• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعت کی حرمت
سورۃ الحدید آیت ۲۷میں ہے {رھبانیۃ ابتدعو ھاماکتبنا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہِ فما رعو ھا حق رعایتھا} ( عیسائیوں )نے رہبانیت(فقیری) کی بدعت نکالی ہم نے ان پر فرض نہیں کی ان کی غرض(بدعت کے نکالنے سے) اللہ کی رضا مندی تھی پھرانھوں نے اس کی پاسداری بھی نہ کی ۔
اہل بدعت اس آیت مبارکہ سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سمجھ کرکہ اس میں بدعت کی تحسین فرمائی گئی ہے ۔
غلط فہمی کا ازالہ:
اول تواس آیت مبارکہ کا تعلق سورۃ الحدید (لوہا)سے ہے موم سے نہیں کہ آسانی سے جدھر چاہا موڑلیا۔
دوسرا اس آیت مبارکہ میں بدعت کی شدید مذمت فرمائی گئی ہے ۔
اس آیت مبارکہ سے بدعت کی تحسین مراد لینا ایسا ہے جیسے اگلے اور پچھلے سیاق کو چھوڑ کر کہے کہ لا تقربوا الصلوٰۃ نماز کے قریب مت جاؤ۔معاذاللہ
اس آیت مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اس سے پہلی آیت کو پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم علیہماالسلام کی امت کے دو گروہوں کا ذکر فرمایاہے ایک ہدایت پانے والے اور دوسرے فاسق و گناہگاراور پھر ذکر فرمایا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کا جن میں ایک ایمان والوں کا گروہ اور دوسرا اہل بدعت کا جن کو فاسق فرمایااور ان کی بدعت (رھبانیت)کو ذکر فرمایاجس کی وجہ سے وہ فاسق ٹھہرے یہی بدعت کا نقصان ہے کہ عمل زائد کر کے اپنے آپ کو تھکاتے بھی رہے مگر صراط مستقیم کو چھوڑنے کی وجہ سے الٹا عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے۔
لہذا اس آیت مبارکہ سے بدعت کی مذمت ثابت ہوئی ۔
جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند ابو یعلی میںسیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔اپنی جان پر سختی نہ کر پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی سختی کرے گا،ایک قوم نے (تم سے پہلے ) اپنی جان پر سختی کی (یعنی بدعت فقیری نکالی) پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔(یعنی عذاب میں مبتلاکیا)
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا {وجوہ یومئذ خاشعہ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ } قیامت کے روز کتنے ہی لوگ شرمسار ہوںگے عمل کرکر کے تھکے ہوں گے بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔ (سورۃ الغاشیۃ پارہ: ۳۰)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شرمساری سے محفوظ ومامون فرمائے (آمین)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف اہل میت کے ہاں کھانا پکانے کا ثبوت د یتے ہیں(ماشاء اللّٰہ)
ملاحظہ۔ جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث جس میں اہل میت کے ہاںجمع ہونا اور کھانابنانا نوحہ کے ضمن میںحرام بتایاگیا ہے اور اسی روایت کو احمد رضا خانصاحب نے بھی منع کے لیے ذکرکیا ہے(جیساکہ ہم پیچھے پڑھ آئے ہیں )
پیٹ پرست مولوی ایک حدیث اہل میت کے ہاں کھانا پکانے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں،
حدیث مبارکہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ قبر سے فارغ ہوکرآئے تو اس کی عورت کی طرف سے ایک شخص کھانے کیلئے آپ کو بلاکر لے گیا آپ کے ساتھ چند صحابہ بھی گئے۔یہ حدیث ابوادد اور مسند احمد میں ہے۔
قارئین کرام ہماری شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ اصل حوالہ پیش کیاجائے تاکہ شک وشبہ باقی نہ رہے اور حجت تمام ہوجائے لہذا غور فرمائیں ۔
