• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
پانچوں نمازیں، جمعہ اور رمضان درمیانی عرصہ کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔
اذا اجتنبت الکبائر۔ (صحیح مسلم)
بشرطیکہ بڑے گناہوں سے بچا جائے۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگر بڑے گناہوں سے بچا جائے تو مذکورہ بالا نیکیاں خود بخود چھوٹے چھوٹے گناہوں کو فنا کردیتی ہیں ، پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوا کہ بعض نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں اور وہ گناہ بڑے گناہ نہیں ہوتے بلکہ صغائر ہوتے ہیں،لہٰذا حدیث پر جو اعتراض کیا گیا ہے وہ مدفوع ہے۔
بغیر نیکی کے گناہ کا معاف ہونا
اوپر ہم ایک آیت نقل کرچکے ہیں کہ صرف کبائر سے پرہیزی تمام خطاؤں کو معاف کرنے کا سبب بن جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ویسے ہی بہت سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اور معافی کے لیے کوئی سبب بھی بیاں نہیں کرتا، ارشاد باری ہے:
{ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ } (شوری)
جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کے سبب سے پہنچتی ہے اور اللہ تو بہت سے گناہ معاف کردیتا ہے۔
یعنی وہ مصیبت کا سبب نہیں بنتے بلکہ ویسے ہی معاف ہو جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تعجب خیز بات اور قرآن
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی گئی یہ بہت بڑا گناہ تھا، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ ھُوَ عِنْدَ اللہِ عَظِیْمٌ } (نور)
اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ تھا۔
یہ اتنا بڑا گناہ تھا کہ تہمت لگانے والوں پر سخت عذاب نازل ہوتا، لیکن تعجب پر تعجب ہے کہ اتنے بڑے گناہ کو کس آسانی کے ساتھ معاف کردیا گیا، اور کوئی سزا نہیں دی گئی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَآ اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } (نور)
یعنی اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل نہ ہوتا تو اس گناہ کی وجہ سے تم پر زبردست عذاب نازل ہوتا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنے زبردست عذاب کو یونہی ٹال دیا، ایسے تہمت تراش گناہگار لوگوں پر رحمت و فضل کی بارش ہوگئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
گناہ کی مغفرت عقل کی کسوٹی پر
اگر شبہ ہو کہ معمولی نیکی سے اتنے گناہوں کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے تو یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں، ایک ہی گناہ سارے اعمال کے حبوط کا سبب بن سکتا ہے، اور ایک ہی نیکی ساری چھوٹی چھوٹی بد اعمالیوں کے خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے جیسا کہ اوپر قرآن و حدیث کی تصریحات گزر چکی ہیں اور یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جاری و ساری ہیں، ہماری روز مرہ زندگی میں اس کی تائید میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انجیکشن کے چند قطرات کروڑوں ضرر رساں جراثیم کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ یہ انجیکشن کے ان قطرات کی قوت ہے۔ جو ان جراثیم کو ختم کردیتی ہے۔ یہاں مقدار کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کا دار و مدار قوت پر ہوتا ہے۔ انجیکشنوں کی مختلف قوتیں ہوتی ہیں۔ اور ان قوتوں پر ہی ان کے اثر کا دار و مدار ہوتا ہے حالانکہ مقدار میں سب ہی انجیکشن برابر ہوتے ہیں لیکن اثر و نفوذ کے لحاظ سے برابر نہیں ہوتے۔ کیمیائی تجربہ گاہ میں غالباً آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کسی محلول کی قوت کی پیمائش کی جاتی ہے تو تیزاب کا قطرہ الکلی کے بہت بڑے محلول کے اثر کو زائل کردیتا ہے اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں قطرہ کی مقدار کار فرما نہیں ہوتی بلکہ اس قطرہ کی قوت کار فرما ہوتی ہے جو بڑی مقدار کے محلول کی طاقت کو فنا کردیتی ہے، ظاہر میں انسانوں کو یہ ایک عجیب چیز معلوم ہوگی، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسی طرح ایٹمی قوت کو ملاحظہ کیجئے ایٹم کتنا چھوٹا ذرہ ہوتا ہے، لیکن کتنی بڑی بڑی قوتوں کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ یہاں بھی مقدار ہیچ نظر آتی ہے، اور وہ قوت جو اس ذرہ میں پنہاں ہوتی ہے کار فرما ہوتی ہے، ہماری ظاہری نظر میں یہ چیزیں عجوبہ ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اسی طرح کسی نیکی میں کتنی قوت پنہاں ہے، اسے کون جانتا ہے، اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مزید توضیح
ہومیو پیتھی کا کرشمہ ملاحظہ فرمائیے، ایک گولی جس میں ذرا سا دوا کا اثر ہوتا ہے کتنی طاقت رکھتی ہے اور جتنی دوا کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے، اسی قدر قوت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ دوا کئی کئی سال تک اپنا اثر بھی رکھتی ہے، اور نقصاں رساں اثرات کو زائل کرتی رہتی ہے، یہاں بھی دوا کی قوت کار فرما ہے مقدار کی کوئی اہمیت نہیں،اگر سو گولیاں بھی بہ یک وقت کھالی جائیں تو ان کے اثر و قوت میں ایک گولی کے مقابلہ میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی، دوا کی معمولی سی مقدار بڑے بڑے مخالف امراض کا مقابلہ کرتی ہے اور ان کو ملیا میٹ کردیتی ہے، یہی حال نیکی کا ہے، یہاں نیکی کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ وہ قوت خلوص اور قوت ایمانی دیکھی جاتی ہے جو اس نیکی کے اندر مضمر ہوتی ہے، جب یہ قوت خلوص اور قوت پنہاں زیادہ ہوتی ہے تو معمولی سی نیکی گناہوں کی کثیر تعداد کو زائل کردیتی ہے، اس قوت پنہاں کا جاننے والا اور اس قوت خلوص کا ناپنے والا اللہ تعالیٰ ہے، ہم ان قوتوں کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
کیا یہ قرآن پر اعتراض ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَنْ جَآءَبِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا وَ مَنْ جَآءَبِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا } (الانعام)
جو شخص نیکی کرے گا تو اس کو دس گنا ثواب ملے گا، اور برائی ، گناہ اسی کے مثل ہوگا۔
اب بتائیے کیا قرآن پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ نیکی کے ساتھ یہ رعایت کیوں ہے؟ کیا یہ ظلم ہے، دوسری جگہ ہے:
{ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً } (بقرہ)
جو شخص اللہ کو قرض حسنہ دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا ثواب دے گا۔
اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے نزدیک کثیر کتنا ہوگا، بہرحال نیکی کم اور ثواب بہت زیادہ اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ، ظلم نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَ اِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا } (نساء)
بے شک اللہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اگر نیکی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا کردے گا۔
