• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''ایک آدمی نے وتر کے متعلق حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث پڑھی ابن عمر رضی اللہ نے فرمایا: کَذَبَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ (ابو ہریرہ جھوٹا ہے)۔ (دو اسلام ص: ۹۵)
ازالہ
کذب کے معنی اگر جھوٹ کے ہی لیے جائیں تو ''کذب ابو ہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' محاورہ کے لحاظ سے ان دونوں جملوں میں بہت فرق ہے ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' یہ بہ نسبت ''ابوہریرہ نے جھوٹ کہا'' کے زیادہ قبیح ہے، معلوم نہیں غلط اور پھر زیادہ قبیح معنی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی، ہوسکتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی ہو۔
صدق اور کذب کا استعمال محض سچ اور جھوٹ ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ صدق کا استعمال صحیح نتیجہ پر پہنچ جانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور کذب کا استعمال غلطی کر جانا، خطا کر جانا کے معنوں میں بھی ہوتا ہے، عرب کا محاورہ ہے، کہ اگر تیر نشانہ پر بیٹھ جائے، تو ''صدق'' استعمال کرتے ہیں اور اگر خطا کر جائے تو ''کذب'' استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ''کذب ابوہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوئے کہ ''ابوہریرہ سے خطا ہوگئی'' علامہ احمد عبدالرحمن ابن الشہیر بالساعاتی لکھتے ہیں:
ومعنی قولہ کذب ای اخطار ہو لفۃ اہل الحجاز یطلقون الکذب علی ما ہو اعم من العمد والخطاء (بلوغ الامانی علی فتح الربانی (مسند احمد) ج۳، ص۳۰۲۔
''کذب کے معنی خطا کی اور یہ اہل حجاز کی لغت ہے۔ وہ کذب کو قصد اور خطا سے بھی زیادہ عام معنوں پر محمول کرتے ہیں۔''
امام باجی کہتے ہیں:
ای وہم وغلط (بلوغ الامانی ج۴، ص۲۷۶)
''یعنی وہم ہوگیا غلطی ہوگئی۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے:
''جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث پڑھی گئی ''صلوٰۃ اللیل مثنی مثنی واذا خشیت الصبح فواحدۃ'' یعنی رات کی نماز دو رکعت ہے، اور جب صبح قریب آجائے تو ایک رکعت (یعنی وتر) ادا کرو، تو آپ نے فرمایا: ''کذب ابن عمر'' ابن عمر جھوٹا ہے۔'' (دو اسلام ص: ۹۵)
ازالہ
یہاں بھی ترجمہ غلط کیا گیا ہے، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ''ابن عمر رضی اللہ عنہما سے خطا ہوگئی'' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شایان شان ہی معنی ہیں ایک اور موقعہ پر حضرت عائشہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا تھا:
یغفر اللہ لابی عبدالرحمن اما انہ لکم یکذب ولکنہ نسی او اخطار (صحیح مسلم باب المیت یعذب ببکاء اہلہ علیہ)
''یعنی اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن (یعنی ابن عمر) کی مغفرت فرمائے۔ جھوٹ تو وہ نہیں بولتے لیکن وہ بھول گئے یا ان سے خطا ہوگئی۔''
یہ حدیث بالکل صحیح ہے، اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جھوٹ نہ بولنے کی صراحت کر رہی ہیں، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے موقع پر انہیں جھوٹا سمجھیں، لہٰذا برق صاحب کی وارد کردہ روایت محل نظر ہے۔
خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہ حدیث انہی معنوں میں مروی ہے، وہ فرماتی ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ... احدی عشرۃ رکعۃ یسلم بین کل رکعتین و یوتر بواحدۃ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔''
اس حدیث کی موجودگی میں کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر کی بیان کردہ حدیث کو غلط سمجھا لہٰذا برق صاحب کی بیان کردہ روایت باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''جب حضرت عمر بن الخطاب کی یہ حدیث ''ان المیت لیعذب ببکاء اہلہ علہ'' کہ میت پر رونے سے میت کو سزا ملتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا اللہ عمر پر رحم کرے، کیا اس نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ''لَا تَزِرُ دَازِرَۃَ وِزْرَ اُخْرٰی'' کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (بخاری و مسلم) مسلم نے یہ حدیث چھ مرتبہ، چھ صحابہ سے روایت کی ہے ... حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گویا سب کی تردید فرما دی۔'' (دو اسلام ص: ۹۵،۹۶)
ازالہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تردید تو بے شک کی، لیکن کتنے پیارے انداز میں:
لما بلغ عائشۃ قول عمرو ابن عمر قالت انکم لتحدثونی عن غیر کاذبین و مکذبین ولکن السمع یخطی (صحیح مسلم)
''جب حضرت عائشہ کو حضرت عمر اور حضرت ابن عمر کی روایت کردہ حدیث پہنچی تو انہوں نے کہا تم ایسے آدمیوں سے حدیث بیان کر رہے ہو جو نہ جھوٹے ہیں نہ جھٹلائے جاسکتے ہیں مگر سننے میں غلطی ہوسکتی ہے۔''
پھر فرماتی ہیں ''یرحم اللہ عمر'' اللہ عمر رضی اللہ پر رحم فرمائے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا: ''یغفر اللہ لابی عبدالرحمٰن'' اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو معاف فرمائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تردید میں صرف قرآن کی آیت ہی پیش نہیں فرمائی بلکہ حدیث بھی پیش کی انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا:
ان اللہ یعذب المؤمن ببکاء احد
''کہ اللہ مومن پر کسی کے نوحہ کی وجہ سے عذاب کرتا ہے''
بلکہ یہ فرمایا تھا:
ان اللہ یزید الکافر عذابا ببکاء اہلہ علیہ (صحیح مسلم)
''بے شک اللہ کافر پر نوحہ کی وجہ سے عذاب زیادہ کر دیتا ہے۔''
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سنا تھا اس کو اپنی دلیل میں پیش فرمایا اور پھر قرآن کی آیت تلاوت فرمائی کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لیکن حضرت عائشہ نے جو حدیث پیش کی وہ بھی اس آیت کے خلاف ہے اور حضرت عمر رضی اللہ کی حدیث بھی اس آیت کے خلاف ہے حدیث دونوں نے پیش کی اور ایسی حالت میں پیش کی کہ وہ بظاہر قرآن کی آیت سے ٹکراتی تھی، ان میں سے کسی نے بھی صرف قرآن کی مخالفت کی وجہ سے حدیث کو مسترد نہیں کیا اور نہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کیا سمجھیں اور انہوں نے کیوں تردید کی امام نووی لکھتے ہیں:
وقالوا کان من عادۃ العرب الوصیۃ بذلک ومنہ قول طرفۃ بن العبد اذا مت فانعینی بما انا اہلہ وشقی علی الجیب یا ابنہ معبد (بلوغ الامانی علی فتح الربانی ج۷، ص: ۱۱۲۶)
''یعنی جمہور نے کہا ہے کہ یہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ اس کی وصیت کرتے تھے طرفہ بن عبد کا قول بھی اسی تفصیل سے ہے وہ کہتا ہے جب میں مر جائوں تو مجھ پر ایسا نوحہ کرنا جس کا میں اہل ہوں اور اسے معبد کی بیٹی میری غم میں گریباں چاک کرنا۔'' (بلوغ الامانی علی فتح الربانی جز ۷ صفحہ ۱۲۶)
غرض یہ کہ حضرت عائشہ یہ سمجھیں کہ کافر کے متعلق تو میں نے یہ حدیث سنی ہے، کیونکہ ان کے ہاں رسم ہے اور وہ اپنے اہل کو اس کی ترغیب دیتے ہیں، لہٰذا اس ترغیب کا عذاب ان کو ہوگا، لیکن مومن تو ایسا نہیں کرسکتا لہٰذا اس پر دوسروں کا بوجھ کیسے پڑے گا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے، مومن ہو یا کافر جو شخص بھی اپنے ہاں نوحہ کی رسم کو جاری رکھے، اس سے روکے نہیں، تو پھر مومن اور کافر دونوں پر عذاب ہوگا، نہ حضرت عائشہ کی حدیث حقیقتۃ قرآن کے خلاف ہے، نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جو مطلب سمجھا وہ رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی منشاء کے مطابق نہ تھا، وہ یہ سمجھتی رہیں کہ مومن ایسا کر نہیں سکتا، اس کو عذاب کیوں ہوگا، انہوں نے اس غلطی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ اس کے حقیقی منشاء کو سمجھ کر اس کو روایت کرتے تھے، اور یہ دلالت ان صحابہ کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ میں موجود ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
ان المیت لیعذب ببعض بکاء اھلہ (صحیح مسلم)
بے شک میت پر اس کے اہل کے بعض نوحوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
