آپ توماشاء اللہ زندگی کی کافی بہاریں دیکھ چکے ہیں اوربتعارف خود اچھی کمپنیوں مین بھی کام کرچکے ہین۔ خودبھی پیغام قرآن وحدیث کی تحریک کے داعی اورمحرک ہیں۔کیااتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہرجماعت ہرتحریک کااپناایک طرز ہوتاہے۔پیغام پہنچانے کا اپناطریقہ کار ہوتاہے۔اپنے ممبران کیلئے اپنانصاب ہوتاہے۔وہ اسی کے تحت کام کرتی ہے۔میرے پاس ’’فضائل اعمال‘‘ موجود ہے اور میں ’’تبلیغی نصاب کے دروس‘‘ میں عملی شرکت کا تجربہ بھی رکھتا ہوں۔ ’’فضائل اعمال‘‘ کو عملا" قرآن و حدیث کا "متبادل" بنادیا گیا ہے،تبلیغی جماعت والوں نے۔ آپ ذرا ان سے یہ کہہ کر تو دیکھیں کہ بھائ آپ قرآن اور حدیث کا درس قرآن اور حدیث سے دیا کریں، فضائل اعمال سے نہیں، پھر نتیجہ دیکھ لیجئے۔ قصے کہانیوں کی کتا ب میں کہیں کہیں قرآن و حدیث کا ذکر کرکے اس "اسلامی" بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ کتاب خود حاصل کرکے یہ جائز لے لیں کہ:
١۔ اس کتاب کے کل صفحات کتنے ہیں ٢۔ اس پوری کتاب میں قرآنی آیات پر مبنی صفحات کتنے فیصد ہیں۔ ٣۔ پوری کتاب میں کتنے فیصد صفحات احا دیث پر مبنی ہیں۔ ٤۔ اس کتاب میں کل قرآنی آیات میں سے کتنے فیصد آیات کا تذکرہ ہے اور کتنے فیصد کا عدم تذکرہ ٥۔ احادیث کا تناسب کتاب میں کتنے فیصد ہے اور یہ کہ احادیث کی جتنی بھی روایتی کتب (کتاب الصلوٰۃ، کتاب زکوٰۃ وغیرہ وغیرہ) احادیث کے مجموعوں میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے کتنے فیصد کتب کی کوریج فضائل اعمال میں موجودہے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اس طرح آپ کو ٢٠ تا ٢٥ فیصد سے زیادہ مواد قرآن و حدیث کا نہیں ملے گا اس کتاب میں۔ پھر بقیہ ٧٥ فیصد قصے کہانیوں کو بقیہ قرآن و حدیث کا متبادل بنا دیا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت میں شامل کارکنوں کو فضائل اعمال کے قصوں یا لچھے دار تقاریر سے ہٹ کر مکمل قرآن و احادیث کو سمجھ کر پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔
اس وقت زیر بحث تبلیغی جماعت ہے، میں نہیں۔ لہٰذا بحث کا رخ تبدیل نہ کریں۔ اگر آپ کو قرآن و حدیث کے مقابلے میں ’’فضائل اعمال‘‘ زیادہ پسند اور مرغوب ہے تو اپنا شوق جاری رکھئے۔ تبلیغی جماعت میں برسوں وقت کھپانے والے لاکھوں لوگوں کی اکثریت نے فضائل اعمال کو تو شاید کئی بار پڑھ یا سن کر مکمل کرلیا ہوگا۔ لیکن ان میں سے بہت قلیل لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے صرف قرآن کو بھی ایک بار سمجھ کر پورا مکمل کیا ہوگا۔ حدیث کی کتب کا کیا ذکر۔ اس قسم کے ’’مولوی‘‘ حضرات کی روٹی روزی ہی اس بات پر ہے کہ لوگ قرآن و حدیث کو پڑھنے کی بجائے ’’ان کی تحریر کردہ کتب‘‘ کو زیادہ سے زیادہ خریدیں اور پڑھیں۔
تبلیغی جماعت عوام الناس اورعام لوگوں کی جماعت ہے اس میں عام لوگوں کو دین سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔تبلیغی جماعت کا فلسفہ یہ ہے کہ لوگوں کو اعمال کے فضائل بتاکر ان کو اعمال کی جانب جوڑاجائے جب ایک مرتبہ اعمال سے جڑے گا توپھر اس ک پوری زندگی بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
