• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن دائود صاحب ذرااپنے اس پیراگراف کی تشریح کردیں ۔
کیاآپ کاکہناہے کہ بچہ بولنے کی عمر کا ہوگیاتھا اوراس نے اپنی ماں سے سن کر باپ کا نام بتادیا۔
یہ تصدیق اس لئے کرانی ضروری ہے کہ تاکہ آپ اپنی بات سے بعد مین پلٹ نہ جائیں۔
نہیں!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داؤد صاحب نے کہا
بچہ کا کلام کرنا خرق عادت ہے!! خلاف قرآن و سنت نہیں!!!
جریج نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا کہ نہ جریج کے کلام سے ایسی کوئی بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ بچہ کلام کرے گا!!
بھائی بچہ کا کلام کرنا خرق عادت ہے ۔ اس بات پر آپ کا اور میرا اتفاق ہوا ۔ لیکن وہ کیا وجہ تھی کہ جریج کو پتا چل گيا کہ یہ بچہ خرق عادت کلام کرے گا ۔ اگر یہ بچہ کلام کرنے والی عمر میں ہوتا تو کوئی اشکال نہ تھا ۔ چلو ایک کلام کرنے والے بچے کو جریج نے بلایا اور اس سے سوال کیا ۔جیسا کہ آپ نے کہا پاکستانی پولیس کرتی ہے لیکن خرق عادت کلام ہر جگہ نہیں ہوتا ۔ جریج کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ بچہ خرق عادت کلام کرے گا ۔ آپ تو ایسے صاحب کشف کو عالم غیب مانتے ہیں ۔ اگر یہ کشف نہ تھا تو کیا تھا۔
پہلے میں نے سعودی علماء کا فتوی نقل کیا تھا اور حوالہ نہ دیا تھا اور حدیث چھوڑ دی تھی ۔ میرے خیال میں آپ اس حدیث پر مطلع ہوں گے اس لئیے حدیث نہ لکھی تھی ۔
سعودیہ میں بھی فتووں کی کافی بہتات ہو گئی ہے ۔ اور کئی جاہل افراد نے بھی فتوی دینے شروع کردیے ۔ دو سال یا تین سال پہلے کی بات ہے میں نے الحیاہ اخبار میں خبر پڑہی تھی کہ وہاں کسی نے فتوی دیا تھا کہ گھڑی باندھننا بدعت ہے ۔ تو وہاں حکومتی سطح پر اس کا نوٹس لیا گيا اسی طرح کی صورت حال سے نبٹنے کے لئیے اور غلط فتاوی کے سد باب کے لئیے وہاں کی حکومت نے کچھ کام کيے ان میں سے ایک کام یہ کیا وہاں کے شاہی خاندان کی حکومت نے ایک ویب سائٹ بنائی جس کا نام Alifta.net ہے ۔ میں نے یہیں سے فتوی لیا تھا
اس پر تمام کبار علماء کے فتاوی جانچ پڑتال کے بعد اپلوڈ کیے گے ہیں ۔ اگر ابن باز رحمہ اللہ نے زبانی فتوی دیا تھا اور ان سے کچھ نسیان ہوا تھا تو اس تحریری شکل میں کچھ حوالہ ہوتا ۔ بہر حال یہ ہمارا بنیادی موضوع نہیں اس کا ذکر ویسے ہی آگیا
چلیں میں پوری حدیث لکھتا ہوں ۔اور یہ بتائیں کہ اس حدیث میں مذکور تیسرے بچہ کو کیسے مہد میں کشف ہوا کہ سوار شخض ظالم ہے اور باندی نے نا زنا کیا اور نہ چوری کی ۔ کیا یہ کشف نہیں ۔ ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ؟ (معاذ اللہ )


حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَ
ا " .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
ابن داؤد صاحب نے کہا
اب جناب من! اس بچہ نے یہ خبر کسی سے خبر پانے کی بنیاد پرنہ ہونے کی کوئی بات ہی نہیں!! اور بچہ اپنے باپ کا نام کسی سے خبر پانے کی بنیاد پر دیتا ہے!!! اور عموما وہ اس کی ماں ہی ہوتی ہے ، جو اسے بچپن میں سکھلاتی ہے کہ فلان تیرا باپ ہے!!! ابا بولو !! ابو بولو!!! یا پاپا بولو!!! جب یہ ماں سکھلاتی ہے !! تب بچہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا باپ کون ہے!!!
بھائی ایک بچہ جو مہد میں ہے اس کو کون ماں سکھاتی ہے کہ اس کا باپ کون تھا ۔ جبکہ وہ شادی شدہ جوڑا بھی نہ تھا ۔ اس عورت نے جریج کو پھانسنے کے لئیے سب کیا تھا تواس نے اس بچہ کو یہ کیوں نہ سکھایا کہ اس کا باپ جریج ہے ۔ تاکہ جب وہ بچہ کلام کرے تو باپ کے طور پر جریج کا نام لے

مگر کا استعماال
لگتا ہے کہ آپ کو اردو بھی سکھانی پڑے گی ۔
اسلم سلیم کے گھر گیا مگر سلیم گھر پر نہ تھا۔
تو کیا یہاں مگر پہلے جملے کی نفی کر رہا ہے کہ اسلم سلیم کے گھر ہی نہیں گیا ۔ نہی بھائی یہاں مگر ایک اور حقیقت کا بتارہا ہے ۔ اس سے پہلے جملے کی نفی نہیں ہوتی ۔
اسی طرح
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
یہاں بھی مگر پہلے حصے کی نفی نہیں کر رہا۔
ابن داؤد صاحب نے مذید کہا
اور اس صوفی نو جوان کو دوزخ نظر آنے کا قائل ہونا ، اس صوفی نو جوان کو عالم الغیب ماننا ہے۔
یعنی جس کو دوزخ نظر آئے اس کو عالم الغیب مانا جاتا ہے ۔ تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جنت و دوزح کے حالات نظر آئے تو کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانتے ہیں ؟

