• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ صورت حالات ہے تو پھر مسلمان بننے کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے، عیسائی رہ کر بھی نیک عمل کئے جاؤ، نہ قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت اور نہ رسول پہ، سارے اسلام سے چھٹی مل گئی، یہ سوال اسلام کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، اسلام کسی زبانی اقرار کا نام نہیں، بلکہ نیکی کا نام ہے، اگر ایک عیسائی نیکی کر رہا ہے، تو وہ قرآن کی رو سے مسلمان ہے، رسول و قرآن کا صحیح پیرو وہی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۳)
ازالہ
اس کے جواب میں کچھ آیات اوپر نقل ہوئیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے، اگر ایک شخص نیکی تو کرتا ہے، لیکن قرآن کے متعلق کہتا ہے کہ (نعوذ باللہ) ایک شخص نے اُسے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا، تو کیا وہ شخص مسلمان کہلا سکتا ہے، ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۔ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } (البقرۃ)
(اے مسلمانو! اہل کتاب سے کہہ دو) کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل ہوا ہم پر اور جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق اور یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا، اور جو صحائف موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء کو دئیے گئے، ان پر بھی ایمان لائے ہم ان میں سے کسی ایک کی بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اللہ کے مطیع ہیں، پس اگر وہ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو وہ ہدایت یاب ہوگئے، اور اگر منہ موڑیں، تو وہ شقاق میں مبتلا ہیں، اللہ ان سب کے خلاف آپ کے لیے کافی ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب تک وہ مسلمانوں کی طرح قرآن پر ایمان نہ لائیں، ہدایت نہیں پاسکتے، دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } (اٰل عمران)
اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو ہم پر نازل ہوا، اس پر ایمان لائے اور اس پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا ، اور موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء پرنازل ہوا، ہم ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے مسلم ہیں، اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔
اس آیت میں پھر بڑے زور کے ساتھ اہل کتاب کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، قرآن اور جملہ کتب سماوی پر ایمان لانے کی دعوت دے کر فرمایا، یہ ہے اسلام ، اب جو شخص اس کو اختیار نہیں کرے گا، وہ تباہ و برباد ہوگا، اور اس کا دین قبول نہیں ہوگا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام، قرآن پر ایمان لانے اور قرآن پر عمل کرنے کا نام ہے، نہ یہ کہ قرآن کی تکذیب کرے، اس کا مذاق اڑائے، بس نیکی کرتا رہے، تو وہ مسلمان ہوگیا، ہرگز ایسا نہیں ،
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ارشاد باری ہے:{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا } (النساء)
اے ایمان والو! (اس خطاب میں اہل کتاب بھی آگئے، کیونکہ برق صاحب کے نزدیک وہ بھی مومن ہیں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر ایمان لاؤ، جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، اور ان کتابوں پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیں، اور جو انکار کرے اللہ کا، فرشتوں کا، اس کی کتابوں اور رسولوں کا، اور قیامت کے دن کا ، وہ بہت ہی سخت گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
اس آیت میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں کہ رسول سے مراد کوئی اور رسول ہو، رسول سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی مراد ہیں، پس ثابت ہوا کہ جو شخص آپ پر اور قرآن پر ایمان نہیں لاتا، وہ سخت گمراہ ہے، اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا } (النساء)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر تو ایمان لائے اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور نہ بیچ میں ایک راستہ نکالنا چاہتے ہیں، یہی لوگ حقیقی کافر ہیں، اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ بالکل کافر ہے، لہٰذا جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے، خواہ وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو مطلقاً کافر ہے، برق صاحب سچے نبی کو نبی نہ ماننا، اور جھوٹے نبی کو نبی مان لینا یہ بڑا اہم معاملہ ہے، اگر عمومی طور پر ہر رسول پر ایمان لانے کا یہ منشا ہے کہ جو شخص بھی رسول ہونے کا دعوی کرے اس کو رسول مان لیا جائے، تو پھر تو ہر شخص کو قادیانی جھوٹے نبی پر ایمان لانا ہوگا، حالانکہ ہم قطعاً اس پر ایمان نہیں لاتے، بلکہ اسے کذاب و دجال سمجھتے ہیں، اسی طرح بعض وہ لوگ بھی ہیں جو باوجود نیک ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں تو کیا وہ مسلمان ہیں، اگر جھوٹے نبی کا اقرار کفر ہے، تو سچے نبی کا انکار بھی کفر ہے،
