یہ کہ اگر نماز پڑھنے والے مسلمان جو کہ کفارومشرکین کے ساتھ متحد ہوکر مسلمانوں پر حملہ کرے یا ان کی مدد کرے ، تو کیا ایسے مسلمانوں کو اس وجہ سے چھوڑا جائے گا اور قصاص نہیں لیا جائے گا کہ بھئ یہ تو نماز پڑھنے والے ہیں ۔۔۔ یہ اسلامی نظام کون لائے گا ۔ کیا جمہوریت کے ذریعے لانا ممکن ہے ؟ کوئی ایک مثال دے دیں ۔
ہم پر لازم ہے کہ جو سوال پوچھا گیا ہے اس کے تسلی بخش جواب سے ایک مسلمان کو مطمئن کرنا ہے ۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا ہے کہ :
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سئل عن علم علمہ ثم کتمہ الجم یوم القیامۃ بلجام من نار'' کہ جس شخص سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا جائے پھر وہ اسے چھپالے (اور صحیح مسئلہ کا جواب پیش نہ کرے)تو قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ )اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔(مشکوٰۃ المصابیح ص:۳۴
شیخ ناصر بن حمد الفہد(فک اللہ اسرہ) فرماتے ہیں :کہ کتاب اﷲ میں بہت ساری آیات موضوع رسالہ پر دلالت کرتی ہیں، میں ان میں سے بعض آیات کو ذکر کروں گا۔
کتاب اﷲ سے دلائل:
یا ایھا الذ ین لا تتخذوا الیھود والنصٰری اولیاء بعضھم اولیاء بعض، ومن یتولھم منکم فانہ منھم ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین۔ [المائدہ : ۵۱]۔
''اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا یقینا وہ بھی انہی میں سے ہوگا، بے شک اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا''
بلاشبہ یہ آیہ مبارکہ ہر ایسے شخص کے کفر پر جو کفار کی مدد کرے، تین وجوہات کی بنیاد پر دلالت کرتی ہے:
(1):
''بعضھم اولیاء بعض'' یعنی کفار کا ایک دوسرے کا دوست، مددگار بنانا اور مسلمانوں کی دوستی سے برأت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس نے بھی انہیں دوست بنایا پس وہ ''بعضھم'' میں داخل ہے اور یہ قول اﷲ سے اسی وصف (کفر) سے متصف کرتا ہے۔ ابن جریرؒ نے فرمایا:
جہاں تک قول اﷲ
''بعضھم اولیاء بعض'' کا مفہوم ہے تو یقینا بات یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ مومنین کی جمیعت کے خلاف، ان کے دین وملت سے بغض ومخالفت (جو کہ ان کے مابین مومنین کے خلاف قدر مشترک ہے) رکھنے کی وجہ سے ید واحد کی مانند ہیں۔ اﷲ کے مومن بندے اس بات کی معرفت کے ساتھ یہ بھی جان لیں کہ بے شک کسی کا ان میں سے بعض یا سب کے ساتھ دوستی رکھنا اسی مومنین کے دین وملت کی مخالفت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا اور جیسے یہود ونصاریٰ مسلمانوں سے بھڑنے والے ہیں اسی طرح یہ بھی بھڑنے والے کے حکم میں ہوگا۔ پس اﷲتعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہوجاؤجس طرح وہ تم سے ٹکراتے ہیں۔ پس ان سے دوستی گانٹھنے والے نے اہل ایمان سے ٹکراؤ اور برأت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اُن (یہودونصاریٰ) سے قطع تعلقی کا انکار کیا۔
(2): آیہ مبارکہ میں
''ومن یتولھم منکم فانہ منھم'' سے انہی کی مثل کافر ہونا مراد ہے، ابن جریر نے فرمایا: ''اس کا مطلب ہے کہ جو مومنین کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کو دوست پکڑے گا تو بے شک وہ انہی میں سے ہے''۔ پھر فرمایا: ''جس نے مومنین کے مقابلے پر انہیں دوست پکڑا اور ان کی مدد کی تو وہ انہی کے دین وملت پر ہے بے شک مومن کو چھوڑ کر دوسرے سے دوستی کا مرتکب اپنے دوست، اُسکے دین اور جو کچھ اس سے متعلق ہے، اس پر راضی برضاء ہے اور جب اس نے (اس عمل سے) اپنے دوست اور اس کے دین پر رضا کا اظہار کردیا یعنی اس کے دین کی مخالفت نہ کی اور اس پر غضب ناک نہ ہوا تو اِس (کافر) اور اُس (بزعم خویش مسلمان) کا ایک ہی حکم ہے''۔
سلیمان بن عبداﷲ بھی ''الدرر'' میں لکھتے ہیں: ''اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود ونصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا ہے اور انہیں خبر دی کہ مسلمانوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہے اور اسی طرح جس نے کفار میں سے مجوسیوں اور بت پرستوں کو دوست بنایا تو وہ بھی انہی میں سے ہے''۔
(3):
''ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین'' میں ظلم سے مراد ''الظلم الاکبر'' ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
''والکافرون ھم الظالمون'' یہ اس آیت اور آئندہ آیات بطور دلیل ۲ سے ۴ تک میں بھی دلالت کرتی ہے۔ ابن جریرؒ فرماتے ہیں ''اﷲ تعالیٰ نے واضح ذکر کردیا ہے کہ جس نے مومنین کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ سے ان کی اﷲ، اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور مومنین سے کھلی دشمنی کے باوجود دوستی گھڑی اور ان کا معاون و مددگار بن گیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی ہرگز حمایت نہ کرے گا کیونکہ جس نے انہیں دوست بنایا اس نے اﷲ، اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور مومنین سے ٹکرلی''۔
اسی آیہ مبارکہ کی تفسیر میں ابن جریرؒ لکھتے ہیں: ''بہرحال صحیح بات ہمارے نزدیک اس معاملے میں یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر یہود ونصاریٰ کو دوست اور حلیف بنانے سے منع فرماکر انہیں خبر دی ہے کہ جس نے اﷲ، اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور مومنین کو چھوڑ کر، ان سے بغاوت کرتے ہوئے یہودونصاریٰ کو دوست، حلیف یا مددگار بنایا تو یقینا اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں اُس سے بری ہیں''۔
اسی آیہ مبارکہ کی تفسیر میں ابن جریرؒ لکھتے ہیں: ''بہرحال صحیح بات ہمارے نزدیک اس معاملے میں یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر یہود ونصاریٰ کو دوست اور حلیف بنانے سے منع فرماکر انہیں خبر دی ہے کہ جس نے اﷲ، اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور مومنین کو چھوڑ کر، ان سے بغاوت کرتے ہوئے یہودونصاریٰ کو دوست، حلیف یا مددگار بنایا تو یقینا اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں اُس سے بری ہیں''۔
