• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌بِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ۖ فَافْرُ‌قْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴿٢٥﴾
موسٰی (علیہ السلام) کہنے لگے الٰہی! مجھے تو بجز اپنے اور میرے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں، پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی کر دے۔ (١)
٢٥۔١ اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا اظہار بھی ہے اور براءت کا اعلان بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّ‌مَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْ‌بَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾
ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے (١) اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا۔ (٢)
٢٦۔١ یہ میدان تیہ کہلاتا ہے، جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من و سلویٰ کا نزول ہوا، جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لیے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ چشمے جاری ہوئے، اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔
٢٦۔٢ پیغمبر، دعوت و تبلیغ کے باوجود جب دیکھتا ہے کہ میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں، جس میں اس کے لیے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی قلق ہوتا ہے۔ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا ہے۔ لیکن آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضۂ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الٰہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطۂ آغاز پر لا کھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بد دماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو، تو اپنے فرض سے سبک دوش ہو گیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّ‌بَا قُرْ‌بَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ‌ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو، (١) ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی (٢) تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
٢٧۔١ آدم علیہ السلام کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔
٢٧۔٢ یہ نذر یا قربانی کس لیے پیش کی گئی؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں حضرت آدم و حوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کر دیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بد صورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کے بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی، نکاح کرے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا، بالآخر حضرت آدم علیہ السلام نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی، ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
گو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھاؤں گا، میں تو اللہ تعالیٰ پروردگار عالم سے خوف کھاتا ہوں۔

إِنِّي أُرِ‌يدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ‌ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ﴿٢٩﴾
میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے (١) اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے، ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔
٢٩۔١میرے گناہ کا مطلب، قتل کا وہ گناہ ہے جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ قاتل اورمقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم كتاب الفتن)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٣٠﴾
پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر اامادہ کر دیا اس نے اسے قتل کر ڈالا، جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔ (١)
٣٠۔١ چنانچہ حدیث میں آتا ہے: لا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إلا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا؛ لأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ (صحيح بخاری، كتاب الأنبياء ومسلم، كتاب القسامة) ”جو قتل بھی ظلماً ہوتا ہے، (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا۔“ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ”ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی“۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدِّخِرُ لِصَاحِبِهِ فِي الآخِرَةِ؛ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ (أبو داود، كتاب الأدب- ابن ماجہ، كتاب الزهد ومسند أحمد 5/ 36-38) ”بغی (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مرتکبین کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لیے ذخیرہ ہو گی“ جو انہیں وہاں بھگتنی ہو گی اور قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہو گئے تھے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَبَعَثَ اللَّـهُ غُرَ‌ابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْ‌ضِ لِيُرِ‌يَهُ كَيْفَ يُوَارِ‌ي سَوْءَةَ أَخِيهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَىٰ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـٰذَا الْغُرَ‌ابِ فَأُوَارِ‌يَ سَوْءَةَ أَخِي ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ ﴿٣١﴾
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے، وہ کہنے لگا، ہائے افسوس! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا؟ پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہو گیا۔

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ‌ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْ‌ضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُ‌سُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرً‌ا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْ‌ضِ لَمُسْرِ‌فُونَ ﴿٣٢﴾
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا (١) اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔ (٢)
٣٢۔١ اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر و قیمت کو واضح کرنے کے لیے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لیے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا یہ آیت ہمارے لیے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لیے تھی؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بنو اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے“ (تفسیر ابن کثیر)
٣٢۔٢ اس میں یہود کو زجر و توبیخ ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل و براہین لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا۔ اس میں گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کی ساری تاریخ ہی مکر و فساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیر الماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِ‌بُونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْ‌ضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْ‌جُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْ‌ضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾
جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے، (١) یہ تو ہوئی ان کی دنیاوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے۔
٣٣۔١ اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیو، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہو گئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ ڈالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ انہوں نے چوری بھی کی، قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ و رسول کے ساتھ محاربہ بھی۔ ( صحيح بخاری كتاب الديات، والطب والتفسير- صحيح مسلم كتاب القسامة) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل و غارت گری کرنا، سلب و نہب، اغوا اور آبرو ریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں، امام (خلیفۂ وقت) کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے، دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل و سلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا، اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا، اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلا وطن کر دیا جائے گا۔ لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُ‌وا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٤﴾
ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پا لو (١) تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے۔
٣٤۔١ یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اگر وہ توبہ کر کے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کر دیں تو پھر انہیں معاف کر دیا جائے گا، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہے کہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ انہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا آبرو ریزی کر کے بندوں، پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہو جائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک یہ معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رحجان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کر دیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔ (فتح القدیر وابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣٥﴾
مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو (١) اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔
٣٥۔١ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ”اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ کا مطلب ہو گا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو جائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ”إِنَّ الْوَسِيلَةَ - الَّتِي هِيَ الْقُرْبَةُ - تَصْدُقُ عَلَى التَّقْوَى وَعَلَى غَيْرِهَا مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ، الَّتِي يَتَقَرَّبُ الْعِبَادُ بِهَا إِلَى رَبِّهِمْ“ (وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں) اسی طرح منہیات و محرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے منہیات و محرمات کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو اذان کے بعد میرے لیے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہو گا“۔ (صحیح بخاری- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) دعائے وسیلہ جو اذان کے بعد پڑھنی مسنون ہے: اللَّهُمَّ! رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ؛ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتهُ۔
 
Top