• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یار عمر آپ کو صرف اسی کام کے لیے رکھا ہے
محترم شیخ!
آپ اسی میں ہی خوش ہو لیں. آپ یہی سمجھ لیں کہ مجھے اسی لۓ ہی رکھا گیا ہے. میں کیا کر سکتا ہوں. لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ کے جس مراسلے کو نا پسند کیا ہے اسکی وجہ ضرور رکھتا ہوں. آپ کا اسلوب بہت خراب تھا. آپ نے جس طرح سے بات کہی وہ اچھا نہیں تھا.
آپ اپنا طرز عمل دیکھیں. مجھے حیرت ہے کہ آپ مجھے جس کام پر ٹوک رہے ہیں خود اسی کو انجام دے رہے ہیں؟؟؟ اور ستم بالاۓ ستم تو یہ کہ آپ کئ مراسلوں پر اس طرح کا عمل کر چکے ہیں.
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس کا جواب دو ورنہ بات یہیں ختم کرو اللہ حافظ
شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہویی تھی یا صالح العثیمین رحمہ اللہ پر
حافظ صاحب اتنا طیش میں آنے کی کیا ضرورت پیش آ گیی
شیخ صالح العثیمین میرے استاد ہیں رحمہ اللہ میں ان کا دل سے احترام کرتا ہوں لیکن جہاں ان کی بات صحیح احادیث سے ٹکرایے گی احترام کے ساتھ رد کر دوں گا کہ یہ منھج شیخ رحمہ اللہ نے ہی دیا ہے
آپ کی ساری گفتگو کی اساس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فعل پر ہے جو بعض اقوال کے مطابق صرف حج و عمرہ کے ساتھ خاص ہے اس فعل کی نفی کسی نے نہیں کی
لیکن مجھے یہ بتادیجے کہ شریعت کس پر نازل ہویی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر
جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے بارے میں انہی صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اقوال نقل کیے جن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک بڑی ، گھنی، بھاری اور سینے تک پہنچتی ہویی معلوم ہوتی ہے تو آپ نے اس ان تمام اقوال صحابہ کو غیر متفق کر دیا کجا کہ آپ اس پر تبصرہ کرتے اور ان تمام احادیث کا یا ضعف بیان کرتے یا میرا استدلال غلط ثابت کرتے لیکن آپ نے لاجواب ہو کر غیر متفق کا بٹن دبا دیا
چلیے قد ملات نحرہ سے میں آپ کی بات تسلیم کر بھی لوں کہ سینہ مراد نہیں ہے لیکن پھر بھی کیا گردن کے نچلے حصے یعنی صدر کا اوپر والا حصہ تک پہنچنے والی داڑھی کتنی لمبی ہو سکتی ہے اس کا اندازہ سب کر سکتے ہیں
صرف ایک یا دو صحابہ کا فعل پر خود ساختہ اجماع بیان کر رہے ہیں تو واقعی اگر تمام صحابہ کا اس پر اتفاق تھا تو کم از کم متقدمین نے اس اجماع کو کہاں نقل کیا ہے اور خود ساختہ قیاس کی بنیاد خودساختہ اجماع سکوتی پر رکھ کر آپ اتنی بڑی بات کر رہے ہیں
پھر ایک واضح اصول کے قول فعل پر مقدم ہوتا ہے تو اس سے بھی بات واضح ہو جاتی ہے
ایک کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا صحابہ کی کثیر تعداد نے نہیں کیا اور چند صحابہ کے کرنے پر !!!!!!!!!!!
