٹوانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے
مونچھوں کو کٹوانے کی دلائل احادیث میں ہیں والحمدللہ لیکن داڑھی کو کٹوانے کی دلیل نہیں ہے ۔
مزید تفصیل راقم کی کتاب بالوں کا معاملہ میں موجود ہے ۔
آپ کی کتاب میں اتنی زیادہ تفصیل نہیں ہے جب نئی نئی آئی تھی تو میں نے اس کو پڈھا تھا۔ بس کچھ تھوڑا بہت مواد موجود ہے جو کہ ناقص ہے
ویسے بالکل آپ کی کتاب کی طرح کی کتاب عربی زبان میں احکام الشعر کے نام سے موجود ہے
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,479
پوائنٹ
964
اس فورم کے بعض محققین نے اس بات کا دعوی کیا تھا کہ امت کی اکثریت مشت سے زائد داڑی کاٹنے کے فعل کو حرام کہتی ہے،لیکن افسوس اب تک ا سپر کوئی دلیل نہیں آئی
جس نے یہ الفاظ کہے ہیں ، اس کا یہاں اقتباس پیش فرمادیں ۔
میں نے جو کہا تھا وہ حاضر ہے :
دوسرا : آپ کی تحریر حد اعتدال سے ذرا آگے کی ہے ، کیونکہ امت کی اکثریت اعفاء لحیہ کی قائل و فاعل ہے ، جنہیں آپ نے مخالفین اجماع کہہ کر اتباع غیر سبیل المؤمنین کے ساتھ منسلک کردیا ہے ۔ حالانکہ اختلافی مسائل میں بحث کا یہ طریقہ کار درست نہیں ۔
تیسری بات : فورم پر ہی کسی جگہ کچھ صحابہ کرام کا حوالہ موجود ہے ، جن سے اعفاء لحیہ بصراحت ثابت ہے ۔
میں اب دوبارہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ میرے نزدیک امت کی اکثریت کا موقف اعفاء لحیہ کا ہی ہے ، کیونکہ یہی سنت رسول ہے ، جبکہ ایک مشت سے زائد کاٹنا یہ بعض صحابہ کرام کا موقف ہے ، اور اس کے بعد بعض دیگر لوگوں کا ۔
آپ نے چار صحابہ کرام کے نام نقل کیے ہیں ، اور پھر کہا کہ چونکہ ان کا کوئی مخالف نہیں ، لہذا صحابہ کا اجماع ہے ۔ حالانکہ اعفاء لحیہ پر پانچ نام تو میں اوپر پیش کر چکا ہوں ، پھر اجماع کیسا ؟
بات پھر وہیں آجائے گی کہ اعفاء کے معنی کیا ہیں ، اس میں ہم واضح طور پر ایک دوسرے کو کہہ چکے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی بات ہی نہیں سمجھ رہے ۔ لہذا اب بحث کو آگے بڑھایا جائے تو کس بنیاد پر ؟
چونکہ آپ اعفاء کے معنی یک مشت لیتے ہیں ، اس لیے آپ 4 یک مشت والے اور 5 اعفاء والوں کو بھی یک مشت والے بنا کر ، پھر دیگر کی کوئی نکیر نہ کہہ کر پورے صحابہ کرام کا اجماع بنا لیتے ہیں ۔
جبکہ میرے نزدیک جہاں مطلقا اعفاء ہے ، اس کا معنی وہی ہے کہ اس کو اس کی حالت پر چھوڑنا ، لہذا خود اللہ کےرسول سے مطلقا اعفاء کے ثبوت ، پھر پانچ صحابہ سے مطلقا اعفاء کے ثبوت کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیگر صحابہ کرام جن سے کچھ مروی نہیں وہ بھی مطلقا اعفاء پر ہی عمل پیرا ہوں گے ، جو اعفاء پر عمل پیرا نہیں تھے ، ان کا نام صراحت کے ساتھ ذکر ہوگیا ہے ، جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ و غیرہ ۔
مطلقا اعفاء کا موقف اقرب إلی السنۃ ہونے کے ساتھ اسلم اور احوط بھی ہے ، جب آپ مازاد علی القبضۃ کو کتروانے کی اجازت دیں گے ؟ تو کس بنیاد پر ؟ یہی کہ بعض صحابہ کرام کا یہ موقف تھا ، یعنی اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا ثبوت نہیں ہے ، پھر جن سلف سے جواز منقول ہے ، اس میں بھی حج و عمرہ جیسی قیود ہیں ، اس قید کو آپ مزید ایک دو اقوال سے صغرے کبرے ملا کر ختم کردیں گے ، یعنی جب کٹوانا جائز ہوگیا تو پھر حج عمرہ ہو یا نہ ہو ، کیا فرق پڑتا ہے ؟
پھر کوئی اور صاحب آئیں گے ( بلکہ آچکے ہیں ) کہ جب کٹوانا جائز ہی ہے ، تو پھر مشت سے کم کیا زیادہ کیا ؟ اور پھر جب کٹوانا جائز ہی ہے تو پھر قینچی کیا اور بلیڈ کیا ؟ ابتسامہ ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
داڑھی بڑھانے کا حکم