بھائی بات یہ ہے کہ اولياء کی کرامت میں اولیاء کا کوئی تصرف نہیں ہوتا ۔ اللہ کے حکم وہ کرامت اس ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے ۔
ایک جماعت نے نے کرامت سے یہ سمجھا کہ اس میں ولی کا تصرف شامل ہے تو اس نے اولياء سے مانگنا شروع کردیا ۔ ایک جماعت نے کہا نہیں اولیاء میں تو ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ اپنے تصرف سے ایسی کرامت دکھاسکیں۔ اس نے کرامت کے وقوع ہونے سے انکار کردیا ۔ ایک تیسری جماعت نےوسط طریقہ اختیار کرتے ہوئے کرامت کو من اللہ سمجھا اور ولی کا کوئی تصرف نہ مانا لیکن اس ولی کی عزت کی اور مانگا صرف اس ذات سے جس نے ولی کے ہاتھ پر کرامت ظاہر کی ۔ پاک و ہند میں تینوں جماعت موجود ہیں ۔ نام بتانے کی ضرورت نہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
ابن داؤد صاحب نے کہا
بچہ کا کلام کرنا خرق عادت ہے!! خلاف قرآن و سنت نہیں!!!
جریج نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا کہ نہ جریج کے کلام سے ایسی کوئی بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ بچہ کلام کرے گا!!
بھائی بچہ کا کلام کرنا خرق عادت ہے ۔ اس بات پر آپ کا اور میرا اتفاق ہوا ۔
الحمدللہ!
لیکن وہ کیا وجہ تھی کہ جریج کو پتا چل گيا کہ یہ بچہ خرق عادت کلام کرے گا ۔ اگر یہ بچہ کلام کرنے والی عمر میں ہوتا تو کوئی اشکال نہ تھا ۔ چلو ایک کلام کرنے والے بچے کو جریج نے بلایا اور اس سے سوال کیا ۔
یہ بات اس عبارت میں موجود ہی نہیں کہ جریج کو معلوم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!! جبکہ آپ کی پیش کردہ حدیث کے ہی الفاظ اس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ جریج نے نماز کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کی اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے بچہ کو مخاطب کیا!!!
دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ،
تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟
جیسا کہ آپ نے کہا پاکستانی پولیس کرتی ہے لیکن خرق عادت کلام ہر جگہ نہیں ہوتا ۔ جریج کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ بچہ خرق عادت کلام کرے گا ۔ آپ تو ایسے صاحب کشف کو عالم غیب مانتے ہیں ۔ اگر یہ کشف نہ تھا تو کیا تھا۔
پہلے یہ تو ثابت کریں کہ جریج کو اس کا علم تھا!!! پھر بعد کے منتقی نتیجہ اخذ کیجئے گا!!!
پہلے میں نے سعودی علماء کا فتوی نقل کیا تھا اور حوالہ نہ دیا تھا اور حدیث چھوڑ دی تھی ۔ میرے خیال میں آپ اس حدیث پر مطلع ہوں گے اس لئیے حدیث نہ لکھی تھی ۔
سعودیہ میں بھی فتووں کی کافی بہتات ہو گئی ہے ۔ اور کئی جاہل افراد نے بھی فتوی دینے شروع کردیے ۔ دو سال یا تین سال پہلے کی بات ہے میں نے الحیاہ اخبار میں خبر پڑہی تھی کہ وہاں کسی نے فتوی دیا تھا کہ گھڑی باندھننا بدعت ہے ۔ تو وہاں حکومتی سطح پر اس کا نوٹس لیا گيا اسی طرح کی صورت حال سے نبٹنے کے لئیے اور غلط فتاوی کے سد باب کے لئیے وہاں کی حکومت نے کچھ کام کيے ان میں سے ایک کام یہ کیا وہاں کے شاہی خاندان کی حکومت نے ایک ویب سائٹ بنائی جس کا نام Alifta.net ہے ۔ میں نے یہیں سے فتوی لیا تھا
اس پر تمام کبار علماء کے فتاوی جانچ پڑتال کے بعد اپلوڈ کیے گے ہیں ۔ اگر ابن باز رحمہ اللہ نے زبانی فتوی دیا تھا اور ان سے کچھ نسیان ہوا تھا تو اس تحریری شکل میں کچھ حوالہ ہوتا ۔ بہر حال یہ ہمارا بنیادی موضوع نہیں اس کا ذکر ویسے ہی آگیا
آپ کے پیش کردہ اعتراض کے دو نکات والمكاشفات كالنظر إلى اللوح، وظهور الملائكة تو ختم ہو گئے!! لیکن؛
لیکن آپ کا عقیدہ مزید واضح ہو گیا کہ آپ تو "النظر إلى اللوح" کے دعوی کو بھی کرامات کہہ کر تسلیم کرتے ہو!!! یعنی کہ آپ اس شرک کے قائل بھی ہو کہ کوئی امتی لوح محفوظ کو دیکھ سکتا ہے!!
ویسے حکیم الامت دیوبندیہ لوح محفوظ کو دیکھنے کا دعوی بھی کر چکے ہیں!!! اب یہ نہیں معلوم کہ خود دیکھنے کا ہے یا کسی اور صوفی کے دیکھنے کا ہے!!! حوالہ مطلوب ہو تو پیش کر دیا جائے گا!!!
چلیں میں پوری حدیث لکھتا ہوں ۔اور یہ بتائیں کہ اس حدیث میں مذکور تیسرے بچہ کو کیسے مہد میں کشف ہوا کہ سوار شخض ظالم ہے اور باندی نے نا زنا کیا اور نہ چوری کی ۔ کیا یہ کشف نہیں ۔ ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ؟ (معاذ اللہ )

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا " .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