حافظ مقصود الہی صاحب اور گفتگو کے آداب سیکھیے
یہ کیا بات ہویی
اس کا جواب دو ورنہ بات یہیں ختم کرو اللہ حافظ
چلیے اگر آپ نے میرے ان سوالوں کا جواب دیا تو میں دوبارہ حاضر خدمت ہو جاوں گا وگرنہ اللہ آپ کو اور ہم سب کو ہدایت کا راستہ دکھایے اور حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمایے ورنہ ہٹ دھرمی اور ضد سے حق سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے باطل کی ہمراہی قریب ہو جاتی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حافظ صاحب یہ سوالیہ نشان سے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہی میں تو ایک طالب علم ہوں کھل کر بات کریں
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کا بڑا اور گھنا اور بھاری ہونا ثابت کیا یہاں تک کہ سینے مبارک تک پہنچ رہی ہے
اور آپ مسلسل ایک قیاس کر رہے ہیں کہ آپ کی دارھی چھوٹی تھی
اور صرف چند صحابہ کا عمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اور صریح احکام کی نفی ؟؟؟؟؟؟
ھداک اللہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میری جان چھوڑو یا میں کتنی بار کہا ہے یہ صرف ابن عمر کا عمل نہیں ہے بلکہ تمام صحابہ کا عمل ہے۔اب دوبارہ یہ نا کہنا کہ یہ صرف ابن عمر کا عمل ہے،دوسری بات یہ ہے کہ عظیم کے معنی وہ نہیں ہے جو آپ مراد لے رہے ہیں،اس کا مطلب ہے کہ آپ کی داڑی شاندار تھی بڑی ہی عظمت والی،اس سے وجود مراد نہیں ہے بلکہ خوب صورتی مراد ہے،یہ بات بھی سمجھ لو کہ نحر اور صدر میں بڑا فرق ہے۔
عظیم اللحیہ کے معنی
كَانَ ضخم الهامة) كبيرها وعظمها يدل على الرزانة وَالْوَقار (عَظِيم اللِّحْيَة) غليظها كثيفها
لكتاب: التيسير بشرح الجامع الصغير

المؤلف: زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي بن زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)
الناشر: مكتبة الإمام الشافعي - الرياضالطبعة: الثالثة، 1408هـ - 1988م

اس کو بھی سمجھ لو!

"كان ضخم الهامة عظيم اللحية". البيهقي عن علي (صح) ".
(كان ضخم الهامة) ضخامة الرأس دليل الرزانة والوقار وليس المراد الكبر المفرط الذي هو دليل البلاهة. (عظيم اللحية) هي بالكسر، في القاموس (2) واقتصر عليه وفي الكشاف: أن الفتح لغة، شعر الخدين والذقن والمراد غليظها كبيعها هكذا وصفه جمع منهم على وابن مسعود وغيرهما وفي رواية حميد عن أنس: "كان لحيته قد ملأت من هاهنا" إلى هاهنا ومر بعض الرواة يديه على عارضيه


الكتاب: التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ)
المحقق: د. محمَّد إسحاق محمَّد إبراهيم

نحر سينے كے بالائی حصے کو کہتے ہیں:
ولكن النحر والمنحر بوزن المذهب : هو موضع القلادة من الصدر . ونحر الصدر أعلاه
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امام شوکانی ( متوفی 1250 ہجری ) فرماتے ہیں :
قَدْ حَصَلَ مِنْ مَجْمُوعِ الْأَحَادِيثِ خَمْسُ رِوَايَاتٍ أَعْفُوا وَأَوْفُوا وَأَرْخُوا وَأَرْجُوا وَوَفِّرُوا، وَمَعْنَاهَا كُلُّهَا تَرْكُهَا عَلَى حَالِهَا. نيل الأوطار (1/ 149)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
الموسوعة الفقهية الكويتية (3/ 143)
الإِْعْفَاءُ يَدُل عَلَى أَصْلَيْنِ: هُمَا التَّرْكُ وَالطَّلَبُ، إِلاَّ أَنَّ الْعَفْوَ غَلَبَ عَلَى تَرْكِ عُقُوبَةٍ اسْتُحِقَّتْ، وَالإِْعْفَاءُ عَلَى التَّرْكِ مُطْلَقًا، وَمِنْهُ إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَهُوَ تَرْكُ قَصِّهَا وَتَوْفِيرِهَا ( المغرب فی ترتیب المعرب )
الموسوعة الفقهية الكويتية (35/ 224)
نُقِل عَنِ ابْنِ دَقِيقِ الْعِيدِ: تَفْسِيرُ الإِْعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ مِنْ إِقَامَةِ السَّبَبِ مُقَامَ الْمُسَبَّبِ لأَِنَّ حَقِيقَةَ الإِْعْفَاءِ التَّرْكُ، وَتَرْكُ التَّعَرُّضِ لِلِّحْيَةِ يَسْتَلْزِمُ تَكْثِيرَهَا.
