• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک بھائی نے اس دھاگے میں مجھے ٹیگ کیا ہے اور ذاتی میسج میں یہاں کا لنک بھی باربار دے رہے شاید میرا موقف جاننا چاہتے ۔
بھائی اس سلسلے مجھے راجح یہی لگتا ہے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے ۔
کفایت اللہ بھائی دلیل کے بغیر کیسے کام چلے گا؟ اگر کسی کی داڑی ناف یا گھٹنوں تک چلی جائے تو وہ کیا کرے گا؟کاٹ لے یا اس کا لفافہ بنائے،اس نے واش روم جانا ہے بیوی کے پاس جانا ہے،لپیٹنا بھی منع ہے،آخر وہ کیا کرے گا؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
الله گواہ هے میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنی آنکهوں سے ناف یا گهٹنوں تک داڑهی کسی کی دیکہی نہیں ۔
اولا دلائل احایث سے هو رہے تهے یہ یکدم باتوں کا انداز تبدیل کیوں کر هو رہا هے ؟
آپ محترم خضر بهائی کے اب تک کے آخری تین مراسلات پر پرسکون هو کر غور کریں ۔
سنت پر عمل کے معاملے پر بات هورہی هے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس میں آپ کے موقف کی دلیل ہے ہی نہیں ، جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھتے ہیں ، ان میں سے کتنے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے کے کاٹنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ؟
یہ کیا بات ہوئی، سمجھ داری سے کام لیں،یہ کیا کہہ رہے ہیں،ہمیں لوگوں سے کوئی سروکار نہیں کوئی کاٹے یا نہ کاٹے ہم ان کے ٹھیکے دار ہیں۔دین کے عامی طالب علم سے پوچھ لیں،وہ بھی کہے گا کہ اس میں دلیل تو ہے کہ صحابہ اور تابعین مشت سے زائد ڈاڑی کٹاتے تھے۔امام ابن ابی شیبہ نے تو اس دلیل پکڑی ہے۔
آپ نے دو طرح کے آثار نقل کیے ہیں ، ایک میں ہے کہ حج و عمرہ کے موقعہ پر ایک مشت سے زائد کاٹتے تھے ، دوسرے میں مطلقا جواز کی بات ہے ، دونوں میں سے کس کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر مطلقا صحیح سمجھتے ہیں تو حج وعمرہ والی قید کا کیا جواب ہے ؟
حافظ ابن عبد البر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(( وفي أخذ بن عُمَرَ مِنْ آخِرِ لِحْيَتِهِ فِي الْحَجِّ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ فِي غَيْرِ الْحَجِّ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ غَيْرُ جَائِزٍ مَا جَازَ فِي الْحَجِّ لِأَنَّهُمْ أُمِرُوا أَنْ يَحْلِقُوا أَوْ يُقَصِّرُوا إِذَا حَلُّوا مَحَلَّ حَجِّهِمْ مَا نهوا عنه في حجهم، وابن عُمَرَ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم أعفوا اللحا وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى فَكَانَ الْمَعْنَى عِنْدَهُ وَعِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ الْأَخْذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا تَطَايَرَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ)) (ابن عبد البر ،الاستذكار:4/317)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایام حج میں اپنی داڑھی کے آگے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر ایام حج میں بھی یہ فعل جائز ہے، کیونکہ اگر یہ فعل تمام اوقات میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی جائز ناہوتا، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تو یہ حکم تھا کہ جب وہ حج سے فارغ ہوں تو وہ اپنے بال منڈوادیں یا کتروادیں جس سے ان کو احرام کی حالت میں روکا گیا تھا اورعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے: اعفوا اللحی (داڑھیوں کو بڑھاؤ) اور خود مٹھی سے بال زیادہ لیتے تھے۔ اس حدیث کا مطلب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب جانتے ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے کہ وہ بال ليے جائيں جو زائد اور پراگندہ ہوں اور بُرے معلوم ہوں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے ان لوگوں(امام کرمانی وغیرہ) کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابن عمر کا یہ عمل حج کے ساتھ خاص تھا: ''أَن بن عُمَرَ كَانَ لَا يَخُصُّ هَذَا التَّخْصِيصَ بِالنُّسُكِ''
(فتح الباری:350/1o)
یعنی ابن عمر اس عمل(ڈاڑھی کٹانے) کو صرف حج کے خاص نہیں کرتے تھے۔

