• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا کسی کو خوش کرنے کے لیے اعمال کرنے چاہئیں؟
ج:
صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے نیک کام کرنے چاہئیں، دکھاوے کے لیے اعمال کرنا شرک ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿١١٤۔ النساء
" اور جو شخص ایسے (نیک) کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے"
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور ہم دجال کے فتنہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کا دجال سے بڑھ کر مجھے خوف ہے؟ ہم نے عرض کی ضرور فرمائیں، آپ نے فرمایا: وہ شرک خفی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی نماز کو زیادہ اچھی طرح ادا کرے جب لوگ اسے دیکھ رہے ہوں"۔ ابن ماجہ:4204
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
ڈرنا کس سے چاہئے؟
ج:
نفع نقصان اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اس لیے ڈرنا بھی اسی سے چاہئے، لوگوں سے اس طرح ڈرنا گویا کہ وہ نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہیں، جائز نہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے:
"أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"
" کیا تم ان (کافروں) سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے بشرطیکہ تم ایمان رکھتے ہو"۔ التوبہ:13
منافقین کے بارے میں فرمایا:
"فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً"
"جب ان پر جنگ فرض كر دی گئی تو ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ"۔ النساء:77
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
سب سے بڑھ کر محبت کس سے ہونی چاہئے؟
ج:
سب سے بڑھ کر محبت صرف اللہ تعالی سے ہونی چاہئے، اللہ تعالی نے اپنے کلام میں ان لوگوں کو مشرک قرارد دیا ہے جو اپنے بنائے ہوئے شریکوں سے اللہ کی سی محبت رکھتے ہیں، فرمایا:
"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ"
" اور بعض لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، ان سے وہ اللہ کی سی محبت کرتے ہیں اور مومن تو شدید محبت اللہ سے کرتے ہیں"۔
سوچیئے! جب اللہ سے بڑی محبت رکھنے کے باوجود اللہ کی بجائے دوسروں سے اتنی ہی محبت رکھنے کی بنا پر انسان مشرک ہو جاتا ہے، تو ان کا کیا حال ہوگا جو اللہ سے بڑھ کر اپنے شریکوں سے محبت کرتے ہیں، اور وہ لوگ کہاں جائیں گے جو صرف شریکوں سے محبت رکھتے ہیں، اللہ تعالی کو جانتے ہی نہیں۔
اللہ تعالی کے بعد محبت کے سب سے زیادہ مستحق نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ مجھے اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے"۔ بخاری:14، مسلم:44۔
پھر مومنین سے اللہ کے لیے محبت کرنی چاہیئے، انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"جس شخص میں تین باتیں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس پائی:
سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسول سے ہو۔
اللہ کی خاطر کسی بندے سے محبت کرے۔
کفر سے نجات پانے کے بعد کفر میں جانے کو آگ میں ڈالے جانے کے برابر سمجھے"۔ بخاری:16، مسلم:43۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ سے محبت کا تقاضا کیا ہے؟
ج:
اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہ کرے، فرمایا:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢۔ سورة المجادلہ
" جو لوگ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ اور اس کے رسول کےدشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے خواہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں، یہ وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور غیب سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں، سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی مراد پانے والا ہے"

ایسی ہی بات الممتحنہ:4، التوبہ:23، المائدہ:51 اور النساء:144 میں موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
تعریفوں کا حقدار کون ہے؟
ج:
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کیونکہ وہ خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں، وہ حاکم ہے باقی سب محکوم ہیں ، وہ قادر ہے باقی سب محتاج ہیں غرض وہ تمام کمزوریوں سے پاک ہے، اس لیے فرمایا:
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سورہ فاتحہ
"ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، جو تمام مخلوقات کو پالنے والا ہے"
اور یہ بھی فرمایا:
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿لقمان: ٢٧﴾
"اور زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے اور اس کے بعد سات سمندر اور سیاہی بن جائیں تو اللہ کی باتیں (صفتیں) ختم نہ ہوں گی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
سب سے زیادہ خوف کس کا ہونا چاہیئے؟
ج:
مومن کے دل میں سب سے زیادہ خوف اللہ کا ہونا چاہیئے۔
ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿آل عمران: ١٧٥﴾
"بلا شبہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اگر تم مومن ہو"
اور یہ بھی فرمایا:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ﴿التوبة: ١٨﴾
"بلا شبہ اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لاتے، نماز قائم کرتے اور زکاۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے یہی لوگ اُمید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل ہیں"