وَقَال ابْنُ عَابِدِينَ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ: إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ تَرْكُهَا حَتَّى تَكِثَّ وَتَكْثُرَ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صحيح فقه السنة وأدلته وتوضيح مذاهب الأئمة (1/ 102۔103)
هل يجوز قصُّ ما زاد عن القبضة من اللحية؟
ذهب بعض العلماء إلى جواز أخذ ما زاد عن القبضة من اللحية، وتعلقوا بحديث ابن عمر «أنه كان إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه» .
قالوا: وهو راوي حديث الأمر بتوفير اللحية، فهو أعرف بمرويهِّ!
وليس لهم في هذا الأثر حجة لأمور :
1- أن ابن عمر رضي الله عنه كان يفعله إذا حلَّ من إحرامه في الحج والعمرة، وهم يجيزونه في كل حال.
2 - أن فعل ابن عمر هذا مخرَّج على تأوُّله لقوله تعالى: {مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ} (1). في النسك أن الحلق للرأس، والتقصير من اللحية .
3 - أن الصحابي إذا قال أو فعل خلاف ما رواه، فإن العبرة بما رواه لا بفهمه وفعله، فالعبرة بالمرفوع إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
وعلى ما تقدم فالصواب وجوب ترك اللحية وعدم الأخذ منها عملاً بعموم الأوامر الواردة في الأحاديث الصحاح (أعفوا .. أرخوا .. أرجوا .. وفروا .. أوفروا) كما ذهب إليه الجماهير من العلماء، والله أعلم.

موسوعة أحكام الطهارة (3/ 351)
قال النووي في المجموع (1/ 344): والصحيح كراهة الأخذ منها مطلقاً، بل يتركها على حالها كيف كانت للحديث الصحيح: " وأعفوا اللحى "، وأما حديث عمرو بن شعيب عن أبيه، عن جده، أن النبي - صلى الله عليه وسلم -: كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها، فرواه الترمذي بإسناد ضعيف. اهـ
وقال أيضاً في شرحه لصحيح مسلم (3/ 151): " والمختار ترك اللحية على حالها، وأن لا يتعرض لها بتقصير شيء أصلاً. اهـ
وقال العراقي في طرح التثريب (2/ 83): " واستدل الجمهور على أن الأولى ترك اللحية على حالها، وأن لا يقطع منها شيئاً، وهو قول الشافعي وأصحابه ".
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
موسوعة أحكام الطهارة (3/ 361) ( حاشیۃ من الشاملۃ )
قال المؤلف - حفظه الله -:
[جاء التصريح عن ابن عمر بأنه كان يأخذ من لحيته من ثلاثة طرق، أو أكثر:
الأول: عن نافع، رواه عنه جماعة:
منهم: عمر بن محمد بن زيد، كما في حديث الباب من صحيح البخاري.
ومنهم: مالك، عن نافع. رواه مالك في الموطأ (1/ 396) عن نافع أن عبد الله بن عمر كان إذا حلق في حج أو عمرة أخذ من لحيته وشاربه. ورجاله في أعلى درجات الصحة.
وفي رواية لمالك (1/ 396) عن نافع: أن ابن عمر كان إذا أفطر من رمضان، وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه، ولا من لحيته شيئاً حتى يحج.
وقد يقول قائل: مفهوم هذا الرواية " كان إذا أفطر من رمضان، وهو يريد الحج لم يأخذ من لحيته ولا من رأسه، مفهمومه أنه إذا لم يرد الحج أخذ، ولو كان في غير نسك.