یعنی میت پر ہر حالت میں عذاب نہیں ہوتا، بلکہ حالات میں ہوتا ہے، اور وہ بعض حالات یہی ہیں کہ اس میت کے ہاں نوحہ کی رسم ہو اور اس نے اس رسم کو بند کرنے کی کوشش نہ کی ہو، یا اس رسم کی ترغیب دی ہو، تو پھر اس رسم کی وجہ سے جو نوحہ کیا جائے گا، اس کا عذاب میت پر بھی ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اسی طرح جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بیان کی گئی کہ حضور نے مقتولین جنگ کی لاشوں کو جو ایک گڑھے میں پڑی تھیں دیکھ کر فرمایا، کیا اللہ تعالیٰ نے وہ مواعید پورے کردئیے ہیں جو تم سے کئے گئے تھے،کسی نے کہا، آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے، فرق یہ ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے ، تو آپ نے فرمایا: حضور نے ان لاشوں کو دیکھ کر صرف اتنا فرمایا تھا '' انھم لیعلمون الان ان ما کنت اقول حق '' ان لوگوں کو اب معلوم ہو جائے گا کہ جو کچھ میں کہا کرتا تھا وہ درست ہے اور پھر قرآن کی یہ آیت پڑھی { اِنَّکَ لَا تُسْمِعْ الْمَوْتی}تم مردوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتے۔ (دو اسلام ص ۹۶)
ازالہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث مذکور کے جو الفاظ سنے تھے، ان کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نہ پایا، مزید برآں انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بظاہر قرآن کی آیت کے خلاف سمجھا، لہٰذا اس پر شبہ کا اظہار فرمایا، انہوں نے فرمایا:
قد ذھل (صحیح مسلم کتاب الجنائز)
یعنی ابن عمر سے خطا ہوگئی وہ بھول گئے۔
پھر یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف اتنا فرمایا تھا:
انھم لیعلمون الان ان ماکنت اقول حق۔
یعنی ان لوگوں کو اب معلوم ہو جائے گا کہ میں جو کچھ کہتا تھا وہ صحیح تھا۔
گویا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے حدیث کے صرف اتنے ہی الفاظ سنے تھے، یعنی انہوں نے صرف وہ ہی الفاظ سنے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمائے تھے، اور وہ الفاظ نہیں سنے جو اس کے بعد لاشوں کو مخاطب کرکے فرمائے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے وہ الفاظ روایت کیے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کو مخاطب کرکے فرمائے تھے، لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی سنی ہوئی حدیث اور پھر قرآنی آیت سے استشہاد کرتے ہوئے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح نہیں سمجھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ انہوں نے سمجھا، وہ صحیح بھی ہو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا میں تحقیق کی عادت زیادہ تھی، اگر وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے بھی یہ الفاظ سنتیں تو خاموش نہ رہتیں، بلکہ اس کی تشریح کی طالب ہوتیں، اور تعارض میں قرآن کی آیت بھی پیش کردیتیں۔ مثلاً ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حوسب عذب
جس کا حساب لیا گیا اس پر عذاب ہوگا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فوراً عرض کیا، کہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں یہ فرماتا ہے:
{ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًا } (انشقاق)
یعنی جنتی لوگوں کا حساب آسان ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ یہ حدیث تو قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' آیت میں جس حساب کا ذکر ہے، وہ محض سرسری پیشی ہے، لیکن جس کی چھان بین کی گئی تو اس پر عذاب ہونا لازمی ہے (صحیح بخاری) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غلط فہمی کو اس طرح دور فرمایا کہ آیت میں حساب سے مراد سرسری پیشی ہے، اور حدیث میں حساب سے مراد چھان بین ہے، اگر اتفاقاً یہ تعارض اس وقت رفع نہ ہوگیا ہوتا، اور یہ حدیث کسی دوسرے صحابی کی روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہنچتی۔ تو وہ اپنی سمجھ کے مطابق تعارض میں آیت کو پیش فرما دیتیں، اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ واقعہ غلط فہمی کا ایک سبب بن جاتا، بعد والے یہ سمجھتے کہ انہوں نے حدیث کو آیت کے خلاف سمجھ کر رد کردیا، حالانکہ ان کی غلط فہمی سے بعد والوں کا حدیث کو مسترد کردینا کسی طرحی بھی صحیح نہ ہوتا، اگر کوئی حدیث بظاہر قرآن کے مخالف بھی ہو، اور ہمیں کوئی صورت تطبیق کی بھی معلوم نہ ہو، تب بھی ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم حدیث کو مسترد کردیں ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں یا تو حدیث کا مطلب نہیں آیا، یا ہم آیت کا صحیح مطلب نہ سمجھ سکے اور یہ ہماری کم فہمی ہے۔