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 362)
داڑھی بڑھانے کا حکم :

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، وبعد:

مجھہ سے کچھـ بھائیوں نے درج ذیل سوال پوچھا:

1 - کیا داڑھی بڑھانا واجب ہے یا جائز؟

2 - کیا داڑھی مونڈھنا گناہ ہے یا یہ عمل دین ميں نقص کا باعث ہے؟

3 - کیا داڑھی مونڈھنا مونچھیں بڑھانے کے ساتھ جائز ہے؟


ان سوالات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم مونچھیں چھوٹی کرو، اور داڑھیاں لمبى رکھو اور مشرکین کی مخالفت کرو

اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو، مجوسیوں کی مخالفت کرو

اور امام نسائی نے اپنی سنن میں صحیح اسناد کے ساتھ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں علامہ حافظ ابومحمد ابن حزم کا قول ہے کہ تمام علماء متفق ہیں کہ مونچھیں کاٹنا اور داڑھی بڑھانا فرض ہے۔ ا. هـ.

مونچھیں کاٹنے داڑھی بڑھانے اور گھنی کرنے کے تعلق سے اس باب میں احادیث اور علماء کا کلام بکثرت پایا جاتا ہے، جس کا احاطہ اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے، اور گزشتہ احادیث اور ابن حزم کے نقل کردہ اجماع سے تينوں سوالوں کا جواب بھی مل جاتا ہے،

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 363)

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانا اور گھنی کرنا فرض ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم وجوب کو بتاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟﺟﻮ ﻛﭽھ ﺭﺳﻮﻝ ﺩﮮ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﮯ ﺭﻙ ﺟﺎؤ

اسی طرح مونچھیں کاٹنا واجب ہے اور مونچھوں کو بالکل چھوٹا کرنا افضل ہے، لیکن مونچھیں بڑھانا یا اسمیں دم بنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مخالفت لازم آتی ہے:

مونچھیں چھوٹی كرو تم مونچھوں کو پست کرو مونچھیں کاٹو جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں

یہ چاروں جملے جیساکہ صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں، اور آخری لفظ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا وہ آپ کا يہ فرمان ہے:

جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں اس میں شدید وعید ہے جو ایک مسلمان کو اس عمل سے پرہیز کرنے کو واجب قرار دیتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجا آوری کی طرف دعوت دیتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مونچھیں بڑھانا اور اسمیں دم بنانا گناہ اور معصیت ہے ،

اسی طرح داڑھی مونڈھنا اور اسے چھوٹی کرنا جملہ معصیت اور گناہ میں سے ہے، جس سے ایمان کی کمی اور کمزوری لازم آتی ہے، اور اللہ کا غیظ وغضب نازل ہونے کا اندیشہ ہے، مذکورہ احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ مونچھیں لمبی کرنا اور داڑھی مونڈھانا یا چھوٹی کرنا مجوسیوں اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرنے کے مرادف ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا گناہ عظیم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ امید ہے کہ یہ جواب آپ کے لیے کافی وشافی ہوگا۔

