ابن داؤد صاحب نے تبلیغی نصاب سے ایک اقتباس پیش کیا تھا
ابن داؤد صاحب اگر آپ اس اقتباس کو نقل کرنے کے بعد اگر آپ بتادیتے اپ کواعتراض کہاں کہاں ہے تو جواب دینے میں آسانی رہتی ۔
تلمیذ صاحب! آپ کو اس اقتباس میں شرک نظر نہیں آرہا!! کیا عجیب بات ہے!!! چلیں آپ کی خواہش کے مطابق ہم آپ کو اس اقتباس سے چند بدعات و کفرو شرک دکھلادیتے ہیں!!
بہرحال میں آپ کے متوقع اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ تحریر کرتا ہوں
اس تحریر ہے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ تبلیغی جماعت والوں کا عقیدہ ہے اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں
اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی
ورنہ ایسی تحریر والا واقعہ ان کی کتب میں نہ پایا جاتا ۔
آپ نے یہ بھی بڑی ہی عجیب بات کی ہے!! آپ نے جو جملہ نقل کیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرطبی صاحب نے خاموشی سے یہ ٹرانزکشن کی تھی!! اور محفل میں موجود لوگوں کو بتلایا نہ تھا۔ اور اسی کے بعد والا جملہ آپ کو نظر نہ آیا!!!
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
آپ کے اخذ کردہ عقیدہ کی نفی کر رہا ہے کہ نہ بتلانے کے باوجود، وہ نوجوان قرطبی صاحب کے دل ہی دل میں کی ہوئی ٹرانزکشن سے آگاہ ہو گیا!! اور اس غیب کا علم بھی اسے ہو گیا!! یہاں سے تبلیغی جماعت کا یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ تبلغی نصاب کے مصنف ، اس کتاب کی تبلیغ کرنے والے اس عقیدہ کی دعوت دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ ایسے صوفی بھی عالم الغیب اور عليم بذات الصدور ہیں!!
اور تملیذ صاحب! یوں کہئے کہ:
اس تحریر ہے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ تبلیغی جماعت والوں کا عقیدہ ہے اللہ سوا کچھ اور بھی عالم الغیب ہیں ورنہ ایسی تحریر والا واقعہ ان کی کتب میں نہ پایا جاتا ۔
او ر بات صرف کتب میں واقعہ کے وجود کی نہیں ، اس کی توثیق و قبولیت سے کی ہے!!!
باقی اس قصہ میں ایک کرامت کا ذکر ہے ۔ اسی اقتباس پر بات آکے بڑہانے سے پہلے آپ صرف اتنا بتادیں کہ آپ کے نذدیک کرامت کی کیا حقیقت ہے ۔
مجھے امید ہے جواب آئے گا کہ پہلے آپ بتائیں ۔
آپ مجھ سے سوال ضرور کیجیئے گا لیکن پہلے میرے سوال کا جواب دینے کے بعد
تلمیذ صاحب! یہ آپ کا معقول سوال ہے اور موضوع سے متعلقہ ہے، ہم آپ کے موضوع سے متعلقہ ہر معقول سوال کا جواب دیں گے: سو ہمارا جواب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!!
کرامات خلاف قرآن و سنت نہیں ہوتیں! جو خلاف قرآن و سنت ہو وہ بدعت، کفر و شرک ہے!!!
اب ہم آپ کو اس اقتباس سے چند بدعات و کفرو شرک دکھلادیتے ہیں!!
شیخ ابو یزید قرطبی فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا اله الا الله پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سنکر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہ آخرت بنایا۔
سنی سنائی بات پر عمل کیا !! لیکن یہ بحث بعد میں!!!
ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔
تردد چہ معنی داورد!! سیدھا سیدھا اسے جھوٹ و کفر شرک کہتے کہ یہ سمجھنا کہ کسی امتی کو جنت دوزخ کا کشف ہوتا ہے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے!!!
ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃ اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔
کسی امتی کا دوزخ نظر آنے کا دعوی کفریہ شرکیہ دعویٰ
قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا۔
قرطبی صاحب بھی ایک بدعت کے کی مدد سے یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ نوجوان، شیطان کا اتنا بڑا چیلہ ہے کہ جنت دوزخ کے دیکھنے کا دعوی کر رہا ہے!!
چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔
یہ بدعت ہے ، اس پر بعد میں گفتگو کرتے ہیں!!
میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
یہ اس نوجوان ک عالم الغیب اور عليم بذات الصدور قرار دے رہے ہیں!! اور قرطبی صاحب! اس کی تصدیق کر رہے ہیں!!
قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
قرطبی صاحب اس سنی سنائی بات کو اپنے اس بدعتی ، کفریہ و شرکیہ تجربہ کی بنیاد پر صحیح قرار دے رہے ہیں!! لیکن یہ بات بعد میں!!
اور اسی بدعتی ، کفریہ شرکیہ تجربہ کی بنیاد پر قرطبی صاحب اس نوجون کے عالم الغیب اور عليم بذات الصدور ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں!!
یہ ایک وقعہ ہے اس قسم کے نامعلوم کتنے وقعات اس امت کے افراد میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔
یہ قول مولانا محمد زکریا صاحب کا ہے، اور صاحب تبلیغی نصاب اس کفریہ شرکیہ عقیدہ کو قبول کرتے ہوئے اس کفریہ شرکیہ عقیدہ کی دعوت دے رہے ہیں!!