• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
مشرکین مکہ کی نمایاں خصوصیات

س:
مشرکین مکہ اللہ کی کن صفات کو مانتے تھے ۔
ج:
مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق 'مالک اور رازق مانتے تھے ۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ(الزخرف:۸۷)
''اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یقینا یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے ۔ پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں؟''

وَلَئِنْ سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ (لقمان:۲۵)
''اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟تو یہ ضرور جواب دیں گے کہ اللہ ۔تو کہہ دیجئے کہ سب تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے ۔''

{قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَآ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔۔سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ۔۔قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔۔سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ۔۔ قُلْ مَنْۢ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْء ٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔۔ سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُونَ}(المومنون :۸۴ تا ۸۹)
''پوچھیے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں ؟بتلائو اگر جانتے ہو؟ فوراً جواب دیں گے اللہ کی۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ ۔دریافت کیجئے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟وہ ضرور جواب دیں گے اللہ ہی ہے ۔آپ فرمائیے پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا ' اگر تم جانتے ہو تو بتلائو ؟ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ۔کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کر دیئے جاتے ہو ؟''

قُلْ مَن یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَن یُّدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُون(یونس :۳۱)
''آپ کہیے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتاہے اور وہ کون ہے جو کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ''اللہ '' تو ان سے کہئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ؟''

وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاءًفَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِنْۢ بَعْدِمَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُونَ (العنکبوت:۶۳)
''اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا ؟تو یقینا ان کا جواب یہی ہو گا اللہ تعالیٰ نے ۔آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لیے سزا وار ہے 'لیکن ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ۔''
گویا مشرکین اللہ کو خالق' رازق 'مالک ' غالب اور علم والا تسلیم کرتے تھے ' ان کا شرک و کفر یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو معبود واحد نہیں مانتے تھے ۔ غیر اللہ کی عبادت کی نفی پر وہ مشتعل ہو جاتے تھے ' ان کے لیے یہ بات نا قابل قبول تھی کہ ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی جائے ۔

اِنَّهُمْ كَانُوْۤا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ یَسْتَکْبِرُونَ۔۔۔۔ وَ يَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ (الصافات:۳۵،۳۶)
''یہ وہ (لوگ ) ہیں کہ جب انہیں کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سر کشی کرتے ۔اور کہتے کیا اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں ۔''
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
مشرکین مکہ کی نمایاں خصوصیت کیا ہے؟
ج :
مشرکین مکہ اللہ کو مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے اور تنہا اللہ کے ذکر سے ان کا دل تنگ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی صفت یوں بیان کی :

{وَإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ إِذَاھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ}۔
''اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں'' [الزمر: 45]۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

{ذٰلِکُمْ بِأَنَّہٗ إِذَادُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِنْ یُّشْرَکْ بِہٖ تُوْمِنُوْافَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ} ۔
''جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کر دیتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تھا تو تم تسلیم کر لیتے تھے، حکم تو اللہ ہی کا ہے جو (سب سے) اوپر اور سب سے بڑا ہے'' [المؤمن: 12]۔

س:
کیا مشرکین مکہ بھی اللہ کو الٰہ مانتے تھے؟
ج :
مشرکین مکہ اللہ کو بھی الٰہ مانتے تھے مگر اللہ کے علاوہ اور بہت سے الٰہ بنائے ہوئے تھے، ان کا اعتراض ہی یہ تھا :

{اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ إِلٰھًا وَّاحِدًاإِنَّ ھٰذَالَشَیْئٌْ عُجَابٌ}۔[صٓ : 5]۔
''کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ بس ایک معبود بنا لیا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے''
مشرکین مکہ اللہ کو سب سے بڑا الٰہ ماننے کی وجہ سے سخت مصیبت میں صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔۔بَلْ إِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَیْہِ إِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ}۔[الأنعام: 40,41]۔
''(ان سے) کہیے، اپنا حال تو بتائو کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے یا قیامت آ پہنچے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم سچے ہو، [تو بتائو] بلکہ تم اسی کو پکارتے ہو پھر جس دکھ کے لیے تم پکارتے ہو' اگر وہ چاہتا ہے تو اس کو دور کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو اس وقت ان سب کو بھول جاتے ہو''

{فَإِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ} [العنکبوت: 65]۔
''پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں اور خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگ جاتے ہیں''۔

افسوس آج کلمہ گو مسلمان سمندر میں بھی یا علی مدد اور یا غوث اعظم مدد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ شرک میں مشرکین مکہ سے ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔

س:
مشرکین مکہ غیر اللہ کی عبادت کیوں کرتے تھے؟
ج :
مشرکین مکہ غیر اللہ کو اپنا سفارشی اور اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے تھے، وہ کہا کرتے تھے:

{مَانَعْبُدُھُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآإِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی} [الزمر: 3]۔
''ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں''۔

{وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُ لَآئِ شُفَعَآؤُنَاعِنْدَاللّٰہِ} [یونس : 18]۔
''وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔''
دیگر مشرکین بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے معبود بناتے تھے ، فرمایا :

{وَلَقَدْ أَھْلَکْنَامَاحَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَاالْاٰیَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔۔فَلَوْ لَا نَصَرَھُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْامِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَاناً اٰلِھَۃً بَلْ ضَلُّوْا عَنْھُمْ وَ ذٰلِکَ إِفْکُہُمْ وَ مَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ} [الأحقاف: 27,28]۔
''اور تمہارے ارد گرد کی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا اور بار بار (اپنی) نشانیاں ظاہر کر دیں تاکہ وہ رجوع کریں تو جن کو ان لوگوں نے (اللہ)کے قرب کے لیے معبود بنایا تھا انہوں نے ان کی کیوں مدد نہ کی؟ بلکہ وہ ان سے گم ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور وہ یہی گھڑا کرتے تھے''۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کیا مشرکین مکہ بے جان پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے تھے؟
ج :
بتوں کی حقیقت سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما یوں بیان کرتے ہیں کہ ود' سواع' یغوث' یعوق اور نسر قوم نوح کے صالحین تھے، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ خیال ڈالا کہ جن مقامات پر یہ اولیاء اللہ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے بت بنا کر کھڑے کر دو [تا کہ ان کی یاد تازہ رہے] وہ ان کو پوجتے نہ تھے، جب یہ یادگار بنانے والے فوت ہو گئے اور بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا کہ ان بتوں کو صرف یادگا ر کے لیے بنایا تھا تو انہوں نے ''ان بزرگوں کے بتوں کی] عبادت شروع کر دی'' [صحیح بخاری: 4920]۔
اسی طرح لات ایک مرد تھا جو حاجیوں کے لیے ستو بناتا تھا [بخاری: 4859]۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہانے رسول ا للہ ﷺکے سامنے حبشہ کے معبد کا ذکر کیا جسے ماریہ کہا جاتا تھا اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''یہ ایسے لوگ ہیں جب ان میں کوئی نیک بندہ مر جاتا تو اس کی قبر پر سجدہ گاہ اور تصویریں بنا دیتے ، یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں'' [بخاری: 427، مسلم: 528]۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کے معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے:

{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ} [الأعراف: 194]۔
''(مشرکو!) بے شک تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ تم جیسے بندے ہی ہیں''۔

{اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ}۔[النحل:21]۔
''وہ تو بے جان لاشیں ہیں، ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے''
جن اولیاء اللہ کو مشرکین مکہ پکارتے تھے ان کے بارے میں بتایا :

{وَإِذَاحُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ أَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ} [الأحقاف: 6]۔
''اور جب [قیامت کے دن] لوگ جمع کیے جائیں گے' وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے'' ۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ مشرکین مکہ کے معبود اللہ کے بندے تھے اور وہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
شرک اکبر کی اقسام

س:
شرک کو ہم کتنی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں؟
ج:شرک کو ہم تین اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔