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور سنیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام محبت کرنے والوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو فرض قرار دیا ہے، اب اگر نیک اہل کتاب جو اللہ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتے بلکہ اس سے منہ موڑتے ہیں تو کیا وہ فلاح پائیں گے، ہر محب الہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے، اور جو شخص اس کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے، سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن } (الاعراف)
(موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب) ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں بہتری لکھ دے، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں اللہ نے فرمایا میں عذاب کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، وہ رحمت میں ان لوگوں کے لیے لکھوں گا، جو پرہیزگاری کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں، جو لوگ رسول، نبی امی کی پیروی کرتے ہیں، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو ان کو بھلائی کا حکم دیتا ہے، برائی سے ان کو روکتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتا ہے ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ اور ان کے طوق جوان پر تھے ان پر سے اتارتا ہے پس جو لوگ اس رسول پر ایمان لائے، اس کو قوت پہنچائی، اس کی مدد کی اور اس نور کا اتباع کیا، جو اس پر نازل کیا گیا ہے، تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا وہ ان اوصاف مذکورہ کے باعث آپ کو پہچانتے تھے، لیکن ایمان نہیں لاتے تھے، اللہ نے فرمایا کہ:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱) رحمت ان ہی کے حصہ میں ہے جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں۔
(۲) وہ رسول ان پر پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے، ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور وہ طوق و سلاسل جوان پر گزشتہ کتب الٰہیہ میں ان کی بد اعمالی کی سزا کی وجہ سے ڈال دئیے گئے تھے ان پر سے الگ کرتا ہے۔
(۳) اس رسول پر ایمان لانے والے، اس کی امداد کرنے والے اور اس کی لائی ہوئی شریعت کا اتباع کرنے والے ہی نجات کے مستحق ہیں۔
کیا ان آیات کی موجودگی میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا اتباع نہ کرنے والے بھی مومن ہیں، ان ہی آیات کے متصل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } (الاعراف)
اے رسول کہہ دیجئے اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں اس اللہ کا جس کی بادشاہت زمین و آسمان میں ہے، اس کے سوائے کوئی الہ نہیں، وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو خود بھی اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان لاتا ہے اور اس کی اطاعت و پیروی کرو، تاکہ تمہیں ہدایت مل جائے۔
اس آیت میں دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے کہاجارہا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تم سب کے لیے رسول ہیں، ان کا اتباع کرو گے تو ہدایت مل سکتی ہے، اس خطاب عام میں اہل کتاب خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں، کیونکر اوپر سے انہی کا ذکر چلا آرہا ہے، پس ثابت ہوا کہ اہل کتاب کے لیے لازمی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، آپ کی پیروی کریں، ورنہ وہ ہدایت نہیں پاسکتے اور نہ نجات، مزید سنیے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ئَاَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ اللہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ } (اٰل عمران)
اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے، اور اہل کتاب نے علم آجانے کے بعد محض آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص بھی اللہ کی آیات کو انکار کرے، تو اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے، پس اگر یہ اہل کتاب آپ سے بحث کریں، تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تو اللہ کے لیے اسلام لے آیا، اور وہ لوگ بھی جو میری پیروی کرتے ہیں، اور آپ اہل کتاب اور امی لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ کیا اسلام قبول کرتے ہو، پس اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ہدایت پائیں گے اور اگر منہ موڑیں گے تو آپ کے ذمہ صرف تبلیغ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔
اس آیت میں بھی اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دی جا رہی ہے، ان کو ہدایت کی طرف بلایا جا رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پیروی والوں کو اہل اسلام بنایا جا رہا ہے۔
{ وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلہِ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ اِنَّ اللہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ } (اٰل عمران)
بے شک بعض اہل کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں جو تم پر نازل ہوا اور جو ان پر نازل ہوا، اللہ کے سامنے عاجزی کرتے ہیں، اللہ کی آیات کے عوض متاع قلیل حاصل نہیں کرتے، یہی لوگ ہیں،جن کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ ان اہل کتاب کے لیے اجر ہے کہ جو قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور یہی وہ اہل کتاب ہیں جن کی تعریف میں قرآن کی بعض آیات نازل ہوئی ہیں، برق صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ ہر نیک عمل اہل کتاب کی تعریف میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں، کاش وہ اُن آیات کو اِن آیات کی روشنی میں مطالعہ فرماتے، اللہ تعالیٰ نے تو ایسے اہل کتاب کی مذمت فرمائی ہے جو قرآن پر ایمان نہ لائیں۔ مثلا:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
{ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَکْفُرُُوْنَ بِمَا وَرَآءَہٗ وَ ھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ } (البقرۃ)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اس کتاب پر جو اللہ نے نازل فرمائی ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوا، اور اس کے علاوہ جو نازل ہوا، اس کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
{ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَ لَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِر بِہٖ } (البقرۃ)
اے بنی اسرائیل اس کتاب پر ایمان لاؤ، جو میں نے نازل کی ہے، وہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے ساتھ اولین انکار کرنے والے نہ بن جاؤ۔
ان دونوں آیات میں بھی اہل کتاب کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اہل کتاب ایمان لے آئے، اگر قرآن پر ایمان لانا ضروری نہ ہوتا، تو انہیں مسلمان ہونے کی کیا ضرورت تھی، وہ نیک بن جاتے، بس ان کے لیے کافی تھا، بلکہ وہ لوگ جو ایمان لائے مثلاً عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی وغیرہ پہلے ہی سے نیک تھے، لیکن یہ نیکی ان کے لیے کافی نہیں سمجھی گئی اور انہیں اسلام قبول کرنا پڑا ، اور سنیے، ارشاد باری ہے:
{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلٰیٓ اَدْبَارِھَآ اَوْنَلْعَنَھُمْ کَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ وَ کَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا} (النساء)
اے اہل کتاب اس چیز پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کی ہے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتی ہے، قبل اس کے کہ چہرے مٹا دئیے جائیں اور ان کو پیٹھ کی طرف پھیر دیا جائے یا ہم لعنت کریں ان پر جیسا کہ ہم نے ہفتہ والوں پر لعنت کی تھی اور اللہ کا کام تو ہو کر رہتا ہے۔
اس آیت میں بھی اہل کتاب کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب الٰہی کی دھمکی دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
{ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰٰی }
یہ قرآن ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔
اس لیے کتاب موسیٰ کا سچا عامل خود بخود قرآن کا عامل بن جاتا ہے۔(دو اسلام ص ۱۹۳)
ازالہ
برق صاحب نے اوپر سے آیات نقل نہیں فرمائیں، اور '' ہذا'' کا مرجع قرآن کو سمجھ لیا ہے، آیات محولہ اس طرح ہیں:
{ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ۔ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ۔ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ۔ اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی۔ صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی } (الاعلی)