ابن داؤد صاحب نے کہا
اب جناب من! اس بچہ نے یہ خبر کسی سے خبر پانے کی بنیاد پرنہ ہونے کی کوئی بات ہی نہیں!! اور بچہ اپنے باپ کا نام کسی سے خبر پانے کی بنیاد پر دیتا ہے!!! اور عموما وہ اس کی ماں ہی ہوتی ہے ، جو اسے بچپن میں سکھلاتی ہے کہ فلان تیرا باپ ہے!!! ابا بولو !! ابو بولو!!! یا پاپا بولو!!! جب یہ ماں سکھلاتی ہے !! تب بچہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا باپ کون ہے!!!
بھائی ایک بچہ جو مہد میں ہے اس کو کون ماں سکھاتی ہے کہ اس کا باپ کون تھا ۔ جبکہ وہ شادی شدہ جوڑا بھی نہ تھا ۔ اس عورت نے جریج کو پھانسنے کے لئیے سب کیا تھا تواس نے اس بچہ کو یہ کیوں نہ سکھایا کہ اس کا باپ جریج ہے ۔ تاکہ جب وہ بچہ کلام کرے تو باپ کے طور پر جریج کا نام لے
تلمیذ صاحب! آپ کی اردو واقعی بہت کمزور ہے!! میں نے یہ بات کہاں لکھی ہے کہ اس بچہ کی ماں نے اسے سکھلایا تھا؟ میں نے تو صرف اتنا لکھا ہے کہ "عموما" ایسا ہوتا ہے!!! اور یہ کہا ہے کہ اس عبارت میں اس بات کی نفی نہیں کہ بچہ نے کسی سے خبر ملے بغیر یہ بات کہہ دی!!!!
تلمیذ صاحب! آپ کو ایک حدیث پیش کرتا ہوں، اور اس حدیث سے آپ کی تمام کج بحثی کے دروازے بند!! ان شاء اللہ!!
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ
مگر کا استعماال
لگتا ہے کہ آپ کو اردو بھی سکھانی پڑے گی ۔
اسلم سلیم کے گھر گیا مگر سلیم گھر پر نہ تھا۔
تو کیا یہاں مگر پہلے جملے کی نفی کر رہا ہے کہ اسلم سلیم کے گھر ہی نہیں گیا ۔ نہی بھائی یہاں مگر ایک اور حقیقت کا بتارہا ہے ۔ اس سے پہلے جملے کی نفی نہیں ہوتی ۔
مگر اس "مگر" کے آجانے سے پہلے اور دوسرے فقرہ میں ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے!! اور اس جملہ میں وہ تعلق وقت کا ہے!!کہ جس وقت "اسلم سلیم کے گھر گیا اس " اس وقت " سلیم گھر پر نہ تھا"۔ کبھی یہ تعلق نفی کا بھی ہوتا ہے!! جیسا کہ
اسی طرح
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
یہاں بھی مگر پہلے حصے کی نفی نہیں کر رہا۔
جناب من بلکل یہاں پہلے دوسرا فقرہ قرطبی کے پہلے فقرہ کے گمان کی نفی ہے!! اور آپ کا دونوں فقروں کو بے تعلق کردینے میں "مگر" مانع ہے!!
تلمیذ صاحب!
کچھ کھیل نہیں ہے داغ یاروں سے یہ کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
ابن داؤد صاحب نے مذید کہا
اور اس صوفی نو جوان کو دوزخ نظر آنے کا قائل ہونا ، اس صوفی نو جوان کو عالم الغیب ماننا ہے۔
یعنی جس کو دوزخ نظر آئے اس کو عالم الغیب مانا جاتا ہے ۔ تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جنت و دوزح کے حالات نظر آئے تو کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانتے ہیں ؟
تلمیذ صاحب! آپ یہ اعلان کردو کہ آپ کے نزدیک وہ صوفی نوجوان نبی تھا!! ہم اپنا "یہ "اعتراض واپس لے لیں گے!!!
اب اگر آپ کو انبیاء علیہ السلام کے تعلق سے معجزات اور مطلع علی الغیب کا معاملہ نہیں معلوم تو الگ بات ہے؟
تلمیذ صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ تبلیغی جماعت کے کفر و شرک کے دفاع میں انبیاء علیہ السلام کے خصوصی معاملات پر قیاس نہیں کریں گے!! وگرنہ پھر مرزا قادیانی کی طرح کے قیاسی نبی پیدا ہونے کا احتمال ہے!!
بھائی بات یہ ہے کہ اولياء کی کرامت میں اولیاء کا کوئی تصرف نہیں ہوتا ۔ اللہ کے حکم وہ کرامت اس ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے ۔
ایک جماعت نے نے کرامت سے یہ سمجھا کہ اس میں ولی کا تصرف شامل ہے تو اس نے اولياء سے مانگنا شروع کردیا ۔
یہ جماعت دیو بندیہ بریلویہ کی صوفی جماعت ہے!!
ایک جماعت نے کہا نہیں اولیاء میں تو ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ اپنے تصرف سے ایسی کرامت دکھاسکیں۔ اس نے کرامت کے وقوع ہونے سے انکار کردیا ۔
یہ منکر حدیث کی جماعت ہے!!
ایک تیسری جماعت نےوسط طریقہ اختیار کرتے ہوئے کرامت کو من اللہ سمجھا اور ولی کا کوئی تصرف نہ مانا لیکن اس ولی کی عزت کی اور مانگا صرف اس ذات سے جس نے ولی کے ہاتھ پر کرامت ظاہر کی ۔ پاک و ہند میں تینوں جماعت موجود ہیں ۔
یہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث کی جماعت ہے!!
نام بتانے کی ضرورت نہیں
نام ہم نے بتلا دیئے ہیں!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داؤد صاحب آپ کا طرز استدلال غلط ہے
یہ بات اس عبارت میں موجود ہی نہیں کہ جریج کو معلوم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!
پہلے یہ تو ثابت کریں کہ جریج کو اس کا علم تھا!!! پھر بعد کے منتقی نتیجہ اخذ کیجئے گا!!!
اور یہ کہا ہے کہ اس عبارت میں اس بات کی نفی نہیں کہ بچہ نے کسی سے خبر ملے بغیر یہ بات کہہ دی!!!!
آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ جب تک حدیث میں یہ صریح لفظ نہ ہو گا فلاں کو کشف ہوا اور اس کو اس کشف سے فلاں چیز کا علم ہوا تب تک آپ اس کشف کو نہ مانیں گے

اگر اتنے صریح الفاظ کے بغیر آپ کوئی حدیث کا حکم نہیں مانتے تو آپ کے لئیے بہت مشکل ہو جائے گی
تو پھر آپ نماز کیسے ثابت کریں گے ؟
1- حدیث میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں فرمایا کہ نماز میں رفع الیدین کرنا سنت ہے نماز میں تا حیات کرو۔

2۔ کیا نبی اکرم صلی علیہ و سلم نے کہا کہ نماز میں سجدہ فرض ہے ۔ ہر رکعت میں دو سجدہ تا حیات کرو
اگر اس طرح کی صریح الفاظ کے ہم مطالبہ شروع کردیں تو آپ اپنی نماز بھی ثابت نہیں کر سکتے
جو اللہ گود کے بچے سے خرق عادت بلوارہا ہے تو کیا وہ اللہ اس بچے کو بغیر کسی ذریعہ کے بتا نہیں سکتا کہ اس کا باپ کوں ہے ۔ کیا آپ اللہ کو سبب کا پابند سمجھتے ہیں ؟ 

تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا

عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ
کشف لازمی نہیں فرشتوں کے بتانے سے ہو ۔ اور طرح سے بھی ممکن ہے۔
اس "مگر" کے آجانے سے پہلے اور دوسرے فقرہ میں ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے!! اور اس جملہ میں وہ تعلق وقت کا ہے!!کہ جس وقت "اسلم سلیم کے گھر گیا اس " اس وقت " سلیم گھر پر نہ تھا"۔ کبھی یہ تعلق نفی کا بھی ہوتا ہے!
آپ کو مگر کا استعمال مثال سے بھی بتایا پھر بھی آپ بضد ہیں کہ مگر پہلے جملہ کی نفی کر رہا ہے
پہلے آپ اس پر اردو گرامر کی کتب دیکھ لیں پھر بات کریں

آپ نے مذید کہا
تلمیذ صاحب! آپ یہ اعلان کردو کہ آپ کے نزدیک وہ صوفی نوجوان نبی تھا!! ہم اپنا "یہ "اعتراض واپس لے لیں گے!!!
اب اگر آپ کو انبیاء علیہ السلام کے تعلق سے معجزات اور مطلع علی الغیب کا معاملہ نہیں معلوم تو الگ بات ہے؟
تلمیذ صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ تبلیغی جماعت کے کفر و شرک کے دفاع میں انبیاء علیہ السلام کے خصوصی معاملات پر قیاس نہیں کریں گے!! وگرنہ پھر مرزا قادیانی کی طرح کے قیاسی نبی پیدا ہونے کا احتمال ہے!!
نہیں بھائی ہم کسی امتی کو نبی پر قیاس نہیں کرتے۔
آپ کی باتوں سے یہ تاثر ملا کہ آپ دوزخ پر مطلع ہونے کو شرکیہ دعوی سمجھتے ہیں ۔ اسی تناظر میں آپ سے سوال پوچھا تھا ۔ کیا آپ کچھ وضاحت کردیں گے ؟

نام ہم نے بتلا دیئے ہیں!!
غلط نام بتالائے ۔ بہر حال بحث کسی اور طرف نہ جائے ۔ اس لئیے اس بات پر مزید نہیں کچھ کہ رہا ۔ صرف اتنا کہ رہا ہوں کہ آپ اپنی پوسٹ میں کرامت کے وقوع کا انکار کر رہے ہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد صاحب آپ کا طرز استدلال غلط ہے
یہ بات اس عبارت میں موجود ہی نہیں کہ جریج کو معلوم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!
پہلے یہ تو ثابت کریں کہ جریج کو اس کا علم تھا!!! پھر بعد کے منتقی نتیجہ اخذ کیجئے گا!!!
اور یہ کہا ہے کہ اس عبارت میں اس بات کی نفی نہیں کہ بچہ نے کسی سے خبر ملے بغیر یہ بات کہہ دی!!!!
آپ نے پھر دعوی بلا دلیل کر یا!! اب ہمارے استدلال کی غلطی بتلائیں اور بتلائیں کن الفاظ سے آپ یہ اخذ کر رہے ہیں کہ جریج کو علم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!! گو کہ یہ بھی ایک الگ بات ہے کہ جریج کو علم ہو جانا بھی اسی حدیث کے تحت ٹھہرے گا۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ
مگر پہلے آپ وہ الفاظ بتلائیں تو !! کہ جس سے یہ اخذ کیا جا سکے!! جبکہ آپ کو وہ الفاظ ہم نے بتلائیں ہیں کہ جریج نے نماز کا وسیلہ اختیار کیا اور اللہ پر توکل کیا!!!
آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ جب تک حدیث میں یہ صریح لفظ نہ ہو گا فلاں کو کشف ہوا اور اس کو اس کشف سے فلاں چیز کا علم ہوا تب تک آپ اس کشف کو نہ مانیں گے
جناب من! ہم الفاظ کی صراحت، استنباط و استدلال تمام امور کے قائل ہیں!! مگر ایسی کوئی بات ہو تو صحیح !! آپ وہ الفاظ بتلائیں ، جس سے یہ استدلال و استنباط کیا جا سکے!!! مگر یاد رہے!!! کہ وہ استدلال و استنباط قابل قبول ہو!!
ورنہ شعیہ روافض و قادیانی بھی بزعم خویش بہت استدلال و استنباط کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں!!!
اگر اتنے صریح الفاظ کے بغیر آپ کوئی حدیث کا حکم نہیں مانتے تو آپ کے لئیے بہت مشکل ہو جائے گی
تو پھر آپ نماز کیسے ثابت کریں گے ؟
1- حدیث میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں فرمایا کہ نماز میں رفع الیدین کرنا سنت ہے نماز میں تا حیات کرو۔

2۔ کیا نبی اکرم صلی علیہ و سلم نے کہا کہ نماز میں سجدہ فرض ہے ۔ ہر رکعت میں دو سجدہ تا حیات کرو
اگر اس طرح کی صریح الفاظ کے ہم مطالبہ شروع کردیں تو آپ اپنی نماز بھی ثابت نہیں کر سکتے
جناب من ! کبھی نماز کے ان موضوع پر بھی آپ سے بات ہو جائے گی! انشاءاللہ!!
اور اللہ کی توفیق سے ہم حنفی نماز کو بھی باطل ثابت کریں گے!! ایک نمونہ آپ مندرجہ ذیل تھریڈ میں دیکھ سکتے ہیں!!
حنفیوں کی نماز باطل
اور اہل سنت والجماعت اہل الحدیث اپنی نماز ماخذ دین محمدی سے ہمیشہ بتلاتے رہیں ہیں!! اور تا قیامت بتلاتے رہیں گے!!
آپ اس موضوع پر ایک تھریڈ قائم کر لیں اور دیکھیں کہ مشکل کس کو پڑ جاتی ہے!!
یہ تھریڈ بھی ویسے ایک "مقلدہ" نے قائم کیا تھا اور اب مقلدین پر مشکل آن پڑی ہے!!!

