• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اورجس کی داڑھی اس شاذ حالت میں پہنچ جائے اس کے لئے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ وہ اتنی داڑھی کاٹ سکتا ہے جتنے سے وہ اس پریشانی سے نکل جائے ۔
اس طرح کے انسان کے لیے جواز کی دلیل کہاں سے لی گئی ہے۔اس کے لیے مرفوع حدیث بیان کریں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میرے بھائی یہ اصول ہی غلط ہے ، کہ راوی روایت کو بہتر جانتا ہے ، فرب مبلغ أوعی لہ من سامع ، فرب حامل فقہ غیر فقیہ بعض دفعہ راوی بھی اپنی روایت کو سمجھنے میں غلطی کرسکتا ہے ۔ اب مجھ پر ابن عمر رضی اللہ عنہ کی تغلیط کا الزام نہ لگائیے گا ، میں نے آپ کے ایک اصول کی غلطی کو واضح کیا ہے ، اور یہ اصول ایسا ہے ، آپ نے لکھا لکھایا کہیں سے نقل کردیا ہے ، ورنہ کئی ایسی روایات ہیں ، جہاں آپ خود راوی کی روایت کو لیتے ہوں گے ، اور راوی کے فتوی کو خیر باد کہتے ہوں گے ۔
یہ اصول صرف اصحاب رسول کے لیے ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ عمران بھائی پوری بحث پڑھ پانا اس وقت میرے لئے مشکل ہے کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ایک پوسٹ میں صرف ان تمام آثار کو پیش کردیں جن میں بعض صحابہ سے داڑھی کاٹنے کی بات ملتی ہے اور اس کی سندیں صحیح یاحسن ہوں؟
اگر ممکن ہو تو یہ تمام آثار ایک پوسٹ میں پیش کردیں لیکن صرف آثار صحابہ باقی کوئی اور وضاحت یا کسی اور کا کوئی قول اس پوسٹ میں نہ ہو۔
جزاک اللہ خیرا۔
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ»
مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث:
2355،
عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
اس كے ساتھ ساتھ بعض تابعين نے صحابہ کا یہ عمل صحیح سند سے بیان کیا جو درج ذیل ہے:
عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )

((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوبڈھایا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:عون المعبود شرح سنن أبي داود:(4 / 136)
فضیلۃ الشیخ دبیان محمد الدبیان نے بھی اس کی سند کو دوبار حسن قرار دیا ہے:
ويكون ما ثبت عن ابن عباس، وابن عمر، وجابر شاهدًا له؟ذكر ذلك عنهم جابر بن عبدالله بسند حسن، وسيأتي تخريجه، والكلام عليه.
اسی طرح فضیلۃ الشیخ مختار الاخضر طیباوی نے یہ کہہ کر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے:
أخرجه أبو داود(4/136)(رقم:4203)بإسناد حسن. ويشهد لصحته الأحاديث الصحيحة عن ابن عمر و أبي هريرة.
http://www.kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=29172