محولہ بالا سورہ مائدہ کی آیت کے بعد دوسری آیت میں ان صفات کو منافقین کی طرف منسوب کیا گیا ہے جیسا کہ اصحاب تفسیر نے ان آیات کا شان نزول بیان کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
فتری الذ ین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشیٰ ان تصیبنا دائرۃ، فعسی اﷲ ان یاتی بالفتح او امر من عندہ فیصبحوا علی مآ اسروا نادمین۔
''تم دیکھتے ہو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں۔ مگر بعید نہیں کہ اﷲ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے''
آیت میں کفار سے دوستی منافقین کی صفت بتائی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے مرض کا معنی شک وشبہ سے اور نفاق کیا ہے۔
''یسارعون فیھم'' یعنی ظاہر وباطن میں ان سے تعلقات بہتر بنانے کی دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ اپنی اس سے دوستی اور مودت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ کافروں کا مسلمانوں پر غلبہ ہونے پر قوی امکان ہے، اس لئے ان کے ساتھ تعلقات بناکر رکھے جائیں تاکہ ہمیں (مسلمانوں کے) بعد کوئی بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑے اور ان تعلقات کے فوائد حاصل کئے جائیں۔
سورہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیات ۵۳ تا ۵۶ اسی موضوع سے متعلقہ ہیں:
ویقول الذ ین امنوا اَ ھؤلاء الذ ین اقسموا باﷲ جھد ایمانھم انھم لمعکم ، حبطت اعمالھم فاصبحوا خسرین ، یا ایھا الذ ین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اﷲ بقوم یحبھم و یحبونہ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اﷲ ولا یخافون لومۃ لائم ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء ، واﷲ واسع علیم ، انما ولیکم اﷲ ورسولہ والذ ین آمنوا الذ ین یقیمون الصلوۃ و یوتون الزکوۃ وھم راکعون ، ومن یتول اﷲ ورسولہ والذ ین امنوا فان حزب اﷲ ھم الغلبون۔
''اور (اس مصیبت کے وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ یہ وہی ہیں جو اﷲ کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کے عمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑگئے، اے ایمان والوں اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اﷲ ایسے لوگ پیدا کردے گا جس کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، اﷲ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں، یہ اﷲ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اﷲ بڑی کشایش والا (اور) جاننے والا ہے، تمہارے دوست تو اﷲ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور زکوۃ دیتے اور(اﷲ کے آگے) جھکتے ہیں، اور جو شخص اﷲ اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا (وہ تو اﷲ کی جماعت میں داخل ہوگا اور) یقینا اﷲ کی جماعت ہی غلبہ پانیوالی ہے''۔
محولہ بالا چاروں آیات یہود ونصاریٰ سے ''تولی'' کے متعلق ارشاد فرمائیں ہیں اوراس تولی سے مرتد ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ آیت میں کہا گیا ہے کہ وہ حلفیہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں لیکن قرآن نے انہیں کفار سے دوستی گانٹھنے کی وجہ سے جھوٹا کہا ہے حالانکہ وہ اپنی زبانوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ فتاوی میں لکھتے ہیں: ''اسلام میں جب بھی کبھی کسی گروہ نے ارتداد کیا تو اﷲ تعالیٰ ضرور ایسے گروہ کو پیدا کرتا رہتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے، وہ اﷲ کی طرف سے جہاد کرتے ہیں اور یہی طائفہ منصورہ ہوا کرتا ہے جو تاقیامت اپنا یہی فریضہ انجام دیتا رہے گا'' ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس (البقرہ ۷۱۲) آیت میں پچھلی آیات کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو دین اسلام سے ارتداد کریں اور ارتداد سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ سے دوستی نہ لگائیں۔ آیا ت کے مخاطبین صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے بلکہ ہمیشہ ان آیا ت کے مخاطبین انہیں صفات کے حامل رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ سے دوستی لگا کر مرتد ہونے کے بعد دین اسلام کو ذرا برابربھی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے بلکہ اﷲ اپنے فضل سے ایک اور گروہ کو اٹھائے گا جسے وہ پسند کرتا ہوگا اور وہ اﷲ کو پسند کرتے ہوں گے۔ اور مومنین سے دوستی گانٹھیں گے اور یہود ونصاریٰ اور کفار سے دوستی نہیں کریں گے اور اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہوں گے اور اﷲ تا قیامت اپنے دین کی نصرت کرتا رہے گا''۔
سورہ مائدہ میں فرمایا:
لعن الذ ین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسی ابن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون ،کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ ، لبئس ماکانوا یفعلون ، تری کثیرا منھم یتولون الذ ین کفروا لبئس ما قد من لھم انفسھم ان سخط اﷲ علیھم وفی العذ اب ھم خلدون ، ولو کانوا یومنون باﷲ والنبی وما انزل الیہ ما اتخذوھم اولیاء ولکن کثیر منھم فاسقون۔
''بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد ؐ اور عیسیٰ ابن مریم ؐ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور حد سے تجاوز کرنے لگے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے (بھی) روکنا چھوڑ دیا تھا جو انہوں نے اختیار کئے، بلا شبہ وہ بہت برا کرتے تھے، آج تم ان میں سے بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں) کفار کی حمایت اور رفاقت کرتے ہیں۔ یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لئے کی ہے، اﷲ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اﷲ اور پیغمبر اور اس چیز کو ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے، مگر ان میں تو بیشتر لوگ اﷲ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں''