الغرض اگر کوئی صحابی یا صحابیہ یا کوئی اور آیت و حدیث میں تعارض سمجھے تو اس کی غلط فہمی کی وجہ سے یہ لازمی نہیں کہ وہ تعارض حقیقۃ بھی ہو، اور نہ ہم پر یہ لازم ہے کہ جو کچھ انہوں نے سمجھا وہی ہم بھی سمجھیں اور اپنی کم فہمی کی وجہ سے یا محض تقلیداً حدیث کو مسترد کردیں، حدیث کو پرکھنے کا یہ کوئی ٹھوس معیار نہیں، وہ حدیث جس کو برق صاحب نے پیش فرمایا ہے، اس کے سلسلہ میں ہم صرف اتنا بتائیے دیتے ہیں کہ آیت میں مردوں کو سنانے کی نفی رسول کے لیے ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو سنا سکتا ہے اگر بطور معجزہ کے صرف اسی وقت آپ کی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ان مردوں کو سنا دیا، تو یہ بالکل ممکن ہے یہ معجزہ آیت کے حکم عام کا مخصص ہوگا نہ کہ متعارض۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عروہ بن زبیر مدنی (وفات ۹۴ھ) سے کسی نے کہا کہ بقول ابن عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد تیرہ برس مکہ میں رہے تھے تو عروہ بولے ابن عباس جھوٹ کہتا ہے۔ (دو اسلام ص ۹۷)
ازالہ
عروہ بن زبیر کے قول کے صحیح معنی تو وہی ہیں کہ '' ابن عباس سے خطا ہوگئی'' لیکن بفرض محال اس کے معنی وہی کیے جائیں ، جو برق صاحب نے کئے ہیں تو پھر یہ بتائیے کہ واقعی ابن عباس رضی اللہ عنہ جھوٹے تھے؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد تیرہ برس مکہ میں رہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تو سچ بیان کیا اور وہ سچے ہی تھے، تو اب کوئی شخص غلط فہمی سے سچ کو جھوٹ کہہ دے، تو یہ اس کہنے والے کا قصور ہے نہ کہ سچ کہنے والے کا، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ایک حد تک معذور ہیں، اس لیے کہ انہوں نے ابن عباس کی بات محض تقلیداً ماننے سے اعراض کیا، اور جو کچھ ان کو معلوم تھا اس کی بنا پر ابن عباس کی بات کو تسلیم نہیں کیا یہ آزادی رائے اور تحقیق و تنقید ایک مستحسن فعل ہے، لیکن یہ بعد والے دیکھیں گے کہ تنقید صحیح بھی ہے یا کون حق پر ہے کون غلطی پر، اس روایت میں ابن عباس ہی حق بجانب تھے، اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے خطا ہوگئی، لیکن نہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر اس سلسلہ میں کوئی حرف آتا ہے نہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر ہاں '' خطا'' کو جھوٹ کا جامہ پہنانے سے بے شک معاملہ بگڑ جاتا ہے اور یہاں برق صاحب کی غلط فہمی کا یہی موجب ہوا۔
برق صاحب کی پیش کردہ روایت صحیح مسلم کتاب الفضائل میں موجود ہے، اس میں یہ لفظ نہیں ہیں کہ ''ابن عباس رضی اللہ عنہ جھوٹ کہتا ہے'' بلکہ صرف یہ لفظ ہے '' فغفرہ'' یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس کے لیے مغفرت کی دعا کی، اس صحیح روایت کی موجودگی میں برق صاحب کی پیش کردہ روایت باطل ہے، جامع بیان العلم میں یہ قول بے سند منقول ہے (جامع جلد ۲ ص۱۵۵) لہٰذا اس کے جھوٹ ہونے میں کیا شبہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے کسی نے وشاھد و مشھود کی تفسیر پوچھی، جب آپ بیان کرچکے تو سائل نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن زبیررضی اللہ عنہ کی تفسیر کچھ اور ہے ، فرمایا '' قد کذبا'' انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔ (دو اسلام ص ۹۷)
ازالہ
'' قد کذبا'' کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ان دونوں سے خطا ہوگئی، دوم یہ کہ لفظ '' کذبا'' مشکوک ہے، اس لیے کہ تفسیر ابن جریر میں یہ لفظ نہیں ہے (تفسیر ابن کثیر جلد ۴ ص ۴۹۲) سوم یہ کہ جامع بیان العلم میں یہ قول بے سند منقول ہے (جلد ۲ ص ۱۵۵) لہٰذا یہ روایت باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مغیرہ بن شعبہ، عبادہ بن الصامت اور ابو محمد مسعود بن اوس انصاری بدری کی سب روایات جھوٹی ہیں۔ (دو اسلام ص ۹۷)