بے شک اس شخص نے نجات پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا اللہ کا ذکر کیا، اور نماز پڑھی، مگر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی موجود تھی، مثلاً صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ ہیں۔
آیت بالا سے معلوم ہوا کہ '' ہذا'' کا مرجع قرآن نہیں ہے، بلکہ نجات اخروی کے اصول ہیں جو پہلی کتابوں میں بھی موجود تھے۔
اگر برق صاحب کے مطلب کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ '' قرآن تورات میں موجود ہے'' یعنی پورا قرآن تورات میں موجود ہے اور بقول برق صاحب کے تورات اس وقت بھی غیر محرف موجود ہے تو کیا قرآن کو تورات میں دکھایا جاسکتا ہے ہرگز نہیں، پھر اسی اصول پر ذرا اور آگے چلیے، تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انجیل بھی تورات میں موجود ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ } (اٰل عمران)
اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو کتاب، حکمت، تورات اور انجیل کی تعلیم دے گا۔
اب اگر انجیل تورات میں موجود تھی، تو انجیل کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیوں دونوں کی تعلیم عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی، پھر ایک سوال اور ہے کہ اگر قرآن تورات میں موجود ہے تو تورات اصل چیز ہوئی اور قرآن تورات کا ایک حصہ ہوا، اور تورات میں کچھ زیادہ ہی ہوگا،لہٰذا تورات قرآن سے افضل اور زیادہ کامل ہوئی، اس کی موجودگی میں قرآن کا نزول لا حاصل ہے، تورات اور اس کے تراجم کی اشاعت کافی تھی۔
برق صاحب! آپ تحریر فرماتے ہیں کہ '' کتاب موسیٰ کا سچا عامل خود بخود قرآن کا عامل بن جاتا ہے۔'' کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا دونوں کتابوں میں تضاد نہیں ہے؟ قرآن میں زنا کی سزا سو کوڑے ہے، تورات میں رجم ہے، بتائیے کیا تورات پر عمل کرکے قرآن پر عمل ہوسکتا ہے؟ کیا ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ دو الٰہی قانون چل سکتے ہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انتباہ
پہلے نبی صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہادی بنا کر بھیجے جاتے تھے، اس نبی کی پیروی صرف اس قوم ہی پر فرض ہوئی تھی نہ کہ دوسری قوموں پر مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
{ وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ } (ال عمران)
وہ بنی اسرائیل کے لیے رسول تھے۔
لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین کے تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ارشاد باری ہے:
{ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ کَافَّۃً لِلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا } (سبا)
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
دوسری آیت میں ہے:
{ قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا } (الاعراف)
کہہ دیجئے اے لوگوں میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
لہٰذا ایسے رسول پر جس کا دائرہ قوم و ملک کے ساتھ محدود نہ ہو، بلکہ '' لعالمین نذیرا'' کے بمصداق جس کی رسالت تمام اقوام عالم کی طرف ہو ایمان نہ لانا، اور اس کی پیروی نہ کرنا، کسی طرح صحیح نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرما دیا:
{ وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ئَاَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا } (ال عمران)
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب اور اے وہ لوگو جن کے پاس کوئی کتاب نہیں، کیا تم اسلام قبول کرتے ہو، پس اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ہدایت پر آجائیں گے۔
اس آیت میں تمام اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور ان کے لیے بھی اس کے بغیر چارہ نہیں یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی اور ہرقل جیسے نیک عیسائی بادشاہوں کو دعوت اسلام دی اور صاف کہہ دیا کہ اسلام قبول کرو گے، تو سلامتی کے حق دار ہوگے، ورنہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اہل کتاب کے متعلق ارشاد ہے:
{ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ } (اٰل عمران)
ہم ان اہل کتاب کے کسی نیک عمل کو ضائع نہیں جاتے دیتے۔ (دو اسلام ص ۱۹۳۔ ۱۹۴)
یہ ان اہل کتاب کے متعلق ہے، جو مسلمان ہوگئے تھے، ارشاد باری ہے:
ازالہ
{ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ ۔ وَ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ} (القصص)
جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی، وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے ، بے شک یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔
یہ اہل کتاب نزول قرآن سے پہلے مسلمان تھے ، نیک تھے اور نزول قرآن کے بعد فوراً قرآن پر بھی ایمان لے آئے اور اس کا انکار نہیں کیا، دوسری آیت سنیے:
{ وَکَذٰلِکَ انزلنا الیک الکتاب فالذین اٰتیناھم الکتاب یومنون بہ ومن ھولاء من یومن بہ وما یجحہ بایتنا الا الکافرون } (عنکبوت)
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف کتاب اتاری پس جو اہل کتاب ہیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں، اور دوسرے لوگوں میں سے بھی بعض لوگ ایمان لے آتے ہیں، اور ہماری آیتوں کا انکار کوئی نہیں کرتا، سوائے کافروں کے۔
یہ ہیں وہ اچھے اور نیک اہل کتاب جو قابل تعریف ہیں، صرف اس وجہ سے کہ وہ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور جو اس کا انکار کرتے ہیں، وہ کافر ہیں:
اور سنیے ان اچھے اہل کتاب کے متعلق ارشاد باری ہے:
{ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ } (المائدہ)
اور ہم کیوں نہ اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف حق کے ساتھ نازل ہوئی ایمان لائیں اور ہماری تو یہ آرزو ہے کہ ہمارا رب ہم کو صالحین میں داخل کردے۔
یہ ہیں وہ اہل کتاب جن کی تعریف قرآن کرتا ہے، یہ ایمان لاتے ہیں اور طمع کرتے ہیں کہ انہیں صالحین میں جگہ مل جائے، یہ ہیں وہ اہل کتاب جو قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ہماری طرف بھی حق کے ساتھ نازل ہوا ہے یعنی وہ قرآن سے بے پرواہ ہو کر اپنے کو اہل ایمان اور صالحین میں شمار نہیں کرتے قرآن پر ایمان لانے کو وہ اللہ پر ایمان لانا سمجھتے ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ قرآن پر ایمان لا کر ہی صالح بن سکتا ہے اور درحقیقت اب قرآن کی پیروی ہی عمل صالح ہے اور اس سے انکار اور اس سے بے پرواہی فلاح کے منافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ان تفاصیل کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہیں کہ عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تورات اصلی حالت میں موجود تھی اور وہی تورات ہم تک پہنچی ہے، اس تورات میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ذکر کردہ آیت کہیں موجود نہیں اس لیے یہ حدیث ایک تاریخی غلط بیانی ہے اور جعلی ہے۔ (ص۱۹۴)
ازالہ
ان تفاصیل کا جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے، برق صاحب آپ کو تورات دیکھنے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا، ورنہ موجود تورات تو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ وہ تحریف شدہ ہے، اس اندرونی شہادت کے ہوتے ہوئے خارجی دلائل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، مثال کے طور پر میں موجودہ تورات کے چند اقتباسات آپ کے ملاحظہ کے لیے تحریر کرتا ہوں سنیے:
(۱) خدا انسان نہیں جو جھوٹ بولے، نہ آدمی زاد ہے کہ پشیمان ہو (گنتی ۱۹،۲۳) گویا ہر انسان جھوٹ بولتا ہے، خواہ نبی ہو یا صدیق! کیا یہ آیت صحیح ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
(۲) خدا پشیمان ہوا (خروج ۱۴، ۳۲) یہ آیت پہلی آیت کے خلاف و متضاد ہے۔
(۳) خدا دگیر ہوا (پیدائش ۶،۶)
(۴) تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دیگر ہوا (پیدائش ۶،۶)
(۵) خدا نے، ساتویں دن آرام کیا (خردج ۱۱، ۲۰)
برق صاحب ان آیات سے ثابت ہوا کہ موجودہ تورات میں تضاد بھی ہے اور اللہ جل جلالہ کی توہین بھی، آپ حدیث کے لیے تو معیار مقرر کرتے ہیں کہ ایسی نہ ہو، ویسی نہ ہو، کیا یہ شرائط تورات کے لیے ضروری نہیں؟ اگر تورات میں اس قسم کی باتیں پائی جائیں، تب بھی وہ من و عن محفوظ تسلیم کی جائے لیکن حدیث کو غیر محفوظ کہا جائے، کیا یہ انصاف ہے۔ اور سنیے:
(۶) پھر جب اس (لوط علیہ السلام ) نے ان سے بہت منت کی تب دے (فرشتے) اس کی طرف پھرے اور اس کے گھر گئے اور اس نے ان کی مہمانی کی اور فطیری روٹی ان کے لیے پکائی اور انہوں نے کھائی (پیدائش ۳،۱۹) فرشتے بقول آپ کے نورانی مخلوق ہیں، ان کو روٹی سے کیا غرض! لیکن بایں ہمہ یہ چیز تورات میں ہے اور آپ تورات کو بالکل صحیح سمجھتے ہیں۔
(۷) اور خداوند نے ان کے بچھڑے بنانے کے سبب جسے ہارون نے بتایا تھا، لوگوں پر مری بھیجی (خردج ۳۵، ۳۲) قرآن میں ہے کہ بچھڑے کو سامری نے بنایا تھا اور تورات میں ہے کہ ہارون علیہ السلام نے بنایا تھا، کس کو صحیح سمجھیں اور کس کو غلط؟ پھر ایسے شرکیہ کام کی نسبت اللہ کے مقدس پیغمبر کی طرف کس قدر شرمناک بہتان ہے اور نبی معظم علیہ السلام کی صریح توہین ہے، انصاف سے بعید ہے کہ حدیث کے لیے ہی معیار، معیار کذب ہو، اور تورات کے لیے معیار صحت!