(الف): آیا ت میں بنی اسرائیل کے جن اشخاص پر حضرات داؤد ؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کے ذریعے لعنت کرنے کا ذکر ہے وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفار سے دوستی (بمعنی تولی) لگائی تھی۔
(ب): ان کے بارے میں
''وفی العذاب ھم خلدون'' ہمیشہ کے عذاب کا ذکر ہوا ہے اور ہمیشگی کے عذاب کا کافر مستحق ہوا کرتا ہے، شیخ سلیمان ؒ بن عبداﷲ کہتے ہیں: ''کفار سے دوستی اﷲ کی ناراضی اور عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہنے کا سبب ہے سوائے ایسے شخص کے جسے بصورت دیگر اپنی جان کے ہلاکت کاقوی خوف ہو''۔
(ج): امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں آیت کہ ان الفاظ میں:
ولو کانوا یومنون باﷲ والنبی وما انزل الیہ ما اتخذوھم اولیاء ولکن کثیر منھم فاسقون۔ لفظ ''لو'' کی وجہ سے یہ جملہ شرطیہ ہے جس سے مراد ہے کہ ایمان کے ساتھ کفار سے دوستی نہیں ہوسکتی اور ایمان اور کفار سے دوستی، ایک دل میں دو متضاد صفات اکھٹی نہیں ہوسکتیں۔
شیخ سلیمان بن عبداﷲؒ کہتے ہیں: ''کفار کی دوستی، اﷲ پر اس کے رسول پر اور جو اس پر نازل ہوا ہے، اس کی نفی کردیتی ہے اور یہ بہت سے افراد کے فاسق ہونے کا سبب ہے اور اس میں یہ فرق نہیں رکھا گیا کہ کیا واقعی وہ مصائب سے دوچار ہوجانے کا اندیشہ رکھتے تھے یا نہیں، یہی مرتدین کے بیشتر افراد کی کیفیت ہوا کرتی ہے''۔
مصنف ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ سورہ انفال آیت ۷۳، آل عمران آیت ۱۴۹،۱۵۰ سورہ محمد آیت ۲۵،۲۶ سورہ نساء ۷۶ اور ۹۷، سورہ بقرہ آیت ۱۹۳ سے امام ابن کثیرؒ اور دوسرے مفسرین کے حوالے سے ارتداد کے احکام لکھے ہیں جو اختصار کے پیش نظر تحریرنہیں کئے گئے لہٰذا اہمیت موضوع کے پیش نظر قاری کیلئے یہاں مذکورہ بالا آیات کا مطالعہ انشاء اﷲ مفید ثابت ہوگا۔
مندرجہ بالا آیات قرآنیہ میں وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کردیا گیا ہے کہ جو شخص بھی کفار سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔دیکھیں میں یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب کی جنگ بدر میں مجاہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں گرفتاری کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے آپ کو نتیجہ اخذ کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ آپ کے حقیقی چچا غزوہ بدر میں گرفتار ہوکر مدینے لائے گئے، جب اسیران بدر سے معاوضہ طے پاگیا تو عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں ''میں دراصل اسلام لاچکا تھا اور قریش کے ساتھ بامر مجبوری نکلا تھا'' رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اﷲ ہی آپ کے اسلام کے بارے میں بہتر جانتا تھا، اگر واقعہ یہی ہے جو آپ کہتے ہیں تو اﷲ آپ کو اس کا اجر دے گا جہاں تک ظاہری عمل کا تعلق ہے تو وہ ہمارے خلاف تھا آپ کو اپنا اور بھتیجے کا زر خلاصی ادا کرنا ہوگا'' (ابن ہشام)
عباس رضی اﷲ عنہ مجبوراً قریش کے ساتھ نکلے تھے مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان پر ظاہری حکم لگایا تھا اور ان کا معاملہ دوسرے مشرکین جیسا رکھاگیا تھا، ایسا شخص جو بلا کسی مجبوری مشرکین کی حمایت کرے اس کا شریعت اسلامی میں حکم کہیں بڑھ کر ہوگا۔
تو آپ جان جائیے کہ جو مسلمان بھی خواہ وہ نماز پڑھتا ہو ، روزہ رکھتا ہو، یا حج ادا کرتا ہو اگر وہ کفار اور مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہوگا تو اس کا حکم ان حملہ آوروں جیسا ہوگا ۔یعنی قتال کا جو حکم یہود ونصاریٰ کے خلاف ہوگا وہی حکم اس مسلمان کے لئے ہوگا ۔
ہمارے سامنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جہادی زندگی کا نمونہ موجود ہے ۔ اس سے بھی ہمیں کافی اسباق حاصل ہوتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہونے والے مسلمانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
عبد بن حمید، حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ''تمہیں چوکنا رہنا چاہیے کہیں تم بلاسوچے سمجھے یہودی یا عیسائی نہ بن جاؤ'' اس کے بعد آپ نے سورہ مائدہ کی آیت ۵۱ تلاوت کی۔
سیرت کی کتابوں میں خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ اور مجاعۃ بن مرارہ کا واقعہ ہے، ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے خالد رضی اﷲ عنہ کو ارتداد کرنے والوں کی سرکوبی پر مقرر کیا تھا، جب اس تحریک کو دبالیا گیا تو گرفتار ہونے والوں میں مجاعۃ بن مرارہ بھی تھے جو مرتدین کے ساتھ شامل تھے۔ مجاعۃ نے بہتیرا کہا کہ میں نے مسیلمہ کذاب کی اتباع نہیں کی تھی، میں بدستور مسلمان ہوں۔خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے کہا پھر تم ان کے لشکر سے نکل کر ہمارے لشکر میں آکر شامل ہوجاتے جیسے ثمامہ بن اثال نے کیا تھا تو تمہارا عذر قابل قبول تھا۔ مسیلمہ کے لشکر میں شمولیت ہی کو خالد رضی اﷲ عنہ نے دلیل بنایا اور مجاعۃ بن مرارہ کے ساتھ مسیلمہ کے دوسرے ساتھیوں کی طرح معاملہ رکھا۔
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی عہد میں مسیلمہ، سجاح اور طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا، جن کے اوپر ارتداد کا حکم تمام صحابہ ؓ نے لگایا تھا اور ان سے جنگیں لڑی گئیں۔ ارتداد کے فتنے کی سرکوبی کا جو طریقہ اصحاب رسول نے اختیار کیا تھا وہ اسی اصول کی بنا پر تھا اگرچہ مانعین زکوٰۃ اور مدعیان نبوت کی صفوں میں جو لوگ شامل تھے وہ سب کے سب پہلے مسلمان ہی تھے، پھر ان میں کئی لوگ مجبوراً یا قبیلے کے دباؤ یا اپنی سماجی مقام کی وجہ سے یا محض تماش بین کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور بے شمار لوگ یا تو مجبور تھے یا پھر کم علم جس کی دلیل یہ ہے کہ جب فتنہ ارتداد فرو ہوگیا تو بے شمار لوگ دوبارہ مسلمان ہوگئے تھے خود طلیحۃؒ نے توبہ کرلی تھی اور باقی زندگی اسلام کی بے مثال خدمت کرکے اپنی توبہ خالص ہونے پر دلیل قائم کرگئے تھے لیکن ارتداد کی جنگوں میں جو شخص مرتدین کی صف میں شامل تھا اس پر وہی احکام لگائے گئے تھے خواہ جنگ کے دوران میں یا گرفتاری کے بعد جو تمام دوسرے مرتدین پر لگائے گئے تھے اور ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا گیا جس طرح حاطب رضی اﷲعنہ کے ساتھ استثناء کیا گیا تھا کیونکہ نبی علیہ السلام نے ان کے لیے رعایت، اﷲ کے حکم وحی کی وجہ سے کی تھی۔