ازالہ
یہ روایت جھوٹی ہے اور حضرت علی پر اتہام ہے، جامع بیان العلم جہاں سے برق صاحب نے یہ اقوال نقل کئے ہیں، اس میں یہ قول بھی بے سند ہے۔ (جامع جلد ۲ ص ۱۵۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
محمد بن جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے امیر معاویہ کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنائی جس پر معاویہ کو سخت غصہ آیا، اور لوگوں کو جمع کرکے کہا '' مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ ایسی احادیث بیان کر رہے ہیں، جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، اور نہ تعلیمات قرآن کے مطابق، خبردار تم ان جاہلوں سے بچو، اور گمراہ کن آرزؤں سے دور رہو'' (صحیح بخاری جلد ۲ ص ۱۷۱) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے زمانہ ہی میں احادیث کا چشمہ کدر ہوچکا تھا، اقوال رسول کو مسخ کیا جا رہا تھا، اور اہل نظر صحابہ کا۔ اعتماد اٹھ چکا تھا، ورنہ امیر معاویہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو جاہل کیوں کہتے۔ (دو اسلام ص ۹۷۔۹۸)
ازالہ
برق صاحب نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا پورا بیان نقل نہیں کیا، حضرت امیر معاویہ نے اس کے بعد فرمایا:
انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان ھذا الامر فی قریش لا یعادیھم احدا لا کبہ اللہ علی وجھہ ما اقاموا الدین (صحیح بخاری)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ حکومت قریش میں رہے گی جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرے گا، جب تک قریش دین کو قائم رکھیں گے (یہ بات جاری رہے گی) ۔
اس حدیث کی بنا پر امیر معاویہ یہ سمجھے کہ حکومت قریش میں رہے گی، لہٰذا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات پر انہیں یقین نہ آیا کہ کسی وقت ایک بادشاہ قحطانی بھی ہوگا، کیونکہ عبداللہ بن عمر کی یہ بات ان کی سنی ہوتی حدیث سے ٹکراتی تھی، لہٰذا انہیں اس پر تعجب ہوا، انہوں نے کہا کہ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی ہوئی نہیں ، نہ یہ کتاب اللہ میں ہے اور پھر اس حدیث کے بھی خلاف ہے کہ خلافت قریش میں رہے گی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ کہ:
لا توثر عن رسول اللہ ﷺ
کہ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی۔
اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امیر معاویہ یہ سمجھے کہ یہ عبداللہ بن عمرو کا قول ہے، لہٰذا انہیں غصہ آیا کہ عبداللہ بن عمرو ایسی بات کیوں کہتے ہیں جو حدیث میں نہیں اگر انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے نہیں کہتے، بلکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے، تو پھر وہ اس قسم کی تردید نہ کرتے، بے شک یہ حدیث عبداللہ بن عمرو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی، کیونکہ یہ حدیث صحیح بخاری کتاب الفتن میں مذکورہ بالا حدیث سے کچھ پہلے ان الفاظ میں موجود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تقوم الساعۃ حتی یخرج رجل من قحطان یسوق الناس بعضاہ
قیامت قائم نہ ہوگی جب تک قحطان سے ایک شخص نہ نکلے گا وہ لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا۔ یعنی سختی کے ساتھ حکومت کرے گا۔
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ اس میں غلطی امیر معاویہ کی تھی نہ کہ عبداللہ بن عمرو کی، امیر معاویہ نے بغیر تحقیق کے عبداللہ بن عمرو کی بات پر اعتماد نہیں کیا، بلکہ انہوں نے خود اپنی بیان کردہ حدیث پر بھی غور نہیں فرمایا، ان کی حدیث میں بھی یہ چیز موجود تھی کہ حکومت قریش میں اس وقت تک رہے گی، جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے، اور جب وہ دین کو قائم نہیں رکھیں گے، تو پھر غیر قریشی بادشاہ ہوں گے، ان میں سے ایک قحطانی بھی ہوگا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی وجہ کے دونوں کو متعارض سمجھ لیا، بہرحال ان کی نیت بہت اچھی تھی، انہوں نے حدیث کے خلاف ایک بات سنی تو فوراً اس کی تردید کردی، اگر عبداللہ کی بات بھی حدیث کی شکل میں ان کے پاس پہنچتی تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے، بلکہ تطبیق کی کوشش کرتے۔
