• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عمران بھائی! سب کا معنی تقریبا تکثیر ہے.
لیکن لغت میں تکثیر کا کیا معنی ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرا مسلک ایک مشت کا ہی ہے لیکن فہم سلف کی وجہ سے.
باقی تکثیر کا معنی زیادہ کرنا. زیادہ کی لغت میں کوئی حد نہیں ہوتی.
ایفاء اور اتمام کا معنی پورا کرنا. ان کی حد تو ہوتی لیکن اختتام پر. یعنی داڑھی نکلتی رہے حتی کہ نکلنا رک جائے تو پوری ہو جائے گی.
اعفاء اور ارجاء کا معنی چھوڑ دینا, لٹکانا. ان کی بھی لغت میں کوئی حد نہیں ہوتی.
اعفاء کے معنی کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں ہے یکثر و یطول.
اس میں طویل ہونے کا ذکر ہے اور حد نہیں ہے کوئی
.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
إن أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى وأحفوا الشوارب
"بے شک مشرکین مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو۔۔۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ"
(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
" بے شک وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو۔"

یہ مان لیا گیا ہے کہ اعفا اور دیگر الفاظ کے معنی تکثیر کے ہیں،اور تکثیر کی حد ان حدیثوں میں موجود ہے۔ صحابہ کے عمل میں موجود ہے جو داڑی کی حدیث کے راوی ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
حافظ عمران صاحب ! آپ کے انداز گفتگو سے قطع نظر ، گزارش یہ ہے کہ لغوی بحث کو آپ جس طرح اپنے موقف کے ثبوت کی آڑ بنا رہے ہیں ، یہ واضح کج بحثی ہے ، داڑھی کے متعلق جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، مان لیں سب کا معنی ’ تکثیر ‘ ہے ، لیکن اس میں ایک مشت کی قید کہاں سےآجاتی ہے ؟ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس قید کا اضافہ سلف کے عمل سے ہے تو پھر وہ تو اعفاء ، ارخاء وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے ، پھر آپ لغوی بحث کے نام پر کج بحثی کیوں فرمارے ہیں ، اشماریہ صاحب سے آپ نے رائے لے لی ، کسی اور سے جس کو آپ قابل اعتماد جانتے ہیں ، ان سے بھی پوچھ لیں کہ لغوی معانی کے ساتھ جس طرح آپ سینہ زوری کر رہے ہیں ، وہ درست ہے یا نہیں ؟
باقی یک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کی حرمت کی بات میں نے نہیں کی ، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ داڑھی چھوڑنا چاہے وہ مشت ہو زیادہ یہ اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کےکئی ایک صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے ۔
برائے مہربانی ، اگر آپ کو کسی کی خاموشی بھی گراں گزرتی ہے تو کم از کم بحث مناسب اسلوب میں فرمائیں ، جو کہاگیا ، اسی پر پکڑ کریں ، کسی کے منہ میں الفاظ ڈال کر اس پر تنقید کا شوق پورا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔
اگر ممکن ہو تو ایک ایک نکتے پر بات کریں ، سب باتیں ایک ہی دفعہ جھونک دینے سے لگتا ہے کہ آپ خود جو لکھتے ہیں ، اسے سمجھ نہیں پاتے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
حافظ عمران صاحب ! آپ کے انداز گفتگو سے قطع نظر ، گزارش یہ ہے کہ لغوی بحث کو آپ جس طرح اپنے موقف کے ثبوت کی آڑ بنا رہے ہیں ، یہ واضح کج بحثی ہے ، داڑھی کے متعلق جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، مان لیں سب کا معنی ’ تکثیر ‘ ہے ، لیکن اس میں ایک مشت کی قید کہاں سےآجاتی ہے ؟ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس قید کا اضافہ سلف کے عمل سے ہے تو پھر وہ تو اعفاء ، ارخاء وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے ، پھر آپ لغوی بحث کے نام پر کج بحثی کیوں فرمارے ہیں ۔
میں نے اب تک کوئی ایسا جملہ نہیں بولا جس سے آپ کی ہتک عزت مقصود ہو لیکن آپ نے کئی ایسے جملے بولے ہیں جن میں آپ نے طنز کی ہے،خیر میں اس کو محسوس نہیں کرتا اگر ایسی بات ہوتی تو میں اسی وقت اس پر اعتراض کرتا،اس لیے میں اب بھی اس کو اگنور کر رہا ہوں۔
اور جہاں تک لغوی بحث کی بات ہے تو وہ تو آپ نے تسلیم کر ہی لیا ،چلو یہ اچھی بات ہے۔