وہ یہ کام حج و عمرہ کے علاوہ بھی کرتے تھے بس فرق اتنا ہے کہ حج و عمرہ میں یہ کام عام ہوتا تھا۔
اعفاء کا اصلی معنی تکثیر نہیں ہے محترم ، یہ تاویل ہے سلف میں سے ان لوگوں کے عمل کی جو داڑھی کاٹتے تھے ، تو اعفاء کا معنی تکثیر کرکے ان کے لیے عذر تلاش کیا گیا ہے ۔
شاید آپ کو علم نہیں ہے کہ آپ اسلاف پر الزام لگا رہے ہیں،کہ صحابہ کرام دوران حج و عمرہ مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرتے تھے،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی سیدنا عبد اللہ بن عمر جیسا متبع سنت صحابی اور دیگر اصحاب رسول مشت سے زائد ڈاڑھی کٹوا کر مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرکے حج وعمرہ کے دوران اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں گے۔

حقیقت اور تاویل میں فرق ہوتا ہے ۔ آپ تاویلی معنی لیکر اس کو اصل بنار ہے ہیں ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون
یہاں آپ والا معنی کیسے مراد لیا جائے گا ؟
قرآنی دعا واعف عنا کا کیا معنی کریں گے ؟
اعفاء سے مراد تکثیر اور پھر تکثیر سے مراد ایک مشت ، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اعفاء ثابت ہے ، اگلی دونوں قیدیں بعد والوں کا اضافہ ہے ۔
یہ حقیقت اور تاویل کو پتہ نہیں کہاں سے لے آئے ہیں،کیا آج تک کسی نے بھی داڑی کے مسئلے میں اس تاویل کی بات کی ہے،اگر یہ تاویل ہے تو صحابہ نے بھی یہ تاویل کی ائمہ اربعہ نے بھی یہ تاویل کی،ابن تیمیہ،ابن حجر،ابن بطال،مالکی شافعی ،حنفی اور حنبلی علما سب نے یہ تاویل کی ہے،آپ کا بس نہیں چل رہا ورنہ آپ تو ساری دنیا کو ہی مؤول قرار دے دیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
کفایت اللہ بھائی دلیل کے بغیر کیسے کام چلے گا؟ اگر کسی کی داڑی ناف یا گھٹنوں تک چلی جائے تو وہ کیا کرے گا؟کاٹ لے یا اس کا لفافہ بنائے،اس نے واش روم جانا ہے بیوی کے پاس جانا ہے،لپیٹنا بھی منع ہے،آخر وہ کیا کرے گا؟
میں نے بچپن سے لے کرآج تک کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جوشروع سے داڑھی چھوڑے ہو اور اس کی داڑھی کی وہ حالت ہوئی ہو جو آپ بیان کررہے ہیں۔
بلکہ داڑھی کاٹنے والے بھی چھوڑدیتے ہیں تو ان کی داڑھی کی حالت بھی وہ نہیں ہوتی جو آپ بیان کررہے ہیں ہزاروں لاکھوں میں شاید ایک دو ایسی مثال لے۔
یعنی یہ بہت ہی شاذ حالت ہوسکتی ہے ۔
اورجس کی داڑھی اس شاذ حالت میں پہنچ جائے اس کے لئے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ وہ اتنی داڑھی کاٹ سکتا ہے جتنے سے وہ اس پریشانی سے نکل جائے ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شاذ حالت کی بنیاد پر ایک عمومی بات کہہ دی جائے کہ ہرایک شخص داڑھی کاٹ سکتاہے۔

جس شاذ حالت کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے جس کی ناک کی ہڈی بہت زیادہ بڑھ جائے اوراس کے سبب نزلہ زکام کا وہ کثرت سے شکار رہتاہو ایسے شخص کے لئے ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ ناک کی ہڈی کٹوا سکتاہے ۔ لیکن اس طرح کی شاذ مثالوں کی بنیاد پر ایک عمومی بات تو نہیں کہہ سکتے کہ ہر مرد یا عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ناک کا آپریشن کروا کے اس میں من مانی تبدیلی کراوئے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون
یہاں آپ والا معنی کیسے مراد لیا جائے گا ؟
قرآنی دعا واعف عنا کا کیا معنی کریں گے ؟
اللہ کے بندے تھوڑا علم اور حاصل کر لو یہاں لفظ اعفا کے ساتھ عن حرف جار ہے،اس لیے یہاں ا سکا معنی معاف کرنا ہے،لہذا جب اس لفظ کے ساتھ عن آئے یا کوئی قرینہ صارفہ ہوتو پھر اس کا معنی معاف کرنا ہوتا ہے،جیسا کہ دوسری آیت میں فاعفوا و اصفحوا آیا ہے،یہاں اصفحوا قرینہ صارفہ ہے،اس لیے اس کا معنی معاف کرنا ہے۔
اعفاء سے مراد تکثیر اور پھر تکثیر سے مراد ایک مشت ، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اعفاء ثابت ہے ، اگلی دونوں قیدیں بعد والوں کا اضافہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے اعفا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی،جس کے دلائل یہ ہیں:
جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)
رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة .)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (
فتح الباري شرح صحيح البخاري:657/6
علامہ ہیثمی نے بھی اس حدیث کے رواۃ کے بارے لکھا ہے:''رجاله ثقات''

