ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
اس تعریف میں دین کی قید سے امور دنیا خارج ہوگئے۔شریعت سے مشابہت لازم نہیں آتی جیسے کسی امر دین کی تحقیق اور اس کے دینی منافع پر غور کرنا اور عبادت الٰہی میں مبالغہ کی قید توضیح کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کو کامل کردیاہے اور انسان کے جمیع اعضاء ظاھری اور باطنی کیلئے جن سے افعال اختیاریہ صادر ہوتے ہیں،وظائف مقرر کردئیے ہیں اور ہر ضروری بات کا ذکر کردیاہے۔
بدعت کے موجد اس پر بس نہیں کرتے ان کو خیال ہوتا ہے کہ صرف اتنی عبادت سے عبادت کا پورا حق ادا نہیں ہوتا۔اس لئے اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں۔اب یہ زیادتی تشریع کے خلاف اور حقیقت میں نقص پیداکرنے والی ہے۔
محقق شاطبیؒ فرماتے ہیں:
جس کی نظیر نہ ہو۔اس کے اختراع کو اصل میں بدعت کہتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے بدیع السموٰتِ والارضِ الآیۃ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو بے نمونہ پیداکرنے والاہے یعنی ان کی نظیر پہلے نہ تھی۔
دوسری آیت میں ہے۔
مَا کنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ الآیۃ
میں نیا رسول نہیں یعنی مجھ سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں ۔
اس طرح کہا جاتا ہے اِبتدعَ فلان ٌبِدعۃٌ فلان نے بدعت نکالی یعنی ایساطریقہ شروع کیا جو پہلے اس سے کسی نے نہیں کیا، جس کی نظیر نہ ہو اس کو امربدیع کہتے ہیں۔اس معنی سے بدعت کو بدعت کہتے ہیں اور اس کے نکالنے والوں کو مبتدع اور اس کی ہیأت(شکل) کوبدعت اور کبھی اس عمل کو بدعت کہتے ہیں اوریہ لغوی معنی سے اخص ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
احکام تین قسم پر ہیں
۱۔ ماموربہ (جس کا حکم ہو)خواہ واجب ہو خواہ مندوب (سنت نفل مستحب)
۲۔ منھی عنہ (جس کی ممانعت ہو)خواہ حرام ہو خواہ مکروہ۔
۳۔ مباح (جوکام جائزہو) کرنایا نہ کرنا برابر ہے۔
پہلی قسم میں کام کا ہونادوسری قسم میں کا م کا چھوڑنا ضروری ہے اور تیسری قسم میں کرنے اور چھوڑنے کا اختیار ہے .
دوسری قسم میں چھوڑنے کے دو سبب ہیں۔ایک سبب یہ ہے کہ اس کے کرنے میں وہ مصلحت فوت ہوجاتی ہو جو کسی ماموربہکے کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ فعل ظاہرشریعت کے خلاف ہو تاہے کیونکہ تشریع بقدر ضرورت کر دی گئی ہے ،اب اس پر زیادتی تشریح کے خلاف ہوگی۔
(تشریع سے مراد بعض امور میں کچھ قیود اور کیفیات کا متعین کرنا یابعض خاص ہیئات (شکلوں) یا خاص زمانہ کا ہمیشہ کیلئے مقرر کیاجاناہے)
بدعت کے موجد اس پر بس نہیں کرتے ان کو خیال ہوتا ہے کہ صرف اتنی عبادت سے عبادت کا پورا حق ادا نہیں ہوتا۔اس لئے اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں۔اب یہ زیادتی تشریع کے خلاف اور حقیقت میں نقص پیداکرنے والی ہے۔
محقق شاطبیؒ فرماتے ہیں:
جس کی نظیر نہ ہو۔اس کے اختراع کو اصل میں بدعت کہتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے بدیع السموٰتِ والارضِ الآیۃ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو بے نمونہ پیداکرنے والاہے یعنی ان کی نظیر پہلے نہ تھی۔
دوسری آیت میں ہے۔
مَا کنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ الآیۃ
میں نیا رسول نہیں یعنی مجھ سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں ۔
اس طرح کہا جاتا ہے اِبتدعَ فلان ٌبِدعۃٌ فلان نے بدعت نکالی یعنی ایساطریقہ شروع کیا جو پہلے اس سے کسی نے نہیں کیا، جس کی نظیر نہ ہو اس کو امربدیع کہتے ہیں۔اس معنی سے بدعت کو بدعت کہتے ہیں اور اس کے نکالنے والوں کو مبتدع اور اس کی ہیأت(شکل) کوبدعت اور کبھی اس عمل کو بدعت کہتے ہیں اوریہ لغوی معنی سے اخص ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
احکام تین قسم پر ہیں
۱۔ ماموربہ (جس کا حکم ہو)خواہ واجب ہو خواہ مندوب (سنت نفل مستحب)
۲۔ منھی عنہ (جس کی ممانعت ہو)خواہ حرام ہو خواہ مکروہ۔
۳۔ مباح (جوکام جائزہو) کرنایا نہ کرنا برابر ہے۔
پہلی قسم میں کام کا ہونادوسری قسم میں کا م کا چھوڑنا ضروری ہے اور تیسری قسم میں کرنے اور چھوڑنے کا اختیار ہے .
دوسری قسم میں چھوڑنے کے دو سبب ہیں۔ایک سبب یہ ہے کہ اس کے کرنے میں وہ مصلحت فوت ہوجاتی ہو جو کسی ماموربہکے کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ فعل ظاہرشریعت کے خلاف ہو تاہے کیونکہ تشریع بقدر ضرورت کر دی گئی ہے ،اب اس پر زیادتی تشریح کے خلاف ہوگی۔
(تشریع سے مراد بعض امور میں کچھ قیود اور کیفیات کا متعین کرنا یابعض خاص ہیئات (شکلوں) یا خاص زمانہ کا ہمیشہ کیلئے مقرر کیاجاناہے)