• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضور کا زمانہ تھا، خود سرور کائنات بقید حیات تھے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے عبداللہ نے پوچھا کہ آپ روایت احادیث سے کیوں اجتناب کیا کرتے ہیں، فرمایا اللہ کی قسم! احادیث میں اختلاف ہوگیا ہے، میں نے حضور کی زبان مبارک سے یہ حدیث ان الفاظ میں سنی تھی۔
من کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار۔
جو شخص کوئی غلط قول میری طرف منسوب کرے گا جہنم میں جائے گا۔
لیکن لوگوں نے اس میں '' متعمداً' کا لفظ (من کذب علی متعمدا) بڑھا لیا ہے۔ (دو اسلام ص ۱۲۳)
ازالہ
برق صاحب آپ کی عقل میں یہ بات کیسے آگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور احادیث میں اختلاف ہوجائے اختلاف دور کرنے والی ہستی موجود ہو، اور نہ وہ اختلاف کو دور کرے، نہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں، اور اختلاف کو رفع کریں، آپ نے تو بڑی عجیب و غریب بات کہی ہے۔
برق صاحب! آپ کی وارد کردہ روایت بالکل بے سند ہے لہٰذا بالکل جھوٹی ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) عبداللہ بن زبیرنے یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد کیا تھا نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں، روایت کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیے، عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں:
ما لی لا اسمعک تحدث عن رسول اللہ ﷺ کما اسمع ابن مسعود رضی اللہ و فلانا وفلانا قال اما انی لم افارقہ منذ اسلمت ولکنی سمعت کلمۃ یقول من کذب علی متعمد افلیتبوا مقعدہٗ من النار۔ (ابن ماجہ)
کیا بات ہے کہ میں آپ سے اس طرح حدیث نہیں سنتا جس طرح ابن مسعود اور فلاں فلاں شخص سے سنتا ہوں؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں رہا جب سے میں نے اسلام قبول کیا لیکن ایک کلمہ میں نے آپ سے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرنا چاہیے۔
یعنی حضرت زبیر اس خوف سے احادیث بیان نہیں کرتے تھے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ متعمداً کا لفظ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس لفظ کو روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد دو سو تک بتائی گئی ہے، صرف کتب صحاح میں یہ لفظ چودہ صحابہ کی روایت میں موجود ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) پس ثابت ہوا کہ برق صاحب کی نقل کردہ روایت بالکل باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اسی طرح جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت ابوہریرہ کی کتے والی حدیث بیان کی گئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مویشیوں کی رکھوالی اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا جائز ہے، تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیوں نہ ہو، ابوہریرہ کھیتوں کا مالک جو ٹھہرا۔ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کھیت کے لیے کتا پال رکھا تھا، اس لیے بقول ابن عمر رضی اللہ عنہ آپ نے ایک حدیث تراش کر کتا پالنے کا جواز نکال لیاتھا۔ (ص۱۲۳۔ ۱۲۴)
ازالہ
بات صرف اتنی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کی حدیث معلوم نہ تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو معلوم تھی اور انہوں نے بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ حدیث انہیں معلوم ہونی ہی چاہیے، کیونکہ وہ کھیتی کرنے میں اور کتا پالتے ہیں، اگر انہیں معلوم نہ ہوتی، تو وہ ایسا کیوں کرتے نہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اس میں کوئی طنز ہے، نہ ابوہریرہ کی تکذیب، بلکہ ظاہر یہ کرتا تھا کہ کوئی تعجب نہیں، اگر انہیں یہ حدیث یاد ہے، اور مجھے یاد نہیں، اس لیے کہ وہ اس کے ضرورت مند ہیں، اور میں نہیں، برق صاحب کا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر یہ بہتان ہے کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ابوہریرہ نے حدیث تراش لی، حاشا وکلا بلکہ اس کلمہ کو انہوں نے بھی یاد کرلیا، اور اس کی روایت کی:
عن ابی الحکم سمعت ابن عمر یحدث عن النبی ﷺ قال من اتخذ کلبا الا کلب زرع او غنم اوصید ینقص من اجرہ کل یوم فیراط۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البیوع)
ابو الحکم کہتے ہیں میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کیا کہ آپ نے فرمایا جس نے کتا پالا سوائے کھیتی یا بکری یا شکار کے کتے کے تو اس کے اجر میں ہر روز ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔
گویا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو ابوہریرہ کو سچا تھا، اور برق صاحب غلط فہمی سے کچھ اور سمجھ رہے ہیں، پھر روایت دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے، اور اس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا انفراد نہیں، الغرض دونوں صحابی اب بہتان عظیم سے بری ہیں، برق صاحب! اگر صحابہ کرام احادیث گھڑتے تھے، بدترین قسم کے کذاب و دضاع تھے تو پھر کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ ان لوگوں نے قرآن میں بھی کوئی تحریف کی ہوگی، کیونکہ صحیفہ عثمانی وصدیقی کی ترتیب میں نعوذ باللہ ان کذابین کی جماعت شامل تھی، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا فرقہ موجودہ قرآن کو محرف مانتا ہے۔ (تفصیل کے لیے باب پنجم ملاحظہ ہو)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
زمانہ گزرتا گیا، اللہ سے ڈرنے والے اور ذات رسول سے عشق رکھنے والے ختم ہوتے گئے، اور بعد میں آگئے ایسے مسلمان جو کعبہ کو گرنے آل رسول کو ذبح کرنے، اور حرم نبوی کے معصوم بچوں کو گرم ریگستان میں تڑپا تڑپا کر ہلاک کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے کیا ان حضرات کے لیے احادیث میں رد و بدل کوئی بڑی بات تھی۔ (دو اسلام ص ۱۳۴)
ازالہ
برق صاحب بقول آپ کے صحابہ کرام تک احادیث میں تحریف کیا کرتے تھے، تو پھر بعد والوں پر تحریف احادیث کے سلسلہ میں تعجب کی بات ہی کونسی ہے'' ایں خانہ ہمہ آفتاب ست'' جب قرآن کے مخاطبین اولین ہی احادیث میں رد و بدل کردیا کرتے ہوں، تو پھر بعد والے جتنا بھی کریں کم ہے، گویا جن صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معتمد اور محبوب سمجھتے ہوں، قرآن جن کی تعریف کرتا ہو، وہ گویا سب کے سب الا ماشاء اللہ منافق تھے، اس سے تو اس فرقہ کی تائید ہوتی ہے، جو کہا کرتا ہے کہ صرف تین صحابی (یا اس سے کچھ زاید) بانی سب منافق، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
برق صاحب جن واقعات کی طرف آپ نے اپنی مذکورہ بالا عبارت میں اشارہ فرمایا ہے، ان میں سے اکثر بناوٹی ہیں، لیکن معلوم نہیں آپ نے بے تحقیق بے سند باتوں پر کیسے یقین کرلیا، محدثین کی معیاری اور باسند باتیں تو آپ کو تسلیم نہیں، اور مؤرخین کی بے سند اور جھوٹی باتوں پر آپ یقین کرلیتے ہیں، تعجب ہے، اگر ہم ان واقعات کو صحیح بھی مان لیں ، تو ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا محدثین کی جماعت تھی، جو یہ کام کرتی تھی، کیا آل رسول کو محدثین نے ذبح کیا تھا؟ کیا قاتلان حسین راویان حدیث تھے، جو محدثین کو احادیث املا کراتے تھے؟ آخر کیا بات ہے؟ خدارا انصاف کیجئے، محدثین کی جماعت ہمیشہ ان فتنوں سے علیحدہ رہی، وہ یکسوئی کے ساتھ صرف احادیث کی خدمت کرتے رہے، ان کی زندگی بے داغ اور اسلامی زندگی کا شاندار نمونہ تھی، محدثین کرام تو ان لوگوں کا اعتبار ہی نہیں کرتے تھے، جو ان واقعات میں شریک ہوئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہمارے بعض بزرگ کہتے ہیں کہ احادیث کو چھوڑ دو گے، تو نماز پڑھنے کا طریقہ کہاں سے سیکھو گے اور زکوٰۃ کی مقدار کہاں سے معین کرو گے؟
