السلام علیکم !!
نہایت ادب و احترام سے عرض ہے کہ اسی پوسٹ میں ایک بھائ نے یہ فرمایا تھا کہ میں قرآن مجید کی تفسیر کے لیے ابن کثیر کی تفسیر پڑھنے کو ترجحیح دیتا ہوں۔ میرے بھائی! نزولِ قرآن اور ابن کثیر کے وقت کے درمیان کتنا فاصلہ ہے یہ بھی دیکھ لیں۔ اور بعض حضرات نہایت آسانی سے یہ فرما دیتے ہیں کہ فلاں کے افکار و نظریات اہلِ سنت والجماعت سے متصادم لگتے ہیں، فلاں منکرحدیث لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو میرے بھائی نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو صرف اور صرف اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور کوئی جب اس کی تفسیر یا تشریح حدیث سے ہٹ کر کرتا ہے تو اس پر فورََا یہی فتوے لگا دیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید تو نہایت آسان الفاظ میں نہایت آسان زبان میں نازل ہوا ہے جو کہ اکثریتِ انسانیت کی سمجھ کے لیے کافی ہے۔اس لیے سب سے پہلے تو سوال اٹھتا ہے کہ تفسیر کی کیا ضرورت ہے، صرف قرآن مجید کا ترجمہ ہی کافی ہے۔ کچھ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کی سمجھ کے لیے ہے جو کہ اس سطح پر نہیں ہیں کہ قرآن کو سمجھ سکیں تو پھر یہ نری تقلید ہوئی کہ بس صرف تفسیر ابن کثیر ہی پڑھنی ہے اور باقی کوئی تفسیر نہیں پڑھنی۔ بعض حضرات اس طرح کے شرک میں اس حد تک پڑھ گئے ہیں کہ بخاری و مسلم کو بھی قرآن مجید کی سطح پر لے آئے ہیں (نعوذ باللہ) ۔ حالانکہ اللہ کی کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی نازل کردہ ہےجبکہ صحیح بخاری و مسلم انسانوں کی تحقیق کردہ کتابیں ہیں ، اس کے علاوہ کوئی بھی تفسیر ہو، وہ انسان کی تحریر کردہ ہی ہے، کوئی ضمانت نہیں ہے کہ صرف وہی تفسیر پڑھ کر ہی انسان رہنمائی حاصل کر سکے، اگر ایسا ہوتا تو اللہ کے رسولﷺخود کوئی تفسیر ضرور چھوڑ کر جاتے ، یا پھر کوئی جلیل القدار صحابی ضرور ایسا کرتے۔ قرآن مجید کی پہلی تفسیرشاید ابان بن تغلب نے کی تھی جو کہ ابھی موجود نہیں ہے اور وہ تابعی تھے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ نے قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کو اپنے اعمال تک محدود رکھا اور لوگوں کو اپنے اپنے نقطہ نظر بتائے جو کہ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اللہ نے انسان سے وعدہ کیا ہے کہ قرآن مجید ہی رہنمائی دے گا، اس لیے جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص منکر حدیث ہے اور اس نے قرآن کی تفسیر کی ہے تو پہلے وہ ذرا یہ وضاحت کریں کہ تفسیر ابن کثیر کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے، اور کیا قرآن و حدیث صرف آپ لوگوں کی جاگیر ہے جس پر کوئی اور اپنے نقطہ نظر کا اظہار (نہایت سنجیدگی سے گستاخی کی نیت کے بغیر) نہیں کرسکتا؟ کیا غیر مسلموں نے قرآن مجید کے تراجم نہیں کئے؟ جو کہ لاکھوں لوگوں کی رہنمائی کا باعث بنے۔ جارج سیل کا 1734 عیسوی کا ترجمہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کو پڑھ کر نہ جانے کتنے غیر مسلم راہ ہدایت پر آئے ہوں گے۔۔۔۔ کیا جارج سیل اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتا تھا؟؟؟؟ کیا موجودہ دو رمیں حدیث کے ایک بہت بڑے عالم ڈاکٹر جوناتھن براؤن کو کسی اہل سنت نے مسلمان کیا تھا ؟؟؟ کیا وہ خود اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں ؟؟؟ کیا اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنا ضروری ہے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مکرمی و محترمی !
آپ کو اتنا کچھ لکھنے کی اس لیے نوبت آئی کیونکہ غالباً آپ نے
ادارہ ٔطلوعِ اسلام یا بلاغ القرآن کے لٹریچر کا مطالعہ نہیں کیا ۔ ورنہ آپ دیکھتے کہ ان دونوں اداروں کا دعویٰ یہی رہا ہے کہ اس زمین پر دین کا
تنہا ماخذ صرف قرآن مجید ہے،
سنت و حدیث کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ حیران ہونگے کہ ان کے نظریات میں بھی بہت فرق ہے حالانکہ دعویٰ دونوں کا ایک ہی ہے کہ ہم قرآن مجید کی تفسیر صرف قرآن مجید سے ہی کرتے ہیں۔اگر قرآن مجید نے دین کےتمام اصول کے ساتھ ساتھ جزئیات بھی متعین کر دی تھیں تو ان کے نظریات میں اتنا تضاد کیوں واقع ہوا ؟
رہی بات اہلِ سنت والجماعت کی تفاسیر کی تو ان میں اختلاف دراصل فروعیات و جزئیات میں واقع ہوا ہے جن سے اصول ِ دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ آپ خود
جناب رحمت اللہ طارق صاحب، غلام احمد پرویز صاحب اور ادارہ بلاغ القرآن کی تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کر لیں، حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی۔
ان شا ء اللہ تعالٰی !
تفسیر ِقرآن کا حق ہر اس شخص کو ہے جو
قرآن ، سنت ، حدیث ، فقہ ، تاریخ وغیرہ میں گہری بصیرت رکھتا ہو اس کے لیے
اہلِ سنت والجماعت سے اس کا تعلق ہونا ضروری نہیں مگر دین کی وہ
مسلمہ تعبیر جو
اہلِ سنت والجماعت نے سمجھی ،سیکھی اور بتائی ہے اسے بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم کو میں بھی قرآن مجید کے ہم پلہ نہیں سمجھتا لیکن ان کتابوں میں جو دین کے بہت سے پہلوؤں کی شرح ،تفسیر اور وضاحت بیان ہوئی ہے اس کو بھی
عجمی سازشکہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا ۔
اس ضمن میں یہ بات بھی ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمیں قرآن بواسطہ ذاتِ مصطفٰی ﷺ ملا ہے لہذا قرآن و ذاتِ مصطفٰیﷺ لازم و ملزوم ہیں۔