جو اللہ گود کے بچے سے خرق عادت بلوارہا ہے تو کیا وہ اللہ اس بچے کو بغیر کسی ذریعہ کے بتا نہیں سکتا کہ اس کا باپ کوں ہے ۔ کیا آپ اللہ کو سبب کا پابند سمجھتے ہیں ؟
اسے کہتے ہیں باطل طرز استدلال!! جناب من! اب قادیانی بھی یہ کہتے ہیں اللہ ایک اور نبی کیوں پیدا نہیں کرسکتا؟؟ کیا اللہ اس کی قدرت نہیں رکھتا!! آپ کا استدلال بھی قادیانیوں کی طرز کا ہے!!!
کل کو کوئی آپ کی طرح کا منچلا یہ سوال کر دے کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہو کہ اللہ باپ بننے یا ماں بننے کی قدرت نہیں رکھتا! معاذاللہ!!
لہذا ، جناب تلمیذ صاحب! تلیغی جماعت کے کفر و شرک کے دفاع کے لئے اللہ کی قدرت پر سوال کرنے سے گریز کریں!!
آپ کو انبیاء کے حوالے سے اعتراض کرنے سے منع کیا تو آپ تو اللہ کی قدرت پر سوال کرنے لگ گئے!!!

تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا

عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ
کشف لازمی نہیں فرشتوں کے بتانے سے ہو ۔ اور طرح سے بھی ممکن ہے۔
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
ہاں ! فرشتوں کے بتانے کے علاوہ جو ممکن ہے وہ بھی آپ کو بیان کر دیتے ہیں!!!
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورة الأنعام121)
اس "مگر" کے آجانے سے پہلے اور دوسرے فقرہ میں ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے!! اور اس جملہ میں وہ تعلق وقت کا ہے!!کہ جس وقت "اسلم سلیم کے گھر گیا اس " اس وقت " سلیم گھر پر نہ تھا"۔ کبھی یہ تعلق نفی کا بھی ہوتا ہے!
آپ کو مگر کا استعمال مثال سے بھی بتایا پھر بھی آپ بضد ہیں کہ مگر پہلے جملہ کی نفی کر رہا ہے
پہلے آپ اس پر اردو گرامر کی کتب دیکھ لیں پھر بات کریں
تلمیذ صاحب!! "مگر" ہمیشہ سابقہ اور لاحقہ جملہ میں ربط کو لازم ہے!! مگر آپ " مگر" کے باوجود دونوں جملہ کو بے ربط قرار دے رہے ہو۔!!
"مگر" سابقہ جملہ کی نفی بھی کرتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا!!!
اور جناب تلمیذ صاحب!!
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
آپ نے مذید کہا
تلمیذ صاحب! آپ یہ اعلان کردو کہ آپ کے نزدیک وہ صوفی نوجوان نبی تھا!! ہم اپنا "یہ "اعتراض واپس لے لیں گے!!! اب اگر آپ کو انبیاء علیہ السلام کے تعلق سے معجزات اور مطلع علی الغیب کا معاملہ نہیں معلوم تو الگ بات ہے؟
تلمیذ صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ تبلیغی جماعت کے کفر و شرک کے دفاع میں انبیاء علیہ السلام کے خصوصی معاملات پر قیاس نہیں کریں گے!! وگرنہ پھر مرزا قادیانی کی طرح کے قیاسی نبی پیدا ہونے کا احتمال ہے!!
نہیں بھائی ہم کسی امتی کو نبی پر قیاس نہیں کرتے۔
جزاک اللہ!! آئندہ اس طرح کے اعتراض سے گریز کریں !! اور اس تحریر میں آپ نے اللہ کی قدرت کے حوالہ سے جو بات کی ہے اس سے بھی رجوع کریں!!!
آپ کی باتوں سے یہ تاثر ملا کہ آپ دوزخ پر مطلع ہونے کو شرکیہ دعوی سمجھتے ہیں ۔ اسی تناظر میں آپ سے سوال پوچھا تھا ۔ کیا آپ کچھ وضاحت کردیں گے ؟
جناب من! آپ ہماری تحریر کا مطالعہ بغور کریں!! ہم نے وہاں صراحت سے امتی کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں :
تردد چہ معنی داورد!! سیدھا سیدھا اسے جھوٹ و کفر شرک کہتے کہ یہ سمجھنا کہ کسی امتی کو جنت دوزخ کا کشف ہوتا ہے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے!!!
نام ہم نے بتلا دیئے ہیں!!
غلط نام بتالائے ۔ بہر حال بحث کسی اور طرف نہ جائے ۔ اس لئیے اس بات پر مزید نہیں کچھ کہ رہا ۔ صرف اتنا کہ رہا ہوں کہ آپ اپنی پوسٹ میں کرامت کے وقوع کا انکار کر رہے ہیں ۔
ہم کرامت کا انکار نہیں کرتے!! ہاں کسی کفریہ شرکیہ دعوی کو کرامات نہیں مانتے!! بلکہ اسے شیطان کے چیلوں کے کرتوت سے تعبیر کرتے ہیں!!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داؤد صاحب نے کہا

آپ نے پھر دعوی بلا دلیل کر یا!! اب ہمارے استدلال کی غلطی بتلائیں اور بتلائیں کن الفاظ سے آپ یہ اخذ کر رہے ہیں کہ جریج کو علم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!! گو کہ یہ بھی ایک الگ بات ہے کہ جریج کو علم ہو جانا بھی اسی حدیث کے تحت ٹھہرے گا۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ

جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
آپ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آگر جریج ، یا جریج والے واقعہ میں بچے کو یا حدیث میں مذکور بچہ کو اگر کچھ کشف کے ذریعے معلوم ہوا تو آپ کا آخری رد یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں فرشتے غیر انبیاء سے کلام کرتے تھے اور اس امت میں اگر یہ ممکن ہے تو صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئیے باقیوں کے لئیے نہیں ۔ اس حدیث (مناقب عمر ) کے حوالہ سے پہلے آپ کچھ وضاحتیں فرادیں
١- يہاں محدث سے آپ کیا مراد سمجھتے ہیں ؟
٢۔ کیا کوئی محدث اس امت میں تا قیامت نہیں ہو سکتا ؟
٣۔ کیا حضرت عمر کے علاوہ اس امت میں کسی سے بھی فرشتہ کلام نہیں کر سکتے ؟
ان وضاحتوں کے بعد بات آگے بڑھ سکتی ہے