جواب: اس سوال کے تین جواب ہیں، اول: اگر ہم احادیث کے مطابق نماز پڑھنا شروع کردیں تو ہر مسجد کی نماز دوسری سے مختلف ہو جائے گی۔ (دو اسلام ص ۱۲۴)
ازالہ
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ اب تمام مسجدوں میں نماز کی ایک ہی صورت ہے، اگر حدیث کے مطابق پڑھیں گے تو مختلف ہو جائے گی، یہ تو بڑی عجیب و غریب بات ہے، کیونکہ معاملہ بالکل برعکس ہے، یعنی آج کل نماز کی ہیئت میں اختلاف ہے ، اور اس کی وجہ تقلیدی فرقہ بندی، اور احادیث کی طرف سے غفلت ہے، اگر سب مل کر صحیح احادیث کے مطابق نماز پڑھنے لگ جائیں، تو یہ اختلاف مٹ جائے گا، جو آج کل مسجدوں میں پایا جاتا ہے کہ کوئی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتا ہے، اور کوئی ہاتھ باندھ کر، کوئی سینہ پر ہاتھ باندھتا ہے، اور کوئی ناف سے نیچے، کوئی بلند آواز سے آمین کہتا ہے، اور کوئی بلند آواز سے چڑتا ہے، کوئی رفع یدین کو نماز کی زینت سمجھتا ہے، اور کوئی اس کو سرکش گھوڑوں کے دموں سے تشبیہ دیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
دوم: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لاکھوںمسلمانوں نے نماز پڑھتے دیکھا، انہیں کروڑوں نے، اور یہ سلسلہ ہم تک پہنچ گیا، کیا ان ارب کھرب انسانوں کی شہادت کافی نہیں؟ کیا دیہاتی مسلمان صحیح بخاری سے نماز کا طریقہ سیکھا کرتے ہیں جس طریقہ سے ہمارے آباؤ اجداد نماز ادا کرتے رہے، ہم نے وہ سلسلہ جاری رکھا، اور اب ہماری نقل اتار رہی ہے۔ یہاں صحیح بخاری کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے کشمیر کی ساری وادی میں غالباً صحیح بخاری کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی وہ نہایت صحت سے نماز پڑھتے ہیں۔ (دو اسلام ص ۱۲۵)
ازالہ
یہ جواب خود برق صاحب کے خلاف ہے یعنی حدیث کی کتابت، حدیث کی حفاظت کے لیے لازمی شے نہیں، بلکہ حدیث پر جو عمل تواتر سے ہر زمانہ میں ہوتا رہا، یہی اس کی اصل حفاظت ہے، اور یہ ایسی حفاظت ہے کہ تقریباً پورا قرآن اس حفاظت میں احادیث کی برابری نہیں کرتا برق صاحب کی اس عبارت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صحیح بخاری ہو یا نہ ہو، احادیث عملاً محفوظ ہیں اور جس طرح آج تواتر کی وجہ سے محفوظ ہیں، صحیح بخاری کی تالیف سے پہلے بھی تواتر کی وجہ سے اسی طرح محفوظ تھیں، لہٰذا یہ اعتراض کہ '' صحیح بخاری کی تالیف سے پہلے ڈھائی سو سال گزر چکے تھے، اس طویل زمانہ میں حفاظت حدیث کا کوئی انتظام نہ تھا، اور یہ کہ تمام احادیث غیر محفوظ تھیں اس لیے ناقابل اعتماد ہیں'' خود بخود کالعدم ہو جاتا ہے، اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ صحیح بخاری کی تالیف کے وقت بھی احادیث عملی تواتر کی وجہ سے محفوظ تھیں، امام بخاری نے ان ہی محفوظ احادیث کو روایۃً اور سنداً بھی محفوظ کرلیا، اور حقیقت تو یہ ہے کہ امام بخاری پہلے آدمی نہیں ہیں، جنہوں نے احادیث کو لکھ کر محفوظ کرلیا بلکہ ہر دور میں یہ کام تواتر سے ہوتا رہا، اور احادیث روایۃً بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوتی رہیں، الا ماشاء اللہ۔
سوال