سنن ابوداؤد میں باب ہے باب فی اجتناب الشبھات۔ (یعنی شبہ والی چیزوں سے اجتناب کاتذکرہ) مگر موصوف کی نظر میت والوں کے کھانے پرلگی ہوئی ہے۔
روایت ملاحظہ فرمائیں۔
اخبرنا عاصم بن کلیب عن ابیہ عن رجل من الانصار قال خرجنا مع رسول اللہ ﷺ وہو علی القبر یوصی الحافر (اوسع من قبل رجلیہ اوسع من قبل راسہ )فلما رجع استقبلہ داعی امراۃ فجاء وجیء بالطعام فوضع یدہ ثم وضع القوم فاکلو ا فنظر آباؤنارسول اللہﷺ یلو ک لقمۃفی فمہ ثم قال ( اجد لحم شاۃ اخذت بغیر اذن اھلھا )فارسلت المرأۃ قالت یا رسول اللہ انی ارسلت الی البقیع یشتری لی شاۃ فلم اجد فارسلت الی جار لی قد اشتریٰ شاۃ ان ارسل الیّ بھا بثمنھا فلم یوجد فارسلت الی امرأتہ فارسلت الیّ بھا فقال رسول اللہ ﷺ اطعمیہ الاساریٰ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث مبارکہ سے چند باتوں کا علم ہوا
(۱)۔ یہ میت کو دفنانے سے پہلے کی بات ہے جبکہ آپﷺ قبر کھودنے والے کو ہدایات دے رہے تھے ۔
(۲)۔ کھانا اہل میت کی طرف سے نہیں بلکہ کسی قریش کی عورت کی طرف سے تھا۔
(۳)۔ وحی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوا کہ یہ گوشت اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کیاگیا ہے ۔
(۴)۔ آپ ﷺ نے وہ کھانا تناول نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ قیدیوں (کفار)کو کھلادو۔
( داعی امرء تہ) مشکوٰۃمیں لکھا گیا ہے۔جس کا ترجمہ ہے کہ اس کی عورت کی طرف سے بلانے والا آیا کیونکہ مشکوۃ والے نے ابوداؤد اور دلائل النبوۃ البیھقی کا حوالہ دیا ہے۔حوالہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ابوداؤد میں ایسے لفظ نہیں ہیں۔جس کے معنی میت کی عورت کے ہوں اور دارقطنی اور طحاوی کی مشکل الآثارشرح معانی الآثار میں بھی یہ لفظ نہیں۔مسند احمد میں یہ لفظ ملے ہیں( دَاعِیَ امرأۃٍمن قریش) قریش کی کسی عورت کی طرف سے بلانے والا آیا اور بعض روایات میں یہ وضاحت ہے مرنے والا انصاری تھا۔پس حدیث سے استدلال باطل ہوا۔
ملاعلی القاری کو چونکہ اس غلطی کا علم نہ تھا۔اس واسطے وہ دو حدیثوں کی اس طرح تطبیق دیتے ہیں کہ جریر ؓکی حدیث(جس میں میت والوں کی طرف سے دعوت ممنوع معلوم ہوتی ہے)اس صورت پر محمول ہے جب میت کے بعض وارث نابالغ ہوں یا بعض غائب یا بعض کی رضا مندی نہ ہو اور کھانا بھی کسی معین آدمی کی گرہ سے نہ ہو۔
مگر یہ تطبیق اس وقت مناسب ہے جب حدیث سے میت والوں کی طرف سے ضیافت کا ذکر ثابت ہو۔جب ذکر ہی ثابت نہیں جیساکہ ہم نے ذکر کیا ہے تو یہ سب احتمالات باطل ہوگئے۔
بعض نے جریر کی حدیث کواغنیاء کی دعوت پر محمول کیاہے اور مشکوۃ والی حدیث فقراء کے کھانے پر مگر یہ عمل کرنا درست نہیں کیونکہ حدیث جریر ؓ کا ظاہر مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعدعام طور پر عورتیں جمع ہو جاتی ہیںروتی اور خلاف شرع واویلا کرتی ہیں،بال نوچتی ہیں اور منہ اور چھاتی پر ہاتھ مارتی ہیں اور کبھی ایسے ہی مرد اور عورتیں جمع ہوکر بجائے تسلی دینے کے باتیں کرکے اور ان کے ہاں کھانا کھا کر ان کی تکلیف کے اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔پس یہی نوحہ ہے۔
التعزیۃُ مرۃًاسی واسطے فقہاء نے لکھا ہے صرف ایک دفعہ تعزیت کرنی چاہیے بار بار تعزیت سے غم تازہ ہوتاہے۔امام شوکانیؒ نے ایک مرفوع حدیث بھی ایک دفعہ تعزیت کرنے کے متعلق لکھی ہے مختصر کنزالعمال :۲۷۶ میں ہے{التعزیۃ مرۃ رواہ الدیلمی عن عثمان رضی اللّٰہ عنہ ۔