تاریخ اسلامی میں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں جن میں ایک مدعی اسلام نے کفار کے ساتھ تعاون کیا اور اس وقت کے علماء کرام نے اس کاحکم واضح کیا:
سب سے پہلا واقعہ غزوۂ بدر ہے جس میں مشرکین کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل تھے جو درپردہ اسلام لاچکے تھے لیکن مشرکین کے لشکر میں وہ موجود تھے جس سے ان کی تعداد بڑی لگتی تھی اور بعض معززین کی شمولیت سے مشرکین کے لشکر کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔
سورہ نساء آیت نمبر۱۹۷ انہیں اشخاص کے متعلق نازل ہوئی تھی:
ان الذ ین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم، قالوا کنا مستضعفین فی الارض، قالوا الم تکن ارض اﷲ واسعۃً فتھاجروا فیھا، فاؤلئک ماوٰھم جھنم، وساء ت مصیرا۔
''جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کررہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے فرشتوں نے کہا کیا اﷲ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے''
بابک خرمی نے ۲۰۱ ہجری میں مشرکین کی سرزمین میں جاکر مسلمانوں کے خلاف جمیعت اکھٹی کرکے جنگ شروع کی اس کے بارے میں امام احمد نے فرمایا: ''وہ مشرکین کی سرزمین میں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرارہا ہے اور ایسے آدمی کا حکم ارتداد کا ہے'' ۔ [کتاب الفروع]۔
معتمد بن عباد اسپین میں طوائف الملوکی کے زمانے میں اشبیلہ کا حاکم تھا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف فرانس سے مدد لی تھی، مالکی علماء نے اس کے ارتداد کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ [استقصاء4]۔
امام ابن کثیر ''البدایہ والنہایہ'' میں لکھتے ہیں کہ مغیث عمر بن عادل نے ہلاکو سے ساز باز کی اور مسلمانوں پر حملے کے لئے اس شرط کے ساتھ اکسایا کہ وہ صوبہ مصر کی حکمرانی سونپے جانے کا وعدہ دیاجائے۔ اس پر ظاہر بیبرس نے جو اس وقت حاکم تھا، فقہاء سے ایسے شخص کا حکم پوچھا تو انہوں نے اس کے ارتداد اور قتل کا فتویٰ دیا، جس کی دلیل پر اسے قتل کردیا گیا تھا۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے ۷۰۰ ہجری میں اُن مسلمانوں کے اوپر ارتداد کا حکم لگایا تھا جنہوں نے شام پر حملے میں تاتاریوں کے ساتھ تعاون کیا تھا۔(حالانکہ تاتاری کلمہ گو تھے)
۹۸۰ ہجری میں محمد بن عبداﷲ، مراکش کے حاکم نے اپنے چچا مروان کے خلاف پرتگال سے مدد لی تھی، مالکی فقہاء نے اس کے مرتد ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔ [استقصاء]۔
تیرہویں ہجری کے شروع میں دعوت توحید کو دبانے کے لیے نجد کے علاقے پر کافروں نے حملہ کیا تھا جس کی پشت پناہی بعض مسلمانوں نے کی تھی۔، علمائے نجد نے ایسے لوگوں پر ارتداد کا حکم لگایا تھا، شیخ سلیمان بن عبداﷲؒ نے کتاب ''دلائل'' میں اکیس دلیلیں ان کے مرتد ہونے پر تحریر کی ہیں۔
تیرہویں صدی کے نصف آخر میں پھر اہل نجد پر توحید کی دعوت دبانے کے لئے اسی طرح کا حملہ کیا گیا جس پر شیخ حمدؒ بن عتیق نے کتاب لکھی اور اس میں ان مسلمانوں پر ارتداد کا حکم لگایا جو کفار کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ کتاب کا نام ''سبیل النجاۃ'' ہے۔
چودہویں صدی ہجری میں الجزائر کے جن قبیلوں نے فرانس کی فوجوں کا ساتھ دیا تھا ان پر ارتداد کا حکم شمالی افریقہ کے مفتی ابوالحسن تسولی نے لگایا تھا جسے امیر عبدالقادر الجزائری نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
شیخ احمد شاکر نے مصر پر برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ حملے کے دوران ان مسلمانوں پر ارتداد کا حکم لگا یا تھا جنہوں نے مغرب کا ساتھ دیا تھا، ملاحظہ کریں ''کلمہ حق''
ایک صدی قبل جب یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کرلیا تو جامعہ ازہر کے دارلافتاء سے ان مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا تھا جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ تعاون کیا تھا، دارالافتاء کی سربراہی اس وقت عبدالمجید سلیم کے پاس تھی۔
اشتراکی انقلاب کا ساتھ جن مسلمانوں نے دیا تھا ان کفر کا فتویٰ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدا لعزیز بن باز نے صادر کیا تھا۔
اہل علم کے اقوال:
حنفی مذہب: احکام قرآن میں ابوبکر ؒ جصاص سورہ توبہ آیت نمبر ۲۳ میں لکھتے ہیں:
یاایھا الذ ین آمنوا لا تتخذوا آباؤکم و اخوانکم اولیاء ان استحبوا الکفر علی الایمان ، ومن یتولھم منکم فاؤلئک ھم الظلمون۔
''اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مدمقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں''
اس آیت میں کفار سے دوستی ان کی حمایت یا ان سے مدد لینا یا انہیں مسلمانوں کے امور سونپنا ان تمام امورسے سختی سے منع کیا گیا ہے اور کافروں سے برأت واجب قرار دی گئی ہے اور اسی طرح ان کی عزت افزائی کرنا بھی حرام ہے، خواہ وہ کسی مسلمان کے والدین ہوں یا بھائی بند، منافقین سے مومنین کی شناخت کے لئے قرآن نے یہی موالات کفار کو ہی پیمانہ رکھا ہے۔ جب کہ آل عمران آیت نمبر۳۸کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
لا یتخذ المومنون الکفرین اولیاء من دون المؤمنین، ومن یفعل ذلک فلیس من اﷲ فی شی ء الآ ان تتقوا منھم تقٰۃ، ویحذرکم اﷲ نفسہ، والی اﷲ المصیر۔
''مومنوں کو چاہیے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اﷲ کا کچھ (عہد) نہیں، ہاں اگر اس طریق سے تم (ان کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرلو (تو مضائقہ نہیں) اور اﷲ تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اﷲ ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے۔