امیر معاویہ کے اس بیان سے یہ نتیجہ نکالنا کہ صحابہ کے زمانہ میں احادیث کا چشمہ مکدر ہو چکا تھا، کسی طرح صحیح نہیں، اس لیے کہ صحابہ اپنی سنی ہوئی احادیث بیان کرتے تھے، نہ کہ غیر صحابی سے سنی ہوئی، پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ اقوال رسول کو مسخ کیا جا رہا تھا، آخر مسخ کرنے والے کون تھے؟ خود صحابہ کرام! صحابہ کرام کے متعلق برق صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں:
صحابہ میں کافی تعداد ایسے حضرات کی موجود تھی ، جو محرف احادیث بیان کرنے کے خوگر تھے۔ (دو اسلام ص ۹۸)
معاذ اللہ اس غلط فہمی کی بھی کوئی حد ہے، صحابہ کرام اور جھوٹ ! اور وہ بھی اس ہستی پر جس کا وہ کلمہ پڑھتے تھے، مزید برآں برق صاحب نے یہ بھی نتیجہ نکالا ہے کہ ''اہل نظر صحابہ کا اعتماد اٹھ چکا تھا'' گویا ان کا مطلب یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بمقابلہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اہل نظر تھے، یہ بھی قطعاً صحیح نہیں، امیر معاویہ خلیفہ اور سیاست دان سہی، لیکن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے، یہ تو ہوسکتا ہے کہ اہل نظر حضرات کی فہرست میں عبداللہ کو شامل کیا جائے، اور امیر معاویہ اس میں شامل نہ ہوں، لیکن اس کا عکس تو کسی طرح صحیح نہیں۔ برق صاحب کو کتنی بڑی غلط فہمی ہوئی کہ صحابہ کرام کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی تعریف میں فرماتا ہے:
{ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ } (فتح)
صحابہ کفار پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں، اے رسول آپ دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع کرتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں، اللہ کا فضل اور خوشنودی تلاش کرتے رہتے ہیں، ان کی علامت یہ ہے کہ یہ سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑ گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے تذکار جلیلہ توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی۔
برق صاحب کچھ تو بتائیے ، کیا ایسے ناقابل اعتماد، محرف احادیث بیان کرنے والوں، اپنے رسول کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والوں کا ذکر تورات میں ہے، انجیل میں ہے، کیا ایسے ہی لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کر رہا ہے؟ برق صاحب اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے۔
الزمھم کلمۃ التقوی وکانوا احق بھا واھلھا (فتح)
تقویٰ کی بات کو ان سے چمٹا دیا ہے، اور وہ اس کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔
اللہ تعالیٰ تو یہ فرمائے کہ ان کے ہاتھ سے تقویٰ کا دامن نہیں چھوٹتا اور آپ یہ سمجھیں کہ وہ جھوٹی احادیث بیان کرتے تھے، وہ ناقابل اعتماد ہوگئے تھے، وہ جاہل تھے، یہ کہاں تک صحیح ہے، اگر کسی صحابی نے بفرض محال کسی دوسرے صحابی کو جوش میں آکر یہ کہہ دیا کہ وہ غلط کہتے ہیں یا وہ جاہل یعنی نادان ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حقیقت میں بھی ایسے ہی ہیں، برق صاحب آپ نے تو صرف یہی کہا ہے کہ صحابہ کرام ناقابل اعتماد تھے، محرف احادیث بیان کرتے تھے کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ صحابہ کرام مرتد ہوگئے تھے، قرآن میں تحریف کرتے تھے، حتیٰ کہ موجودہ قرآن انہی کا تحریف شدہ قرآن ہے، اصل قرآن نہیں ہے، نعوذ باللہ! برق صاحب پھر سوچئے کہ آپ نے صحابہ کرام کے متعلق جو رائے قائم کی ہے، کیا وہ قرآن کی روشنی میں صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
برق صاحب نے بعد میں اس سے رجوع کر لیا تھا اور اس کی تردید میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جو تاریخ حدیث کے نام سے محدث لائیبریری میں موجود ہے -
الحمد للہ!
منکرین حدیث تو خیر ہر دور میں موجود رہے ہیں اور احادیث رسول ﷺ کےخلاف مغالطے پیدا کرتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کتاب میں ان کا ہی رد کیا گیا ہے۔
 
Top