سب سے پہلے سعودی علماء کا فتوی پڑھ لیں
س: هذا السائل يقول: هل صحيح أن الأولياء تحدث لهم كرامات خارقة للعادة، كالمشي على الماء، والمكاشفات كالنظر إلى اللوح، وظهور الملائكة وغير ذلك؟
ج : نعم الأولياء لهم كرامات خرقاً للعادة، إذا كانوا مستقيمين على طاعة الله ورسوله، قد تقع لهم كرامات عند حاجتهم، أو عند
إقامة الحجة على غيرهم، قد يخرق الله لهم العادة بكرامة، ومن ذلك ما وقع لعباد بن بشر، وأسيد بن حضير، كانا زارا النبي في ليلة مظلمة، فلما خرجا من عنده أضاءت لهما أسواطهما كالسراج في الطريق حتى وصلا إلى أهلهما، كرامة من الله لهما، ومن هذا قصة الطفيل الدوسي رئيس دوس، لما أسلم وطلب من النبي صلى الله عليه وسلم أن يجعل الله له آية حتى يصدقه قومه، فصار له نور في وجهه مثل السراج لما أتى أهله، فقال يا ربي في غير وجهي فجعلها الله في سوطه، إذا رفعه استنار كالسراج، فأسلم قومه على يديه، وهداهم الله بأسبابه، وهناك وقائع أخرى لأولياء الله، عند الشدائد مثل ما وقع لجريج، لما ظلمته البغي، قالت: إنه زنى بها وأنها حملت منه، وهي كاذبة ، فجاءه أهل بلده، وهدموا عليه صومعته، فقال: ما بالكم؟ قالوا: زنيت بهذه، فقال: سبحان الله ما زنيت بها، هاتوا الغلام؟ فجاءوا بالغلام، ووضع إصبعه على الغلام، وهو لتوه مولود، فقال: من أبوك يا هذا؟ فقال: أبي فلان الراعي، الذي زنى بالمرأة، فلما أنطقه الله وهو صغير، قالوا: نعيد لك صومعتك من الذهب؟ فقال: لا، ردوها طيناً كحالها الأولى، المقصود براءتي مما رميتموني به، الحمد لله ؛ والقصص كثيرة في هذا.
انہوں نے ، والمكاشفات كالنظر إلى اللوح کو شرک نہیں کہا ۔
تلمیذ صاحب! آپ نے تو اس فتوی کے حوالہ پیش نہ کیا! بس کہ دیا کہ " سب سے پہلے سعودی علماء کا فتوی پڑھ لیں" عالم کا نام نہ کتاب کا کچھ نہیں!! آپ کو نہ جانے یہ کہاں سے ملا!! خیر اس کا حوالہ ہم آپ کو پیش کئے دیتے ہیں:
فتاوى نور على الدرب
المؤلف: عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)
جمعها: الدكتور محمد بن سعد الشويعر
قدم لها: عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ
الأولياء لهم كرامات تكون خرقاً للعادة إذا كانوا مستقيمين على طاعة الله ورسوله
مندرجہ ذیل لنک پر آپ اس فتوی کو مفتی کی زبانی یعنی کہ شیخ بن باز رحمۃاللہ علیہ کی ےزبانی سن سکتے ہیں: اور ضرور سنیئے گا!!!
الأولياء لهم كرامات تكون خرقاً للعادة إذا كانوا مستقيمين على طاعة الله ورسوله | الموقع الرسمي لسماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز
آپ کے علم میں شاید یہ نہیں تھا کہ یہ فتوی شیخ بن باز رحمۃاللہ علیہ نے تحریری نہیں بلکہ زبانی دیا تھا!!!
اور جب کسی عالم سے زبانی سوال و جواب کیئے جاتے ہیں تو ایسا ہو جایا کرتا ہے کہ سائل کے سوال کے ایک نکتہ کا جواب عالم دے دیا کرتے ہیں اور دوسرے نکتہ کا جواب نسیانا یا کسی اور وجہ سے رہ جایا کرتا ہے!! یہاں بھی یہی معالہ ہے!!
سائل کے سوال کے ایک نکتہ
"هل صحيح أن الأولياء تحدث لهم كرامات خارقة للعادة،" کا جواب شیخ بن باز رحمۃاللہ علیہ نے دیا ہے اور اس کے دیگر نکات "
كالمشي على الماء، والمكاشفات كالنظر إلى اللوح، وظهور الملائكة وغير ذلك؟" کا جواب نہیں دیا گیا!!
لہذا اس فتوی سے آپ کی مراد قطعی پوری نہیں ہوتی!!!
لیکن آپ کا عقیدہ مزید واضح ہو گیا کہ آپ تو
"النظر إلى اللوح" کے دعوی کو بھی کرامات کہہ کر تسلیم کرتے ہو!!! یعنی کہ آپ اس شرک کے قائل بھی ہو کہ کوئی امتی لوح محفوظ کو دیکھ سکتا ہے!!
ویسے حکیم الامت دیوبندیہ لوح محفوظ کو دیکھنے کا دعوی بھی کر چکے ہیں!!! اب یہ نہیں معلوم کہ خود دیکھنے کا ہے یا کسی اور صوفی کے دیکھنے کا ہے!!! حوالہ مطلوب ہو تو پیش کر دیا جائے گا!!!