''الآ ان تتقوا منھم تقٰۃ'' یعنی ان لوگوں کے لیے استثناء ہے جن کی جان جانے یا جسمانی معذوری کا ڈر ہوتو ان کے لیے ظاہری طور پر مودت کا اظہار کرنے کا جواز ہے اور یہی جمہور مفسرین کی رائے ہے۔
عبداﷲ بن احمد نسفی سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۱ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''کافروں کی مدد کرنا اور ان سے مدد لینا دونوں حرام ہیں اسی طرح انہیں بھائی بنانا یا ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جیسی مسلم معاشرے میں ہوتی ہے (یعنی گھل مل کر رہنا بھی) حرام ہے۔
ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی اس کا حکم بھی انہیں کی طرح ہے''۔
قاضی محمد احمد عمادی آیت کے اس جملے کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''کسی کے دین میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان سے محبت اور دوستی رکھتا ہو ان آیات میں مومنین کی ظاہری مودت کو سختی اور پوری شدت سے منع کیا گیا ہے خواہ دل میں محبت بھی نہ ہو اور
ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین سے مراد ہے کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا کرتا، اﷲ تعالیٰ ان کے اور ان کے حال کو اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے اور وہ کفر اور گمراہی میں گرجاتے ہیں''۔
مالکی مذہب: امام قرطبیؒ آیت کے سابقہ جملے کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''یعنی جو مسلمانوں کے خلاف کفار کی قوت بڑھاتا ہے اس کا حکم کفار کی طرح ہے اسے مسلمانوں کی وراثت نہیں مل سکتی کیونکہ وہ مرتد ہوکر مرا اگرچہ یہ آیات عبداﷲ بن ابی کے لئے نازل ہوئی تھیں مگر ان کا حکم تاقیامت باقی رہے گا''۔
مالکی مذہب کے ایک جلیل القدر امام برزلیؒ لکھتے ہیں: کہ امیرالمسلمین یوسفؒ بن تاشفین کے خلاف ابن عباد نے فرانس سے مدد حاصل کی تھی تو مالکی مذہب کے تمام فقہاء نے اس کے مرتد ہونے کا فتویٰ صادر کیا تھا۔
احمد بن علیش سے ان مسلمانوں کا حکم دریافت کیا گیا جن کے علاقوں پر کفار کا قبضہ ہوگیا تھا اور وہ پھر بھی انہیں مفتوحہ علاقوں میں کفار کے زیر تسلط رہنا اختیار کرتے ہیں اور دوسرے علاقوں کی جانب ہجرت نہیں کرتے۔
علامہ علیش نے اپنے طویل فتوے میں جن اہم امور پر روشنی ڈالی تھی ان میں سے ایک پیراگراف ہمارے موضوع کے متعلق بھی تھا وہ لکھتے ہیں:
''ایسی صورت صدر اسلام میں مفقود تھی اور نہ ہی آئمہ اربعہ کے زمانے میں اس طرح کی کوئی صورت پیش آئی تھی اس لئے ان آئمہ کرام یا ان سے پہلے تابعین اور صحابہ کرام نے ایسی صورت پر کوئی مفصل فتاوی صادر نہیں کئے تھے''۔ عیسائیوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی صورت پانچویں صدی ہجری میں اندلس کے بعض علاقوں میں سامنے آئی تھی جیسے جزیرہ صقلیہ، اس وقت مفتیان عصر سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا تھا، انہوں نے ایسے مسلمانوں کے احکام نبی علیہ السلام کے زمانے کے ان مسلمانوں کی طرح بیان کئے تھے جنہوں نے اسلام لانے کے بعد دارالاسلام کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ علامہ علیش کہتے ہیں ''یعنی ان کے احکام وہی تھے جو اہل کفر کے تھے اﷲ کے دشمنوں کا سا لباس، رہن سہن، ثقافت اور گھل مل کر رہنا اور اپنی الگ سے واضح شناخت نہ رکھنا اور اس طرح ہجرت نہ کرنا جو ان پر فرض تھی انہیں کفار کے حکم میں داخل کردیتا ہے''۔
شافعی مذہب: امام بیضاوی سورہ مائدہ کی آیت ۵۱ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کہ
قول اﷲ جل شانہ ''ومن یتولھم منکم فانہ منھم'' ایسا شخص انہیں کے زمرے میں شمار ہوگا۔ کفار سے الگ تھلگ ہوکر رہنا واجب ہے جیسے کہ نبی علیہ السلام نے آتش پرستوں کے علاقے میں رہنے والے بادیہ نشینوں سے کہا تھا کہ تم ان کے محلوں سے اتنی دور رہو جہاں ان کا آتش کدہ اور اس کی آگ تمہیں دکھائی نہ دے۔ یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی تھی اور منافق کا حکم معلوم ہے۔
حافظ ابن حجر
''اذا انزل اﷲ بقوم عذاباً اصاب العذاب من کان فیھم ثم بعثو علی اعمالھم'' حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فتح الباری میں لکھتے ہیں: کافروں اور ظالموں سے الگ تھلگ رہنا بھی اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے، ان کے ساتھ گھل مل کر رہنا ہلاکت میں پڑنے کے مترادف ہے، یہ حکم تو اس شخص کا ہے جو کفار سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے کسی کام پر راضی ہوتا ہے بلکہ وہ ایک طرح اپنی آزاد زندگی گزار رہا ہوتا ہے، ہاں اگر اس نے کفار کے ساتھ تعاون کیا یا ان کے اقدامات پر رضامندی ظاہر کی تو پھر اس کا حکم اور کفار کا حکم ایک ہے۔
علامہ عبدالباری الیمانی تیرھویں صدی کے ایک جلیل القدر امام تھے ان سے سوال کیا گیا کہ مسلم ممالک میں رہنے والے بعض مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم تو عیسائیوں کی رعایا ہیں اپنی اس وابستگی کے اظہار کے لئے وہ اپنی تجارتی کشتیوں پر انہیں ملکوں کے پرچم لہراتے ہیں، ان کے بارے میں شرعی موقف کیا ہے؟
جواب: اگر مذکورہ بالا طرز عمل جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ہے یعنی ان کے دلوں میں اسلام سب ادیان سے برتر اور اعلیٰ ہونے کا عقیدہ راسخ ہے اور اسی طرح اسلامی شریعت کو باقی سب شریعتوں سے محکم ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں اور سوال میں مذکورہ اپنے افعال کی توجیہ کفار کی عظمت اور ان کے برتر ہونے کی وجہ سے نہ کرتے ہوں تو وہ بدستور مسلمان سمجھے جائیں گے اور مسلمان کے احکام ان پر لاگوں ہوں گے اگرچہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں جس کی انہیں سزا بھی دی جانی چاہئے جو عبرتناک ہو مگر حد تک نہ پہنچے لیکن اگر وہ اسلام کے احکام سے واقفیت رکھتے ہوئے یہ کام کرتے ہیں تو ان سے توبہ کروائی جائے اگر وہ اپنے طرز عمل کو ترک کردیں اور اﷲ کی طرف لوٹ آئیں تو ٹھیک بصورت دیگر وہ اسلام کے دائرے سے نکل گئے، اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ کفرکی تعظیم کرتے ہوں تو پھر مرتد ہیں اور ان پر مرتدین کے احکام لاگوں ہوں گے۔