برق صاحب مالکی اور شیعہ ہاتھ چھوڑ کا نماز پڑھتے ہیں اور باقی فرقے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں، مالکیوں اور شیعوں نے یہ طریقہ سلسلہ بہ سلسلہ اربوں، کھربوں انسانوں کے عملی تواتر سے اخذ کیا، اسی طرح باقی فرقوں نے بھی اپنا طریقہ عملی تواتر سے حاصل کیا، تو اب بتائیے کونسا عملی تواتر صحیح ہے، اور اگر ان میں سے ایک صحیح ہے، دوسرا غلط تو کیا پھر تواتر کی اہمیت کچھ باقی رہ جائے گی؟ حالانکہ آپ نے اپنے اعتماد کی ساری عمارت تواتر کی بنیاد پر ہی کھڑی کی ہے، اگر آپ فرمائیں کہ دونوں تواتر صحیح ہیں، تو پھر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کبھی دوسرے تواتر پر بھی آپ نے عمل کیا، اگر نہیں کیا تو کیوں؟ کیا ایک طریقہ کو اختیار کرنا، اور دوسرے کو مطلقاً چھوڑ دینا مناسب ہے؟
برق صاحب ! پھر ان متواتر اعمال میں بعض ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، مثلاً ایک ہی چیز ایک فرقہ کے ہاں حرام ہے، دوسرے کے ہاں حلال، ایک ہی چیز ایک فرقہ کے ہاں پاک ہے دوسرے کے ہاں ناپاک، ایک فرقہ کے نزدیک زیور پر زکوٰۃ فرض ہے، دوسرے کے ہاں نہیں تو اب بتائیے کیا دونوں تواتر صحیح ہیں، حلال بھی عملاً تواتر سے ثابت ہے، اور حرام بھی عملی تواتر سے ثابت ہے، اور یہ دونوں صحیح یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے، اس مضحکہ خیز اختلاف کو دور کرنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان احادیث کو دیکھا جائے، جو روایۃً محفوظ اور منضبط ہیں، آخر وہ کس کی تائید کرتی ہیں، بس جس کی وہ تائید کریں، وہی صحیح ہے، اور دوسرا غلط ہے، یہ ہے وہ مقام جہاں کتب حدیث کی ضرورت ہے، اور ان کے بغیر چارہ نہیں، دوسری بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ عملی تواتر کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں،مثلاً تعزیہ پرست تعزیہ کو عملی تواتر کا درجہ دیتے ہیں، وہ جب جواب دیتے ہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد سے ایسا ہوتا آیا ہے، لہٰذا ہم تو یہی کریں گے ، خواہ آپ ان کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت کریں یا احادیث سنائیں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو اس صورت میں ہوگا کہ وہ اپنے عملی تواتر کو مسترد کردیں۔
برق صاحب کا یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ وادی کشمیر میں صحیح بخاری کا کوئی نسخہ موجود نہیں، صحیح بخاری کیا وہاں کے کتب خانوں میں صحاح ستہ تک محفوظ ہیں، اور نہ صرف کتب خانوں میں، بلکہ بہت سے علماء کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں۔
پھر یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ کشمیری نہایت صحت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، نہایت صحت تو کجا سو میں سے ایک بھی بہ مشکل صحیح نماز پڑھ سکتا ہے، جہالت، تقلیدی بندشوں اور تغافل کا دور دورہ ہے کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ کا نقشہ نظر آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سوم: قرآن ہر لحاظ سے ایک مکمل کتاب ہے، جس طرح ہم کسی تفسیر تاریخ یا تصوف کی کتاب کو یہ منصب عطا نہیں کرسکتے کہ وہ اسلام میں کسی نئے حکم یا اصول کا اضافہ کرے، اسی طرح ہم حدیث کو بھی یہ رتبہ نہیںدے سکتے، انسانی اقوال کی بے اندازہ آمیزش کی وجہ سے اس کی حیثیت انسانی تصنیف کی ہوچکی ہے، جس طرح بعض باقی انسانی تصانیف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآنی آیات و احکام کی تشریح بیان کریں، اسی طرح محدثین کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ (دو اسلام ص ۱۲۵)
ازالہ
برق صاحب کی مندرجہ بالا عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانی اقوال کی آمیزش کی وجہ سے حدیث کی حیثیت ایک انسانی تصنیف کی سی ہوگئی ہے۔ لہٰذا ایسی حدیث اسلام میں کسی نئے اصول یا حکم کا اضافہ نہیں کرسکتی، برق صاحب! ہمیں آپ سے سو فیصدی اتفاق ہے، لیکن مطلب اس کا ظاہر ہے کہ اگر انسانی اقوال کی آمیزش نہ ہو، تو پھر حدیث انسانی تصنیف نہ ہوگی، اور یہی ہماری مراد ہے، اور یہی برق صاحب کا منشاء ہے، جب یہ بات تسلیم ہوچکی کہ خالص حدیث انسانی تصنیف نہیں، تو پھر حدیث کا حجت شرعیہ ہونا بھی ظاہر ہے، کیونکہ اس سے اسلام میں کسی نئے حکم با اصول کا اضافہ برق صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے۔