(۱)شرک فی الربوبیت
(۲)شرک فی الاسماء والصفات
(۳)شرک فی الالوہیت




شرک فی الربوبیت


س:
شرک فی الربوبیت کی کتنی قسمیں ہیں؟
ج:
شرک فی الربوبیت کی دو قسمیں ہیں:
شرک تعطیل:
اللہ تعالیٰ کے اسماء والصفات اور ربوبیت کے معطل ہونے کا عقیدہ رکھنا شرک کی بدترین قسم ہے ۔فلاسفہ اور دھریے جو کائنات کی قدامت اور ابدیت کے قائل ہیں کہ یہ جہاں ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا یا وحدۃ الوجود کے قائلین مثلاً ابن عربی اور تلسمانی وغیرہ کا عقیدہ شرک کی اسی قسم سے ہے۔
ربوبیت میں معبودان باطلہ کو شریک ٹھہرانا:
یہ عقیدہ رکھنا کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی روحیں مرنے کے بعد بھی تصرف کا اختیار رکھتی ہیں۔حاجات پوری کرتے ہیں اور تکلیفیں رفع کرتے ہیں۔

س :
شرک فی الاسماء والصفات کی کتنی قسمیں ہیں:
ج:
اس شرک کی دوقسمیں ہیں۔
شرک تشبیہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات کی مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت دینا۔مثلاً اللہ تعالیٰ کا سمیع اور بصیر ہونا میرے سننے اور دیکھنے کی طرح ہے ۔
شرک اشتقاق:
اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے اپنے باطل معبودوں کے نام نکالنا۔جیسے'' العزیز'' سے اپنے معبود کا نام العزیٰ رکھنا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
اللہ کی ذات میں شرک کا کیا مفہوم ہے؟
ج :
کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا یا مخلوق کو اللہ کا جزو بنانا اللہ تعالیٰ کی ذات میں شریک کرنا ہے :
{مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ}(المومنون:۹۱)
''اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ''
{بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌؕ }(الانعام:۱۰۱)
''وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ' اللہ تعالیٰ کے اولاد کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس کی کوئی بیوئی نہیں ہے۔''
{لَقَدْ کَفَرَالَّذِیْنَ قَالُوْٓاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ}۔
''یقینا وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ ہی عیسٰی ابن مریم ہے'' [المائدۃ :72]۔

جو شخص ''انا الحق'' (میں اللہ ہوں) کا دعویٰ کرے یا اللہ میں فنا ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ اللہ کی ذات میں شرک کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌُ} [الزخرف: 15]۔
''اور انہوں نے اس کے بندوں کو اس کا جزو بنا دیا، بے شک (ایسا) انسان کھلا کافر ہے'' ۔

امام الانبیاء محمد ﷺکو اللہ کے نور میں سے نور [نور من نور اللہ] کہنا اللہ کا جزو بنانے کے مترادف ہے اور یہ بدترین شرک ہے، آپ اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں۔

س:
صوفیا کے نزدیک توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو موجود نہ مانا جائے، تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کا مظہر ہیں، جیسے سمندر سے موجیں اٹھتی ہیں اورلہریں بنتی ہیں دراصل وہ سمندر ہی کی شکلیں ہیں اسی طرح یہ کائنات اللہ ہی کی شکلیں ہیں، کیا یہ واقعی توحید ہے ؟
ج :
یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت کے سراسر منافی ہے، یہ تصور عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے بھی بد تر ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ذات کے بارے میں سبائی گروہ نے ایسی ہی بات کہی تو صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ان کو کافر و مرتد کہا اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں آگ میں جلا دیا [بخاری: 6922]۔
اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ {لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْ لَدْ}۔
''نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا'' [إخلاص]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
بعض صوفیا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں فنائے کلی میسر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جو مجھ میں فنا ہوا وہ نہ آسمان میں ملے گا نہ زمین اور نہ ہی بہشت میں، اس لیے بعض صوفیا نے أَنَاالْحَقُّ ''میں خدا ہوں'' کا دعویٰ کیا، یہ توحید کے منافی ہے؟
ج:
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ربوبیت کا دعویٰ ایمان و اسلام کی صریح ضد ہے، یہ دعویٰ فرعون نے کیا:
{أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلیٰ}۔ ''میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں''۔
اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کیا، اور دنیا و آخرت میں اس پر اللہ کی لعنت ہوئی، لہذا یہ کہنا کفر ہے کہ:''فرعون نے أَنَا الْحَقُّ'' کہا تو ذلیل ہو گیا،اور منصور نے ''أَنَا الْحَقُّ '' کہا تو مست قرار پایا، فرعون کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی لعنت رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے [نعوذ باللہ]۔
فرعون ہو یا منصور جو رب اور الہٰ ہونے کا دعویٰ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کی لعنت ہی ہے۔
س:
بعض صوفیاکہتے ہیں کہ یہ کائنات نہ تو اللہ کی عین ہے اور نہ ہی غیر ہے بلکہ اللہ کے اسماء و صفات کا ظل ہے' عکس ہے' سایہ ہے ظلال ہے، کیا یہ کہنا صحیح ہے؟
ج:
صوفیا کا یہ نظریہ کہ یہ کائنات اللہ کی غیر نہیں ہے گمراہی ہے ، اگر واقعی اللہ کا غیر موجود نہیں ہے تو
[۱]اللہ کے انبیاء کی دعوت کا کیا مفہوم ہے؟
{مَالَکُمْ مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہُ}۔
''اس کاکوئی غیر تمہارا معبود نہیں'' [ہود :50]۔
اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی غیر ہے ہی نہیں تو انبیا ء کس غیر کی عبادت سے روکتے تھے؟

