ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بدعت کی حرمت
سورۃ الحدید آیت ۲۷میں ہے {رھبانیۃ ابتدعو ھاماکتبنا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہِ فما رعو ھا حق رعایتھا} ( عیسائیوں )نے رہبانیت(فقیری) کی بدعت نکالی ہم نے ان پر فرض نہیں کی ان کی غرض(بدعت کے نکالنے سے) اللہ کی رضا مندی تھی پھرانھوں نے اس کی پاسداری بھی نہ کی ۔
اہل بدعت اس آیت مبارکہ سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سمجھ کرکہ اس میں بدعت کی تحسین فرمائی گئی ہے ۔
غلط فہمی کا ازالہ:
اول تواس آیت مبارکہ کا تعلق سورۃ الحدید (لوہا)سے ہے موم سے نہیں کہ آسانی سے جدھر چاہا موڑلیا۔
دوسرا اس آیت مبارکہ میں بدعت کی شدید مذمت فرمائی گئی ہے ۔
اس آیت مبارکہ سے بدعت کی تحسین مراد لینا ایسا ہے جیسے اگلے اور پچھلے سیاق کو چھوڑ کر کہے کہ لا تقربوا الصلوٰۃ نماز کے قریب مت جاؤ۔معاذاللہ
اس آیت مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اس سے پہلی آیت کو پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم علیہماالسلام کی امت کے دو گروہوں کا ذکر فرمایاہے ایک ہدایت پانے والے اور دوسرے فاسق و گناہگاراور پھر ذکر فرمایا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کا جن میں ایک ایمان والوں کا گروہ اور دوسرا اہل بدعت کا جن کو فاسق فرمایااور ان کی بدعت (رھبانیت)کو ذکر فرمایاجس کی وجہ سے وہ فاسق ٹھہرے یہی بدعت کا نقصان ہے کہ عمل زائد کر کے اپنے آپ کو تھکاتے بھی رہے مگر صراط مستقیم کو چھوڑنے کی وجہ سے الٹا عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے۔
لہذا اس آیت مبارکہ سے بدعت کی مذمت ثابت ہوئی ۔
جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند ابو یعلی میںسیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔اپنی جان پر سختی نہ کر پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی سختی کرے گا،ایک قوم نے (تم سے پہلے ) اپنی جان پر سختی کی (یعنی بدعت فقیری نکالی) پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔(یعنی عذاب میں مبتلاکیا)
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا {وجوہ یومئذ خاشعہ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ } قیامت کے روز کتنے ہی لوگ شرمسار ہوںگے عمل کرکر کے تھکے ہوں گے بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔ (سورۃ الغاشیۃ پارہ: ۳۰)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شرمساری سے محفوظ ومامون فرمائے (آمین)
سورۃ الحدید آیت ۲۷میں ہے {رھبانیۃ ابتدعو ھاماکتبنا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہِ فما رعو ھا حق رعایتھا} ( عیسائیوں )نے رہبانیت(فقیری) کی بدعت نکالی ہم نے ان پر فرض نہیں کی ان کی غرض(بدعت کے نکالنے سے) اللہ کی رضا مندی تھی پھرانھوں نے اس کی پاسداری بھی نہ کی ۔
اہل بدعت اس آیت مبارکہ سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سمجھ کرکہ اس میں بدعت کی تحسین فرمائی گئی ہے ۔
غلط فہمی کا ازالہ:
اول تواس آیت مبارکہ کا تعلق سورۃ الحدید (لوہا)سے ہے موم سے نہیں کہ آسانی سے جدھر چاہا موڑلیا۔
دوسرا اس آیت مبارکہ میں بدعت کی شدید مذمت فرمائی گئی ہے ۔
اس آیت مبارکہ سے بدعت کی تحسین مراد لینا ایسا ہے جیسے اگلے اور پچھلے سیاق کو چھوڑ کر کہے کہ لا تقربوا الصلوٰۃ نماز کے قریب مت جاؤ۔معاذاللہ
اس آیت مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اس سے پہلی آیت کو پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم علیہماالسلام کی امت کے دو گروہوں کا ذکر فرمایاہے ایک ہدایت پانے والے اور دوسرے فاسق و گناہگاراور پھر ذکر فرمایا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کا جن میں ایک ایمان والوں کا گروہ اور دوسرا اہل بدعت کا جن کو فاسق فرمایااور ان کی بدعت (رھبانیت)کو ذکر فرمایاجس کی وجہ سے وہ فاسق ٹھہرے یہی بدعت کا نقصان ہے کہ عمل زائد کر کے اپنے آپ کو تھکاتے بھی رہے مگر صراط مستقیم کو چھوڑنے کی وجہ سے الٹا عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے۔
لہذا اس آیت مبارکہ سے بدعت کی مذمت ثابت ہوئی ۔
جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند ابو یعلی میںسیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔اپنی جان پر سختی نہ کر پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی سختی کرے گا،ایک قوم نے (تم سے پہلے ) اپنی جان پر سختی کی (یعنی بدعت فقیری نکالی) پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔(یعنی عذاب میں مبتلاکیا)
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا {وجوہ یومئذ خاشعہ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ } قیامت کے روز کتنے ہی لوگ شرمسار ہوںگے عمل کرکر کے تھکے ہوں گے بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔ (سورۃ الغاشیۃ پارہ: ۳۰)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شرمساری سے محفوظ ومامون فرمائے (آمین)