یہ بھی آپ کا ہی خاصہ ہے کہ ناقابل تردید تاریخی حقائق کو آپ عقیدہ کے باب میں شمار کرتے ہیںاب آتے ہیں عمر بن عبدالعزیز کی سیرت پر لکھی گئی اس کتاب کی عبارت کی طرف ۔۔۔جس میں جناب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں
اس کتاب کا مصنف (عبد العزیز سید الاہل )۔ایک کلین شیو مصری ادیب اور شاعر ہے ۔۔کوئی دینی عالم نہیں ،کہ اس کی بات کو عقیدہ کے باب میں اہمیت دی جائے ۔۔
یہی سب باتیں تو دبے الفاظ میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کی ہیں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے (خطبہ دینے کے لیے) چڑھے اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو)بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر :956
کیا اب بھی بنو امیہ کی اس بدعت کو بدعت نہیں کہا جائے گا اور کیا صحیح بخاری کی اس روایت کو عقیدے کے باب میں قبول کیا جائے گا یا نہیں
اور ایسی کیا آفت آگئی تھی کہ اہل مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ترک کرنے لگے تھے سواء اس کے جو تاریخ میں بیان ہوا کہ بنو امیہ کے لوگ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھ کر اہل بیت اطہار پر سب کیا کرتے اور یہ بات اہل مدینہ پسند نہیں کیا کرتے اس لئے وہ عیدین کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جایا کرتے
کم از کم آپ کو تو صحابہ پر سب کرنے والوں کا دفاع نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ صحابہ پر صرف تنقید کرنے والوں کوبھی آپ برا کہتے ہیں