[۲] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْافِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا}۔
''اگر یہ کلام غیر اللہ کا ہوتا تو اس میں اختلاف کثیر ہوتا'' [النساء:82]۔
اگر کوئی اللہ کا غیر نہیں ہے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے؟


سوچئے اگر کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس ہے تو :
[۱]اللہ تعالیٰ کی پاک صفات کا عکس ابلیس' فرعون' نمرود اور ابولہب کی شکل میں کیسے ظاہر ہوا۔؟
[۲]جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ابلیس' فرعون اور نمرود کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرے گا تو کیا وہ اپنی پاک صفات کو عذاب دے گا۔؟
[۳]اگر صوفیا کی یہ بات مان لی جائے تو سوچئے کہ نعوذ باللّٰہ ثم نعوذ باللّٰہ جبرائیل اور ابلیس میں' موسیٰ اور فرعون میں ' ابراہیم اور نمرود میں اصلاً کیا فرق رہا، کیا ان سب کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس قرار دینا کفر صریح نہیں ہے؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کیا رسول اللہ ﷺنے نہیں فرمایا کہ اے جابر اللہ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کا نور پیدا کیا پھر اس کے چار حصے کیے، ایک سے قلم دوسرے سے لوح محفوظ' تیسرے سے عرش اور چوتھے سے کل کائنات پیدا کی؟ [ریاض السالکین]۔
ج :
یہ روایت بلا سند ہے، موضوع [من گھڑت] ہے، ایسی روایت کو رسول اللہ ﷺکا فرمان کہنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ سیدناانس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا:
''جس نے جان بوجھ کر کوئی ایسی بات میری طرف منسوب کی جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنا مقام جہنم میں بنا لے'' [بخاری: 108، مسلم: 2]۔
س:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : {قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ}۔
''بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے'' [المائدہ : 15]۔
کیا اس آیت میں نور سے مراد رسول اللہ ﷺنہیں ہیں؟
ج:
اللہ تعالیٰ نے :
[۱]تورات کو نور کہا [المائدہ :44 ]۔
[۲]انجیل کو نور کہا [المائدہ :46 ]۔
[۳] قرآن مجید کو نور کہا [الأعراف :157' التغابن: 8]۔
ان تمام آیات میں نور سے مراد نور ہدایت ہے، اللہ کے نور کا حصہ نہیں،محمدﷺکو اللہ کے نور میں سے نور ماننا تو شرک ہے، لہذا یہ آیت نور من نور اللہ کی دلیل نہیں بن سکتی۔
آیت مذکورہ میں 'نور' اور 'کتاب مبین' دونوں سے مراد قرآن کریم ہے، دونوں کے درمیان وائو عطف تفسیری ہے، جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے:{ یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ} ''اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے''
اور اگر ''نور'' اور ''کتاب'' دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ: {یَھْدِیْ بِھِمَا اللّٰہٗ} ہوتے [یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے]
قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟
ج :
ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہ خود خالق ہے، خالق عرش پر مستوی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{إِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ} [الأعراف :54' یونس: 3]۔
''بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا''۔