حنبلی مذہب: شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اس مسئلے پر اپنے فتاویٰ میں مفصل روشنی ڈالی ہے جس کے چند اقتباسات گزشتہ صفحات میں ذکر کرچکے ہیں، تاتاریوں کے بارے میں ان کا فتویٰ تھا کہ مسلمانوں کی سپاہ سے یا عا م شہریوں سے جو شخص تاتاریوں کے کیمپ میں شامل ہوگا اس کا حکم وہی ہے جو تاتاریوں کا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی سورہ مائدہ کی محولہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''وہ کفار کے گروہ میں سمجھا جائے گا اور اس کا حکم وہی ہے جو کفار کا ہے خواہ وہ اپنے تیئں یہ سمجھتا رہے کہ اس کا دین اہل کتاب سے الگ ہے''۔
جامع ازہر کے دارالافتاء سے فلسطین کے خلاف یہودیوں کی مدد کرنے والے کا حکم پوچھا گیا۔ دارالافتاء کے طویل فتوے سے چند اقتباسات:
ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمانوں کی جماعت کا فرد سمجھتا ہے اگر وہ ان دشمنوں کی مدد اور تعاون کرے تو وہ اہل ایمان میں شمار نہیں ہوتا، اس طرح وہ مسلمانوں کی تنظیم سے نہ صرف لاتعلق ہوجاتا ہے بلکہ وہ ان کے خلاف جنگ میں شریک ہوجاتا ہے، مسلمانوں کے دین سے نکل جاتا ہے اس طرح وہ شدید ترین فعل سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی دشمنی کا اعلان کرتا ہے، بلاشبہ جو ایسا کام کرتا ہے وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذمے سے کوئی بھی چیز پر باقی نہیں رہتا، اسلام اور مسلمان اس سے بری ہیں، وہ اپنے اس کام سے اعلان کردیتا ہے کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے نہ اس کے دل میں مسلمان ملکوں کا احترام ہے جس شخص پر یہ بات واضح ہوگئی اور اس کے باوجود یہودیوں سے تعاون جاری رکھتا ہے تو وہ دین اسلام سے مرتد ہوجاتا ہے، اس کا زن وشوئی کا تعلق ختم کروایا جائے گا بیوی کا اس شخص سے رابطہ کرنا حرام ہوگا۔ اس کا نماز جنازہ مسلمان نہیں پڑھائیں گے اور وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں کیا جائے گا۔ مسلمان اس سے اپنے تعلقات منقطع کردیں اسے ''السلام علیکم'' نہ کہیں۔ بیمار پڑے تو اس کی عیادت نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ وہ توبہ نہیں کرلیتا اور اس کا اثر اس کی زندگی پرمرتب نہیں ہوجاتا۔ اس وقت تک اس کا حکم مرتد کا حکم رہے گا۔
احمد محمد شاکر اپنے طویل فتویٰ میں لکھتے ہیں: جو ''کلمہ حق'' کے نام سے مطبوع ہوچکا ہے۔ یہ فتویٰ مصر کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر عرب ودیگر مسلمانوں کے لئے عام طور پر تحریر کیا جارہا ہے۔ اس فتوے کا عنوان ہے ''فرانس اور برطانیہ کے مسلمانوں پر استعمار کے دوران جو مسلمان ان سے تعاون کرے اس کا کیا حکم ہے''
انگریزوں سے کسی قسم کا تعاون خواہ اس کی نوعیت کم ہو یا زیادہ بدترین ارتداد ہے اور واضح ترین کفر ہے جسمیں کسی قسم کے عذر کو قابل التفات نہیں سمجھاجائے گا اور نہ کسی قسم کی تاویل کا موقع دیا جائے گا۔ اس کا یہ حکم نہ وطنی عصبیت نہ سیاسی وابستگی اور نہ منافقانہ چاپلوسی کی وجہ سے منسوخ ہوسکتا ہے، خواہ یہ تعاون انفرادی طور پر پیش کیا جائے یا حکومتی یا سرکردہ افراد پیش کریں، یہ سب کے سب کفر اور ارتداد میں برابر کے شریک ہوں گے، سوائے جاہل اور خطا کار کے جس نے مرنے سے پہلے اس کا تدارک کرلیا اور اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے کا اسے موقع فراہم ہوگیا اور باقی زندگی اس نے مومنین کی طرز پر گزاری تو امید ہے اﷲ تعالیٰ اس سے درگزر کرے بشرطیکہ یہ خالص وجہ اﷲ کے لئے توبہ کی گئی ہو نہ حکومت کی ایماء پر اور نہ کسی سیاسی مقصد کے لئے۔
مجھے یقین ہے میں انگریز کے خلاف جہاد کے وجوب اور تعاون کرنے والے کے مرتد ہونے کا مفصل اور عام فہم جواب دے دیا ہے جسے عام عربی دان طبقہ سمجھ سکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ان سطور کو پڑھنے کے بعد قاری اس بدیہی حکم کو سمجھ لے گا جو کسی دلیل کا بھی محتاج نہیں، فرانس کا حکم بھی برطانیہ کا سا ہے تمام مسلمانوں کے لئے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بستے ہوں فرانسیسیوں کی مسلمانوں سے نفرت اور اسلام کو مٹانے میں ان کی عصبیت اور اسلام سے ان کی عداوت انگریزوں سے کئی گناہ زیادہ ہے بلکہ وہ اپنی عصبیت اور بغض میں جنونی ہوتے ہیں، وہ ہر اس جگہ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں جہاں وہ طاقت پکڑتے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائیوں پر ایسے مظالم کرتے ہیں جس کے سامنے برطانیہ کے مظالم بھی جواب دے جاتے ہیں۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کا قتل کسی جگہ بھی کرنا حلال ہے ان کے مال کو لوٹنا بھی حلال ہے کسی مسلمان کے لئے بھی خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں رہتا ہو انگریزوں اور فرانسیسیوں سے تعاون کرنا حرام ہے، اس تعاون سے وہ مرتداور دین اسلام سے خارج ہوجائے گا خواہ اس تعاون کی نوعیت کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہو، دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
خبردار! ہر مسلمان کوجان لینا چاہئے خوہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، مسلمان پر جبر کرنے والے کسی کافر دشمن اسلام کے ساتھ جس نے تعاون کیا خواہ وہ انگریز ہو یا فرانسیسی یا ان جیسے کوئی اور کافر اس تعاون کی نوعیت جس قسم کی ہو، نہ صرف یہ بلکہ اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور قوت اور قدرت کے باوجود ان سے نہیں بھڑتا یا جو کچھ وہ کرنے پر قادر ہے وہ نہیں کرتا، اگر کفار کی نصرت محض اپنی زبان ہی سے کرتا ہو جو اس قسم کے کسی کام کا مرتکب ہوگا اس کی نمازیں باطل ہیں اس کی تینوں قسم کی طہارت باطل ہے اس کا تیمم کرنا باطل ہے اس کے روزے خواہ فرضی ہوں یا نفلی باطل ہیں اس کا حج کرنا باطل ہے اس کی ہر قسم کی عبادت باطل ہے نہ صرف اس کا ثواب میں کوئی حصہ نہ ہوگا بلکہ الٹا اس پر گناہ کا بار پڑتا جائے گا۔