ابن داؤد صاحب نے کہا

جناب من! ہم الفاظ کی صراحت، استنباط و استدلال تمام امور کے قائل ہیں!!
چلیں آگے دیکھ لیتے ہیں
جناب من ! کبھی نماز کے ان موضوع پر بھی آپ سے بات ہو جائے گی! انشاءاللہ!! ۔ اور اللہ کی توفیق سے ہم حنفی نماز کو بھی باطل ثابت کریں گے!!
اگر دوسرے امور سے کبھی فرصت ہوئی تو اس پر بات کرلیں گے ۔ ورنہ روزقیامت فیصلہ ہوجائے گا
اسے کہتے ہیں باطل طرز استدلال!! جناب من! اب قادیانی بھی یہ کہتے ہیں اللہ ایک اور نبی کیوں پیدا نہیں کرسکتا؟؟ کیا اللہ اس کی قدرت نہیں رکھتا!! آپ کا استدلال بھی قادیانیوں کی طرز کا ہے!!!
نہیں بھائی ، آپ میرا مطلب غلط سمجھے ۔ یہاں ذریعہ سے مراد فرشتہ تھی ۔ کیوں کہ آپ کہ رہے ہیں کہ اس امت میں فرشتے کسی امتی سے کلام نہیں کرتے اس لئیے کسی امتی کو کشف نہیں ہو سکتا ۔ میں نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ کیا اللہ بغیر کسی ذریعہ (فرشتہ ) کے کسی فرد کو کسی بات پر مطلع نہیں کرسکتے ۔ کیا کشف کے لئیے فرشتہ سے کلام ہونا ضروری ہے ؟؟؟؟


ابن داؤد صاحب نے کہا

ہاں ! فرشتوں کے بتانے کے علاوہ جو ممکن ہے وہ بھی آپ کو بیان کر دیتے ہیں!!!
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورة الأنعام121)
اس کا مطلب ہے یا تو فرشتہ کسی کو اللہ کے حکم سے کوئی بات بتاتیں ہیں اور یہ امر تو اس امت میں ممکن نہیں کیوں کہ فرشتوں سے کلام ممکن نہیں ۔ تو اس کا مطلب ہے اب صرف الشیاطین کے ظن و اٹکل پچو بچے جو وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتے ہیں ۔کیا یہ استنباط صحیح ہے ۔ واضح جواب دیجیئے گا ۔

ابن داؤد صاحب نے کہا

تلمیذ صاحب!! "مگر" ہمیشہ سابقہ اور لاحقہ جملہ میں ربط کو لازم ہے!! مگر آپ " مگر" کے باوجود دونوں جملہ کو بے ربط قرار دے رہے ہو۔!!
"مگر" سابقہ جملہ کی نفی بھی کرتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا!!!
جلیں کم از کم آپ نے اتنا مان لیا کہ مگر کبھی سابقہ جملے کی نفی نہیں بھی کرتا ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے یہاں مگر سابقہ کی نفی کر رہا ہے ۔
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
ابن داؤد صاحب نے کہا

ہم کرامت کا انکار نہیں کرتے!! ہاں کسی کفریہ شرکیہ دعوی کو کرامات نہیں مانتے!! بلکہ اسے شیطان کے چیلوں کے کرتوت سے تعبیر کرتے ہیں!!!
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
 
شمولیت
مئی 01، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
58
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ​

شیخ ابو یزید قرطبی فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا اله الا الله پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سنکر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔ ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃ اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
یہ ایک وقعہ ہے اس قسم کے نامعلوم کتنے وقعات اس امت کے افراد میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔
تبلیغی نصاب۔ فضائل اعمال۔ فضائل ذکر ۔ باب دوم ۔ فصل سوم ۔ حدیث 17 صفحہ 484
کتب خانہ فیضی لاھور
السلام علیکم

محترم ! کبھی جذباتیت اور مجذوبیت کی کیفیت سے باہر نکل کر واقعات و حادثات کو شریعت کی کسوٹی پر بھی پرکھ لیا جائے تو انسان بھنگڑوں اور قوالیوں پر سبحان اللہ کہنےجیسے ستائشی کلمات سے بچ سکتا ہے۔

شریعت میں صدقہ جاریہ کی جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نیک و پارسا اولاد بھی ہے ۔ مذ کورہ بالا واقعہ میں ایک صاحب کشف نوجوان ولایت کے اس درجہ پر فائز ہے جو زمین پر ہوتے ہوے جنت و جہنم کے مشاہدے کی کرامت سے سرفراز ہے ۔ موصوف کی ریاضتیں اور عبادتیں تو اپنی والدہ کی بخشش کا سامان نہ بن سکیں ، مگر ایک غیر متعلقہ شخص کے وظیفہ کا ایصالِ ثواب اس کے لئیے جہنم سے رہائی کا سبب بن گیا ۔ ویسے اس سارے واقعے میں اور بھی تناقضات پائے جاتے ہیں ۔

علم ِحدیث کے تلامذہ سے یہ بات مخفی نہیں کی فضائل قرآن کے ضمن میں من گھڑت اور موضوع روایات کی اختراع کا ایک سبب یہ "حسنِ نیت" بھی رہی ہے کہ لوگوں کو قرآن کی طرف راغب کیا جا سکے۔ عین ممکن ہے یہی "حسنِ نیت" مذ کورہ بالا واقعہ میں بھی کارفرما ہو۔

علاوہ ازیں مذ کورہ بالا واقعہ میں بےشمار احتمالات ہیں ، یہ واقعہ گھڑنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، مثال کے طور پر
ایک وظیفہ کی خود ساختہ فضیلت بیان کرنے کے لئیے
ایصالِ ثواب کے ایک غیر معتبر طریقے کو ثابت کرنے کی کوشش۔
پیری مریدی کے جواز کے ضمن میں
تصوف کی افیون بھی اس میں شامل ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
=عمران ناصر;37631]
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ​
السلام علیکم

محترم ! کبھی جذباتیت اور مجذوبیت کی کیفیت سے باہر نکل کر واقعات و حادثات کو شریعت کی کسوٹی پر بھی پرکھ لیا جائے تو انسان بھنگڑوں اور قوالیوں پر سبحان اللہ کہنےجیسے ستائشی کلمات سے بچ سکتا ہے۔
بھائی یہاں میں نہ قوالی سنا رہا ہوں اور نہ بھنگڑے ڈال رہا ہوں ۔ صرف قرآن وحديث کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں ۔ اور نہ کوئی جذباتی بات کر رہا ہوں تو ایک الگ بحث کو یہاں چھیڑنے سے کیا فائدہ ؟