(۸) نبوت ملنے کے بعد بھی ساؤل داؤد کا دشمن رہا، اور انہیں مارنے کی فکر میں رہا واسموایل (۲۰۔ ۲۴) کیا نبوت کی یہی شان ہے کہ نبی، نبی کا دشمن ہو۔
(۹) داؤد علیہ السلام نے زنا کیا (۲۔ سمو ایل باب ۱۱۔۱۲)
(۱۰) داؤد، جالوت کے بادشاہ اکیس سے ڈرے اور اس کے سامنے اپنی وضع بدلی اور ان کے پہچانے کو دیوانہ بنایا اور پھاٹک کے پلوں پر واہیات بات لکھنے لگا اور اپنے تھوک کو اپنی داڑھی پر بہنے دیا، تب اکیس نے اپنے چاکروں سے کہا، یہ آدمی تو مٹری ہے۔ (۱۔ سموایل ۱۳،۲۱)
(۱۱) نوح مے پی کر نشہ میں آیا، اور اپنے ڈیرے کے اندر آپ کو ننگا کیا۔ (پیدائش ۹، ۲۱)
(۱۲) اور لوط ضغر سے اپنی دونوں بیٹیوں سمیت نکل کر پہاڑ پر جا رہا، کیونکہ ضغر میں رہنے سے اسے دہشت ہوئی اور وہ اور اس کی بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگے، تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آئے آؤ ہم اپنے باپ کو مے پلائیں اور اس سے ہم بستر ہوئیں، تاکہ اپنے باپ سے نسل برقرار رکھیں، سو انہوں نے اسی رات اپنے باپ کو مے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی، اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی،پر اس نے اس کے لیٹتے اور اٹھتے وقت اسے نہ پہچانا، اور دوسرے روز ایسا ہوا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ کل رات کو میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی ، آؤ آج رات بھی اس کو مے پلائیں، اور تو بھی جا کے اس سے ہم بستر ہو کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں، سو اس رات کو بھی انہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی اٹھ کے اس سے ہم بستر ہوئی اور اس نے اس کے لیٹتے اور اٹھتے وقت اسے نہ پہچانا، سو لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی ایک بیٹا جنی اور اس کا نام موآب رکھا، وہ موآبیوں کا جو آج تک ہیں باپ ہوا، اور چھوٹی بھی ایک بیٹا جنی اور اس کا نام بن عمی رکھا وہ بنی عمون کا جواب تک ہیں باپ ہوا۔ (پیدائش ۳۰، ۳۸، ۱۹)
الغرض ان عبارات سے روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ تورات تحریف شدہ ہے۔لہٰذا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ثوکی بیان کردہ حدیث بالکل صحیح ہے، اور ضرور اس حدیث میں بیان کردہ صفات نبوی اصلی تورات میں موجود تھے۔
 
Top