اس لیے مومن لوگوں کی طرف سے آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے حق پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔
اور فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّـهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّـهِ ۔۔﴿العنكبوت: ١٠﴾
"اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب انہیں اللہ کی راہ میں کوئی ایذا پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذا کو یوں سمجھتے ہیں گویا اللہ کا عذاب"
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو اللہ کو خوش کرنا چاہے، چاہے لوگ ناراض ہوں تو اللہ تعالی اسے لوگوں سے بے پروا کر دے گا، اور جو لوگوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ تعالی کو ناراض کرے اللہ اسے لوگوں کے سپرد کر دے گا"۔ (ترمذی:2414)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
بھروسہ کس پر کرنا چاہیئے؟
ج:
بھروسہ صرف اللہ تعالی پر ہونا چاہیئے، فرمایا:
وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿آل عمران: ١٢٢﴾
"مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے"
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری اُمت کے ستر ہزار لوگ جنت میں بلا حساب و کتاب جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو منتر نہیں پھنکواتے، نہ داغ لگواتے ہیں نہ بدفالی لیتے ہیں اور صرف اللہ تعالی ہی پر بھروسہ کرتے ہیں" ۔ (بخاری:5705، مسلم:220)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا مومن اللہ تعالی کی رحمت سے نا اُمید ہو سکتا ہے؟
ج:
مومن اللہ تعالی کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہوسکتا، فرمایا:
وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ﴿الحجر: ٥٦﴾
"اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے"
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالی نے اس کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھ دیا ہے کہ بیشک میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے"
(بخاری:3194، مسلم:2715)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
معجزہ دکھانا کس کے اختیار میں ہے؟
ج:
معجزہ دکھانا صرف اللہ کے اختیار میں ہے رسولوں کے اختیار میں نہیں، یہ تو صرف ان کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴿الرعد: ٣٨﴾
"اور کسی رسول کے اختیار میں یہ نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کچھ معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا:
وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿٩٠﴾ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ﴿٩١﴾ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ﴿٩٢﴾ أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ﴿٩٣﴾ سورة الإسراء
"اور کہنے لگے کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ آپ:
1- ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کر دیں۔
2- یا آپ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو جس کے اندر آپ نہریں بہا نکالیں۔
3- یا جیسا کہ آپ کہتے ہیں آسمان کے ٹکڑے لا گرائیں۔
4- یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں۔
5- یا آپ کا مکان سونے کا بن جائے۔
6- یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے کتاب نہ لاو جسے ہم پڑھ لیں، (اے رسول!) آپ کہہ دیجیئے کہ میرا رب پاک ہے (یہ سب کام کر سکتا ہے میرے اختیار میں نہیں کیونکہ) میں تو صرف ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں"
ان آیات سے واضح ہے کہ معجزات دکھانا بشر اور رسول کے اختیار میں نہیں، اس کی واضح مثال موسی علیہ السلام کی کا معجزہ ہے، جب اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ ﴿القصص: ٣١﴾
"اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دو، جب (موسی نے لاٹھی کو) دیکھا کہ وہ حرکت کر رہی ہے گویا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر چل دیئے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے کہا) اے موسی آگے آو اور ڈرو مت تم امن پانے والوں میں سے ہو"
موسی علیہ السلام کا لاٹھی کے سانپ بننے پر ڈر جانا واضح کرتا ہے کہ معجزات انبیاء کے اختیار میں نہیں ہیں، پھر کرامت اولیاء اللہ کے اختیار میں کیسے ہو سکتی ہے، لہذا جن کرامات میں دعوی ہو، انہیں کرامات نہیں مانا جاسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا معجزات یا کرامات میں غیب کی خبر ہو سکتی ہے؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ
(سورة الجن)
"(اللہ ہی) عالم الغیب ہے وہ غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے (تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے)"
معلوم ہوا کہ انبیاء علیھم السلام پر غیب کی بات بذریعہ وحی ظاہر کی جاتی ہے اس لیے معجزات میں غیب کی خبریں ہو سکتی ہیں، انبیاء علیھم السلام کے علاوہ کسی پر غیب کی بات ظاہر نہیں کی جاتی اس لیے کرامت میں غیب کی خبر نہیں ہوسکتی، کشف کے ذریعہ غیب کی اطلاع کا دعوی جھوٹ ہے۔ اسی طرح معجزہ میں نبی علیہ السلام وحی کی بناء پر دعوی کر سکتا ہے کہ میری لاٹھی سانپ بن جائے گی اور چونکہ ولی اللہ پر وحی نہیں آتی لہذا وہ دعوی نہیں کر سکتا۔
 
Top