شریعت میں صدقہ جاریہ کی جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نیک و پارسا اولاد بھی ہے ۔ مذ کورہ بالا واقعہ میں ایک صاحب کشف نوجوان ولایت کے اس درجہ پر فائز ہے جو زمین پر ہوتے ہوے جنت و جہنم کے مشاہدے کی کرامت سے سرفراز ہے ۔ موصوف کی ریاضتیں اور عبادتیں تو اپنی والدہ کی بخشش کا سامان نہ بن سکیں ، مگر ایک غیر متعلقہ شخص کے وظیفہ کا ایصالِ ثواب اس کے لئیے جہنم سے رہائی کا سبب بن گیا ۔ ویسے اس سارے واقعے میں اور بھی تناقضات پائے جاتے ہیں ۔
بھائی کرامت کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جس بزرگ کے ہاتھ پر کرامت ہوئی وہ اس بزرگ سے زیادہ افضل ہے جس کے ہاتھ پر کرامت نہیں ہوئی ۔ ابھی ابن داؤد صاحب نے حدیث پیش کی جس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ گذشتہ امتوں میں غیر انبیاء سے فرشتے کلام کرتے تھے اور اس امت میں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی یہ خاصیت نہیں ہو سکتی ۔ تو کیا گذشتہ امتیں اس امت سے افضل تھیں
اور اگر ایک کی مغفرت کی دعا قبول ہوجائے تو صرف اس قبولیت کی بنا پر وہ دوسروں سے افضل نہیں ہو سکتا ۔ بعض دفعہ کم درجہ والے کی مغفرت کی دعا قبول ہو جاتی ہے

یہ حدیث پڑہیں

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ : أَنَّ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَفَدُوا إِلَى عُمَرَ ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرَنِيِّينَ ؟ فَجَاءَ ذَلِكَ الرَّجُلُ ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَدْ قَالَ : إِنَّ رَجُلًا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَنِ ، يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ ، لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ قَدْ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ ، فَدَعَا اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوِ الدِّرْهَمِ فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ " . حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ .
تو کیا اویس قرنی حضرت عمر رضی اللی عنہ سے افضل ہیں ؟؟؟
اسی طرح اگر کرامت والے نوجوان کی اپنی ماں کے حق میں دعا قبول نہیں ہوئی اور قرطبی کی دعا قبول ہوئی تو اس میں کیا اشکال ہے ؟؟

علم ِحدیث کے تلامذہ سے یہ بات مخفی نہیں کی فضائل قرآن کے ضمن میں من گھڑت اور موضوع روایات کی اختراع کا ایک سبب یہ "حسنِ نیت" بھی رہی ہے کہ لوگوں کو قرآن کی طرف راغب کیا جا سکے۔ عین ممکن ہے یہی "حسنِ نیت" مذ کورہ بالا واقعہ میں بھی کارفرما ہو۔

علاوہ ازیں مذ کورہ بالا واقعہ میں بےشمار احتمالات ہیں ، یہ واقعہ گھڑنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، مثال کے طور پر
ایک وظیفہ کی خود ساختہ فضیلت بیان کرنے کے لئیے
ایصالِ ثواب کے ایک غیر معتبر طریقے کو ثابت کرنے کی کوشش۔
پیری مریدی کے جواز کے ضمن میں
تصوف کی افیون بھی اس میں شامل ہے
آپ کو اس واقعہ میں کیا بات نظر آئی کہ آپ اس کو من گھڑت کہ رہے ہیں ۔
پہلے وہ دلیل نقل کریں پھر اس کے بعد کے نتائج اخذ کریں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
ابن داؤد صاحب نے کہا
آپ نے پھر دعوی بلا دلیل کر یا!! اب ہمارے استدلال کی غلطی بتلائیں اور بتلائیں کن الفاظ سے آپ یہ اخذ کر رہے ہیں کہ جریج کو علم تھا کہ بچہ کلام کرے گا!! گو کہ یہ بھی ایک الگ بات ہے کہ جریج کو علم ہو جانا بھی اسی حدیث کے تحت ٹھہرے گا۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيما قبلكم من الأمم محدثون فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر " . زاد زكرياء بن أبي زائدة ، عن سعد ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة , قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
آپ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آگر جریج ، یا جریج والے واقعہ میں بچے کو یا حدیث میں مذکور بچہ کو اگر کچھ کشف کے ذریعے معلوم ہوا تو آپ کا آخری رد یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں فرشتے غیر انبیاء سے کلام کرتے تھے اور اس امت میں اگر یہ ممکن ہے تو صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئیے باقیوں کے لئیے نہیں ۔ اس حدیث (مناقب عمر ) کے حوالہ سے پہلے آپ کچھ وضاحتیں فرادیں
تلمیذ صاحب! آخری کیا ہے کیا نہیں!! اس بات کو رہنے دیں!!
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