(باب النھی عن التکلف) وھوفعل وقول مالامصلحۃ فیہ بمشقۃ قال تعالیٰ {قل لا اسئلکم علیہ من اجروما انا من المتکلفین} (سورۃ ص:آیت۶)
{ عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ قال:نھینا عن التکلف} (رواہ البخاری)

یعنی ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسروقؒ نے فرمایاہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ ﷺنے فرمایا : اے لوگو! تم میں سے جو علم رکھتاہے وہ تو اِسے بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا تو وہ کہے کہ اللہ اعلم کیونکہ جس سے انسان لاعلم ہے اور ناواقف ہے ۔اس کا علم یہی ہے کہ کہے اللہ اعلم یعنی اس کا علم اللہ کو سونپ دے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا ہے
{ قُل مااسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین} (رواہ البخاری)
آپ کہہ دیں کہ میں اس دعوت وتبلیغ پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
{ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصروالفؤاد کل اولئکَ کان عنہُ مسئولا} (۱۷۔۳۶)
اے بندے! اس بات کے پیچھے نہ پڑجس کا تجھ کو علم نہیں ہے کیونکہ کان،آنکھ اور دل سب سے پوچھا جائے گا۔
یعنی ظن اور قیافہ سے کام نہ لو۔بتکلف جواب فراہم کرنے کی گنجائش نہ ہے۔اس لئے احادیث مبارکہ میں تعمق اور تشدد سے منع فرمایا گیا ہے اور تعمق موضع احتیاط کو لازم پکڑنے کو کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
{وقالوالن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ قل اتخذتم عنداللّٰہ عھدا فلن یخلف اللّٰہ عھدہ ام تقولون علی اللّٰہ مالا تعلمون} (البقرۃ)
اور بولے کہ ہمیں صرف چند روز آگ مسّ کرے گی۔ کہو! کیاتم نے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی عہد لیاہے؟پھر تو وہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گایا اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کہہ رہے ہو جس سے تم واقف نہیں ہو۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور کے متعلق شریعت کی ضرورت ہے جیسے دینی مسائل ہیں ان میں اپنی رائے سے باتیں کرنا اللہ تعالیٰ پر افتراء اور بہتان ہے۔پس ضروری ہے کہ دینی مسائل کا ثبوت کتاب وسنت سے دیاجائے۔ورنہ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہو گا اور اللہ تعالیٰ پر افتراء بہت بڑا جرم ہے
سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
{ومن اظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا}
اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ جوڑے۔
{رھبانیۃ ابتدعوھا ماکتبنا ھا علیھم الا ابتغا ء رضوان اللّٰہ فما رعو ھا حق رعایتھا الآیۃ الحدید}
انہوں نے خلوت گزین کی بدعت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے جاری کرلی ہم نے یہ ان پر فرض نہ کی تھی پھر انہوں نے اس کی نگہداشت اور رعایت وپاسداری نہ کی جواس کا حق تھا۔
الشیخ الاستاذ محمد عبدہ ؒاشرف الحواشی میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ۔ انہوں نے دو جرم کیے ۔
