حافظ عمران صاحب ! آپ کے انداز گفتگو سے قطع نظر ، گزارش یہ ہے کہ لغوی بحث کو آپ جس طرح اپنے موقف کے ثبوت کی آڑ بنا رہے ہیں ، یہ واضح کج بحثی ہے ، داڑھی کے متعلق جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، مان لیں سب کا معنی ’ تکثیر ‘ ہے ، لیکن اس میں ایک مشت کی قید کہاں سےآجاتی ہے ؟ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس قید کا اضافہ سلف کے عمل سے ہے تو پھر وہ تو اعفاء ، ارخاء وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے ، پھر آپ لغوی بحث کے نام پر کج بحثی کیوں فرمارے ہیں ۔
میں نے اب تک کوئی ایسا جملہ نہیں بولا جس سے آپ کی ہتک عزت مقصود ہو لیکن آپ نے کئی ایسے جملے بولے ہیں جن میں آپ نے طنز کی ہے،خیر میں اس کو محسوس نہیں کرتا اگر ایسی بات ہوتی تو میں اسی وقت اس پر اعتراض کرتا،اس لیے میں اب بھی اس کو اگنور کر رہا ہوں۔
اور جہاں تک لغوی بحث کی بات ہے تو وہ تو آپ نے تسلیم کر ہی لیا ،چلو یہ اچھی بات ہے۔
اس لغوی بحث کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ آپ جیسے کئی علما یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کو اس حدیث کے معنی کی سمجھ نہیں آئی،وہ علما کہتے ہیں کہ اس کے معنی داڑی کومعاف کرنے کے ہیں،یعنی اس کا ایک بال بھی نہ کاٹو؛لیکن صحابہ نے یہ سمجھا اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ داڑی کو وافر مقدار میں رکھو،یہی سمجھانے کے لیے بات کی تھی کہ معاف کرنے میں اور وافر مقدار میں رکھنے میں بہت فرق ہے ،اب یہ مقدار کا فرق ہی ایک نیا سوال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو میرا دعوی ہے کہ احادیث میں جتنے بھی الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سب کا معنی توفیر ہے اور یہ توفیر کی قید صحابہ کرام کے فہم و عمل سے لی گئی ہے۔
امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔
اس لغوی بحث کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سب لوگ صرف ایک لفظ اعفا کو لیتے ہیں،باقی پر کوئی بات ہی نہیں کرتا،کیوں کہ لغت میں اعفا کے معنی ترک کے ہیں،لیکن توفیر کے معنی تو ترک کے نہیں ہیں،اور پھر یہی بحث متعدد شارحین حدیث نے بھی کی ہے،ان کا مقصد بھی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے۔
، اشماریہ صاحب سے آپ نے رائے لے لی ، کسی اور سے جس کو آپ قابل اعتماد جانتے ہیں ، ان سے بھی پوچھ لیں کہ لغوی معانی کے ساتھ جس طرح آپ سینہ زوری کر رہے ہیں ، وہ درست ہے یا نہیں ؟
اشماریہ صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ ان الفاظ کے معانی توفیر و تکثیر کے ہیں،انھوں نے اس بات پر اختلاف کیا ہے،تکثیر کی قید کیسے لگائی جائے تو اس جواب سلف کا فہم و عمل ہے۔
باقی یک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کی حرمت کی بات میں نے نہیں کی
۔
اگر آپ کے نزدیک یک مشت سے زائد داڑی کاٹنا حرام نہیں ہے تو بات ہی ختم ہو گئی،اب بحث کس بات کی؟ یعنی آپ کے نزدیک ایک مشت سے زائد ڈاڑی کٹانا حرام نہیں ہے یعنی جائز ہے
میں یہ کہہ رہا ہوں کہ داڑھی چھوڑنا چاہے وہ مشت ہو زیادہ یہ اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کےکئی ایک صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے ۔
۔
توفیر کے معنی تو تکثیر کے ہیں پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ داڑی کو چھوڑنا چاہیے،آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ داڑی کو بڈھانا چاہیے،زیادہ کرنا چاہیے،یہی کسی حد تک داڑی کو بڈھانا ہی ان کی سنت ہے،جہاں تک رسول اللہﷺ کی بات تو آپ یہ ثابت کریں ان کی داڑی لمبی تھی میں آپ کو ان سے داڑی کٹانا ثابت کردوں گا۔
اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ آپ کے کئی صحابہ کی سنت ہے تو ان سے یہ ثابت کریں کہ ان کی داڑیاں مشت سے زیادہ تھی،اگر یہ بھی ثابت ہوجائے تو ان سے داڑی کو مشت سے زائد کٹانے کی ممانعت ثابت کریں گے تو پھر آپ کا دعوی ثابت ہوگا۔
اور یاد رکھیں ہماری سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ کسی صحابی سے یک مشت سے زائد داڑی کٹانے پر کوئی نکیر،حرمت یا ممانعت ثابت نہیں ہے۔