علمی بحث پڑھنے کا موقع ملا ۔
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ داڑھی کو کٹوانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے
مونچھوں کو کٹوانے کی دلائل احادیث میں ہیں والحمدللہ لیکن داڑھی کو کٹوانے کی دلیل نہیں ہے ۔
مزید تفصیل راقم کی کتاب بالوں کا معاملہ میں موجود ہے ۔
ایک بات مسلم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کام کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیوں کہ ان کی داڑی لمبی نہیں تھی،اور جن احادیث میں داڑی کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں جو الفاظ (توفیر،ایفا،ارخااور اعفا) موجود ہیں،ان کے معنی صحابہ وتابعین کے ہاں ایک مشت ہے جیسا کہ وہ حج و عمرہ کے موقع پر سر عام کیا کرتے تھے،دور صحابہ سے لے کر آج تک کے سلفی علما میں اس موقف کو تلقی بالقبول چلا آ رہا ہے،لیکن پندرویں صدی کے بعض علما نے اس مسئلے میں شدت اختیار کی ہے جو خود کو اس مسئلے میں صحابہ سے بھی بڑا عالم خیال کرتے ہیں،ان کی باتوں سے ایسے محسوس ہوتا کہ گویا صحابہ کو تو اللہ کے رسول کے اس داڑی والے حکم کی سمجھ ہی نہ آئی اور صحابہ بھی اس معاملے میں غلطی پر تھے۔نہ تو ان کی
تفث کی وہ تفسیر نظر آتی ہے جو ابن عباس سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے،نہ ان تمام صحابہ کا عمل نظر آتا ہے جو حج و عمرہ کے موقع پر کیا کرتے تھے،
کیا صحابہ کرام(داڑی کی روایت کے راوی) دوران حج و عمرہ مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرتے تھے،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی عبد اللہ بن عمر جیسا متبع سنت صحابی اور دیگر اصحاب رسول مشت سے زائد ڈاڑھی کٹوا کر مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرکے حج وعمرہ کے دوران اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