برق صاحب محدثین کو قرآن کی شرح کا حق دے رہے ہیں، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی قطعاً غلط ہے، نہ محدثین خود کو شارح قرآن سمجھتے ہیں، نہ لوگوں ہی نے انہیں شارح قرآن سمجھا، محدثین تو صرف صحیح خالص حدیث کو قرآن کا شارح سمجھتے ہیں، اور اسی شرح کو ہم تک پہنچاتے ہیں، لہٰذا اس شرح کو (عذر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) ہر حال میں قبول کرنا ہوگا، یا پھر یہ کہہ دیا جائے کہ ہماری شرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح سے زیادہ صحیح اور منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ نعوذ باللہ
یہ بات بھی صحیح نہیں کہ احادیث میں انسانی اقوال کی بے اندازہ آمیزش ہے، محدثین نے تخلیص حدیث کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا، متعدد فنون اور اصولِ حدیث اس پر شاہد ہیں۔
برق صاحب کا یہ فرمانا کہ اگر محدثین کوئی ایسی شرح پیش کریں، جو قرآن سے متصادم نہیں ہوتی اور تواتر عمل کے بھی خلاف نہیں ہے، تو ہمیں اس کے قبول کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے ، ظاہر ہے کہ برق صاحب کی مراد اس سے محدثین کی اپنی شرح ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح، کیونکہ اس کو تو ہر حال میں قبول کرنا ہوگا، ہاں محدثین کی اپنی شرح اس وقت قبول کی جائے گی، جب وہ قرآن کے یا تواتر عمل کے خلاف نہ ہو، اور یہ تواتر عمل حدیث ہی تو ہے، اس کو آپ حدیث کا نام کیوں نہیں دیتے، برق صاحب کی عبارت اس طرح ہونی چاہیے تھی یعنی '' اگر محدثین اپنی طرف سے قرآن کی شرح کریں، اور وہ شرح قرآن اور حدیث کے خلاف نہ ہو، تو ہمیں اس کے قبول کرنے میں عذر ہی کیا ہوسکتا ہے اور اس طرح ہمارا اور برق صاحب کا اتفاق ہو جائے گا۔
برق صاحب تواتر عملی کو حجت تسلیم کر رہے ہیں، یعنی دوسرے معنوں میں حدیث کو حجت مان رہے ہیں، بشرطیکہ اس کا صحیح ہونا یقینی ہو، نماز کا طریقہ تواتر عملی یعنی یقینی احادیث ہی سے معلوم ہوتا ہے، ورنہ قرآن اس معاملہ میں خاموش ہے، اور صرف نماز ہی کا کیا ذکر ہے، قرآن بہت سی باتوں کے متعلق خاموش ہے اور بعض آیتیں اگر ان کو حدیث کی روشنی میں نہ دیکھا جائے، تو بالکل مہمل نظر آتی ہیں، تفصیل کے لیے تمہید ملاحظہ فرمائیں ''قرآن ہر لحاظ سے ایک مکمل کتاب ہے'' یہ ایک خوشنما جملہ تو ضرور ہے، لیکن حقیقت کچھ بھی نہیں نہ نماز کا طریقہ اس میں ہے، نہ کسی اور عمل کا اور پھر بھی وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے! یہ عجیب بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
باقی رہا زکوٰۃ کا مسئلہ تو اسے خود قرآن نے بھی واضح کردیا ہے، زکوٰۃ ہے کیا چیز؟ اللہ کے راستہ میں مالی قربانی۔ (دو اسلام ص ۱۲۶)
ازالہ
قرآن میں کسی جگہ بھی زکوٰۃ کی تشریح نہیں دی گئی، برق صاحب کو اعتراف ہے کہ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی کے ہیں (دو اسلام ص ۱۲۶) تو پھر اس کے معنی مالی قربانی کرنا نہ قرآن سے ثابت ہے نہ لغت سے قرآن میں جہاں کہیں مالی قربانی کا ذکر ہے، یہ کہنا کہ اس سے مراد زکوٰۃ ہے زبردستی ہے کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ صلوٰۃ کے معنی مالی قربانی کے ہیں، نہ کہ زکوٰۃ کے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہمارے فقہاء کہتے ہیں کہ ادا ئے زکوٰۃ کے لیے ایک وقت (ماہ رجب) ... معین ہے۔(دو اسلام ص۱۲۶)
ازالہ
یہ قطعاً غلط ہے، ماہ رجب ادائے زکوٰۃ کے لیے مقرر نہیں، برق صاحب نے حوالہ نقل نہیں کیا۔
غلط فہمی