خبردار! ہر مسلمان جان لے، اگر وہ اس راست پر چل نکلا تو اس کے تمام اعمال برباد ہوجائیں گے نہ صرف اس ارتداد کے بعد جو وہ عبادت کرے گا بلکہ اس کی پہلی زندگی کی عبادت بھی غارت ہوجائے گی، ایمان کسی بھی عبادت کی قبولیت کے لئے شرط ہے، یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسے عام مسلمان بھی اچھی طرح جانتا ہے اور یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ''ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین'' [المائدہ:۵] اور جس کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ ان کا وصف بیان کرتے ہوئے سورہ بقرہ آیت ۲۱۷ میں کہتا ہے: ''وہ تم سے لڑتے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں اس دین (اسلام) سے پھیر لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لوکہ) تم میں سے جوکوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا اس کے اعمال دنیا وآخرت دونوں میں ضائع ہوجائیں گے، ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے''۔
اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۵۱تا۵۳ دلالت کرتی ہیں۔ ہر مسلمان مرد وعورت خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلے کفار سے تعاون کرکے اپنے دین سے یکسر نکل جانے والے کاحکم جان لے۔ اس کا مسلمان عورت سے نکاح باطل ہے جو کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا، نکاح کا کوئی حکم اس پر صادق نہیں آسکتا، اس کی اولاد، جائز اولاد نہیں ہوگی نہ اسے والدین کی میراث ملے گی، جو پہلے سے شادی شدہ تھا اس کا نکاح فسخ ہوگیا، اب اگر یہ مرتد دوبارہ توبہ کرتا ہے اور دین میں لوٹ آتا ہے تو خواہ مرد تھا تو اس کا فسخ شدہ نکاح دوبارہ بحال نہیں ہوگا اور اگر عورت تھی تو اس کا نکاح بھی بحال نہیں ہوگا، خواہ توبہ کرنے کے بعد وہ مسلمانوں سے مل کر دشمنوں سے برسر پیکار ہی کیوں نہ ہوجائے، اسے دوبارہ نئے نکاح سے عقد زواج کرنا ہوگا۔
تمام مسلمان خواتین پر فرض ہے کہ وہ کسی مرد سے نکاح کرنے سے پہلے اس بات کا پورا اطمینان کرلیں کہ جن سے ان کا عقد طے پارہا ہے وہ اﷲ کے دشمنوں سے تعاون کرنے والا تو نہیں ہے، جس کا پہلے سے ایسے کسی شخص سے نکاح ہوچکا ہے اور ا س کے مرتد ہونے کی وجہ سے اس شخص پر حرام ہوچکی ہے اور اس کا اب ایسے شخص کے ساتھ رہنا باطل ہے وہ اس کی زوجہ نہیں رہی، جس عورت کو اسلام کے اس عقیدے کا علم تھا یا ہوگیا ہے اور اس کے باوجود وہ ایسے کسی شخص سے نکاح کرتی ہے یا نکاح کرے گی تو اس کاحکم بھی مرتدّہ کا ہے ، معاذ اﷲ ہرگز کوئی مومنہ علم آنے کے بعد ایسی حالت میں نہیں رہے گی۔
واﷲ! میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کررہا ہوں، ملکی مقننہ خواہ اس قسم کا کوئی قانون پاس کرے یا نہ کرے، مسلمان کے احکام ملکی قانون سازی تک ملتوی نہیں ہوا کرتے، دوسراملکی قوانین میں عموماً چور راستے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام میں حجت بازی اور قیل وقال سے یہ حکم بدلا نہیں جاسکتا۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہر وقت اور ہر زمانے میں واجب ہے اور واجب رہے گا تما م افراد اﷲ تعالیٰ کے سامنے اپنی اس ذمہ داری پر جوب دہ ہوں گے۔ ہر مسلمان نے دین کا کوئی نہ کوئی گوشہ مضبوط کیا ہوتا ہے ایسا نہ ہو کہ اسلام پر کوئی آفت اسی کی غفلت سے آن پڑے۔
یاد رکھیں فتح وکامرانی اﷲ کی طرف سے ہے اور اﷲ اس کی پشت پناہی کرتا ہے جو اﷲ کا ساتھ دینے والے ہوتے ہیں۔ ۱۳۷۶ ہجری میں مصر کے بعض مفتیان کرام سے پوچھا گیا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے جو مسلمانوں کے ملک کے خلاف کسی غیر اسلامی ملک کی مدد کرتا ہے؟ دارالافتاء کے سرکردہ ترین علمائے کرام کا فتویٰ تھا کہ وہ مرتد ہے ان علمائے کرام میں محمد ابوزہرہ، عبدالعزیز عامر، مصطفٰی زید اور محمد جیسے جلیل القدر حضرات شامل تھے۔ (بحوالہ مجلہ اداء اسلام)
کفار کی عزت افزائی کرنا، ان کی تعریفیں کرنا اور مسلمانوں کے خلاف ان کی حمایت اور نصرت کرنا نیز روزمرہ کی زندگی میں ان سے گھل مل کررہنا اور ان سے برأت نہ کرنا، یہ تمام اقسام تولّی کفار میں سے ہیں جو اس کا مرتکب ہوگا وہ مرتد ہوجائے گا اور ارتداد کے احکام اس پر لاگوں ہوں گے جیسے کہ کتاب اﷲ، سنت نبوی صلی اﷲعلیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
عبدالعزیز بن باز کے فتاویٰ میں اس عنوان کے تحت ان کا فتویٰ مذکور ہ ہے ''جس نے اشتراکی یا کمیونسٹ کی مدد کی جس نے اس گمراہی میں ان کا ساتھ دیا، ان کے نظریے کو بہتر سمجھا اور اس کے مقابلے میں اسلام کے داعیوں کی مذمت اور عیب جوئی کی وہ کافر ہے اور گمراہ ہے، وہ انہیں کے زمرے میں شمار ہوگا جن سے اس نے دوستی لگائی ہوئی ہوگی۔ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے مسلمانوں کے خلا ف کافروں کی حمایت کی اور کسی قسم کا تعاون پیش کیا تو وہ انہیں کی طرح کافر ہے، ابن باز نے اسکے بعد اس دلیل کے طور پر سورہ مائدہ آیت ۵۱ اور سورہ توبہ آیت ۲۳ نقل کرتے ہیں۔
اگلی سطور میں معاصرین علمائے کرام میں سے چند جلیل القدر علماء کے فتاویٰ نقل کئے جاتے ہیں جن میں پوری صراحت سے کہا گیا ہے امریکہ کے افغانستان پر حملے میں جس مسلمان نے تعاون کیا وہ کافر اور مرتد ہے۔
۲۱رجب ۱۴۶۶ہجری حمود بن عبداﷲ شعیبی نے جو فتویٰ صادر کیا تھا اس کا ترجمہ سپرد قلم ہے:
مسلمان کے خلاف یہ تما م آئمہ اسلام کا قول ہے قدیم اور جدید دور کے اہل علم یہی حکم لگاتے ہیں، عصر حاضر کے مجدد محمد بن عبدالوہاب لکھتے ہیں: مسلمانوں کے خلاف کافروں کی حمایت کفر ہے اور اس سے آدمی ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے اس کی دلیل سورہ مائدہ کی آیت ۵۱ ہے، علمامہ عبداللطیف سے ''تولّی'' اور ''موالات'' کا فرق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، تولّی سے کفر لازم آتا ہے جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے تولّی میں ان کی عزت افزائی، مال واسباب، قوت یا مشورے سے تعاون فراہم کرنا ہے۔