١- يہاں محدث سے آپ کیا مراد سمجھتے ہیں ؟
قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
٢۔ کیا کوئی محدث اس امت میں تا قیامت نہیں ہو سکتا ؟
قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
٣۔ کیا حضرت عمر کے علاوہ اس امت میں کسی سے بھی فرشتہ کلام نہیں کر سکتے ؟
قال النبي صلى الله عليه وسلم : " لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں
ان وضاحتوں کے بعد بات آگے بڑھ سکتی ہے
ایک وضاحت اور !! کہ اس حدیث میں بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرشتوں کے کلام کا ثبوت نہیں!! جو آپ نے عربی و اردو کلام کو نہ سمجھنے کے باعث اخذ کر لیا ہے!!!
ابن داؤد صاحب نے کہا
جناب من! ہم الفاظ کی صراحت، استنباط و استدلال تمام امور کے قائل ہیں!!
چلیں آگے دیکھ لیتے ہیں
ہم دیکھیں گے!!
جناب من ! کبھی نماز کے ان موضوع پر بھی آپ سے بات ہو جائے گی! انشاءاللہ!! ۔ اور اللہ کی توفیق سے ہم حنفی نماز کو بھی باطل ثابت کریں گے!!
اگر دوسرے امور سے کبھی فرصت ہوئی تو اس پر بات کرلیں گے ۔ ورنہ روزقیامت فیصلہ ہوجائے گا
ہم دیکھیں گے!! یہ تو لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے!!!
اسے کہتے ہیں باطل طرز استدلال!! جناب من! اب قادیانی بھی یہ کہتے ہیں اللہ ایک اور نبی کیوں پیدا نہیں کرسکتا؟؟ کیا اللہ اس کی قدرت نہیں رکھتا!! آپ کا استدلال بھی قادیانیوں کی طرز کا ہے!!!
نہیں بھائی ، آپ میرا مطلب غلط سمجھے ۔ یہاں ذریعہ سے مراد فرشتہ تھی ۔ کیوں کہ آپ کہ رہے ہیں کہ اس امت میں فرشتے کسی امتی سے کلام نہیں کرتے اس لئیے کسی امتی کو کشف نہیں ہو سکتا ۔ میں نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ کیا اللہ بغیر کسی ذریعہ (فرشتہ ) کے کسی فرد کو کسی بات پر مطلع نہیں کرسکتے ۔ کیا کشف کے لئیے فرشتہ سے کلام ہونا ضروری ہے ؟؟؟؟
جناب من! اسی لئے کہتا ہوں کہ کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!!
جناب! کسی امتی کا غیب کا حال جاننے کا دعویٰ جس کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں وہ کفریہ شرکیہ!! اسے کشف کہہ کر چھپایا جائے یا کچھ اور !! وہ کفر اور شرک ہی رہے گا!!!
اور جناب! آپ کیا ہم سے پوچھے جا رہے ہو!! آپ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرو!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!!!
ابن داؤد صاحب نے کہا
ہاں ! فرشتوں کے بتانے کے علاوہ جو ممکن ہے وہ بھی آپ کو بیان کر دیتے ہیں!!!
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورة الأنعام121)
اس کا مطلب ہے یا تو فرشتہ کسی کو اللہ کے حکم سے کوئی بات بتاتیں ہیں اور یہ امر تو اس امت میں ممکن نہیں کیوں کہ فرشتوں سے کلام ممکن نہیں ۔ تو اس کا مطلب ہے اب صرف الشیاطین کے ظن و اٹکل پچو بچے جو وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتے ہیں ۔کیا یہ استنباط صحیح ہے ۔ واضح جواب دیجیئے گا ۔
نہیں!! آپ کا استدلال باطل!!! اور جناب! آپ اب سوال در سوال کر نا چھوڑیں!! ہم نے کہا تھا کہ آپ کے ہر معقول سوال کا جواب دیں گے جو موضوع سے متعلقہ ہو!! آپ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرو!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!!!
ابن داؤد صاحب نے کہا
تلمیذ صاحب!! "مگر" ہمیشہ سابقہ اور لاحقہ جملہ میں ربط کو لازم ہے!! مگر آپ " مگر" کے باوجود دونوں جملہ کو بے ربط قرار دے رہے ہو۔!!
"مگر" سابقہ جملہ کی نفی بھی کرتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا!!!
جلیں کم از کم آپ نے اتنا مان لیا کہ مگر کبھی سابقہ جملے کی نفی نہیں بھی کرتا ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے یہاں مگر سابقہ کی نفی کر رہا ہے ۔
میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
یہ جملہ "وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔" اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس نوجوان کو علم ہو گیا کہ کون سے چچا نے ٹرانزکشن کی تھی!!! اور اس لئے اس جملہ سے قبل جو "مگر" موجود ہے وہ "مگر" سے پہلے جملہ "میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی" کی نفی کرتا ہے!!!
ابن داؤد صاحب نے کہا
ہم کرامت کا انکار نہیں کرتے!! ہاں کسی کفریہ شرکیہ دعوی کو کرامات نہیں مانتے!! بلکہ اسے شیطان کے چیلوں کے کرتوت سے تعبیر کرتے ہیں!!!
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
مندرجہ ذیل کرامت صحیح اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے!!
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا " .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
اور مندرجہ ذیل کفریہ شرکیہ کرتوت ہیں!!
شیخ ابو یزید قرطبی فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا اله الا الله پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سنکر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔ ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃ اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
یہ ایک وقعہ ہے اس قسم کے نامعلوم کتنے وقعات اس امت کے افراد میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔
تبلیغی نصاب۔ فضائل اعمال۔ فضائل ذکر ۔ باب دوم ۔ فصل سوم ۔ حدیث 17 صفحہ 484
کتب خانہ فیضی لاھور
آپ کو اس واقعہ میں کیا بات نظر آئی کہ آپ اس کو من گھڑت کہ رہے ہیں ۔
پہلے وہ دلیل نقل کریں پھر اس کے بعد کے نتائج اخذ کریں
ارے تلمیذ میاں! اور ہم نے اب تک کیا بیان کیا ہے!!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داود صاحب ، اگر جواب میں کوئی حدیث نقل کیا کریں تو یہ ضرور بتا دیا کریں کہ کس تناظر میں بیان کی ۔ تاکہ کچھ کنفیوزن نہ رہے ۔
میں نے تین سوال کیے تھے ۔
١- يہاں محدث سے آپ کیا مراد سمجھتے ہیں ؟
٢۔ کیا کوئی محدث اس امت میں تا قیامت نہیں ہو سکتا ؟
٣۔ کیا حضرت عمر کے علاوہ اس امت میں کسی سے بھی فرشتہ کلام نہیں کر سکتے ؟
آپ نے تینوں سوال کے جواب میں ایک حدیث نقل کی۔ جس سے بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ کا عقیدہ ہے
محدث وہ جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں
اس امت میں تاقیامت کوئی محدث نہیں آسکتا
اور بشمول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی امتی سے فرستہ کلام نہیں کرسکتا
آپ ذرا ان نتائج کو کنفرم کردیں ۔ اس فورم پر میں نے دیکھا ہے کہ واضح جواب نہیں آتا تاکہ بعد میں کہا جاسکے کہ میں نے تو ان معنوں میں کہا تھا ۔ اور آپ نے دوسرے معنی لے لئیے ۔
آپ نے کہا
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
نہ کوئی دلیل نہ کوئی جواب
اگر یہی طرز کلام رکھنا ہے تو پھر میں بھی کیا یہی طرزکلام رکھوں
یہ جملہ "وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔" اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس نوجوان کو علم ہو گیا کہ کون سے چچا نے ٹرانزکشن کی تھی!!! اور اس لئے اس جملہ سے قبل جو "مگر" موجود ہے وہ "مگر" سے پہلے جملہ "میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی" کی نفی کرتا ہے!!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
مندرجہ ذیل کرامت صحیح اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل

اور مندرجہ ذیل کفریہ شرکیہ کرتوت ہیں!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل

اس طرح بات کہيں بھی نہیں پہنچے گي ۔ واضح جواب دیں
 
Top