فضائل اعمال کو قرآن وحدیث کا متبادل بنانے کی بات تومیرے نزدیک سراسر بہتان اورالزام تراشی ہے۔یہ دنیا میں آسان کام ہے کہ کسی کے بھی خلاف کچھ بھی فرمادیجئے ۔لیکن پھر اس کے ردعمل کیلئے بھی تیار رہناچاہئے اورجب کوئی اسی سخت لہجے میں اپناردعمل پیش کرے تواپنی بزرگی اور عمردرازی اوردوسروں کو بزرگوں کا احترام نہ کرنے کا طعنہ مت دیجئے گا۔
تبلیغی جماعت سے میرارات دن کا سابقہ رہاہے۔میں نے کسی بھی تبلیغی جماعت سے وابستہ فرد کو بہت کم دیکھاہے کہ وہ قرآن کی تلاوت نہیں کرتابلکہ میں نے اکثرافراد کو قرآن کریم کی پابندی سے تلاوت کرتے ہوئے پایاہے۔
ہرجماعت اپنے مقررکردہ نصاب پر ہی عمل کرتی ہے۔ ڈاکٹراسرار احمد کی تنظیم ان کے خطبات ودروس کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائے ہوئے ہے۔سلفی حضرات ابن تیمیہ ابن قیم اورالبانی وغیرہ کو اپنامرجع بنائے ہوءے ہیں۔ اوران حضرات کی کتابیں ہی ان کا بڑاماخذ ہیں۔ اسی طورپر تبلیغی جماعت بھی بطور تنظیم فضائل اعمال کو اپنے کارکنوں کیلئے لازمی قراردیتی ہے۔
تبلیغی جماعت کسی کو انفرادی طورپر قرآن وحدیث کی کسی کتاب پڑھنے سے منع نہیں کرتی ہے۔اگرکرتی ہے توثبوت پیش کریں ۔نہ ہی اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہروقت فضائل اعمال کا ورد کیاجاناضروری ہے۔وہ توفضائل کو مسجدوں میں ایک وقت پڑھنے اورجماعت میں کچھ خاص اوقات میں پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اس سے آپ نے بزعم خود یہ کیسے فرض کرلیاکہ وہ قرآن وحدیث کی کتابوں کے پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔آپ کے الفاظ میں ایک مغالطہ یہ بھی چھپاہواہے۔کہ وہ قرآن وحدیث کے درس کی بات نہیں مانتی ہے۔
مشہور مقولہ ہے کہ آپ جس چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کادشمن ہوجاتاہے۔تبلیغی جماعت کے تعلق سے آپ کے اقوال یہی کچھ پیش کررہے ہیں۔
تبلیغی جماعت عوام لناس کیلئے فضائل اعمال کو ضروری قراردیتی ہے جماعتی طورپر۔انفرادی طورپر لوگوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ حیات الصحابہ کو مدنظررکھیں۔ اپنی تقریر میں کوئی غلط بات نہ کہیں اس کیلئے مولانایوسف صاحبؒ نے منتخب احادیث کے نام ایک مجموعہ ترتیب دیاہے جس میں چھ نمبر کے تعلق سے احادیث جمع کردی ہیں اس کے مطالعہ پڑھنے کی تاکید کی جاتی ہے اورجماعت میں فضائل اعمال کے ساتھ ساتھ اس کو بھی پڑھاجاتاہے۔
یہ آپ کی تجزیاتی صلاحیت ہے؟اگرہے توبہت زیادہ محل نظرہے۔١۔ اس کتاب کے کل صفحات کتنے ہیں ٢۔ اس پوری کتاب میں قرآنی آیات پر مبنی صفحات کتنے فیصد ہیں۔ ٣۔ پوری کتاب میں کتنے فیصد صفحات احا دیث پر مبنی ہیں۔ ٤۔ اس کتاب میں کل قرآنی آیات میں سے کتنے فیصد آیات کا تذکرہ ہے اور کتنے فیصد کا عدم تذکرہ ٥۔ احادیث کا تناسب کتاب میں کتنے فیصد ہے اور یہ کہ احادیث کی جتنی بھی روایتی کتب (کتاب الصلوٰۃ، کتاب زکوٰۃ وغیرہ وغیرہ) احادیث کے مجموعوں میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے کتنے فیصد کتب کی کوریج فضائل اعمال میں موجودہے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اس طرح آپ کو ٢٠ تا ٢٥ فیصد سے زیادہ مواد قرآن و حدیث کا نہیں ملے گا اس کتاب میں۔ پھر بقیہ ٧٥ فیصد قصے کہانیوں کو بقیہ قرآن و حدیث کا متبادل بنا دیا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت میں شامل کارکنوں کو فضائل اعمال کے قصوں یا لچھے دار تقاریر سے ہٹ کر مکمل قرآن و احادیث کو سمجھ کر پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔
میں نے ایک کتاب کی بات کی ہے فضائل اعمال کی ۔کہ اس میں کتنے فیصد احادیث ہیں اورکتنے فیصد واقعات ۔ اس کا سیدھاجواب دینے کے بجائے آپ نے فضائل اعمال کا تعلق حدیث کی مجموعی تعداد سے جوڑناشروع کردیا۔یہ بحث کی کون سی قسم ہے اورکیااس کا ماخذ پیغام قرآن ہے یاپیغام حدیث ہے۔
کیافضائل اعمال کے مولف نے دعوی ٰ کیاہے کہ وہ فضائل پر تمام احادیث کو جمع کررہے ہیں یاجوکتاب اس مجموعہ میں نہ ملے اس کو معتبر نہ ماناجائے۔جب کوئی ایسی دعویٰ مولف فضائل اعمال نے نہیں کیاہے توپھر اس کو احادیث کے پورے مجموعہ سے جوڑنے کی نوبت اورضرورت کیوں پیش آئی۔
آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ معرض بحث آپ کی ذات ہے۔نہ آپ کی ذات ہے اورنہ ہی شخصیت معرض بحث ہے اورنہ ہی میروں نظروں میں آپ کی یامیری شخصیت اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے بحث کا موضوع بنایاجائے۔
تبلیغیوں پر جس انداز کا اعتراض آپ نے وارد کیاہے اسی انداز میں اس کاجواب سن لیں۔تبلیغی جماعت میں برسوں وقت کھپانے والے لاکھوں لوگوں کی اکثریت نے فضائل اعمال کو تو شاید کئی بار پڑھ یا سن کر مکمل کرلیا ہوگا۔ لیکن ان میں سے بہت قلیل لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے صرف قرآن کو بھی ایک بار سمجھ کر پورا مکمل کیا ہوگا۔
کتاب وسنت کے نام لیواؤں میں کتنے افراد ایسے ہیں جنہوں نے نماز کے تمام مسائل اوراس کے قرآن وحدیث کے دلائل پر غوروفکر کیاہے۔خود پیغام قرآن وحدیث کے مدیر وجوکچھ ہوں خدالگتی کہیں کہ زندگی میں پیش آمدہ کتنے مسائل کا انہوں نے قرآن وحدیث سے بغورجائزہ لیاہے۔بیع وشراء اورکمپنی کے جومسائل ہیں۔ کیاکبھی ان کو توفیق ملی ہے کہ وہ اس میں شرعی دلائل کا جائزہ لیں۔
کیاتبلیغی جماعت نے کسی کو منع کیاہے کوہ قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں ۔اگرہے توثبوت پیش کریں۔اگرنہیں ہے توپھر خواہ مخواہ کے الزامات لگاکر تبلیغی جماعت کو کیوں متہم کررہے ہیں۔ اگرآپ کی تحریک میں تبلیغی جماعت والے خوشی خوشی شرکت نہ کرتے ہوں اوریہ اس کا انتقام آپ یہاں لیناچاہ رہے ہیں تواس کیلئے دوسرے عنوانات اختیار کرلیجئے لیکن بے بنیاد باتیں توعرض نہ کریں۔
آپ نے آخر میں جوکچھ فرمایاہے ۔ہم حیران ہیں کہ اس کو کیاسمجھیں ۔فضائل اعمال کے مولف ومرتب کو جواررحمت میں منتقل ہوئے برسوں ہوگئے۔ انہوں نے اپنی کسی بھی کتاب پر آج کل کے مصنفین کی طرح رائلٹی کی مانگ نہیں کی ہے۔اگرموجودہ مولوی حضرات مراد ہیں توموجودہ مولوی حضرات کی کتابوں سے تبلیغی جماعت کے افراد انفرادی طورپر تومستیفد ہوسکتے ہیں لیکن جماعتی طورپر ان کی کتاب کی شنوائی نہیں ہے۔۔ اس قسم کے ’’مولوی‘‘ حضرات کی روٹی روزی ہی اس بات پر ہے کہ لوگ قرآن و حدیث کو پڑھنے کی بجائے ’’ان کی تحریر کردہ کتب‘‘ کو زیادہ سے زیادہ خریدیں اور پڑھیں۔
کہتے ہیں کہ مزاح نگار کو اس کا فائدہ حاصل رہتاہے کہ اگراس کی بات غلط بھی ہو تو لوگ اس کو کسی قسم کامزاح سمجھ کر معاف کردیتے ہیں لیکن آپ نے جوکچھ فرمایاہے اس کا تعلق مزاح سے توکسی قسم کانہیں ہے اورجہاں تک طنز کی بات ہے توآپ کے دوسرے طنزیہ شاہکاروں طرح آپ کے نام کے دوسرے حصہ کی مناسبت سے "سکنڈ ہینڈ"ہے۔
اگرکچھ برالگاہوتومعذرت لیکن اس کے محرک بھی آپ ہی رہے ہیں۔والسلام