علامہ احمد محمد شاکر کہتے ہیں کہ: کفار کا مقابلہ کرنا اور ان سے جنگ کرنا واجب ہے ہر مسلمان پر یہ فرض ہے خوہ وہ کسی بھی علاقے کا باشندہ ہو وہ ان سے مقابلہ کرے اور ان سے برسر پیکار ہو جہاں اسے موقع ملے خواہ وہ کافر وہاں کے عام شہری ہوں یا لڑنے والے فوجی ہوں۔
وہ لکھتے ہیں جہاں تک انگریزوں سے تعاون کا حکم ہے تو وہ ارتداد اور کفر بواح ہے۔ اس میں توبہ بھی قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی تاویل قبول ہے۔ حمود بن عبداﷲ شعیبی نے اس کے بعد علامہ صاحب کے فتوے کا پوار متن نقل کیا ہے جو ہم گزشتہ صفحات میں ترجمہ کرآئے ہیں۔
حمودؒ بن عبداﷲ محوّلہ بالا ائمہ کرام کے فتاویٰ کے بعد اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں:
لہٰذا جو کافر ملکوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کوئی تعاون کرے جیسے امریکہ جیسے ملک کے ساتھ تو وہ کافر اور مرتد ہوگا اور امریکہ اور برطانیہ کا دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں پر مشترکہ حملہ ''صلیبی حملہ'' ہے جس طرح اسلام کی تاریخ میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں، بش کے منہ سے ''صلیبی جنگ'' کا لفظ بھی نکلا ہے، علامہ شعیبی کے فتویٰ کے الفاظ یہاں ختم ہوئے۔
۲۰ رجب ۱۴۲۲ہجری شیخ عبدالرحمن بن ناصر براک نے فتویٰ صادر کیا کہ امریکہ اور برطانیہ کا افغانستان پر حملہ بغیر کسی شک وشبہ کے ظلم اور عدوان ہے اور ''یہ صلیبی حملہ'' ہے جو اسلام پر کیا گیا ہے اسلامی ممالک کا افغانستان کی نصرت اور حمایت نہ کرنا ایک مصیبت عظیم ہوگی اگر الٹا یہ ممالک ان کی حمایت اور تعاون کرتے ہیں تو یہ کفار سے تولّی ہے جس کا حکم سورہ مائدہ کی آیت ۵۱ میں مذکور ہے، اسی آیت کو دلیل بناکر ائمہ اسلام نے تولّی کفار کو نواقضِ اسلام (جن سے ایک مسلمان کافر ہوکر ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے) میں شمار کیا ہے۔
۳ رجب ۱۴۲۲ ہجری میں علی بن خطیر نے فتویٰ صادر کیا جس کا ایک اقتباس یہ ہے ''کافروں کی حمایت کے مسئلے پر تفصیلی بحث جزیرہ عرب کے نجدی علماء نے کی ہے اور اسے کفر، نفاق اور ارتداد کہا ہے۔ جس سے آدمی ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے اور یہی عقیدہ درست ہے، جس پر قرآن مجید ،احادیث رسول اور ائمہ کرام کا اجماع منعقد ہوا ہے''۔
۳ رجب ۱۴۲۲ ہجری شیخ سلیمان بن ناصر علوان کے فتوے کا ایک اقتباس (مظلوم) مسلمانوں کی صف میں کھڑے ہونا، ان کی جان ومال، آراء اور ابلاغ عامہ سے تعاون کرنا واجب ہے اور ان سنگین ترین حالات میں انہیں بے یارومددگار چھوڑنا حرام ہے، کفریہ ممالک اسلام کے خلاف ایک دوسرے سے تحالف کررہے ہیں۔ کفار سے تو اسلام کے خلاف متحد ہونے کی توقع رکھنی چاہیے حیرت اس امر پر ہے کہ اسلام کے نام لیوا افغانستان کے حملے میں کفر کے بلاک میں شامل ہورہے ہیں اور یہ نفاق کی صورت ہے''۔ اس کے بعد علامہ سلیمان بن ناصر علوان سورہ نساء آیت ۱۳۹ اور سورہ مائدہ آیات ۸۰تا۸۱ نقل کرتے ہیں۔ آیات سے دلیل لینے کے بعد وہ ملت اسلامیہ کے معتد بہ اماموں کے اقوال سے تولّی کفار کے کفر ہونے پر اجماع کا ذکر کرتے ہیں اور سورہ مائد کی آیت ۵۱ کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: ''ومن یتولھم منکم فانہ منھم'' اﷲ کے دشمنوں کی پشت پناہی سے بڑھ کر تولّی کی بھیانک صورت اور کون سی ہوگی، مسلمانوں کے علاقوں کو تباہ کرنے کے لیے کافروں کو وسائل فراہم کیے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی قیادت کو قتل کرنے کے لئے بھی وسائل فراہم کیے جارہے ہیں ابن جریرؒ کہتے ہیں: ''مومنین کے خلاف جو ان کی پشت پناہی اور نصرت کرے تو وہ ان کے دین میں اوران کی ملت میں شمار ہوگا''۔
۲۴ رجب ۱۴۲۲ ہجری شیخ عبدالرحمان بن سعد کے فتوے کا ایک اقتباس ''اﷲ کے دوستوں کے خلاف اﷲ دشمنوں سے کسی قسم کا کوئی تعاون نواقضِ اسلام میں سے ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر واجب ہے، کتاب اﷲ، احادیث رسول اور اجماع امت سے یہ ثابت ہے، ہر مسلمان کو آگاہ رہنا چاہیے کہ کہیں وہ دین کے دائرے سے نکل جائے اور اسے اس کا شعور ہی نہ ہو''۔
۲۹ رجب ۱۴۲۲ ہجری عبداﷲ بن محمد غنیمان کے فتوے کا اقتباس مسلمانوں کے خلاف کافر ملکوں سے تعاون کرنے والا اس فعل کا مرتکب ہے جو سورہ مائدہ اور کتاب اﷲ کے دوسری آیات میں بیان ہوا ہے، جس کا فاعل انہیں کفار کے زمرے میں شمار ہوتا ہے''۔
۲۸ رجب ۱۴۲۲ ہجری شیخ سفر حوالی کے فتوے کا اقتباس ''مسلمانوں کے خلاف کافروں سے تعاون کرنا خواہ وہ تعاون کی کوئی صورت ہو، محض اپنے الفاظ سے ہی ان کی حمایت کرنا کفر بواح اور بدترین نفاق ہے ۔ یہ نواقض اسلام میں سے ایک صورت ہے اسی طرح اس (مسلم) کاعقیدہ ولاء اور براء پر ایمان نہیں رہتا''
یکم شعبان ۱۴۲۲ ہجری بشر بن فہد کے فتوے سے اقتباس ''اﷲ تعالیٰ نے اپنے پورے کلام میں وضاحت سے کہہ دیا ہے کہ کافر ایک دوسرے کے دوست اور مومنین ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، منافقین کی صفت یہ ہے کہ وہ مومنین کے علاوہ کفار سے بھی موالات رکھتے ہیں، افغانستان پر امریکہ کے حملے میں کسی قسم کا تعاون کافروں سے موالات کی صورت ہے خواہ یہ تعاون مال، اسلحے، مخبری یا آدمیوں کے ذریعے فراہم کیا جائے، مولات کی یہ صورت کفر اور ارتداد ہے جس کا حکم افراد کے لئے بھی ہے اور (تنظیموں) حکومتوں کے لئے بھی ہے''
۱۸ اکتوبر ۲۰۰۱ ہجری مفتی نظام الدین شامزئی جو پاکستان کے ایک ممتاز عالم دین ہیں وہ اپنے فتوے میں لکھتے ہیں ''کسی مسلمان کے لیے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو سرکاری ملازم ہو یا غیر سرکاری اگر اس نے افغانستان پر امریکہ کے حملے میں کسی قسم کا تعاون کیا جو ایک صلیبی حملہ ہے تو وہ مرتد ہوگا''۔
تو میرے بھائی جو کچھ قرآن وحدیث اور اہل علم سے اس بارے میں صادر ہوا وہ میں نے آپ کے سوال کے جواب میں یہاں تحریر فرمادیا ہے۔ان شاء اللہ مجھے امید ہے کہ آپ مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں آپ مسئلہ کا حل اخذ کرسکتے ہیں۔