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد
:8 / 272 :
امام زرقانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
''إسناد حسن'' (شرح الزرقاني على الموطأ:(4 / 439)
محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه
(فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی:147167
آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔
امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:
224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159)

یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔
امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں:

''لا يفهم من هذا يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ".

''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135)
آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں:
فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة

آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I
علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:
أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة

آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔
179/2
امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں:
الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160)

کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔
علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں:

كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔
یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں:

(وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا)
اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔
) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی:

147167
اب آپ دوبارہ رسول اللہ ﷺ کے اعفا کی بات نہ کرے کیوں کہ آپ کو اس چیز کی ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی کہ ڈاڑی کو کاٹا جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حافظ عمران صاحب اللہ کے رسول سے منقول اعفاء کی تفسیر آپ نے صحابی کے فعل کے ساتھ کی ہے ، پھر اس صحابی کے فعل کی تشریح آپ نے بعد والے ائمہ سے پیش کی ہے ، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مطلقا داڑھی کٹوانے کی دلیل نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہے نہ کہ صحابہ کرام سے ، بلکہ ادھر ادھر سے صغرے کبرے ملا کر آپ اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں ۔
حدیث کی صحت کی آپ نے جتنی دلیلیں پیش کی ہیں ، وہ آپ کی خواہش تو ہوسکتی ہے ، لیکن تصحیح و تضعیف کا علمی اصول نہیں ہے ۔ سند میں دو علتیں ہیں :
1۔ ابو الزبیر کا عنعنہ
اس کی تصریح بالسماع دکھائیں ۔
2۔ متن میں مخالفت اور اضطراب ۔
دونوں میں سے ایک کو ترجیح دیں ، پھر یہ روایت آپ کے لیے قابل دلیل ہوسکتی ہے ۔ ورنہ نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حافظ عمران بھائی پوری بحث پڑھ پانا اس وقت میرے لئے مشکل ہے کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ایک پوسٹ میں صرف ان تمام آثار کو پیش کردیں جن میں بعض صحابہ سے داڑھی کاٹنے کی بات ملتی ہے اور اس کی سندیں صحیح یاحسن ہوں؟
اگر ممکن ہو تو یہ تمام آثار ایک پوسٹ میں پیش کردیں لیکن صرف آثار صحابہ باقی کوئی اور وضاحت یا کسی اور کا کوئی قول اس پوسٹ میں نہ ہو۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے ۔ اور یہی دلیل کافی ہے ، اگر ہم صحابہ کے کسی قول کو چھوڑ رہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، اور ان صحابہ کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، جن سے مطلقا اعفاء پر عمل کرنا منقول ہے ۔
خضر صاحب آپ یہاں فہم سلف کو خیر باد کہہ رہے ہیں،کیوں داڑی والی حدیث کے راوی ہی داڑی کٹوا رہے ہیں،