ومنها: طريق ابن أبي ليلى، عن نافع.
رواه ابن أبي شيبة في المصنف (5/ 225) رقم 25486 قال: حدثنا علي بن هاشم ووكيع، عن ابن أبي ليلى، عن نافع، عن ابن عمر أنه كان يأخذ ما فوق القبضة، وقال وكيع: ما جاوز القبضة.
وابن أبي ليلى ضعيف الحفظ، لكنه قد توبع، كما سبق.
ومنها: طريق محمد بن عجلان، عن نافع.
رواها ابن سعد في الطبقات (4/ 181) قال: أخبرنا محمد بن عبد الله الأسدي، حدثنا سفيان، عن محمد بن عجلان، عن نافع قال: كان ابن عمر يعفي لحيته إلا في حج أو عمرة.
وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات لولا أن محمد بن عبد الله الأسدي، ضعيف في الثوري.
قال حنبل بن إسحاق، عن أحمد بن حنبل: كان كثير الخطأ في حديث سفيان. تهذيب التهذيب (9/ 227).
وفي التقريب: ثقة ثبت إلا أنه قد يخطئ في حديث الثوري.
ويغتفر له هذا لموافقته الثقات في روايتهم لهذا الحديث.
ومنها: طريق ابن جريج عن نافع.
أخرجها ابن سعد في الطبقات الكبرى (4/ 181) قال: أخبرنا عبد الوهاب بن عطاء العجلي، قال: حدثنا ابن جريج، عن نافع، قال: ترك ابن عمر الحلق مرة أو مرتين، فقصر نواحي مؤخرة رأسه، قال: وكان أصلع، قال: قلت: لنافع: أمن لحيته؟
قال: كان يأخذ من أطرافها. وفيه عنعنة ابن جريج، وهو مدلس. وقد تفرد عبد الوهاب بذكر الصلع في الأثر، ولم يذكره غيره.
ومنها: طريق عبد الله بن عمر المكبر، عن نافع.
رواه البيهقي في شعب الإيمان (5/ 223)، وسنده ضعيف.
ومنها عيسى بن جعفر وحفص بن غياث، عن نافع، كما في طبقات ابن سعد (4/ 134) وفيه الواقدي، وهو متروك. ولفظه: كان يعفي لحيته إلا في حج أو عمرة.
ومنها: عبد العزيز بن أبي رواد، عن نافع. أخرجها البيهقي في شعب الإيمان (5/ 220) رقم 6435 من طريق حبان، ثنا عبد الله، عن عبد العزيز بن أبي رواد، عن نافع به أنه كان إذا حلق في الحج أو العمرة قبض على لحيته، ثم أمر فسوى بين أطراف لحيته. وعبد العزيز بن أبي رواد متكلم فيه، ولكن حديثه هذا قد وافق فيه الثقات، وستأتي ترجمته إن شاء الله تعالى.
الطريق الثاني: مروان بن سالم بن المقفع، عن ابن عمر.
رواه أبو داود في سننه (2357) قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن يحيى أبو محمد، ثنا علي بن الحسن، أخبرني الحسين بن واقد، ثنا مروان - يعني ابن سالم المقفع - قال: رأيت ابن عمر يقبض على لحيته، فيقطع ما زاد على الكف.
والحديث أخرجه النسائي في السنن الكبرى (3329)، قال: أخبرني قريش بن عبد الرحمن، قال: أنبأ علي بن الحسن، قال: أنبأ الحسين بن واقد به. وأعاده في رقم (10131).
ومن طريق علي بن الحسن بن شقيق أخرجه كل من الدارقطني (2/ 185)، والحاكم (1/ 422)، والبيهقي في السنن الكبرى (4/ 239).
قال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين، والصحيح أنه ليس على شرط واحد منهما، فإن مروان بن سالم لم يحتج به أحد منهما.
