• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفصیل درکار ہے

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
قاضی ہو یا محدث بھی انسان ہی ہوتا ہو، کبھی جھوٹے کذاب اسے اپنی چرب زبانی سے دھوکہ بھی دے سکتے ہیں! اور یہ بات تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہی ہے!
لیکن اس کے لئے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ امام بخاری اور مسلم قرآن کی تلاوت اور اس کے الفاظ کو مخلوق نہیں کہتے تھے لیکن اب تک تو آپ یہی فرمارہے ہیں کہ امام بخاری اور مسلم تلاوت قرآن اور اس کے الفاظ کو مخلوق ہی کہتے رہے ہیں امام احمد بن حنبل کا فتوی بھی اس بات کے خلاف ہے اور ذہلی کا ایسے لوگوں کو اپنی مجلس سے دور کرنا بھی اسی بناء تھا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اول تو اگر آپ صحیح مسلم سے یہ بتلا دیں کہ یہ الفاظ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق بیان کئے ہیں تو ہم بھی کہیں کہ آپ بھی کچھ علم رکھتے ہیں! مگر یاد رہے کہ یہ آپ امام مسلم کی صحیح مسلم تو کیا امام مسلم کی کسی کتاب دوسری کتاب سے بھی کیا، امام مسلم کے کسی قول سے بھی ( جو صحیح سند سے منقول ہو) نہیں دکھلا سکتے!
ویسے آپس کی بات ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں بَاب صِحَّةِ الِاحْتِجَاجِ بِالْحَدِيثِ الْمُعَنْعَنِمیں یہ ہائی لائٹ کردہ نظریہ اپنے کس ہم عصر کی جانب منسوب کیا ہے ؟؟؟
امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی اس لئے کہ قول باطل ومردود کی طرف التفات نہ کرنا ہی اس کو ختم کرنے اور اس کے کہنے والے کا نام کھو دینے کے لئے بہتر اور موزوں ومناسب ہوتا ہے تاکہ کوئی جاہل اور ناواقف اس قول باطل کو قول صواب وصحیح نہ سمجھ لے مگر ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی نئی باتوں کے زیادہ دلدادہ اور عجیب وغریب شرائط کے شیدا ہوتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں حالانکہ وہ بات علماء راسخین کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے لہذا اس نظریہ کے پیش نظر ہم نے معاصرین کے قول باطل کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد وبطلان اور خرایباں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا تاکہ عام لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان کا انجام بھی نیک ہو اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ دونوں اپنی عمر اور زندگی میں کم از کم ایک بار ملے تھے یا ان میں سے ایک شخص نے دوسرے سے بالمشافہ حدیث سنی تھی یا کوئی ایسی روایت ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں کی زندگی میں کم از کم ایک بار ملاقات ہوئی اور اگر نہیں تو کسی دلیل سے ان کی ملاقات کا یقین ہو سکے نہ کسی روایت سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت ہو تو ان کے نزدیک اس روایت کا قبول کرنا اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کسی روایت آخر سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہو جائے خواہ ایسی روایات قلیل ہوں یا کثیر ۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے یہ قول اسناد کے باب میں ایک نیا ایجاد کیا ہے جو پیشرو محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا اور نہ علماء حدیث نے اس کی موافقت کی ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ دلیل تو آپ کے خلاف جارہی ہے کیونکہ حضرت عبدالمطلب کا نام عامر اور لقب شیبہ تھا اور آپ کا معروف نام عبدالمطلب ہے اور آپ ایسی نام سے سرزمین عرب میں مشہور ہوئے آپ کی شہرت کی وجہ کعبہ کی متولی اور چاہ زم زم کی ازسر نو دریافت ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دادا حضرت عبد المطلب کو ان کے مشہور نام سے یاد کیا لیکن امام بخاری نے اس کے برعکس کیا کہ امام ذہلی کو ان کے مشہور نام ذہلی کی بجائے ان کا اصلی نام جو کہ غیر معروف تھا اپنی کتاب میں درج کیا
اور جہان تک اس بات کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد کا نام کیوں ذکر نہیں کیا تو اس کا جواب یہ کہ سر زمین عرب میں حضرت عبداللہ کی نسبت حضرت عبدالمطلب زیادہ مشہور معروف تھے
نتیجہ بہر حال وہی نکلتا ہے کہ معروف و مشہور نام ذکر کیا جائے
بہرام صاحب! کسی کےمعروف ہونے میں اعتبار علم ہوتا ہو ، کوئی کسی نزدیک کسی طرح کوئی کسی طرح معروف ہوتا ہے،
علي بن الحسين بن موسى
کسی کے نزیک ''ابن بابويه القمّي'' سے معروف ہے ، تو کئی اسی شخص کو ''شيخ صدوق'' بھی کہتے ہیں! پاکستان میں اکثر شیعہ انہیں ''شیخ صدوق'' کے نام سے ہی جانتے ہیں! ان کے سامنے اگر آپ نے ''ابن بابویہ '' کہا تو وہ انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ کس کا ذکر کیا ہے، لیکن اس میں آپ کی خطا نہ ہو گی! کیونکہ آپ کے نزدیک تو ''ابن بابویہ'' بھی معروف ہو گا!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن اس کے لئے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ امام بخاری اور مسلم قرآن کی تلاوت اور اس کے الفاظ کو مخلوق نہیں کہتے تھے لیکن اب تک تو آپ یہی فرمارہے ہیں کہ امام بخاری اور مسلم تلاوت قرآن اور اس کے الفاظ کو مخلوق ہی کہتے رہے ہیں امام احمد بن حنبل کا فتوی بھی اس بات کے خلاف ہے اور ذہلی کا ایسے لوگوں کو اپنی مجلس سے دور کرنا بھی اسی بناء تھا
یہ ہم نے کیا پیش کیا تھا؟ ذرا بغور مطالعہ کر لیا کریں!
معاملہ وہی ہے جیسا ہم نے بتلایا تھا کہ اہل الرائے نے امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق جھوٹا پروپنگنڈا کیا تھام اور امام بخاری رحمہ اللہ کیا فرماتے ہیں ، ذرا اسے دیکھ لیں:

وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو أَحْمَدَ بْنِ نَصْرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّيْسَابُورِيَّ الْمَعْرُوفَ بِالْخَفَّافِ بِبُخَارَى يَقُولُ: كُنَّا يَوْمًا عِنْدَ أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ وَمَعَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ , فَجَرَى ذِكْرُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ , فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْهُ. فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَدْ خَاضَ النَّاسُ فِي هَذَا وَأَكْثَرُوا فِيهِ. فَقَالَ: لَيْسَ إِلَّا مَا أَقُولُ وَأَحْكِي لَكَ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ: فَأَتَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَنَاظَرْتُهُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْحَدِيثِ حَتَّى طَابَتْ نَفْسُهُ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَاهُنَا رَجُلٌ يَحْكِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ هَذِهِ الْمَقَالَةِ. فَقَالَ لِي: يَا أَبَا عَمْرٍو احْفَظْ مَا أَقُولُ: مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ نَيْسَابُورَ وَقُومَسَ وَالرَّيِّ وَهَمَذَانَ وَحُلْوَانَ وَبَغْدَادَ وَالْكُوفَةِ وَالْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ وَالْبَصْرَةِ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْ هَذِهِ الْمَقَالَةَ , إِلَّا أَنِّي قُلْتُ: أَفْعَالُ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ
صفحه 396 جلد 02
الكتاب: شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة
المؤلف: أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ)
الناشر: دار طيبة – السعودية

وَقَدْ ثَبَتَ عَنِ الْبُخَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ مَنْ نَقَلَ عَنِّي أَنِّي قُلْتُ لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ فَقَدْ كَذَبَ وَإِنَّمَا قُلْتُ إِنَّ أَفْعَالَ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ
صفحه 503 جلد 13
الكتاب: فتح الباري شرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي
الناشر: دار المعرفة - بيروت،