۱۔ رھبانیت (درویش) کو دین کا جزولاینفک قرار دے لیا پھر اس درویشی کے حقوق آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے ابتدا میں توحید اوردرویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی ۔ لیکن مسیح ؑ کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے اور تثلیت کے چکر میں پھنس کر توحید کو چھوڑ دیا۔پھر درویشی تو درکنار ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔درویشی کو جاہ وریاست طلبی کا ذریعہ بنالیا اور باطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے لگے الغرض جھاد کے فریضہ کو چھوڑ کر تصوّف کی رسوم اختیار کرنا ہی رھبانیت ہے جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یادینی پیشوائی کو جاہ وریاست اور دنیا طلبی کا ذریعہ بنانا تو ناقابل عفو گناہ ہے جو یہود ونصاری میں عام وبا کی صورت اختیار کرگیا تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں۔یہ فقیری اور تارک دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے جورورکھتے نہ بیٹا، کماتے نہ جوڑتے۔محض عبادت میں رہتے خلق سے نہ ملتے۔اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیاکا پھر اس پر دے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔
موضح القران۔ علامہ جمال الدین القاسمی اپنی شہرہ آفاق تفسیر محاسن التاویل میں لکھتے ہیں۔ رھبانیت۔عبادت وریاضت میں مبالغہ کرنے اور لوگوں سے منقطع الگ تھلگ رہنے کو کہتے ہیں اور یہ رھبان یعنی اللہ کی خشیت اور اس سے خوف کی حالت رکھنے والوں کی نسبت سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔
امام ابن کثیرؒ اپنی تفسیر( جلد۴ص:۳۱۵) میں فرماتے ہیں کہ دو وجوہات سے اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی مذمت کی گئی ہے۔
۱۔ انہوں نے اس بات کو اللہ کے دین میں ایجاد کیا جس کا انہیں اللہ نے تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا۔
۲۔ دوسرے جو اعمال بطور قربت اور اللہ کے تقرب کیلئے بزعم خویش انہوں نے اپنے ذمے اعمال لگائے تھے ان کی رعایت یعنی پاسداری نہ کرنے پر مذمت کی ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان سے جو رھبانیت منسوب ہے وہ خود اسے اپنے مذہب میں بدعت قراردیتے ہیںچنانچہ اگر اس کا مصداق بننا ہے۔تو اسکی پوری تعریف کا انطباق اپنے اوپر کیا جائے لیکن کیا کہا جائے جبکہ ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺ فرماتے ہیں{لارھبانیۃ فی الاسلام}اسلام میں رھبانیت بالکل نہیں ہے۔ حج اور جہاد ہی میر ی امت کی رھبانیت یعنی خدا خوفی ہے کیونکہ ان کے بجالانے میں انسان گناہو ں سے پاک ہو جاتا ہے
اور اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{یاأھل الکتاب لاتغلوا فی دینکم} ( النساء۔۱۷۱)
اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو۔
لہذا ہمیں اپنے اہل مباح بھائیوں سے مؤ دبانہ عرض کرناہے کہ وہ استدلال با عمال اھل کتاب والمشرکین سے سے اجتناب کرتے ہوئے صراط مستقیم اختیار فرمائیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے سامنے تورات الٹنے پلٹنے پر فرمایا تھا۔
{امتحوکون انتم کماتھوکت الیھودوالنصاری۔ لو کان موسیٰ حیاما وسعتہ الااتباعی لوکان موسیٰ حیاًوتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان}
کیا تم یہودونصارٰی کی طرح حیران اور غیر مطمئن ہو؟(یہ تو موسیٰ پر نازل شدہ کتاب ہے)اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کروتوتم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے۔