{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی }۔
'' رحمن عرش پر مستوی ہے'' [طہٰ :5]۔

{ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَآءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَإِذَا ھِیَ تَمُوْرُ}۔
''کیا تم بے خوف ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پھر وہ (زمین) ہچکولے کھانے لگ جائے'' [الملک:16]۔

سیدنامعاویہ بن حکم سلمٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جوبکریاں چراتی تھی، ایک دن بھیڑیا ریوڑ میں سے ایک بکری لے گیا، مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے تھپڑ رسید کر دیا' میں رسول اللہ ﷺکے پاس آیا آپ نے میرے فعل کو برا کہا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لے آ، میں اسے آپ کے پاس لے گیا، آپ نے اس سے پوچھا، اللہ تعالیٰ کہاں ہے، لونڈی نے جواب دیا: ''فی السماء'' آسمان میں، آپ نے پوچھا کہ ''میں کون ہوں؟'' کہنے لگی آپ اللہ کے رسول ہیں، فرمایا: ''اسے آزاد کر دو ''فَإِنَّھَا مُؤْمِنَۃٌ'' ''یہ مومنہ ہے'' [مسلم: 537]۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مومن بننے کے لیے اللہ تعالیٰ کوعرش پر مستوی ماننا ضروری ہے۔
س:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: { ھُوَ مَعَھُمْ أَیْنَ مَا کَانُوْا}
''وہ ان کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ ہوں'' [المجادلہ:7]۔
{ وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ}
'' تم جہاں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے '' [الحدید: 4]۔
جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے، پھر اسے عرش پر کیسے مانا جائے گا؟
ج:
دراصل ''مع'' [ساتھ] کے لفظ سے دھوکا کھایا گیا ہے
''مع'' (ساتھ) صرف ذاتی طور پر اکٹھے ہونے کے لیے نہیں بولا جاتا ، بلکہ اس کے دوسرے معنی بھی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[الف] {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} [التوبہ: 119]۔
''اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو''۔
''سچوں کے ساتھ ہو'' کا یہ مطلب کون لے سکتا ہے کہ گھر میں' بازار میں غرض ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ پھرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سچوں کا مذہب اختیار کرو، اور سچوں کے ساتھ تعاون کرو۔

[ب] اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ } [النساء : 146 ]۔
''مگر جنہوں نے توبہ کی' اصلاح کی' اللہ کے دین کو مضبوط پکڑا اور خالص اللہ کی اطاعت کی یہی لوگ مومنین کے ساتھ ہیں''۔
مومنین کے ساتھ کا مطلب کیا ہے، کیا وہ جسمانی طور پر ہر وقت مومنین کے ساتھ ہیں؟ یا مراد ان کی دوستی ہے؟۔

[ج] اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {وَإِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ}
۔''اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے''[العنکبوت: 69 ]۔
۔پھر کیا اللہ بدکاروں کے ساتھ نہیں ہے

[د] فرمایا : {إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ} ۔''بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے'' [البقرۃ: 153]۔
تو کیا اللہ بے صبروں کے ساتھ نہیں ہے؟