اسی فتوی ایک قصہ جریج کا ہے ۔ اگر آپ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس کا مطلب ہے جریج عالم الغیب تھے کیوں کہ انہوں نے بچہ کو بلایا اور اس سے پوچھا
من أبوك يا هذا
جریج کو کیسے معلوم ہوا کہ بچہ کلام کرے گا اور صحیح بات کرے گا ۔ آپ کی کسوٹی کے مطابق تو اس قصہ سے جریج کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ کون ہے ۔ اس سے تو وہ بچہ بھی عالم الغیب ثابت ہوا ۔
یہ واقعہ صحیح حدیث میں ہے
آپ کی کسوٹی کے مطابق یہ تو شرکیہ کرامت ہے تو کیا حدیث شرکیہ کرامت کا بتا رہی ہے اور بھر تو اس حدیث کی کتاب کا پڑھنا پڑھانا شرکیہ کام ہوا ۔ (معاذ اللہ )
جریج نے تو سوال کیا ہے! اب صرف سوال کرنے سے عالم الغیب ہونے کی بات کہاں سے آگئی!! کبھی آپ کی پاکستانی پولیس والے سے گفتگو ہو تو اس کے سوالات سے تو آپ نہ جانے کیا کیا اخذ کر لیں گے!!!
بچہ کا کلام کرنا خرق عادت ہے!! خلاف قرآن و سنت نہیں!!!
جریج نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا کہ نہ جریج کے کلام سے ایسی کوئی بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ بچہ کلام کرے گا!!
اب جناب من! اس بچہ نے یہ خبر کسی سے خبر پانے کی بنیاد پرنہ ہونے کی کوئی بات ہی نہیں!! اور بچہ اپنے باپ کا نام کسی سے خبر پانے کی بنیاد پر دیتا ہے!!! اور عموما وہ اس کی ماں ہی ہوتی ہے ، جو اسے بچپن میں سکھلاتی ہے کہ فلان تیرا باپ ہے!!! ابا بولو !! ابو بولو!!! یا پاپا بولو!!! جب یہ ماں سکھلاتی ہے !! تب بچہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا باپ کون ہے!!!
میں نے تو جو تبلیغی جماعت کے متعلق کہا تھا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں تو اس کے جواب میں آپ نے کہا
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
اس اقتباس کا پہلا حصہ بتاتا ہے کے تبلیغی جماعت کا عقیدہ ہے اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں لیکن اس اقتباس کا دوسرا حصہ کرامت ہے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ اردو کلام سمجھنے سے بھی قاصر ہیں؛ آپ تو "مگر" کو بلکل نظر انداز کرتے ہوئے دونوں فقروں کو بلکل الگ تھلگ کر کے اس عبارت کا معنی اخذ کرنا چاہتے ہو!!
یہ ان دونوں فقروں کے درمیان "مگر" آپ کے اس معنی کو باطل قرار دے رہا ہے!!! کیوں کہ یہ "مگر" بتلا رہا ہے کہ قرطبی صاحب کا گمان تھا کہ "میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی" "مگر" ان کے بقول ہی ان کا یہ گمان باطل تھا، اسی لئے قرطبی صاحب نے فرمایا کہ" مگر"" وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔"
یہاں جو اصل مدعا ہے کہ اس صوفی نوجوان کو قرطبی صاحب نے دل ہی دل میں جو ٹرانزکشن کی تھی اس کا معلوم ہو جانا
عليم بذات الصدور ہونا ہے!!! اور اس نوجوان کے
عليم بذات الصدور ہونے کے عقیدہ کی تصدیق صاحب تبلیغی نصاب مولانا محمد زکریا صاحب بھی کر رہے ہیں!!!
اور اس صوفی نو جوان کو دوزخ نظر آنے کا قائل ہونا ، اس صوفی نو جوان کو عالم الغیب ماننا ہے۔ اور اس عقیدہ کی تصدیق صاحب تبلیغی نصاب مولانا محمد زکریا صاحب بھی کر رہے ہیں!!!
ان امور کو ہم کرامات نہیں بلکہ اولیاء الشیطان کے کرتوت ضرور مانتے ہیں!!!
ہاں آپ کی تحریر یہ بیان کرتی ہے کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ کرامات کے ذریعے کوئی
عالم الغیب بھی بن سکتا ہے اور
عليم بذات الصدور بھی بن سکتا ہے!!
اور ہم
عالم الغیب ہونے میں اور
علیم بذات الصدور ہونے میں اللہ کی توحید کے قائل ہیں!!
جبکہ تبلیغی جماعت اور آپ
عالم الغیب ہونے میں اور
علیم بذات الصدور ہونے میں اللہ کی توحید کے کے منافی صوفیوں کو اللہ کی ان صفات میں شریک سمجھتے ہو!!!!
اس سے اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کشف ہو تو عالم الغیب ماننا اس کو لازمی ہے تو اوپر جریج کے واقعہ سے بھی جریج کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ کیا آپ جریج کو عالم الغیب مانتے ہیں
تبلیغی نصاب کے مذکورہ واقعہ کو جریج کے واقعہ پر قیاس باطل ہے !!!وجہ اوپر بیان کر دی گئی ہے!!!