قُلْتُ قَدْ صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ تَبَرَّأَ مِنْ هَذَا الْإِطْلَاقِ فَقَالَ كُلُّ مَنْ نَقَلَ عَنِّي أَنِّي قُلْتُ لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ فَقَدْ كَذَبَ عَلَيَّ وَإِنَّمَا قُلْتُ أَفْعَالُ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ أَخْرَجَ ذَلِكَ غُنْجَارٌ فِي تَرْجَمَةِ الْبُخَارِيِّ من تَارِيخ بخارا بِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيِّ الْإِمَامِ الْمَشْهُورِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ وَمِنْ طَرِيقِ أَبِي عُمَرَ وَأَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيِّ الْخَفَّافِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ
صفحه 535 جلد 13
الكتاب: فتح الباري شرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي
الناشر: دار المعرفة - بيروت،

قال محمد بن نصر المروزي سمعت محمد بن إسماعيل يقول من قال عني إني قلت لفظي بالقرآن مخلوق فقد كذب وإنما قلت أفعال العباد مخلوقة
صفحه 54 جلد 09
الكتاب: تهذيب التهذيب
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)
الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
ویسے آپس کی بات ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں بَاب صِحَّةِ الِاحْتِجَاجِ بِالْحَدِيثِ الْمُعَنْعَنِمیں یہ ہائی لائٹ کردہ نظریہ اپنے کس ہم عصر کی جانب منسوب کیا ہے ؟؟؟
امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی اس لئے کہ قول باطل ومردود کی طرف التفات نہ کرنا ہی اس کو ختم کرنے اور اس کے کہنے والے کا نام کھو دینے کے لئے بہتر اور موزوں ومناسب ہوتا ہے تاکہ کوئی جاہل اور ناواقف اس قول باطل کو قول صواب وصحیح نہ سمجھ لے مگر ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی نئی باتوں کے زیادہ دلدادہ اور عجیب وغریب شرائط کے شیدا ہوتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں حالانکہ وہ بات علماء راسخین کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے لہذا اس نظریہ کے پیش نظر ہم نے معاصرین کے قول باطل کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد وبطلان اور خرایباں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا تاکہ عام لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان کا انجام بھی نیک ہو اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ دونوں اپنی عمر اور زندگی میں کم از کم ایک بار ملے تھے یا ان میں سے ایک شخص نے دوسرے سے بالمشافہ حدیث سنی تھی یا کوئی ایسی روایت ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں کی زندگی میں کم از کم ایک بار ملاقات ہوئی اور اگر نہیں تو کسی دلیل سے ان کی ملاقات کا یقین ہو سکے نہ کسی روایت سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت ہو تو ان کے نزدیک اس روایت کا قبول کرنا اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کسی روایت آخر سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہو جائے خواہ ایسی روایات قلیل ہوں یا کثیر ۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے یہ قول اسناد کے باب میں ایک نیا ایجاد کیا ہے جو پیشرو محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا اور نہ علماء حدیث نے اس کی موافقت کی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان! علم الحدیث آپ کے بس کا روگ نہیں! ذرا غور سے یہ بات پڑھیں، اور اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!
امام بخاری نے اپنی صحیح میں بالکل اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ صرف معاصرت نہیں بلکہ لقاء بھی ثابت ہو، اس بناء پر صحیح بخاری کی حدیث امام بخاری کے متعین کردہ اس معیار کے مطابق ہیں، جو معیار انہوں نے اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے مقرر کیا تھا! امام بخاری کا اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے ایک معیار کو مقرر کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی، ایک کتاب لکھے اور اس کتاب میں درج کرنے کے لئے وہ یہ مقرر کرے کہ وہ صرف احادیث قدسیہ کو ہی اپنی کتاب میں درج کرے گا، اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ احادیث قدسیہ کے علاوہ باقی تمام احادیث کو منکر و ضعیف قرار دے رہا ہے!
اب اس با ت کو اچھی طرح پڑھ کر ذہن نشین کر لیں، اگر ذہن نشین کرنا مشکل ہو، تو اسے موم جامہ میں باندھ کر رکھیں، اور جب کبھی اس موضوع پر کچھ لکھنا چاہو، تو اسے پڑھ لیا کریں!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان! علم الحدیث آپ کے بس کا روگ نہیں! ذرا غور سے یہ بات پڑھیں، اور اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!