میرے خیال میں یہی وہ اہم بات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے،صحیح بات تو یہی ہے کہ شریعت میں کسی صحابی کا کوئی عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول شریعت سازی کر سکتا ہے۔لیکن یہاں بات نہیں ہے کہ صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں ہے،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا فہم اور معنی معتبر ہے،وہ فہم جو چودہویں پندروھویں صدی کا ایک عالم پیش کرکرہا ہے یا وہ فہم جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت ہے؟
چوں کہ ابن عمر،ابن عباس،عبد اللہ بن جابر اور ابو ہریرہ اس حدیث کے رواۃ ہیں ،لہذا وہی اس حدیث کا معنی بہتر سمجھتے ہیں،اصول فقہ کی کتابوں میں یہ اصول موجود ہے : الرَّاوِي أدرى بِمَا يرويهِ وَأعرف
(إجابة السائل شرح بغية الآمل، امير صنعاني:419)
یعنی راوی اپنی بیان کردہ روایت کا معنی دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ چناں چہ اس روایت کے راوی عبد اللہ بن عمر ہیں اور وہ اس معنی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اللہ کے بندے تھوڑا علم اور حاصل کر لو یہاں لفظ اعفا کے ساتھ عن حرف جار ہے،اس لیے یہاں ا سکا معنی معاف کرنا ہے،لہذا جب اس لفظ کے ساتھ عن آئے یا کوئی قرینہ صارفہ ہوتو پھر اس کا معنی معاف کرنا ہوتا ہے،جیسا کہ دوسری آیت میں فاعفوا و اصفحوا آیا ہے،یہاں اصفحوا قرینہ صارفہ ہے،اس لیے اس کا معنی معاف کرنا ہے۔
ابن فارس کی بات پڑھیں :
مقاييس اللغة (4/ 56)
الْعَيْنُ وَالْفَاءُ وَالْحَرْفُ الْمُعْتَلُّ أَصْلَانِ يَدُلُّ أَحَدُهُمَا عَلَى تَرْكِ الشَّيْءِ، وَالْآخَرُ عَلَى طَلَبِهِ. ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِ فُرُوعٌ كَثِيرَةٌ لَا تَتَفَاوَتُ فِي الْمَعْنَى.
عفو کا اصلی معنی معاف کرنا ، چھوڑنا ہی ہے ۔ اور آپ نے جو معنی ذکر کیا ہے ، اور اس پر اڑے ہوئے ہیں ، اس کی حقیقت بھی ملاحظہ کر لیں :
مقاييس اللغة (4/ 58)
وَقَوْلُ الْقَائِلِ: عَفَا، دَرَسَ، وَعَفَا: كَثُرَ - وَهُوَ مِنَ الْأَضْدَادِ - لَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الْمَعْنَى مَا ذَكَرْنَاهُ، فَإِذَا تُرِكَ وَلَمْ يُتَعَهَّدْ حَتَّى خَفِيَ عَلَى مَرِّ الدَّهْرِ فَقَدْ عَفَا، وَإِذَا تُرِكَ فَلَمْ يُقْطَعْ وَلَمْ يُجَزْ فَقَدْ عَفَا. وَالْأَصْلُ فِيهِ كُلِّهِ التَّرْكُ كَمَا ذَكَرْنَاهُ.
برائے مہربانی جو کچھ لکھیں ، نقل کریں ، سمجھ کر نقل کریں ، اپنے دماغ سے سوچیں ، خالی نقل اور کاپی پیسٹ پر اعتماد نہ کریں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر صاحب آپ یہاں فہم سلف کو خیر باد کہہ رہے ہیں،کیوں داڑی والی حدیث کے راوی ہی داڑی کٹوا رہے ہیں،
میرے خیال میں یہی وہ اہم بات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے،صحیح بات تو یہی ہے کہ شریعت میں کسی صحابی کا کوئی عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول شریعت سازی کر سکتا ہے۔لیکن یہاں بات نہیں ہے کہ صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں ہے،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا فہم اور معنی معتبر ہے،وہ فہم جو چودہویں پندروھویں صدی کا ایک عالم پیش کرکرہا ہے یا وہ فہم جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت ہے؟
چوں کہ ابن عمر،ابن عباس،عبد اللہ بن جابر اور ابو ہریرہ اس حدیث کے رواۃ ہیں ،لہذا وہی اس حدیث کا معنی بہتر سمجھتے ہیں،اصول فقہ کی کتابوں میں یہ اصول موجود ہے : الرَّاوِي أدرى بِمَا يرويهِ وَأعرف
(إجابة السائل شرح بغية الآمل، امير صنعاني:419)
یعنی راوی اپنی بیان کردہ روایت کا معنی دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ چناں چہ اس روایت کے راوی عبد اللہ بن عمر ہیں اور وہ اس معنی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔
میرے بھائی یہ اصول ہی غلط ہے ، کہ راوی روایت کو بہتر جانتا ہے ، فرب مبلغ أوعی لہ من سامع ، فرب حامل فقہ غیر فقیہ بعض دفعہ راوی بھی اپنی روایت کو سمجھنے میں غلطی کرسکتا ہے ۔ اب مجھ پر ابن عمر رضی اللہ عنہ کی تغلیط کا الزام نہ لگائیے گا ، میں نے آپ کے ایک اصول کی غلطی کو واضح کیا ہے ، اور یہ اصول ایسا ہے ، آپ نے لکھا لکھایا کہیں سے نقل کردیا ہے ، ورنہ کئی ایسی روایات ہیں ، جہاں آپ خود راوی کی روایت کو لیتے ہوں گے ، اور راوی کے فتوی کو خیر باد کہتے ہوں گے ۔
 
Top