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اس طرح کے انسان کے لیے جواز کی دلیل کہاں سے لی گئی ہے۔اس کے لیے مرفوع حدیث بیان کریں
داڑھی سے ہٹ کر میرا آپ سے سوال ہے کہ : جسم کا کوئی بھی حصہ عام حالت سے علیحدہ ہوجائے اور اس کے ساتھ وہ تکلیف دہ بھی بن جائے تو اسے کاٹاجاسکتاہے یا نہیں ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ابن فارس کی بات پڑھیں :
وَقَوْلُ الْقَائِلِ: عَفَا، دَرَسَ، وَعَفَا: كَثُرَ - وَهُوَ مِنَ الْأَضْدَادِ - لَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الْمَعْنَى مَا ذَكَرْنَاهُ، فَإِذَا تُرِكَ وَلَمْ يُتَعَهَّدْ حَتَّى خَفِيَ عَلَى مَرِّ الدَّهْرِ فَقَدْ عَفَا، وَإِذَا تُرِكَ فَلَمْ يُقْطَعْ وَلَمْ يُجَزْ فَقَدْ عَفَا. وَالْأَصْلُ فِيهِ كُلِّهِ التَّرْكُ كَمَا ذَكَرْنَاهُ.
برائے مہربانی جو کچھ لکھیں ، نقل کریں ، سمجھ کر نقل کریں ، اپنے دماغ سے سوچیں ، خالی نقل اور کاپی پیسٹ پر اعتماد نہ کریں ۔
وَعَفَا: كَثُرَ یہ بھی تو موجود ہے اور کیا یہ ابن فارس کی عبارت نہیں ہے:
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)
(129/6)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ عمران صاحب اللہ کے رسول سے منقول اعفاء کی تفسیر آپ نے صحابی کے فعل کے ساتھ کی ہے ، پھر اس صحابی کے فعل کی تشریح آپ نے بعد والے ائمہ سے پیش کی ہے ، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مطلقا داڑھی کٹوانے کی دلیل نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہے نہ کہ صحابہ کرام سے ، بلکہ ادھر ادھر سے صغرے کبرے ملا کر آپ اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں ۔
حدیث کی صحت کی آپ نے جتنی دلیلیں پیش کی ہیں ، وہ آپ کی خواہش تو ہوسکتی ہے ، لیکن تصحیح و تضعیف کا علمی اصول نہیں ہے ۔ سند میں دو علتیں ہیں :
1۔ ابو الزبیر کا عنعنہ
اس کی تصریح بالسماع دکھائیں ۔
2۔ متن میں مخالفت اور اضطراب ۔
دونوں میں سے ایک کو ترجیح دیں ، پھر یہ روایت آپ کے لیے قابل دلیل ہوسکتی ہے ۔ ورنہ نہیں ۔
ٹھیک ہے نا صحابی راوی حدیث بھی ہے تو اس کی تفسیر بھی مانی جائے امام بخاری ابن عمر کا فعل اعفا کی تفسیر کے لیے ہی بخاری میں لائے ہیں اور یا د رکھیں میں نےصرف ایک نہیں تمام صحابہ سے یہ تفسیر نقل کی ہے،
اور جہاں تک جابر والی روایت کا تعلق ہے تو وہ روایت معنوی طور پر درست ہے،کیوں کہ دیگر صحابہ کا عمل اس پر شاہد ہے،ورنہ مجھے بھی پتہ ہے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ»
مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث:
2355،
عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
اس كے ساتھ ساتھ بعض تابعين نے صحابہ کا یہ عمل صحیح سند سے بیان کیا جو درج ذیل ہے:
عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )

((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوبڈھایا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:عون المعبود شرح سنن أبي داود:(4 / 136)
فضیلۃ الشیخ دبیان محمد الدبیان نے بھی اس کی سند کو دوبار حسن قرار دیا ہے:
ويكون ما ثبت عن ابن عباس، وابن عمر، وجابر شاهدًا له؟ذكر ذلك عنهم جابر بن عبدالله بسند حسن، وسيأتي تخريجه، والكلام عليه.
http://www.alukah.net/sharia/0/44097/
اسی طرح فضیلۃ الشیخ مختار الاخضر طیباوی نے یہ کہہ کر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے:
أخرجه أبو داود(4/136)(رقم:4203)بإسناد حسن. ويشهد لصحته الأحاديث الصحيحة عن ابن عمر و أبي هريرة.