امام بخاری نے اپنی صحیح میں بالکل اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ صرف معاصرت نہیں بلکہ لقاء بھی ثابت ہو، اس بناء پر صحیح بخاری کی حدیث امام بخاری کے متعین کردہ اس معیار کے مطابق ہیں، جو معیار انہوں نے اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے مقرر کیا تھا! امام بخاری کا اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے ایک معیار کو مقرر کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی، ایک کتاب لکھے اور اس کتاب میں درج کرنے کے لئے وہ یہ مقرر کرے کہ وہ صرف احادیث قدسیہ کو ہی اپنی کتاب میں درج کرے گا، اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ احادیث قدسیہ کے علاوہ باقی تمام احادیث کو منکر و ضعیف قرار دے رہا ہے!
اب اس با ت کو اچھی طرح پڑھ کر ذہن نشین کر لیں، اگر ذہن نشین کرنا مشکل ہو، تو اسے موم جامہ میں باندھ کر رکھیں، اور جب کبھی اس موضوع پر کچھ لکھنا چاہو، تو اسے پڑھ لیا کریں!
ویسے یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ امام بخاری کے ہم عصر اور امام بخاری کی خاطر اپنے شیخ کی مجلس کوچھوڑنےوالےان کے شاگرد ہی کو یہ بات معلوم نہیں تھی جو آپ کو معلوم ہوگئی کہ امام بخاری کا نظریہ بِاللِّقَاءِ صرف ان کی کتاب صحیح بخاری کے لئے تھا یہ بات آپ نے اگر امام مسلم کو پہلے بتادی ہوتی تو وہ امام بخاری کے نظریات کا اتنے سخت الفاظ میں رد نہیں کرتے آئیندہ اس بات کا خیال رکھنا شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
ویسے یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ امام بخاری کے ہم عصر اور امام بخاری کی خاطر اپنے شیخ کی مجلس کوچھوڑنےوالےان کے شاگرد ہی کو یہ بات معلوم نہیں تھی جو آپ کو معلوم ہوگئی کہ امام بخاری کا نظریہ بِاللِّقَاءِ صرف ان کی کتاب صحیح بخاری کے لئے تھا یہ بات آپ نے اگر امام مسلم کو پہلے بتادی ہوتی تو وہ امام بخاری کے نظریات کا اتنے سخت الفاظ میں رد نہیں کرتے آئیندہ اس بات کا خیال رکھنا شکریہ
آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اس بات کو اچھی طرح پڑھیں!
امام مسلم نے امام بخاری کے اس معیار کو جو انہوں نے صحیح بخاری میں احادیث کو درج کرنے کے لئے رکھا تھا، اس پر قطعی کوئی رد نہیں کیا! ذرو غور سے دوبارہ مطالعہ فرمائیں!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بہرام صاحب! کسی کےمعروف ہونے میں اعتبار علم ہوتا ہو ، کوئی کسی نزدیک کسی طرح کوئی کسی طرح معروف ہوتا ہے،
علي بن الحسين بن موسى
کسی کے نزیک ''ابن بابويه القمّي'' سے معروف ہے ، تو کئی اسی شخص کو ''شيخ صدوق'' بھی کہتے ہیں! پاکستان میں اکثر شیعہ انہیں ''شیخ صدوق'' کے نام سے ہی جانتے ہیں! ان کے سامنے اگر آپ نے ''ابن بابویہ '' کہا تو وہ انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ کس کا ذکر کیا ہے، لیکن اس میں آپ کی خطا نہ ہو گی! کیونکہ آپ کے نزدیک تو ''ابن بابویہ'' بھی معروف ہو گا!
یعنی ثابت ہوا کہ جب کسی ذکر کیا جائے تو اس کے معروف نام سے ہی کیا جائے لیکن امام بخاری نے اپنے صحیح میں امام ذہلی کا ذکر انتقاما غیر معروف نام سے کیا کیوں کہ انھوں نے امام بخاری کے تلاوت قرآن اور الفاظ قرآن کو مخلوق کہنے کی وجہ سے لوگوں کو ان کی مجلس میں جانے سے روک دیا تھا اور یہی سلوک امام بخاری نے امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا ان براہ راست کوئی روایت نہیں لی کیوں کہ امام احمد بن حنبل امام بخاری کے نظریات کو جہمیہ کے نظریات کہتے تھے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یعنی ثابت ہوا کہ جب کسی ذکر کیا جائے تو اس کے معروف نام سے ہی کیا جائے لیکن امام بخاری نے اپنے صحیح میں امام ذہلی کا ذکر انتقاما غیر معروف نام سے کیا کیوں کہ انھوں نے امام بخاری کے تلاوت قرآن اور الفاظ قرآن کو مخلوق کہنے کی وجہ سے لوگوں کو ان کی مجلس میں جانے سے روک دیا تھا اور یہی سلوک امام بخاری نے امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا ان براہ راست کوئی روایت نہیں لی کیوں کہ امام احمد بن حنبل امام بخاری کے نظریات کو جہمیہ کے نظریات کہتے تھے
آپ نے یہاں'' یعنی'' بالکل غلط بیان کئے ہیں، خیر یہ تو آپ کا دیرینہ مسئلہ ہے، دعا کیجئے داعمی نہ ہو!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لیکن اس کے لئے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ امام بخاری اور مسلم قرآن کی تلاوت اور اس کے الفاظ کو مخلوق نہیں کہتے تھے لیکن اب تک تو آپ یہی فرمارہے ہیں کہ امام بخاری اور مسلم تلاوت قرآن اور اس کے الفاظ کو مخلوق ہی کہتے رہے ہیں امام احمد بن حنبل کا فتوی بھی اس بات کے خلاف ہے اور ذہلی کا ایسے لوگوں کو اپنی مجلس سے دور کرنا بھی اسی بناء تھا
علی بہرام پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو تم لوگوں نے تو نعوذ باللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رب بنا دیا ہے