یہود نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہااگر {الیوم اکملت لکم دینکم} آیت ہماری شریعت میں نازل ہوتی تو ہم اسے عید بنا لیتے۔تو آپ ؓنے بجائے تیسر ی عیدا ختیارکرنے کے انہیں فرمایا'' کہ ہماری دو عیدوں کا اجتماع تھا جس دن یہ آیت کریمہ نازل ہوئی حج اور جمعہ کا دن تھا۔''(یعنی کسی تیسری کی ضرورت نہ ہے) لہذا غیر مشروع اعمال کی بھر مار کی شرع محمدی ﷺ میں کوئی گنجائش ہی نہیں ۔چنانچہ جیسے پہلے سنن ابی داؤد اور مسند ابی یعلی سے رسول اللہ ﷺکی تفسیر گزری ہے ۔جس میں آپ نے ان مبتدعین کی مذمت فرمائی ہے۔ اور اسی حج میں رسول اللہ ﷺ نے جمرات پر رمی جمار فرماتے ہوئے کنکریوں کی مقدار اور تعداد کے ضمن میں فرمایا
{اِیّاکم والغلو فی الدین انما اھلک من کان قبلکم الغلوفی الدین اخر جہ النسائی و ابن ماجہ وابن الجارود فی المنتقیٰ } (رقم حدیث ۴۷۳ والسیاق لہ وابن حبان فی صحیحہ والبیھقی واحمدبسند صحیح)
کہ مسنون عمل میں کمی بیشی نہ ہو کیونکہ یہ غلوہے۔یہاں ان لو گوں کوسوچنے کی ضرورت ہے جو اپنی عقل سے غیر مشروع اعمال کو دین بناکرکارثواب سمجھ کررواج دیتے ہیں۔
دوسری حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہے کہ رمی جمارکرتے(شیطانوں کو کنکر مارتے) ہوئے تکبیر ساتھ کہنااقامت ذکر اللہ کیلئے ہے۔
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے
{انما جعل التکبیر عندالسعی ورمی الجمار لاقامۃ ذکراللّٰہ}
حج میں سعی اور رمی جمارکے وقت تکبیر کہنا اللہ تعالیٰ کے ذکرکو قائم کرنے کیلئے ہے۔
معلوم ہوا کہ مذکورہ آیت یہود ونصاری کی مذمت میں ہے نہ کہ ا ن کی مدح سرائی میں حتیٰ کہ اس سے استدلال کرنا ان کی طرح تَھَوّکْ وحیرانی اور اپنے دین میں بے یقینی کا مظاہر ہ کرنے کے مترادف ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مولّف کی اپنے امام کے اصول سے لاعلمی :
مذکورہ اصول کہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے یہ متفق علیہ اصول نہیں ہے،اس میں تفصیل اوراختلاف ہے جسے بیان کرکے ہم اس کی تفصیل ذکر کرتے ہیں۔
علامہ جلال الدین السیوطیؒ اپنی کتاب الاشباہ والنظائر ص:۶۰میں جو فروع فقہ شافیہ میں ہے ر قمطراز ہیں کہ یہ شوافع کی اصل ہے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک الأصل فی الاشیاء التحریم اشیا ء میں اصل تحریم ہے،فرماتے ہیں ۔
{ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی التحریم ھذامذہبنا وعند ابی حنیفہ الاصل فیھا التحریم حتیٰ یدل الدلیل علی الاباحۃ ویظھر أثر الخلاف فی المسکوت عنہ}
یعنی قاعدہ یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے تا آنکہ حرمت کی دلیل ہو۔یہ ہمارا (شوافع کا) مذہب ہے،امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اصل تحریم ہے تاآنکہ اِباحت کی دلیل ہو اور اس اختلاف کا اثر مسکوت عنہ پر ظاہر ہوتا ہے۔
اس کے بعد علامہ سیوطی ؒ نے شوافع کے مذہب الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے دلائل پیش فرمائے ہیں اور ان میں تقریباً بعض وہی ہیں جو مولّفِ بدعت کی حقیقت نے ذکر کیے ہیں چونکہ موصوف رضوی سنی قادری حنفی ہیں۔حنفی ہونے کے ناطے شوافع کے دلائل کا جواب ان کے ذمہ رہے گا۔
تاہم امام ابو حنیفہؒ کے موقف کی تائید میں جو ادلّہ ہیں ان کے بیان سے پہلے الاصل فی الاشیاء التحریمسمجھنے کی ضرورت ہے علامہ سیوطیؒ آگے صفحہ۶۱ پررقمطراز ہیں الا صل فی الأبضاع التحریم شرمگاہوں میں اصل تحریم ہے ۔لہذا اصل اباحت کو مطلق رکھنا کسی مذہب میں بھی ثابت وجائز نہیں۔