مال سپاری کا بھی کوئی خاص وقت نہیں، جب بھی ملت پہ ابتدا کا وقت آیا، مسلمان نے سب کچھ خدا اور رسول کی خدمت میں پیش کردیا۔ (دو اسلام ص۱۲۶)
ازالہ
برق صاحب! تاریخ سے تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ہر مسلمان نے ہر ابتلاء کے وقت یا کسی خاص ابتلا کے وقت اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں پیش کردیا ہو، تاریخ میں تو یہ ملتا ہے کہ جس شخص نے جتنا چاہا دیا، کسی پر زبردستی نہیں کی گئی، برخلاف اس کے جن لوگوں نے مقررہ شرح سے مقررہ معیاد میں زکوٰۃ دینے سے انکار کیا، ان سے زکوٰۃ جبراً وصول کی گئی، برق صاحب کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی حکمران ہر وقت ہر ضرورت کے وقت مسلمانوں سے چندہ کی درخواست کرتا رہے، بند باندھنا ہو، تو چندہ مانگے پل بنانا ہو، تو چندہ مانگے ، سرائے بنانی ہو، تو چندہ مانگے ، کسی اندھے کا وظیفہ مقرر کرنا ہو، تو چندہ مانگے، اس کے پاس سالانہ مستقل آمدنی کی مد کوئی نہ ہو، کہ وہ ان کاموں کے لیے اس مد میں سے صرف کرسکے، گویا اسلامی حکومت کی سالانہ آمدنی کی کوئی مد نہ ہو، نہ سالانہ اخراجات کا کوئی بجٹ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر میری بات پر یقین نہ آئے۔ تو لیجئے اللہ کا فیصلہ { خُذُ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِرھم بھا وتزکیھم}مسلمانوں سے صدقہ لے کر انہیں مطہر اور مزکی (پاک) بناؤ۔ تزکیٰ کا ماخذ زکوٰۃ ہے، تو گویا اللہ کے ہاں ہر قسم کی مالی قربانی زکوٰۃ شمار ہوتی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۲۶۔ ۱۲۷)
ازالہ
'' تطہر'' کا ماخذ طہارت ہے، تو کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر قسم کی مالی قربانی '' طہارت'' شمار ہوگی اور جہاں کہیں بھی قرآن میں لفظ طہارت یا اس سے مشتق کوئی لفظ آئے گا، تو اس کے معنی مالی قربانی کے ہوں گے؟ ہرگز نہیں، لہٰذا زکوٰۃ کے معنی ہر مالی قربانی قرآن سے ثابت نہیں۔
برق صاحب آپ کا کہنا تو یہ ہے کہ سب مال راہِ خدا میں دے دو، لیکن آپ کی دارد کردہ آیت میں ''من اموال'' ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ اموال میں سے کچھ لو نہ کہ سب گویا سارا مال دے دینا فرض نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کیا اہل سرمایہ کو ان تمام آرائش اور زاید از ضرورت املاک پر قابض ہونے کا حق حاصل ہے قرآن کہتا ہے، ہرگز نہیں ، سنو اللہ کا ازلی اور اٹل فیصلہ { یَسئلونک ماذا ینفقون قل العفو} '' اے رسول لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ مالی قربانی کی حد کیا ہے، انہیں کہہ دو کہ ہر فالتو اور زائد از ضرورت چیز خدا اور رسول کے سامنے پیش کردو۔ '' (دو اسلام ص ۱۲۸)
ازالہ
برق صاحب نے آیت مذکورہ کا ترجمہ صحیح نہیں کیا، صحیح ترجمہ یہ ہے:
''اے رسول لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا صرف کیا کریں؟ آپ کہہ دیجئے کہ فاضل مال صرف کیا کرو۔'' اس سے ظاہر ہوا کہ مسلمان اس مال کو جو ضروری اخراجات کے بعد بچ جائے اللہ کے راستہ میں بقدر ضرورت خرچ کرتا رہے۔ خواہ مقررہ وقت میں مقررہ شرح سے یا ہنگامی حالات میں غیر مقررہ شرح سے غرض یہ کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے وہ زائد از ضرورت مال میں سے دیا جائے نہ یہ کہ بھوکا اور ننگا رہ کر سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
{ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا } (بنی اسرائیل)