جب ''مع'' یعنی معیت کے کئی معنی ہیں پھر وہی معنی لیے جائیں گے جو سیاق و سباق' فرمان رسول اور سلف صالحین کی تفسیر کے مطابق ہوں گے، ان آیات کی ابتدا بھی اللہ کے علم کے بیان سے ہوتی ہے اور انتہا بھی اسی کے علم پر ہوتی ہے۔
سورئہ الحدید کی آیت {وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ} [النساء: ۵۷] کی پوری آیت پڑھئے، دو مرتبہ اللہ کے علم کا ذکر { ھُوَ مَعَکُمْ} سے پہلے اور ایک دفعہ بعد میں ہے، اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے، لہذا سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہاں علم مراد ہے، اللہ تعالی کا علم' قدرت اور غلبہ ہر جگہ ہے مگر خود ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر مستوی ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ}۔
''ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں'' [ق: 16]۔
{وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ} [البقرۃ: 186]۔
''اور جب میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہو کہ میں قریب ہوں'' ۔
اس قرب سے کیا مراد ہے ؟
ج:
یہ قرب بھی قرب مکانی یا زمانی نہیں ہے بلکہ وہ علم و قدرت کے لحاظ سے قریب ہے اور ہر ایک کی سنتا ہے،آگے فرمایا:
{اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ }۔[البقرہ:186]۔
''میں پکارنے والے کی پکار قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے''
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہاں مراد سن کر فوری دعا کو قبول کرنے کا ذکر ہے۔
قرب سے مراد مرتبہ میں قریب ہونا بھی ہے،
قرآن حکیم میں:
{أَلْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ} [النساء: 172]۔
مقرب فرشتوں کا ذکر ہے۔
فرعون جادوگروں کو کہتا ہے کہ اگر تم موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو:
{وإِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ}۔''اوربے شک تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے'' [الأعراف: 114]۔

معلوم ہوا قرب بلحاظ رتبہ بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ}۔ [الأعراف: 56]۔
''بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے''
پس ثابت ہوا کہ اللہ رحمت و قدرت' حفاظت و اجابت کے لحاظ سے قریب ہے نہ کہ بالذات۔

رسول اللہ ﷺفرما تے ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے'' [بخاری: 6501]۔
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہے کہ یہاں قرب مکانی مراد نہیں۔
بعض مفسرین ''ہم شہِ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں'' کی تفسیر یوں کرتے ہیں اللہ کے فرشتے انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
یہ بھی فرمایا کہ : {وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ}۔
''ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے'' [الواقعہ : 85]۔

جمہور سلف کے نزدیک مراد ملک الموت ہے جو اہل و عیال سے زیادہ میت کے قریب ہوتا ہے اور اس کے اہل و عیال نہ تو فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی میت کی اس تکلیف کو جان سکتے ہیں جو میت برداشت کر رہی ہوتی ہے، بعض علمائے سلف نے یہاں علم و قدرت بھی مراد لیا ہے مگرقرب مکانی کا قائل صحابہ' تابعین اور ائمہ میں سے کوئی نہ تھا۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہﷺکے ساتھ تھے جب ہم کسی اونچی جگہ چڑھتے تو اللہ اکبر کی اونچی آواز لگاتے، آپ نے فرمایا لوگو! میانہ روی اختیار کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں بلا رہے ہو تم تو سننے اور دیکھنے والے کو پکارتے ہو جس کو تم بلاتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے [بخاری: 2992، مسلم: 2704]۔
اگر اس حدیث سے قرب ذاتی مراد لی جائے تو شہ رگ سے قریب ہونے والی آیت سے تعارض ہوگا معلوم ہوا یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سواری کی گردن کے فاصلہ پر جو شخص سن سکتا ہے اللہ اس سے بھی زیادہ سنتا ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ
"وہ اللہ آسمانوں اور زمین میں ہے" (الانعام:3)
اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
ج:
علماء سلف اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں اور زمین میں الہٰ یعنی معبود ہے (ابن کثیر)
قرآن حکیم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ ۚ
"وہی آسمان میں الہٰ ہے اور زمین میں وہی الہٰ ہے" (الزخرف:84)
یعنی آسمان اور زمین میں عبادت کے لائق صرف اللہ ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴿٥﴾لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ ﴿٦﴾وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ﴿٧
"رحمٰن عرش پر مستوی ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے سب اسی کا ہے، اور اگر تم بات اونچی کہو تو ہر ہر چھپے بھید اور خفیہ چیز تک کو جانتا ہے" (طہ:5تا7)
اہل نظر انصاف کریں کہ کون سا مفہوم اللہ تعالٰی کی شان کے موافق ہے، کیا ان آیات کا وہ مفہوم نہ مانا جائے جو قرآن حکیم کی دیگر آیات کے موافق ہے اور سلف صالحین سے بھی وہی منقول ہے۔
 
Top