محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
اہل علم حضرات کی گفتگو میں دخل دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ایک خیال عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اس میں معذرت کی کیا ضرورت ہے جناب بالکل زہے نصیب
اہل علم حضرات کی گفتگو میں دخل دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ایک خیال عرض کرنا چاہتا ہوں۔
میرے بھائی جس نے ایک مشت داڑی بڑھا لی اس نے داڑی کے بڑھانے والے حکم پر عمل کر لیا،کیوں کہ حدیث میں داڑی کو معاف کرنے کا نہیں بلکہ داڑی کوبڑھانے کا حکم ہے،اور جہاں تک اس اصول کی بات ہے کہعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دا ڑھی بڑھا نے اور مو نچھیں پست کر نے کا حکم دیتے تھے ۔(صحیح مسلم (
حافظ صاحب ذرا یہ بتایے گا کہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو فعل بیان کیا اور عمر رضی اللہ عنہ کا قول اس کی مخالفت میں ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ عمل سنت کے خلاف تھا یا زیادہ سے زیادہ صرف حج و عمرہ کے موقع پر اختیار کرنے والا عمل تھا اور اگر میں یہ کہوں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعفا ء اللحیہ وا لی حدیث کے راوی بھی ہیں اور محدثین کا اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کر دہ روایت کے خلا ف ہو تو روا یت کا اعتبا ر ہو تا ہے اس کے عمل کی کو ئی حیثیت نہیں ہو تی
کتب و حدیث میں اس کی کئی مثا لیں مو جو د ہیں ذرا اس کی وضاحت کریں
صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس بالطویل الباین ولا بالقصیر۔۔۔۔۔۔ ولیس فی راسہ و لحیتہ عشرون شعرۃ بیضاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لمبے تھے نہ بالکل چھوٹے ۔۔۔۔اور ان کے سر اور داڑھی میں 20 سفید بال بھی نہیں تھے۔
حافظ صاحب ترجمہ میں اگر کویی غلطی ہو تو بتایے گا
بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی معروف کتاب شمایل ترمذی میں تو یہ تحدید بھی موجود ہے کہ کتنے سفید بال تھے لکھتے ہیں کہ : ما عددت فی راس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و لحیتہ الا اربع عشرۃ شعرۃ بیضاء۔ یعنی 14 سفید بال
تو ان دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہویی کہ انہوں نے اتنی باریک بینی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا جایزہ لیا ہوا تھا کہ داڑھی کے سفید بال بھی شمار کر لیے تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو سیٹ کیا ہوتا یا نوک پلک سیدھی کی ہوتی یا کٹوایی ہوتی یا خط بنوایا ہوتا یا داییں باییں سے کچھ بال لیے ہوتے تو انس رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ضرور بیان کیا ہوتا واضح رہے کہ انس رضی اللہ عنہ آپ کے خادم تھے اور تقریبا 10 سال آپ کے ساتھ رہے
رسول اللہﷺ کی ڈاڑھی کی مقدار:
اگر كوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے ڈاڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،ہمارے فہم کے مطابق آپ ﷺ کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہذا ان کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،
العبرۃ بما روی لا بما رای کے تحت بھی عمر رضی اللہ عنہ کا قول راجح ہو گاراوی کی روایت کو لیا جائے گا اور اس کی رائے کو ترک کردیا جائے گا:''
العبرة برواية الراوي لا برأيه
میں نے اس کا عربی متن واضح کیا ہے آپ حسب معمول اپنے ترجمے پر بات کر رہے ہیں اصل کلمات کیا ہیں ذرا وہ بیان کریںاگر كوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے ڈاڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،ہمارے فہم کے مطابق آپ ﷺ کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہذا ان کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،اس کی دلیل عبد اللہ بن عباس کی وہ حدیث ہے جسے امام احمد بن حنبل نے المسند میں بیان کیا ہے:
جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)
صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس بالطویل الباین ولا بالقصیر۔۔۔۔۔۔ ولیس فی راسہ و لحیتہ عشرون شعرۃ بیضاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لمبے تھے نہ بالکل چھوٹے ۔۔۔۔اور ان کے سر اور داڑھی میں 20 سفید بال بھی نہیں تھے۔
حافظ صاحب ترجمہ میں اگر کویی غلطی ہو تو بتایے گا
بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی معروف کتاب شمایل ترمذی میں تو یہ تحدید بھی موجود ہے کہ کتنے سفید بال تھے لکھتے ہیں کہ : ما عددت فی راس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و لحیتہ الا اربع عشرۃ شعرۃ بیضاء۔ یعنی 14 سفید بال
تو ان دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہویی کہ انہوں نے اتنی باریک بینی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا جایزہ لیا ہوا تھا کہ داڑھی کے سفید بال بھی شمار کر لیے تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو سیٹ کیا ہوتا یا نوک پلک سیدھی کی ہوتی یا کٹوایی ہوتی یا خط بنوایا ہوتا یا داییں باییں سے کچھ بال لیے ہوتے تو انس رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ضرور بیان کیا ہوتا واضح رہے کہ انس رضی اللہ عنہ آپ کے خادم تھے اور تقریبا 10 سال آپ کے ساتھ رہے