• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں اب دوبارہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ میرے نزدیک امت کی اکثریت کا موقف اعفاء لحیہ کا ہی ہے
اس پر کوئی دلیل تو لاؤ،ایسے ہی ہوا میں تیر چھوڑے جا رہے ہو؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تمام محترم بھائی حضرات!
بجائے لڑنے کے اگر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کریں تو کتنا اچھا ہوگا۔ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے:
خضر بھائی فرماتے ہیں کہ حدیث میں "اعفاء" کا لفظ ہے اور اس کا مطلب چھوڑنا ہے۔ یعنی کبھی نہ کاٹو، ہمیشہ چھوڑے رکھو۔ اس لیے داڑھی کبھی نہیں کاٹیں گے۔
عمران بھائی فرماتے ہیں کہ حدیث کے اعفاء کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین نے ایک مشت پر محمول کر کے اس سے زائد کو کاٹا ہے۔ اس لیے ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹی جا سکتی ہے۔

@خضر حیات بھائی کا عمل ظاہر حدیث پر ہے اور ظاہر حدیث پر عمل کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کے حکم کے ظاہر پر عمل کرنے سے بہتر بھلا کیا ہوگا۔
@حافظ عمران الہی بھائی کا عمل فقہ الحدیث علی فہم السلف پر ہے اور یہ بھی معیوب بات نہیں ہے۔ جن لوگوں کی تعریف قرآن و حدیث میں آئی ان سے زیادہ کس کا فہم معتبر ہوگا۔


تو اب دونوں بھائی مہربانی کر کے بنو قریظہ میں میں عصر والے واقعہ کو یاد کریں۔ وہاں بھی ایک کا عمل ظاہر پر اور ایک کا فقہ و قیاس پر تھا۔
ان صحابہ کرام کے طرز عمل کو اختیار کریں۔ انہوں نے نہ ایک دوسرے پر اپنی بات مسلط کی اور نہ ایک دوسرے کو سخت سست کہا۔
اپنی اپنی رائے پر عمل کر لیا۔
تو آپ حضرات بھی اپنی اپنی رائے پر عمل کر لیجیے اور دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش ترک فرما دیجیے کہ یہی درست طریقہ ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو اختلافی مسائل میں شدت سے بچنے اور توسع و تحمل رکھنے والا بنائیں۔ آمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تمام محترم بھائی حضرات!
بجائے لڑنے کے اگر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کریں تو کتنا اچھا ہوگا۔ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے:
خضر بھائی فرماتے ہیں کہ حدیث میں "اعفاء" کا لفظ ہے اور اس کا مطلب چھوڑنا ہے۔ یعنی کبھی نہ کاٹو، ہمیشہ چھوڑے رکھو۔ اس لیے داڑھی کبھی نہیں کاٹیں گے۔
بھائی اشماریہ ابھی تک انھوں نے اس بات کی دلیل پیش نہیں کی ہے کہ حدیث میں موجود الفاظ توفیر،ارخا،ایفا اور اعفا کے معنی ترک کرنا ہیں،بس زبانی جمع خرچ ہے بس،جب کہ میں نے اس پر بے شمار دلائل دیے ہیں کہ یہ تمام الفاظ کثرت اور بہتات پر دلالت کرتے ہیں،
(أوفوا) کا لفظ ایفاء سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہيں :پورا ہو جانا اور کثیر ہو جانا، چناں چہ تاج العروس میں لکھا ہے​
:​
''وفى الشيء أي تمَّ وكثُر'' (219/40)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:

(أَوْفُوا أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِيَةً) (فتح الباری:350/10)
یعنی داڑی کو اس حد تک چھوڑ دو کہ وہ پوری ہوجائے۔
اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس کے معنی لٹکانا کے ہیں، صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :(
وأرخى الستر أسدله) یعنی اس نے پردہ لٹکایا
اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے،حافظ ابن حجر نے اس كے معنی لمبا کرنے کے کیے ہیں۔
(فتح الباری:350/10)
اسی طرح حديث ميں چوتھا لفظ (وفروا) بولا گیا ہے جس کے معنی ہيں : کثرت اور بہتات ہے ،جیسا کہ اس کی وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے :
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام) (129/6)
وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره) (493/1

اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)

ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(
وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔

شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)

''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت
(وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:

(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
فقہی قاعدہ:

'' كل جزئية من الدليل العام لم يجري عليها عمل السلف فالأخذ بها بدعة''
'' اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے۔''
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلف صالحین کتاب و سنت کی دلالت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،چناں چہ سلف کسی نص آنے پر اس کے عموم پر عمل نہ کیا، بلکہ انھوں نے صرف اس نص کے بعض افراد پر عمل کیا ہو تو ایسے میں اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے،اگر اس نص کے عموم پر عمل مشروع ہوتا تو سلف اس پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوتے۔
اس موقع پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واعفوا اللحى ایک عام نص ہے لیکن سلف صالحین نے اس کے عموم پر عمل نہیں کیا،بلکہ اس کے خاص افراد پر عمل کیا،لہذا اگر اس نص کے عموم پر عمل کیا جائے تو یہ غیر مشروع ہوگا،بلکہ بعض نامور محقق علماء نے تو یک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کی حرمت والے قول کو بدعات اضافیہ میں شامل کیا ہے۔یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔
داڑھی کے بارے میں بعض روایات میںأَعْفُوا اللِّحٰی’ اور وَفِّرُوا اللِّحٰیاورأَرْخُوا اللِّحٰیکے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے 'لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟ صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے' جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا، لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَا ِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَته فَمَا فَضْلَ أَخَذَه)
‘’مشرکین کی مخالفت کرو 'داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو'' ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج یا عمرہ'کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے تھے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے تھے ان کو کاٹ دیتے تھے۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔​
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اعفاء کے لغوی معنی پر بحث دیکھ کر اور پھر ابن فارس کے حوالہ پر آپ کا تبصرہ دیکھ کر یہ اندازہ ہوا ہے کہ اس حوالے سے آپ کی علمی استعداد کافی ناقص ہے ، اس لیے اس موضوع پر آپ سے بات کرنا فائدہ مند نہیں رہے گا ۔
مقاييس اللغة (4/ 58)
وَقَوْلُ الْقَائِلِ: عَفَا، دَرَسَ، وَعَفَا: كَثُرَ - وَهُوَ مِنَ الْأَضْدَادِ - لَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الْمَعْنَى مَا ذَكَرْنَاهُ، فَإِذَا تُرِكَ وَلَمْ يُتَعَهَّدْ حَتَّى خَفِيَ عَلَى مَرِّ الدَّهْرِ فَقَدْ عَفَا، وَإِذَا تُرِكَ فَلَمْ يُقْطَعْ وَلَمْ يُجَزْ فَقَدْ عَفَا. وَالْأَصْلُ فِيهِ كُلِّهِ التَّرْكُ كَمَا ذَكَرْنَاهُ.