http://www.kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=29172
بھائی میں نے داڑھی کاٹنے سے متعلق تمام آثار صحابہ کو ایک ساتھ پیش کرنے کی درخواست کی تھی ۔
اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر نہیں اور شاید عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت نقل کی جاتی ہے وہ بھی اس میں نہیں ہے۔
آپ نے یقینا تمام آثار دیکھئے ہوں گے۔ ممکن ہو تو باقی آثار صحابہ بھی پیش کردیں ۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
داڑھی سے ہٹ کر میرا آپ سے سوال ہے کہ : جسم کا کوئی بھی حصہ عام حالت سے علیحدہ ہوجائے اور اس کے ساتھ وہ تکلیف دہ بھی بن جائے تو اسے کاٹاجاسکتاہے یا نہیں ؟
جب کہ اس حصے کو کٹانا منع بھی ہو اور اس کے کٹانے کو مشرکین اور مجوس کا فعل قرار دیا گیا ہے تو کیا پھر بھی اس کو کٹایا جائے گا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھائی میں نے داڑھی کاٹنے سے متعلق تمام آثار صحابہ کو ایک ساتھ پیش کرنے کی درخواست کی تھی ۔
اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر نہیں اور شاید عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت نقل کی جاتی ہے وہ بھی اس میں نہیں ہے۔
آپ نے یقینا تمام آثار دیکھئے ہوں گے۔ ممکن ہو تو باقی آثار صحابہ بھی پیش کردیں ۔ جزاک اللہ خیرا۔
جناب وہ تو بہت مشہور ہے اس لیے پیش نہیں کیا اور عمر بن خطاب کے اس عمل کو صرف ابن حجر نے ہی ذکر کیا ہے،ہمیں تو آج تک اس کی سند بھی نہیں ملی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وَعَفَا: كَثُرَ یہ بھی تو موجود ہے اور کیا یہ ابن فارس کی عبارت نہیں ہے:
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)
(129/6)
عمران بھائی ! لگ رہا ہے ، بات تلخ ہوجائے گی ، اس لیے بحث کو ختم کرنا چاہیے ۔
اعفاء کے لغوی معنی پر بحث دیکھ کر اور پھر ابن فارس کے حوالہ پر آپ کا تبصرہ دیکھ کر یہ اندازہ ہوا ہے کہ اس حوالے سے آپ کی علمی استعداد کافی ناقص ہے ، اس لیے اس موضوع پر آپ سے بات کرنا فائدہ مند نہیں رہے گا ۔
مقاييس اللغة (4/ 58)
وَقَوْلُ الْقَائِلِ: عَفَا، دَرَسَ، وَعَفَا: كَثُرَ - وَهُوَ مِنَ الْأَضْدَادِ - لَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الْمَعْنَى مَا ذَكَرْنَاهُ، فَإِذَا تُرِكَ وَلَمْ يُتَعَهَّدْ حَتَّى خَفِيَ عَلَى مَرِّ الدَّهْرِ فَقَدْ عَفَا، وَإِذَا تُرِكَ فَلَمْ يُقْطَعْ وَلَمْ يُجَزْ فَقَدْ عَفَا. وَالْأَصْلُ فِيهِ كُلِّهِ التَّرْكُ كَمَا ذَكَرْنَاهُ.
اگر آپ نے ابن فارس کی بات کوسمجھا ہوتا تو اس میں جس بات کو آپ دلیل بنا رہے ہیں ، اسے ابن فارس رد کر رہے ہیں ، اور عفو اور کثرت کا آپس میں کیا جوڑ ہے ، وہی بیان کر رہے ہیں ، جو میں بار بار آپ سے گزارش کر چکا ہوں ۔
آپ نے مجھے مزید علم حاصل کرنے کا حکم فرمایا تھا ، اس لیے میں نے ابن فارس کی عبارت نقل کی ، ورنہ یہی بات میں پہلے بار بار بلاحوالہ گزارش کر چکا ہوں ۔ اور اب ابن فارس کے حوالے کے ساتھ آپ نے جو سلوک کیا ہے اور پھر ساتھ ہی ’ وفر ‘ پر ابن فارس کا حوالہ پیش کردیا ، اس سے یہی ثابت ہونا ہے کہ آپ کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنا ثمر آور نہیں رہ سکے گا ۔
میں صرف لغوی اعتبار سے کہہ رہا ہوں ۔ باقی آپ نے جو آثار نقل کیے ہیں ، اس حوالے سے اگر میں آپ کے ساتھ افہام و تفہیم کر سکا تو کوشش کروں گا ۔ إن شاءاللہ ۔
 
Top