الاصل فیھا التحریم حتیٰ یدل الدلیل علی الاباحۃکا مقصدیہ ہے کہ دین اسلام اللہ تعالیٰ کی وحی کتاب وسنت کی شکل میں مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کے جملہ احکام ان کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے وعادات واطوار سے سب کیلئے ھدایت وراہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اصل شارع اللہ تعالیٰ ہیں اور محمدﷺباذن اللہ یعنی اللہ کی اجازت سے شریعت کے مبلغ اور تبلیغ رسالت فرمانے والے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شریعت سازی کا منصب:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
{ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین مالم یاذن بہ اللّٰہ} (الشوریٰ)ٰ
کیاانہوں نے اللہ کے شریک بنا لیے ہیںجنہوں نے ان کیلئے شریعت دین کے ایسے کام مقرر کر دیے ہیں جن کا اللہ نے اِذن نہیں دیا۔
پس جو شخص اللہ تعالیٰ کاقرب اپنے ایسے عمل سے تلاش کرے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے قر ب کا ذریعہ نہیں ٹھہرایا اس کا عمل باطل و مردود ہے۔
تحریم کا مطلب واضح ہوگیا کہ ہم اپنی طرف سے کوئی عقیدہ وعمل اختیار نہیں کرسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم اور اجازت نہ ہو اس کی ہمارے لئے ممانعت ہے کہ ہم اس کو شرعی حیثیت دے کر کارِثواب سمجھیںاور اس پر عمل کریں۔
نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو سنا آپ فرماتے تھے
{اِنَّ الحَلالَ بَیِّنٌ وَاِنَّ الحَرَامَ بَیِّنٌ وَبینَھمَا مُشْتَبھَاتٌ لَا یَعلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النََّاسِ کَالرَّاعِی یَرعِی حَولَ الْحِمیٰ یُوشِکَ اَنْ یَّقَعَ فِیہ ِ اَلاوَاِنَّ لِکُلِّ مَلَکٍ حِمَی وَحِمَی اللّٰہِ تَعالیٰ مَحَارِمُہ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الحَرامِ وَمنْ اتَّقَی الشُبُھَاتِ فَقَدْ اِستبرَئَ لِدِِینِہِ وَ عِرْضِہ} (رواہ البخاریؒ)

حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے مابین شبہے والی چیزیںہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جیسے ایک چراوہا اپنے مویشی چراگاہ کے گرد چراتاہے۔قریب کہ وہ اپنے مویشی چراگاہ میں ڈال دے اور ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔بے شک اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیںہیں۔تو جو شخص شبہات سے بچ گیااس نے اپنے دین کو عیب سے پاک کر لیااور اپنی عزت کو تہمت سے بچالیا۔
اس حدیث پاک کی روشنی میں امام ابو حنیفہ ؒ کی تحریم کے مطابق مسکوت عنہ میں تو شریعت سازی کی قطعاًگنجائش نہیں۔
کسی کام کو ایجاد کرناپھر اس کا التزام کرنااوراس پر مداومت کرنا اور اس پر فرض واجب سنت کی طرح عمل کرنااور اس پر نادم بھی نہ ہوناکیسے جائز ہو سکتاہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید اگرچہ عربی زبان میں ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کرنے کیلئے بنی کریم ﷺ کے اسوہ ٔکی اتباع کی پابندی لگادی ہے۔فرمایا
{قُلاِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی}الآیۃ
اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میر ی پیروی کرو۔