اگر آپ نے ابن فارس کی بات کوسمجھا ہوتا تو اس میں جس بات کو آپ دلیل بنا رہے ہیں ، اسے ابن فارس رد کر رہے ہیں ، اور عفو اور کثرت کا آپس میں کیا جوڑ ہے ، وہی بیان کر رہے ہیں ، جو میں بار بار آپ سے گزارش کر چکا ہوں ۔
اشماریہ صاحب یہ خضر بھائی کا اعتراض ہے،میں نے اس کا جواب اس طرح دیا:
آپ ابن فارس کی مراد کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں،ابن فارس یہ کہہ رہے ہیں کہ عفا کا معنی ترک کرنا یعنی چھوڑنا ہے،لیکن بالوں کے بارے میں انھوں نے اس ترک کو کثرت اور طول کے ساتھ مقید کیا ہے،چناں چہ وہ رقم طراز ہیں:
وَقَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ كُلُّهُمْ: يُقَالُ مِنَ الشَّعْرِ عَفَوْتُهُ وَعَفَيْتُهُ، مِثْلُ قَلَوْتُهُ وَقَلَيْتُهُ، وَعَفَا فَهُوَ عَافٍ، وَذَلِكَ إِذَا تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ. قَالَ اللَّهُ - تَعَالَى -: {حَتَّى عَفَوْا} [الأعراف: 95] ، أَيْ نَمَوْا وَكَثُرُوا. (مقاییس اللغۃ:604)
امید کرتا ہوں کہ اب آپ عفا کے معنی کو سمجھ جائیں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ حدیث میں موجود دیگر الفاظ(ایفا،ارخا،توفیر) کے معنی پر غور و فکر کریں گے تو اعفا کے معنی بھی سمجھ آ جائیں گے۔
اشماریہ صاحب بتائیں کہ کیا خضر صاحب یہ ثابت کر پائے ہیں کہ ذکر کردہ الفاظ کے معنی مطلق ترک کے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے مطلق ترک مراد ہے،لیکن اہل لغت نے اس ترک کو تکثیر اور توفیر سے مقید کیا ہے،جیسا کہ میں نے وضاحت کردی ہے۔یعنی ایک مطلق ترک ہے اور ایک وہ ترک ہے جو تکثیر کے ساتھ مقید ہے،ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور پھر اس لفظ اعفا کے ساتھ دیگر الفاظ بھی ہیں پتہ نہیں ان الفاظ کی بات کیوں نہیں کی جارہی ہے؟
کتنے لوگوں نے کتب حدیث کا ترجمہ کیا ہے ،کسی ایک نے بھی اس کا معنی معاف کرنا نہیں کیا بلکہ سب نے بڈھانے اور زیادہ کرنے کا معنی کیا ہے،کیا ان سب نے غلط ترجمہ کیا ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
وَقَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ كُلُّهُمْ: يُقَالُ مِنَ الشَّعْرِ عَفَوْتُهُ وَعَفَيْتُهُ، مِثْلُ قَلَوْتُهُ وَقَلَيْتُهُ، وَعَفَا فَهُوَ عَافٍ، وَذَلِكَ إِذَا تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ. قَالَ اللَّهُ - تَعَالَى -: {حَتَّى عَفَوْا} [الأعراف: 95] ، أَيْ نَمَوْا وَكَثُرُوا. (مقاییس اللغۃ:604)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
کیا توفیر اور ایفا کے معنی بھی معاف کرنے کے ہیں،اگر ایسا ہی ہے تو اس پر غور فرمائیں:
إن أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى وأحفوا الشوارب(
"بے شک مشرکین مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو۔۔۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ"
کیا مشرکین مونچھوں معاف کرتے ہیں؟ وہ کون سا مشرک تھا جو رسول اللہﷺ کے دور میں مونچھوں کو معاف کرتا تھا،میں نے آپ سے اور خضر صاحب سے اس حدیث کا ترجمہ مانگا تھا لیکن کسی نے نہیں دیا،اس کا مقصد یہ تھا کہ اعفا کے معنی معاف کرنے کے نہیں ہیں،بلکہ بڈھانے اورزیادہ کرنے کے ہیں،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
" بے شک وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو۔"
کیسے ہم ا س کے معنی معاف کرنا کر سکتے ہیں،ہاں یہ بات درست ہے کہ مشرک مونچھیں بڑی بڑی رکھتے ہیں اور داڑیاں کاٹتے ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترمی عمران بھائی!
میرا خیال ہے کہ خضر بھائی کی بات لغت کے لحاظ سے درست ہے۔ اعفاء کا معنی لغتاً ترک ہے حتی کہ چیز کثیر ہو جائے۔
کتنی کثیر اور کتنا ترک؟ یہ فقہ کے موضوعات ہیں جو دیگر دلائل وغیرہ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ظاہر حدیث، لغت سے وہی نکلتا ہے جو خضر بھائی فرما رہے ہیں۔
احادیث میں موجود ایک لفظ کو لے لینا اور باقی الفاظ توفیر،ایفا،ارخا،ارجا کو چھوڑ دینا یہ کہاں کا انصاف ہےو؟کیا توفیر کا معنی بھی مطلق ترک کرنا ہے،کیا وفر بھی ترک ہے،کیا ایفا کا معنی بھی مطلق ترک ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس فورم پر وہ لوگ موجود ہیں جو خود کوسلفی کہلاتے ہیں،ناموں کے ساتھ سلفی کا اضافہ بھی کیا ہوا ہے،کیا ان کو نہیں معلوم کہ داڑی کے اس معاملے میں سلف کیا رائے ہے،ان کا عمل کیا ہے۔اس مسئلے میں لوگ نہ جانے فہم سلف کو کیوں مطلق ترک کر دیتے ہیں،اور ان کا یہ بھی فرمایا ہے کہ فہم سلف حجت ہے،یہاں وہ حجت ان کو نظر کیوں نہیں آتی؟
 
Top