إسناده فيه لين، فيه مروان بن سالم المقفع،
ذكره ابن حبان في الثقات (5/ 424).
وحسن الدارقطني حديثه، فقال في سننه (2/ 185): تفرد به الحسين بن واقد، وإسناده حسن. اهـ
وقال الحافظ في التقريب: مروان بن سالم مقبول. يعني إن توبع، وقد توبع في كون ابن عمر كان يأخذ من اللحية مطلقاً، في غير الحج.
فقد روى أبو يوسف في كتاب الآثار (2/ 234)، قال: حدثنا أبوحنيفة، عن الهيثم، عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كان يقبض على لحيته، فيأخذ منها ما جاوز القبضة. والله أعلم.
والهيثم لم ينسب، فإن كان الهيثم بن أبي سنان، فإنه يروى عن ابن عمر، فهو ثقة، وإن كان غيره فالله أعلم، وقد وقفت على نصب الراية (2/ 458) قال: " الهيثم بن أبي الهيثم " ولم أقف على سماعه من ابن عمر، والله أعلم، وعلى كل فهذا إسناد صالح في المتابعات، وفيه أبو حنيفة، وهو إمام في الفقه والنظر.
ووراه ابن أبي شيبة أيضاً، ولم يذكر حجاً أو عمرة، (5/ 225) رقم 25486 حدثنا علي بن هاشم ووكيع، عن ابن أبي ليلى، عن نافع، عن ابن عمر أنه كان يأخذ ما فوق القبضة. وقال وكيع: ما جاوز القبضة.
وهذا الأسناد فيه ابن أبي ليلى، وفي حفظه شيء، ولكنه قد توبع كما قرأت، وسبقت الإشارة إليه.
وقد يقال: إن هذه الطرق الثلاث، والتي تذكر عن ابن عمر أنه أخذ من اللحية خارج النسك، مخالفة لرواية الأحفظ من أصحاب نافع كمالك رحمه الله وغيره، فلا تكون محفوظة، والله أعلم.
الطريق الثالث: مجاهد، عن ابن عمر.
رواه ابن عبد البر في الاستذكار (3/ 117) قال: أخبرنا عبد الوارث، قال: حدثنى قاسم، قال: حدثنا الخشني، حدثني محمد بن أبي عمر العدني، قال: حدثني سفيان، قال: حدثني ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قال: رأيت ابن عمر قبض على لحيته يوم النحر، ثم قال للحجام: خذ ما تحت القبضة. وعنعنة ابن أبي نجيح قد زالت بالمتابعة، والله أعلم.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
الموسوعة الفقهية الكويتية (3/ 143)
الإِْعْفَاءُ يَدُل عَلَى أَصْلَيْنِ: هُمَا التَّرْكُ وَالطَّلَبُ، إِلاَّ أَنَّ الْعَفْوَ غَلَبَ عَلَى تَرْكِ عُقُوبَةٍ اسْتُحِقَّتْ، وَالإِْعْفَاءُ عَلَى التَّرْكِ مُطْلَقًا، وَمِنْهُ إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَهُوَ تَرْكُ قَصِّهَا وَتَوْفِيرِهَا ( المغرب فی ترتیب المعرب )
الموسوعة الفقهية الكويتية (35/ 224)
نُقِل عَنِ ابْنِ دَقِيقِ الْعِيدِ: تَفْسِيرُ الإِْعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ مِنْ إِقَامَةِ السَّبَبِ مُقَامَ الْمُسَبَّبِ لأَِنَّ حَقِيقَةَ الإِْعْفَاءِ التَّرْكُ، وَتَرْكُ التَّعَرُّضِ لِلِّحْيَةِ يَسْتَلْزِمُ تَكْثِيرَهَا.
وَقَال ابْنُ عَابِدِينَ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ: إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ تَرْكُهَا حَتَّى تَكِثَّ وَتَكْثُرَ
یہاں بھی اعفاء کے معنی تکثیر پر ہی آ کر رکے ہیں۔
 
Top