تو گویا حدیث اور سنت نبویؐ نے قرآن مجیدمیں لفظی معنوی تحریف کے دروازے بندکردیے کیونکہ انسانیت کو اس عرُف کاپابند کر دیاجو رسول اللہ ﷺ کاتھاجسے اپنا کر صحابہ ؓ کامیاب ہوئے اور اسی میں اب فلاح انسانیت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام شافعی ـؒکے مذہب کی تائید میں علامہ سیوطیؒ نے جودلائل ذکر فرمائے ہیںاور انہیں بدعت کی حقیقت کے مولّف نے بیان کیا ہے۔اس پرالاستاذ المحدث گوندلوی ؒ مختصر الاصول کی شرح بغیہ الفحول میں صفحہ۷۰پررقمطراز ہیں۔ قولہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ و قد یستدل بہ علیٰ جواز بعض البدع بأن الشرع قد سکت عنھافلا یبحث عنھا بل تدخل فی الاباحۃ۔ یعنی اشیاء میں اصل اباحت کے اصول سے بعض بدعات کے جواز پر دلیل لی جاتی ہے،ایسے کہ شرع اس سے خاموش ہے تو اس سے بحث نہ کی جائے بلکہ وہ اباحت میں داخل ہیں۔مزید فرماتے ہیں۔والجواب ان البدع قد نھی عنہ بادلۃ قطعیۃ فلاتدخل فی المسکوت عنہ ۔اس کا جواب یہ ہے بدعات سے قطعی دلائل کے ساتھ روک دیا گیا ہے لہذا بدعات مسکوت عنہ میں شامل ہی نہیں ہیں۔
چنانچہ امام شافعی ؒ کے اصول کے مطابق تو بدعات کے منھی عنھا ہونے کیلئے بدعت کے ضلالت وگمراہی اور حرام ہونے کے دلائل ہی کافی ہیں۔محدثات کے حرام ہونے کے دلائل سے اصل اباحت کی حیثیت متعین ہو جاتی ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تو اصل تحریم ہے لہذاتب بھی کسی طرح کی شریعت سازی کی گنجائش نہیں ہے اور آپ چونکہ حنفی کہلواتے ہیںاور امام جلال الدین سیوطیؒ کو آپ کے علماء مجدد مانتے ہیں اور خاتمۃ الحفاظ کہتے ہیں۔اُن کی یہ عبارت الاشباہ والنظائر کے ص۶۰ پر منقول ہے اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے شوافع اور حنفیہ کے درمیان مابہ النزاع اور مابہ الاختلاف قرار دیاہے وہ مسکوت عنہ اورعفو ہی ہے۔
خاتمۃ الاختلاف والنزاع :
شیخ المشائخ محمدگوندلوی ؒ فرماتے ہیں۔عبادات میں اصل تحریم ہے جیساکہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور عادات میں اصل اباحت ہے جیسے کہ امام شافعی ؒ کا مسلک ہے۔لہذا عباد ت میں اصل اصول درکارہے اور حاداث میں ممانعت ہونے تک اباحت اور جواز ہے۔ھذا ھوالتفصیل فی الباب۔
آگے چل کر بدعات کی تردیدو توضیح میں جو دلائل ہیں،ان کا بیان کیاجاتا ہے وَباللّٰہ التوفیق
اور مسکوت عنہ اور مفعوعنہ کی اصولی حیثیت ووضاحت کی جاتی ہے۔تاکہ مغالطے کی جڑ کٹ جائے جس پر انحصار کرکے بدعت اپنے کل پُرزے نکالتی ہے۔نعمت المرضیۃ و بئست الفاطمۃ -العیاذ باللّٰہ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل بدعت کی علمی حیثیت:
الاصل فی الاشیاء الاباحۃجس کا صرف مفاد یہ ہے کہ ان مسائل میں جواز ڈھونڈا جائے جن میں فعلاًو ترکاًشرع شریف خاموش ہے۔یہ علم میں ناپختگی کی دلیل ہے ،مسکوت عنہ مسائل کے لیے عموم ادلّہ سے اور متشابہات سے استدلال کیا جاتاہے جیسے کہ پیچھے حدیث شریف میں بیان ہوا۔نیزقرآن مجید کی سورۃ آل عمران میں دو قسم کے لوگ ذکر کیے گئے ہیں
(۱)۔راسخ ْفی العلم (علم میں پختہ)جو شریعت کے کلیات قواعد اوراصول سے واقف ہوتے ہیںان کی قرآن نے مدح کی ہے ان میں ہدایت کے لئے استنباط کی اہلیت ہوتی ہے۔
(2) اھل زیغ(کج رو) ان کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔
امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب الاعتصام میں لکھاہے۔کسی مطلق دلیل سے بدعات پر استدلال کرنامتشابہات کی اتباع ہے اور بدعتی ایسا ہی کرتے ہیں۔
الاستاذ محمد گوندلوی ؒ اپنی کتاب الاصلاح ص:۱۰۰،۱۰۱) میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ اہل بدعت سے شریعت کی تمام ادلّہ کا خیال نہیںرکھتے بلکہ بعض سے استدلال کرتے ہیں علماء راسخین(کامل علماء) کے نزدیک تمام شریعت کو لے کر غور کرنا چاہیے۔یہ لوگ اسی اصولی روش کو چھوڑ کرمتشابہات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔مقیَّد پر نظر کرنے سے قبل مطلق سے استدلال کرنااور جزیات پر بلاتأمل عمومات سے استدلال کرنااتباعِ متشابہات ہے۔ مطلق کی مشروعیت سے مقیَّد کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی جیسے مطلق صلوٰۃ کی مشروعیت سے صلوٰۃ ظہر یا وتر کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی۔