یہ ویڈیو دیکھ کر ایمان والے شائد رو پڑیں،

شیعہ ذاکر کا علی رضی اللہ کی شان میں غلو !

یہ ویڈیو پوری سنیں اور دیکھیں۔

اے عقلمند شیعوں اللہ سے ڈرو اور شرک سے بعض آ جاو۔

عیسائیوں نے اللہ عزوجل کا بیٹا ٹھہرایا اور جس پر اللہ عزوجل قرآن میں اپنے غصے کا اظھار کر رہا ہے اور تم لوگ علی رضی اللہ عنہ کو اللہ سے ملا رہے ہو۔
شیعہ چاہے نصیری ہو یا امامیہ جعفریہ سب کے عقائد میں شرک پایا جاتا ہے مثلا ائمہ کو رب کہنا، علم الغیب، ائمہ سے مدد طلب کرنا، مشکل کشاء سمجھنا وغیرہ

**************
القرآن -- سورة مريم

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا - 19:88

ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اوﻻد اختیار کی ہے

لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا - 19:90

یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز ﻻئے ہو

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا - 19:91

قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں

أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا - 19:92

کہ وه رحمان کی اوﻻد ﺛابت کرنے بیٹھے

وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا - 19:93

شان رحمٰن کے ﻻئق نہیں کہ وه اوﻻد رکھے

إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا - 19:94

آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں

لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا - 19:95

ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے

وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا

یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں
 
Last edited:
Top