اس لغوی بحث کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ آپ جیسے کئی علما یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کو اس حدیث کے معنی کی سمجھ نہیں آئی،وہ علما کہتے ہیں کہ اس کے معنی داڑی کومعاف کرنے کے ہیں،یعنی اس کا ایک بال بھی نہ کاٹو؛لیکن صحابہ نے یہ سمجھا اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ داڑی کو وافر مقدار میں رکھو،یہی سمجھانے کے لیے بات کی تھی کہ معاف کرنے میں اور وافر مقدار میں رکھنے میں بہت فرق ہے ،اب یہ مقدار کا فرق ہی ایک نیا سوال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو میرا دعوی ہے کہ احادیث میں جتنے بھی الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سب کا معنی توفیر ہے اور یہ توفیر کی قید صحابہ کرام کے فہم و عمل سے لی گئی ہے۔
امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔
اس لغوی بحث کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سب لوگ صرف ایک لفظ اعفا کو لیتے ہیں،باقی پر کوئی بات ہی نہیں کرتا،کیوں کہ لغت میں اعفا کے معنی ترک کے ہیں،لیکن توفیر کے معنی تو ترک کے نہیں ہیں،اور پھر یہی بحث متعدد شارحین حدیث نے بھی کی ہے،ان کا مقصد بھی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے۔
، اشماریہ صاحب سے آپ نے رائے لے لی ، کسی اور سے جس کو آپ قابل اعتماد جانتے ہیں ، ان سے بھی پوچھ لیں کہ لغوی معانی کے ساتھ جس طرح آپ سینہ زوری کر رہے ہیں ، وہ درست ہے یا نہیں ؟
اشماریہ صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ ان الفاظ کے معانی توفیر و تکثیر کے ہیں،انھوں نے اس بات پر اختلاف کیا ہے،تکثیر کی قید کیسے لگائی جائے تو اس جواب سلف کا فہم و عمل ہے۔
باقی یک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کی حرمت کی بات میں نے نہیں کی
۔
اگر آپ کے نزدیک یک مشت سے زائد داڑی کاٹنا حرام نہیں ہے تو بات ہی ختم ہو گئی،اب بحث کس بات کی؟ یعنی آپ کے نزدیک ایک مشت سے زائد ڈاڑی کٹانا حرام نہیں ہے یعنی جائز ہے
میں یہ کہہ رہا ہوں کہ داڑھی چھوڑنا چاہے وہ مشت ہو زیادہ یہ اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کےکئی ایک صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے ۔
۔
توفیر کے معنی تو تکثیر کے ہیں پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ داڑی کو چھوڑنا چاہیے،آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ داڑی کو بڈھانا چاہیے،زیادہ کرنا چاہیے،یہی کسی حد تک داڑی کو بڈھانا ہی ان کی سنت ہے،جہاں تک رسول اللہﷺ کی بات تو آپ یہ ثابت کریں ان کی داڑی لمبی تھی میں آپ کو ان سے داڑی کٹانا ثابت کردوں گا۔
اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ آپ کے کئی صحابہ کی سنت ہے تو ان سے یہ ثابت کریں کہ ان کی داڑیاں مشت سے زیادہ تھی،اگر یہ بھی ثابت ہوجائے تو ان سے داڑی کو مشت سے زائد کٹانے کی ممانعت ثابت کریں گے تو پھر آپ کا دعوی ثابت ہوگا۔
اور یاد رکھیں ہماری سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ کسی صحابی سے یک مشت سے زائد داڑی کٹانے پر کوئی نکیر،حرمت یا ممانعت ثابت نہیں ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوبڈھایا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
اول: یہ وضاحت کر دیں کہ اس حدیث اور دیگر احادیث کے ترجمے میں جا بجا آپ ایک مشت کی اصطلاح کثرت سے استعمال کر رہے ہیں یہ حدیث کے کس لفظ کا ترجمہ ہے اور ایک مشت کو عربی میں کیا کہتے ہیں
دوم: مرد حضرات کے لیے داڑھی رکھنے پر دلیل درکار ہونا چاہیے یا کٹوانے پر
سوم: اگر کسی حدیث سے ایک مشت والی کیفیت ثابت ہو بھی جاتی ہے تو پھر اس پر دعوی اجماع کا حوالہ بھی درج کریں اور پلیز اجماع سکوتی کا ہی سہی اس کا متقدمین کی طرف سے حوالہ درج کر دیں
چہارم: داڑھی بڑھانے کے لیے جتنے بھی کلمات احادیث میں استعمال کیے گئے ہیں ان سب کا عمومی مفہوم کثرت ہے تو پلیز ذرا اس بات کی کوئی دلیل دیں کہ کثرت سے مراد کٹوانا بھی ہو سکتا ہے
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اول: یہ وضاحت کر دیں کہ اس حدیث اور دیگر احادیث کے ترجمے میں جا بجا آپ ایک مشت کی اصطلاح کثرت سے استعمال کر رہے ہیں ۔
وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث: 5892)ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے: عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے،اب آپ التماس ہے کہ کسی ایک صحابی سے اس عمل پر نکیریاممانعت پیش کرو کہ ایک مشت سے زائد داڑی کاٹنا منع ہے،باقی سوالوں جواب بعد میں آئے گا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث: 5892)ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے: عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.

محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے،اب آپ التماس ہے کہ کسی ایک صحابی سے اس عمل پر نکیریاممانعت پیش کرو کہ ایک مشت سے زائد داڑی کاٹنا منع ہے،باقی سوالوں جواب بعد میں آئے گا
جزاکم اللہ خیرا ایک مشت والا معاملہ تو آپ نے حل کر دیا لیکن ایک گذارش اور ہے آیندہ جس حدیث میں ایک مشت کا لفظ موجود ہو وہاں اس کا ترجمہ ایک مشت کریں جہاں اس کا تذکرہ نہ ہو اپنی طرف سے ایک مشت کا اضافہ علم حدیث میں اس کا کیا حکم ہے اآپ جانتے ہیں یعنی اپنی طرف سے ترجمانی کو ترجمہ کہنا درست نہیں گو کہ بین القوسین ہی کیوں نہ کیا جائے اس لیے کہ ترجمہ اور ترجمانی میں فرق ہے اور یہ فرق آپ اہل علم میں سے ہیں بخوبی جانتے ہوں گے اور یعنی ان دو احادیث سے ماخوذ کیفیت کو ہر جگہ لاگو نہیں کییجے گا البتہ استدلال کی صورت میں الگ بیان کر دیں اس کی اجازت ہے یہ تحقیق کا علمی طریقہ کار ہے
صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے اس طرح کی مثالیں کثیر تعداد میں پیش کی جا سکتی ہیں جس پر انہوں نے عام تعلیمات سے ہٹ کر کام کیا اور باقی تمام صحابہ کی خاموشی ہمارے سامنے آتی ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے
کہ تمام صحابہ یہ کام کیا کرتے تھے
یا اس پر خاموشی تائید کی علامت تھی
تو کیا صحابہ کرام کی خاموشی ہر جگہ تائید کی علامت بن سکتی ہے اس قاعدے پر ذرا روشنی ڈالیے
باقی رہی ایک مشت سے زائد پر کاٹنے کے حوالے سے میں آپ کو کوشش کرتا ہوں کہ دلائل دے سکوں بفضلہ تعالی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تو کیا صحابہ کرام کی خاموشی ہر جگہ تائید کی علامت بن سکتی ہے اس قاعدے پر ذرا روشنی ڈالیے
اہل علم حضرات کی گفتگو میں دخل دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ایک خیال عرض کرنا چاہتا ہوں۔
وہ چیزیں جو ہر وقت ظاہر ہوں یا اجتماعی ہوں ان پر صحابہ کرام کی خاموشی کم از کم اس کے جائز ہونے یا اس میں گنجائش ہونے کی تو تائید کرے گی۔ ورنہ یہ یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر کی خاصیت کے خلاف ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے اس طرح کی مثالیں کثیر تعداد میں پیش کی جا سکتی ہیں جس پر انہوں نے عام تعلیمات سے ہٹ کر کام کیا اور باقی تمام صحابہ کی خاموشی ہمارے سامنے آتی ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے
کہ تمام صحابہ یہ کام کیا کرتے تھےیا اس پر خاموشی تائید کی علامت تھیتو کیا صحابہ کرام کی خاموشی ہر جگہ تائید کی علامت بن سکتی ہے اس قاعدے پر ذرا روشنی ڈالیے
یہاں ایک صحابی نہیں بلکہ تمام صحابہ کی بات ہے،انھوں نے اجتماعی طور پر یہ عمل انجام دیا ہے،بلکہ ابن عباس نے تو اس عمل کو حج و عمرہ کے موقع پر واجب قرار دیا ہے،جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔
 
Top