قرآن وحدیث کو اپنا مرشداور امام سمجھیں:
مولوی محمد نقی علی صاحب ہدایۃ البریہّ ص۸ میں لکھتے ہیں کہ جن امورمیں خوض ممنوع و مضرہے یاادراک ان کی حقیقت کا محال یا عوام کے منصب ومقام سے برتر ہے۔صرف قرآن وحدیث کی طرف رجوع کریں اور اسے اپنا مرشداور امام سمجھیں جو حکم دیں بجا لاویں اور جس قدر بتائیں اس پر قناعت کریں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسکوت عنہ اور معفوعنہ:
مسکوت عنہ وہ چیزہوتی ہے جس کا حکم کسی عام یا خاص دلیل سے معلوم نہ ہولیکن بدعات جو بدون اذنِ شرع ایجاد کی جاتی ہیںاِن کے مردود ہونے کا حکم تو بدعت کی ممانعت کی ادلّہ سے معلوم ہے۔بلکہ عفو کی احادیث سے بدعت کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان میں یہ ذکر ہے کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے سکوت کیا ہے اِن سے بحث نہ کرو یعنی اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی حد بندی کرنی تھی کردی اب تم اپنی طرف سے جہاں سکوت ہے،حدبندی نہ کرواور ظاہر کہ بدعت میں اپنی طرف سے تحدید ہوتی ہے۔پس بدعت حدیث عفو کے خلاف ہوئی،پھر دوسری حدیث میں کھانے پینے کی اشیاء کا ذکر ہے یعنی کھانے پینے کی اشیاء جن چیزوں کے متعلق حلت وحرمت کی تصریح نہیں آئی وہ عفو ہیں یعنی حلال ہیں۔اس طرح اس کے بعد کی حدیث میں بھی کھانے پینے کی چیزوں کابیان ہے اور بدعت کا تعلق عبادات سے ہوتاہے اور کھانے پینے کی باتیں عادات سے ہیں۔لہذا ایصال ثواب فاتحہ مرسومہ اور عید میلاد بوجہ عبادت بدعت اور کفارکی مشابہت کے حرام ہوگی، نہ کہ مسکوت عنہ۔
بدعت اور تشبہ بالکفارہونے کے علاوہ اور بھی ممنوع ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔
{ عن أبی ثعلبۃ الخشنیِؓ قال قال رسول اللّٰہﷺ اِنَّ اللّٰہ فَرَضَ فَرائض فلا تُضَیّعوھا وحَدَّ حُدوداً فلا تَعتَدوھا ونَھٰی عَنْ أشیاء فلا تنتھِکُوھا وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَاء مِنْ غَیْرِنِسْیَان لَھَارَحْمَۃً لَکُمْ فَلَا تَبْحَثُواعَنھَا} (طبری،دارقطنی،حاکم،درمنثو� �،جامع العلوم والحکم ابن کثیر)
یعنی اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع نہ کرو اور حدود مقرر کی ہیں کہ ان سے تجاوز نہ کرو اور بعض اشیاء سے روکاہے ان سے پرہیز کرو اور از روئے رحمت بعض چیزوں سے عمداً سکوت اختیار کیاہے،لہذا ان سے بحث نہ کرو۔
انتہائی قابل توجہ:
الاستاذمحمد گوندلوی ؒ فرماتے ہیں۔کبھی ایک کام ایک اعتبار سے امردین ہوتاہے اس وجہ سے اس کو عدمِ ثبوت یا بعض جگہ رسول اللہﷺ کے عدم فعل کی بناپربدعت اور گمراہی کہہ سکتے ہیں۔
اور ایک اعتبار سے امرِدنیا ہوتا ہے،اس وجہ سے عدم ثبوت وغیرہ سے اس کو بدعت اور گمراہی نہیں کہہ سکتے بلکہ نہی وارد نہ ہونے کی صورت میں اس کو مباح اور عفو کہتے ہیں کیونکہ امورِ دنیا میں اصل یہی ہے جیسے تقبیل(بوسہ دینا)یہ امر دینی بھی ہے کیونکہ حجراسود کو بوسہ دینے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور ثواب ملتاہے۔اس لحاظ سے صرف اُسی چیز کو بوسہ دیناچاہیے جہاں ثابت ہے اگر صر ف تعظیم کے لئے بوسہ دیاجائے،ثواب مقصود نہ ہو تو اس صورت میں امرِدنیا ہوگااورجب تک نہی وارد نہ ہو مباح ہوگا۔
 
Top