حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
اس پر کوئی دلیل تو لاؤ،ایسے ہی ہوا میں تیر چھوڑے جا رہے ہو؟میں اب دوبارہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ میرے نزدیک امت کی اکثریت کا موقف اعفاء لحیہ کا ہی ہے
اس پر کوئی دلیل تو لاؤ،ایسے ہی ہوا میں تیر چھوڑے جا رہے ہو؟میں اب دوبارہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ میرے نزدیک امت کی اکثریت کا موقف اعفاء لحیہ کا ہی ہے
بھائی اشماریہ ابھی تک انھوں نے اس بات کی دلیل پیش نہیں کی ہے کہ حدیث میں موجود الفاظ توفیر،ارخا،ایفا اور اعفا کے معنی ترک کرنا ہیں،بس زبانی جمع خرچ ہے بس،جب کہ میں نے اس پر بے شمار دلائل دیے ہیں کہ یہ تمام الفاظ کثرت اور بہتات پر دلالت کرتے ہیں،تمام محترم بھائی حضرات!
بجائے لڑنے کے اگر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کریں تو کتنا اچھا ہوگا۔ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے:
خضر بھائی فرماتے ہیں کہ حدیث میں "اعفاء" کا لفظ ہے اور اس کا مطلب چھوڑنا ہے۔ یعنی کبھی نہ کاٹو، ہمیشہ چھوڑے رکھو۔ اس لیے داڑھی کبھی نہیں کاٹیں گے۔
اشماریہ صاحب یہ خضر بھائی کا اعتراض ہے،میں نے اس کا جواب اس طرح دیا:اعفاء کے لغوی معنی پر بحث دیکھ کر اور پھر ابن فارس کے حوالہ پر آپ کا تبصرہ دیکھ کر یہ اندازہ ہوا ہے کہ اس حوالے سے آپ کی علمی استعداد کافی ناقص ہے ، اس لیے اس موضوع پر آپ سے بات کرنا فائدہ مند نہیں رہے گا ۔
مقاييس اللغة (4/ 58)
وَقَوْلُ الْقَائِلِ: عَفَا، دَرَسَ، وَعَفَا: كَثُرَ - وَهُوَ مِنَ الْأَضْدَادِ - لَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الْمَعْنَى مَا ذَكَرْنَاهُ، فَإِذَا تُرِكَ وَلَمْ يُتَعَهَّدْ حَتَّى خَفِيَ عَلَى مَرِّ الدَّهْرِ فَقَدْ عَفَا، وَإِذَا تُرِكَ فَلَمْ يُقْطَعْ وَلَمْ يُجَزْ فَقَدْ عَفَا. وَالْأَصْلُ فِيهِ كُلِّهِ التَّرْكُ كَمَا ذَكَرْنَاهُ.
اگر آپ نے ابن فارس کی بات کوسمجھا ہوتا تو اس میں جس بات کو آپ دلیل بنا رہے ہیں ، اسے ابن فارس رد کر رہے ہیں ، اور عفو اور کثرت کا آپس میں کیا جوڑ ہے ، وہی بیان کر رہے ہیں ، جو میں بار بار آپ سے گزارش کر چکا ہوں ۔
اشماریہ صاحب بتائیں کہ کیا خضر صاحب یہ ثابت کر پائے ہیں کہ ذکر کردہ الفاظ کے معنی مطلق ترک کے ہیں۔آپ ابن فارس کی مراد کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں،ابن فارس یہ کہہ رہے ہیں کہ عفا کا معنی ترک کرنا یعنی چھوڑنا ہے،لیکن بالوں کے بارے میں انھوں نے اس ترک کو کثرت اور طول کے ساتھ مقید کیا ہے،چناں چہ وہ رقم طراز ہیں:
وَقَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ كُلُّهُمْ: يُقَالُ مِنَ الشَّعْرِ عَفَوْتُهُ وَعَفَيْتُهُ، مِثْلُ قَلَوْتُهُ وَقَلَيْتُهُ، وَعَفَا فَهُوَ عَافٍ، وَذَلِكَ إِذَا تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ. قَالَ اللَّهُ - تَعَالَى -: {حَتَّى عَفَوْا} [الأعراف: 95] ، أَيْ نَمَوْا وَكَثُرُوا. (مقاییس اللغۃ:604)
امید کرتا ہوں کہ اب آپ عفا کے معنی کو سمجھ جائیں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ حدیث میں موجود دیگر الفاظ(ایفا،ارخا،توفیر) کے معنی پر غور و فکر کریں گے تو اعفا کے معنی بھی سمجھ آ جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے مطلق ترک مراد ہے،لیکن اہل لغت نے اس ترک کو تکثیر اور توفیر سے مقید کیا ہے،جیسا کہ میں نے وضاحت کردی ہے۔یعنی ایک مطلق ترک ہے اور ایک وہ ترک ہے جو تکثیر کے ساتھ مقید ہے،ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور پھر اس لفظ اعفا کے ساتھ دیگر الفاظ بھی ہیں پتہ نہیں ان الفاظ کی بات کیوں نہیں کی جارہی ہے؟محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
وَقَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ كُلُّهُمْ: يُقَالُ مِنَ الشَّعْرِ عَفَوْتُهُ وَعَفَيْتُهُ، مِثْلُ قَلَوْتُهُ وَقَلَيْتُهُ، وَعَفَا فَهُوَ عَافٍ، وَذَلِكَ إِذَا تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ. قَالَ اللَّهُ - تَعَالَى -: {حَتَّى عَفَوْا} [الأعراف: 95] ، أَيْ نَمَوْا وَكَثُرُوا. (مقاییس اللغۃ:604)محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
کیا توفیر اور ایفا کے معنی بھی معاف کرنے کے ہیں،اگر ایسا ہی ہے تو اس پر غور فرمائیں:محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
احادیث میں موجود ایک لفظ کو لے لینا اور باقی الفاظ توفیر،ایفا،ارخا،ارجا کو چھوڑ دینا یہ کہاں کا انصاف ہےو؟کیا توفیر کا معنی بھی مطلق ترک کرنا ہے،کیا وفر بھی ترک ہے،کیا ایفا کا معنی بھی مطلق ترک ہے؟محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