والله ولي التوفيق۔ وصلى الله وسلم على نبينا محمد، وآله وصحبه۔

http://alifta.net/Fatawa/FatawaDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&IndexItemID=187737&SecItemHitID=252272&ind=10&Type=Index&View=Page&PageID=220&PageNo=1&BookID=4&Title=DisplayIndexAlpha.aspx
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اسی طرح داڑھی مونڈھنا اور اسے چھوٹی کرنا جملہ معصیت اور گناہ میں سے ہے، جس سے ایمان کی کمی اور کمزوری لازم آتی ہے، اور اللہ کا غیظ وغضب نازل ہونے کا اندیشہ ہے، مذکورہ احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ مونچھیں لمبی کرنا اور داڑھی مونڈھانا یا چھوٹی کرنا مجوسیوں اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرنے کے مرادف ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا گناہ عظیم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ امید ہے کہ یہ جواب آپ کے لیے کافی وشافی ہوگا۔
کیا صحابہ کرام دوران حج و عمرہ مجوس اور مشرکین مشابہت اختیار کرتے تھے،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی عبد اللہ بن عمر جیسا متبع سنت صحابی اور دیگر اصحاب رسول مشت سے زائد ڈاڑھی کٹوا کر مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرکے حج وعمرہ کے دوران اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں گے۔
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانا اور گھنی کرنا فرض ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم وجوب کو بتاتا ہے،
آپ بھی بار بار داڑی بڈھانے اور گھنی کرنے کی بات کر رہے ہیں نہ کے اس کو بالکل ہی ترک کر دیا جائے،جیسا کہ آپ یہ احادیث بیان کی ہیں:
ان سوالات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم مونچھیں چھوٹی کرو، اور داڑھیاں لمبى رکھو اور مشرکین کی مخالفت کرو

اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو، مجوسیوں کی مخالفت کرو

اور امام نسائی نے اپنی سنن میں صحیح اسناد کے ساتھ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں علامہ حافظ ابومحمد ابن حزم کا قول ہے کہ تمام علماء متفق ہیں کہ مونچھیں کاٹنا اور داڑھی بڑھانا فرض ہے۔ ا. هـ.

مونچھیں کاٹنے داڑھی بڑھانے اور گھنی کرنے کے تعلق سے اس باب میں احادیث اور علماء کا کلام بکثرت پایا جاتا ہے، جس کا احاطہ اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے، اور گزشتہ احادیث اور ابن حزم کے نقل کردہ اجماع سے تينوں سوالوں کا جواب بھی مل جاتا ہے،

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 363)


جس کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانا اور گھنی کرنا فرض ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم وجوب کو بتاتا ہے،
اس لیے داڑی کو بڈھاؤ اور لمبی کرو نہ اسکو بالکل ہی چھوڑ دو۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ نے چار صحابہ کرام کے نام نقل کیے ہیں ، اور پھر کہا کہ چونکہ ان کا کوئی مخالف نہیں ، لہذا صحابہ کا اجماع ہے ۔ حالانکہ اعفاء لحیہ پر پانچ نام تو میں اوپر پیش کر چکا ہوں ، پھر اجماع کیسا ؟
آپ تو ابھی تک توفیر،اعفا،ایفا،ارخا کا معنی معاف کرنا ثابت نہ کر پائے،پہلے یہ ثابت کریں کہ شارحین حدیث نے ان الفاظ کی تشریح کیا کی ہے اور پھر اپنے پیش کردہ اثر کا ترجمہ کریں،آپ نے اس اثر کا غلط ترجمہ کیا ہے،کتنے علما ہیں جنھوں ان احادیث کو پیش کیا ہے،اپنی کتابوں لکھا ہے جیسا کہ ائمہ اربعہ،ابن تیمیہ،ابن قیم،ابن حجر،ابن بطال کسی نے تو اس کا معنی معاف کرنا لکھا ہوگا؟؟؟
آپ نے چار صحابہ کرام کے نام نقل کیے ہیں
اللہ کے بندے غلط بیانی سے کام نہ لومیں نے تو اس پر سینکڑوں صحابہ کے نام پیش کیے ہیں:
عن عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
یہ وہی عطابن ابو رباح ہیں کہ جنھوں نے دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے اور ان سے روایات بیان کی ہیں،ان کے اساتذہ میں وہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام(ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،عبد اللہ بن جابر،سیدہ عائشہ،ابن زبیر،عبداللہ بن عمرو،عثمان بن عفان،عروہ بن زبیر،معاویہ بن ابوسفیان،ابو دردا،ابو سعید خدری،ام سلمہ،ام ہانی وغیرہم رضی اللہ عنہم) جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہےاوروہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے۔ان کی بیان کردہ روایت میں ان کا اشارہ ان تمام مرد صحابہ کرام کی جانب ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )

ان کو سادات التابعین کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے انھوں صحابہ کی ایک جماعت سے علمی فیض حاصل کر کے اس کو آگے پہچایا،ان کے ساتذہ میں کمی بیشی کے ساتھ مندرجہ ذیل صحابہ کرام و تابعین کا ذکر ملتا ہے:
عثمان بن عفان،علی بن ابی طالب،عبد الله بن عباس ،عبد الله بن عمر ،ابو موسى اشعری،معاويہ بن ابی سفيان،انس بن مالك،جابر بن عبد الله انصاری، معقل بن يسار المزنی،المغيرہ بن شعبہ،ابو برزة اسلمی،نعمان بن بشير، زبير بن العوام ،عقبہ بن عامر الجہنی،عقيل بن ابی طالب،عمرو بن العاص،عمران بن حصين،سعد بن عبادہ،احنف بن قيس،اسامہ بن زيد الكلبی ،جاريہ بن قدامہ التميمی،جندب بن عبد الله البجلی ،قبيصہ بن حريث ، حضين بن المنذر الرقاشی،حطان بن عبد الله الرقاشی،سعد بن ہشام بن عامر انصاری ،سلمہ بن المحبق،سمرة بن جندب ،عبد الله بن مغفل المزنی،عبد الرحمن بن سمرة القرشی،عتبہ بن غزوان ،قيس بن عاصم المنقری،قيس بن عباد،مطرف بن عبد الله بن الشخيروغیرہم رضی اللہ عنہم
بيان كرده روايت میں جناب حسن بصری نے ان ہی صحابہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جناب ابراہم نخعی تو کبار تابعین میں سے ہیں،انھوں نے کبار صحابہ کرام کا زمانہ پایا اور ان سے اس فعل کو بیان کیا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جب آپ مازاد علی القبضۃ کو کتروانے کی اجازت دیں گے ؟ تو کس بنیاد پر ؟ یہی کہ بعض صحابہ کرام کا یہ موقف تھا ، یعنی اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا ثبوت نہیں ہے
کتنی بار بتاؤں کہ رسول اللہﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ وہ مازاد علی القبضہ ہو،ایک بات بار بار یہ کیا ہو رہا ہے؟
محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه
(
فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی:
147167
آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔
امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:
224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159)
یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔
امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں:

''لا يفهم من هذا يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ".
''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135)
آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں:
فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة
آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I
علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:
أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة
آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔
179/2
امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں:
الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160)
کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔
علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں:

كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔
یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں:

(وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا)
اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔
) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
اللہ کا واسطہ ہے ایک بات جو گزر گئی اس کو بار بار کیوں کرتے ہیں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پھر کوئی اور صاحب آئیں گے ( بلکہ آچکے ہیں ) کہ جب کٹوانا جائز ہی ہے ، تو پھر مشت سے کم کیا زیادہ کیا ؟ اور پھر جب کٹوانا جائز ہی ہے تو پھر قینچی کیا اور بلیڈ کیا ؟
ہمارے معاشرے میں کتنے حنفی لوگ رہتے ہیں،ان کے ہاں مشت سے زائد کٹوانا واجب اور مستحب ہے،انھوں نے تو کوئی ایسی بات نہ کی کہ اگر یک مشت کی اجازت دیں گے تو پھر قینچی اور بلیڈ میں کوئی فرق نہ ہوگا؟؟
 
Top