نہ ہاتھ کو بالکل روک ہی دو اور نہ بالکل کھول ہی دو، کہ بعد میں تم ملامت زدہ اور نادم ہو کر بیٹھ رہو۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ ضروریات زندگی کے لیے جس مال کی ضرورت ہے، وہ خرچ نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں کہ انسان خود محتاج ہو کر بیٹھ جائے اور سب کچھ دیدے نہ اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی ہے کہ بس جو بچ گیا وہ اللہ کے راستہ میں خرچ کردو، کچھ بھی اپنے پاس مت رکھو، اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ترکہ ہوتا نہ وارثوں میں تقسیم ہوتا۔ حالانکہ قرآن نے اس تقسیم کو فرض کیا۔ اسی طرح نہ دولت مند ہوتے نہ فقراء حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ فقراء کو صدقہ دیا کرو۔
برق صاحب نے آیت مذکورہ کو زکوٰۃ کی تشریح میں پیش فرمایا گویا ان کے نزدیک زکوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ ہر فاضل اور زائد از ضرورت چیز اللہ اور رسول کے سامنے پیش کردیتا لیکن برق صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ کب پیش کی جائے، اس سے پہلے وہ فرما چکے ہیں:
کہ زکوٰۃ کا کوئی خاص وقت معین نہیں۔ (دو اسلام ص۱۲۷)
دوسری جگہ برق صاحب فرماتے ہیں:
جس طرح جان سپاری کا کوئی وقت معین نہیں جس وقت جنگ کا بگل بجا، مسلمان سر بکف حاضر، اسی طرح مال سپاری کا بھی کوئی خاص وقت معین نہیں جب بھی ملت پہ ابتلاء کا وقت آیا مسلمان نے سب کچھ خدا اور رسول کی خدمت میں پیش کردیا۔ (دو اسلام ص۱۲۶)
برق صاحب کی ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ زائد از ضرورت مال صرف ہنگامی حالات میں پیش کردینا '' زکوٰۃ ہے '' اس سلسلہ میں ہم عرض کرتے ہیں کہ ہنگامی حالات کا مقابلہ تو اس مالی امداد سے کرلیا جائے گا۔ لیکن روز مرہ کے سرکاری اخراجات کی کیا سبیل ہے۔ امن کی حالت میں فوج کے اخراجات اور اسلحہ کی فراہمی کا کیا ذریعہ ہے؟ دوسرے سرکاری اور رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا کیا حکومت کا نہ کوئی سالانہ میزانیہ ہوگا نہ سالانہ تخمینہ اخراجات؟ کیا کوئی حکومت اس طرح چل سکتی ہے؟ سالانہ اخراجات کے لیے آمدنی کا ایک جچا تلا ذریعہ ہونا لازمی ہے۔ اور اس کا نام زکوٰۃ ہے ، جو سالانہ وصول کی جاتی ہے، اور یہ چیز صرف حدیث سے ثابت ہے، قرآن اس سے یکسر خاموش ہے، ورنہ براہِ کرم وہ آیت پیش کیجئے ، جس میں یہ ہو کہ '' زکوٰۃ زاید از ضرورت مال کو خرچ کردینے کا نام ہے'' پھر یہ بھی ثابت کیجئے کہ عام اور غیر ہنگامی حالات میں بھی سرمایہ دار طبقہ سے سرکاری اخراجات کے لیے کچھ لیا جائے، یا نہیں؟ برق صاحب زکوٰۃ اگر زاید از ضرورت مال کے صرف کردینے کا نام ہے، تو پھر یہ بتائیے کہ ضرورت کا معیار کیا ہوگا؟ ہر ایک کا انفرادی معیار ہوگا، یا حکومت ایک خاص معیار مقرر کرے گی؟ اگر انفرادی معیار ہوگا، تو اس میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی، زکوٰۃ دینے والوں اور وصول کرنے والوں کے درمیان ایک مسلسل اختلاف رونما ہوگا، اگر حکومت نے اس کا کوئی خاص معیار مقرر کردیا، تو یہ فطرت کے تقاضہ کے خلاف ہوگا، اور اسلام فطری قانون کے خلاف تعلیم نہیں دیتا، پھر فطرۃً زیادہ کمانے کی خواہش مفقود ہو جائے گی، اور کچھ عرصہ میں حکومت کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا، اگر آپ روس کے اشتراکی نظام کی مثال پیش کردیں، تو وہ مثال یہاں صادق نہیں آئے گی، اس لیے کہ روس میں ہر چیز حکومت کی ہوتی ہے، اور حکومت کے قبضہ میں رہتی ہے وہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ضروریات زندگی کے لیے کچھ مال رکھ کر باقی سب حکومت کے حوالہ کردو، نہ وہاں یہ ہوتا ہے کہ صرف ہنگامی حالات میں رعایا سے مال طلب کیا جاتا ہے، وہاں رعایا کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں کہ وہ اس میں سے چندہ دیں، ترکہ وارثوں میں تقسیم کریں، اقر بار اور فقراء کو دیتے رہیں، برخلاف اس کے قرآن انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے، رعایا سے مانگتا ہے، ترکہ کو تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے، اقرباء اور مساکین کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے ، لہٰذا روس کے اخراجات اس لیے چلتے رہتے ہیں کہ حکومت نے ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے، اور اسلامی حکومت کے اخراجات اس لیے چلتے رہتے ہیں کہ حکومت نے ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے، اور اسلامی حکومت کے اخراجات اس لیے نہیں چل سکیں گے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہوگا، وہ رعایا کی ملکیت ہوگی، اور رعایا سے حکومت صرف ہنگامی حالات کے لیے ہی مانگ سکتی ہے، نہ کہ غیر ہنگامی حالات میں، برق صاحب براہِ کرم سوچیں کہ یہ گتھی کس طرح سلجھے گی۔
برق صاحب ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں حکومت کے سامنے سب کچھ پیش کردو، اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ غیر ہنگامی حالات میں بھی سرمایہ داروں کو اپنے پاس مال رکھنا زیادہ کمانا، عیش و راحت کی زندگی گزارنا قطعاً ناجائز ہے، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
اس دنیا میں ۴ فی صدی افراد کو عظیم الشان محلوں، موٹروں، باغوں اور پارکوں میں عیش اڑانے کا کیا حق حاصل ہے، انہوں نے سرمایہ کے بل بوتے پر غریبوں سے کیوں زمینیں چھینیں، ان کی کمائی پر کیوں ناجائز قبضہ کیا؟ ... کیا اہل سرمایہ کو ان تمام آرائشی اور زاید از ضرورت املاک پہ قابض ہونے کا حق حاصل ہے؟ قرآن کہتا ہے، ہرگز نہیں، سنو اللہ کا ازلی اور اٹل فیصلہ ... ۔ (دو اسلام ص۱۲۷۔ ۱۲۸)
(اس کے بعد برق صاحب نے وہی آیت پیش کی ہے، جو غلط فہمی کے عنوان سے اوپر درج کی جاچکی ہے)
اب بتائیے، بے چارہ سرمایہ دار، اہل ایمان جائز طریقہ سے مال کمانے والا طبقہ کس طرح اپنی جائز آبرنی سے فائدہ اٹھانے سے روکا جا رہا ہے؟ آخر کیوں، کہیں تو برق صاحب فرماتے ہیں کہ ''ہنگامی حالات میں سب کچھ دے دو'' اور یہاں یہ فرمایا کہ ہر حالت میں کچھ رکھو ہی نہیں، تو فقراء کو کیا دیا جائے، اقرباء کو کیا دیاجائے، وارثوں میں کیا تقسیم کیا جائے گا، جب کہ سب کچھ بچتے ہی حکومت کے حوالہ کیا جاچکا، اصل بات یہ ہے کہ برق صاحب سے اللہ تعالیٰ کا منشاء سمجھنے ہی میں غلطی ہوگئی، انہوں نے ایک آیت کو سامنے رکھا، اور پھر غلط فہمی سے کچھ کا کچھ نتیجہ نکال لیا، اللہ تعالیٰ کا ہرگز یہ منشا نہیں کہ تمام دنیا کے انسان ایک حالت میں زندگی گزاریں اور معیشت کے لحاظ سے فرق مراتب مفقود ہو جائے، کاش برق صاحب مندرجہ ذیل آیت کو بھی سامنے رکھ لیتے، تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا } (الزخرف)
کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں حالانکہ دنیاوی زندگی میں ان کی معیشت کو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیا ہے، اور بعض کو بعض پر درجات کی بلندی عطا فرمائی ہے تاکہ ایک دوسرے کو اپنا خادم و محکوم بنا سکے۔
اس آیت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سرمایہ دار طبقہ کو اپنی جائز آمدنی سے جائز عیش و راحت سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، اور اس آمدنی کے وسیلہ سے اپنے لیے خادم وملازم رکھنے کا حق حاصل ہے، ان کی یہ سربلندی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اسی نے یہ فرق مراتب قائم کر رکھا ہے، اگر ایسا نہ ہو ، تو دنیا کا نظام نہیں چل سکتا ، رہا غرباء، خدام اور ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی ضروریات کا لحاظ تو وہ علیحدہ مسئلہ ہے، دونوں کا علیحدہ علیحدہ محل ہے، بے شک غرباء کی حسب ضرورت امداد ان پر فرض ہے، لیکن سارا فاضل مال حکومت کے حوالہ کردینا، ان پر فرض نہیں، برق صاحب نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا، اور اس وجہ سے مغالطہ پیدا ہوگیا۔
 
Top