قرآن کی ان آیات سے ثابت ہوا کہ نیکی کئی گنا ہو جاتی ہے، اور بدی صرف ایک ہی رہتی ہے اب جب کہ نیکی کی قوت کا یہ عالم ہے کہ اپنے سے کئی گنا ہو جاتی ہے تو پھر گناہ کی کیا حقیقت کہ اس کا مقابلہ کرسکے، ایک ہی نیکی جب لاکھ گنا ہو جائے تو کیا وہ ہزارہا گناہوں کا مقابلہ نہ کرسکے گی، اور اگر نیکیوں کی ہی فراوانی رہی، تو گناہ اگرچہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہوں فنا ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ نیکیاں گناہوں سے کئی گنا زیادہ ہوں گی، غالباً اب حدیث کا مطلب سمجھ میں آگیا ہوگا، اب رہی یہ بات کہ ایسا کب ہوتا ہے، تو اس کے لیے کچھ شرائط ہوتے ہیں۔ دوا کے خواص کا بیان کردینا اور بات ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان خواص کا ظہور ہمیشہ ہو، دوا کے اثر کے لیے چند شرائط ہوتے ہیں، جب وہ پورے ہوتے ہیں تو دعا اپنا کام کرتی ہے، حدیث مذکور میں دعا کی خاصیت مذکور ہے، یہ نہیں کہ ہمیشہ ہر حالت میں ایسا ہوتا ہے، خاصیت کا ہونا اور بات ہے، اثر کا ہونا اور بات ہے، یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ شرائط پورے ہوئے یا نہیں، وہ دعا مقبول ہوئی یا نہیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں وضو سے تمام گناہوں کی معافی کا اعلان فرمایا، تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
ولا تغتروا (ابن ماجہ کتاب الوضوء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس بشارت سے دھوکا مت کھانا۔
اب جو شخص احادیث سے بخوبی واقف ہے وہ دھوکا نہیں کھاتا یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسی چیزوں کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے روک دیا ہے، تاکہ وہ غلط فہمی کی وجہ سے گمراہ نہ ہو جائیں۔
کیا یہ بھی قرآن پر اعتراض ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ } (بقرہ)
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اس شہر میں جاؤ اور بافرغت کھاؤ پیو لیکن دروازہ میں داخل ہوتے وقت جھک جانا اور حطۃٌ کہنا ہم تمہارے سارے گناہ معاف کردیں گے۔
جھکتے ہوئے داخل ہونا ، اور '' حطۃ'' کہنا اتنی معمولی سی نیکی سے سارے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے، اب وہ گناہ خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں یا اس سے بھی زیادہ اور پھر گناہ بھی کیسے کیسے۔ اللہ کی پناہ۔ ان کے گناہوں کے تذکرہ سے قرآن معمور ہے۔ بہرحال تمام گناہوں کے معاف کردینے کا وعدہ ہے اور کتنی سی بات پر کہ ایک مرتبہ جھک کر حطۃ پڑھ لینا ، کہیے کہ اگر ایک مرتبہ حطۃ پڑھنے سے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کیا اللہ تعالیٰ ہم پر اتنا بے رحم ہوگیا ہے ، کہ اگر ہم استغفر اللہ پڑھیں، تو ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا، ضرور کرے گا۔ وہ ظلم نہیں کرتا، قرآن تو اتنی اتنی سی نیکیوں سے سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، تو اگر حدیث میں بھی اس قسم کی باتیں پائیں جائیں تو تعجب کی آخر کون سی بات ہے، جب قرآن پر اعتراض نہیں، تو حدیث پر اعتراض کیوں؟
خلاصہ
تحریر بالامیں ان تمام احادیث کا جواب ہے جن میں معمولی سی نیکی پر بہت زیادہ ثواب کی بشارت دی گئی ہے اور محض اس بنا پر کہ معمولی سی نیکی پر اتنا اجر نہیں مل سکتا حدیث کو موضوع کہہ دینا غلط ہے، اور یہ معیار ہی باطل ہے، سطحی نظر سے حدیث کا مطالعہ غلط فہمی اور گمراہی میں مبتلا کر دینا ہے، ورنہ حقیقت بین نگاہیں اس کے رموز کو پالیتی ہیں، سطحی نظر سے تو قرآن کا مطالعہ بھی گمراہ کن ہوسکتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے '' یضل بہ کثیرا'' (بقرہ) اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعہ سے بہت سوں کو گمراہ کرتا ہے،تو کیا قرآن ذریعہ گمراہی ہے؟ نہیں۔ ہرگز نہیں، لیکن بہرحال ظاہری معنوں سے تو یہی نکلتا ہے، اور یہ بڑا زبردست اعتراض بن سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ابی الدرداء (صحابی ) کہتے ہیں آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر عمل جس سے تمہارے مدارج بہت بلند ہو جائیں، کون سا ہے؟ ایسا عمل جو سونے اور چاندی کی قربانی اور جہاد سے بھی بہتر ہو، وہ جہاد جس میں تم دشمن کا سر کاٹتے ہو، اور وہ تمہارا، لوگوں نے کہا، فرمائیے کہا '' اللہ کا ذکر'' ہر صاحب علم جانتا ہے کہ حدیث کی دنیا میں مؤطا کا درجہ کتنا بلند ہے، اس بلند کتاب میں اس حدیث کو پڑھنے کے بعد کسی کو کیا پڑی کہ وہ ملک و ملت کی حفاظت یا اپنی مستورات کی عزت و عفت بچانے کے لیے سر دیتا پھرے وہ غلام رہے یا آزاد اس کی بلا سے، ساری دنیا جنت کے لیے مرتی ہے، اور یہ نعمت اس کو زبانی یاد خدا سے مل سکتی ہے، پھر وہ خواہ مخواہ دکھ کیوں اٹھائے۔ (دو اسلام ص ۶۳۔ ۶۴)
ازالہ
اس حدیث کا عام جواب تو اوپر گزر ہی چکا ہے، تاہم مزید تشفی کے لیے کچھ عرض کیے دیتا ہوں اس حدیث میں '' ذکر اللہ'' کو تمام اعمال سے افضل بتایا گیا ہے، اور یہ بالکل قرآن کے مطابق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { وَلَذِکْرُ اللہ اکبر} اور در حقیقت اللہ کا ذکر سب سے بڑا عمل ہے (قرآن) اب اگر ذکر سے مراد تسبیح و تحمید ہے، تو پھر حدیث پر کیا اعتراض ہے، قرآن پر بھی وہی اعتراض ہوگا اور اگر کچھ اور ہی مطلب ہے، تو پھر جو قرآن کا مطلب ہے وہی حدیث کا بھی ہوگا، بہرحال اعتراض کا کوئی نہیں، اور اگر ذکر اللہ میں تبلیغ دین بھی شامل ہے، تو پھر یہ حقیقت ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ اور جنگ و جدال کی اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں، جنگ و جدال میں ایک ہنگامی کوفت اور محض جسمانی تکلیف ہوتی ہے لیکن تبلیغ میں ایسے ایسے کٹھن مرحلے آتے ہیں کہ جنگ اس کے مقابلہ میں ہیچ نظر آنی ہے، تبلیغ میں ان روحانی و جسمانی صدمات سے دو چار ہونا پڑتا ہے کہ سینکڑوں جنگیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، اور پھر وہ صدمات مسلسل ہوتے ہیں، آناًفاناً میں ختم ہونے والے نہیں۔ جنگ کی نوبت بھی اس تبلیغ کے پیچھے پیچھے آتی ہے، بغیر تبلیغ کے حزب اللہ کہاں سے آئے گا، جو میدان کارزار میں سرد ہڑکی بازی لگائے پس ثابت ہوا کہ تبلیغ ہر حالت میں جنگ فی سبیل اللہ سے افضل ہے۔ اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بھی صدیقین کو شہدا پر مقدم کیا ہے۔
برق صاحب مؤطا سے آپ نے یہ حدیث تو نقل کردی، لیکن یہ خیال نہیں فرمایا کہ مؤطا میں یہ حدیث موقوف ہے پھر منقطع ہے، مؤطا کا درجہ بے شک بہت بلند ہے، لیکن صرف اسی صورت میں جب کہ مؤطا میں کوئی حدیث متصل سند کے ساتھ بیان کی گئی ہو، اور یہ حدیث مؤطا میں متصل السند نہیں ہے رہا ترمذی وغیرہ کا حوالہ تو اس میں ایک راوی عبداللہ بن سعید ضعیف ہے (تذکرۃ الموضوعات) برق صاحب حدیث یا روایت پیش کرتے وقت یہ تو دیکھ لیا کیجئے کہ اہل حدیث کا اس کے متعلق کیا خیال ہے، یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ کھری کھوٹی ہر چیز پر اعتراض کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
امام داؤد طائی سے کسی نے پوچھا کہ آپ احادیث کی روایت کیوں نہیں کیا کرتے ''فرمایا میں بچوں کا کھلونا نہیں بننا چاہتا۔'' (دو اسلام ص ۶۴)
ازالہ
اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ طلباء حدیث ان کی غلطیاں پکڑتے تھے اور وہ اس سے بچنا چاہتے اور یہ عبارت خود ان سے مروی ہے، جو اس کے آگے ہے، کہ جب اس راستہ میں میری غلطیاں نکلیں تو پھر غلط راستہ پر چلنا مجھے پسند نہیں۔ (برق اسلام ص۶۴) لہٰذا اس قول میں کوئی اعتراض تو ہے نہیں تاہم یہ بات واضح کردینی مناسب ہے کہ یہ روایت بھی جھوٹ و افترا ہے، اس کی سند میں تین راوی مجہول ہیں (۱) اسحق بن ابراہیم بن نعمان (۲) محمد بن علی بن مروان (۳) ابو عبدالرحمن الضریر (برق اسلام ص ۶۳)
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ چند طلبہ حدیث حضرت فضیل بن عیاض کے ہاں درس لینے کے لیے آئے، آپ نے انہیں ان الفاظ میں ڈانٹ پلائی تم لوگوں نے اللہ کی کتاب کو ضائع کردیا ہے اگر تم کتاب الٰہی کی تلاش کرتے تو اس میں تمہیں شفا مل جاتی۔ (دو اسلام ص ۶۵۔ ۶۶)
ازالہ
یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے اکٹھے تین راوی اس کی سند میں ناقابل وثوق ہیں (۱) ابراہیم بن نصر ابو اسحق السرقطی مجہول ہے (۲) احمد بن مندرس بھی مجہول ہے (۳) عثمان بن عبدالرحمن ابو عمرو متروک وکذاب ہے (برق اسلام ص۶۴) لہٰذا یہ روایت سر تا پا کذب و بہتان ہے، برق صاحب یہاں صرف تاریخی حوالہ کافی نہیں، یہاں فن حدیث ہے، جو ان تاریخی حوالوں کے پرخچے اڑا دیتا ہے، دیکھا آپ نے ان تاریخی حوالوں میں کوئی جان ہے؟ ان بے چیزوں کو آپ جاندار سمجھ کر دھوکا کھا گئے، کاش آپ تحقیق کرنے کے بعد لکھتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
سفیان ثوری کا قول ہے '' انا فی الحدیث منذستین سنۃ وردوت ان خرجت منہ کفافا لاعلی ولا لی'' میں گزشتہ ساٹھ برس سے حدیث کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں۔ اور اب اس سے اس حالت میں نکلنا چاہتا ہوں کہ اس کے فائدہ اور نقصان ہر دو سے محفوظ رہوں۔(دو اسلام ص ۶۶)
ازالہ
یہ روایت معناً بالکل صحیح ہے برق صاحب نے جو ترجمہ اس کا کیا ہے۔ وہ صحیح نہیں صحیح مطلب ، اس کا یہ ہے کہ میں ساٹھ برس سے حدیث کی درس و تدریس میں مشغول ہوں اور یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اگر برابر سرا ہی چھوٹ جاؤں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی پکڑ نہ ہو تو بھی غنیمت ہے گویا سفیان ثوری حدیث کی عظمت بیان کر رہے ہیں اور برق صاحب نے غلط فہمی سے غلط ترجمہ کرکے اس کا منشا کچھ سے کچھ بنا دیا۔
سنداً یہ روایت بالکل ناقابل اعتبار ہے اس کی سند میں ایک راوی قطبہ بن علاء بن ... غیر معتبر کثیر الخطا ہے اس کے ......... بن منادی ، احمد بن محمد بن عبدالخالق سب مجہول نا مشہور ہیں، دوسری سند میں علی بن محارم شیعہ، منکر الحدیث ہے، تیسری سند میں خضری ابان ہاشمی اور کئی راوی مجروح ہیں، چوتھی سند میں محمد بن حسین اور ... احمد مجہول نا مقبول ہیں۔ (برق اسلام ص ۶۷۔ ۶۸)
غلط فہمی
برق صاحب یموت بن المزرع کا مندرجہ ذیل قول نقل کرتے ہیں:
اذا رایت شیخا یعدو فاء لم ان اصحاب الحدیث خلفہ۔
جب تم کسی عالم کو سرپٹ بھاگتا دیکھو تو سمجھ لو کہ طلبہ حدیث اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ (دو اسلام ص ۶۶)
ازالہ
اس قول کا اصل مطلب یہ ہے کہ جب کسی شیخ الحدیث کو جاتے دیکھو تو سمجھ لو کہ طلبا حدیث بھی اس کے پیچھے ہوں گے یعنی شیخ الحدیث کی یہ شان ہے کہ ہمیشہ ان کے پیچھے طلبا حدیث کا جمگھٹ ہوتا ہے، وہ کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔
اگر وہی مطلب لیا جائے جو برق صاحب نے لیا ہے ، یعنی علماء درس حدیث سے گھبرا کر بھاگا کرتے تھے، لیکن طلباء ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے اور تنگ کرتے تھے تو آخر اس میں اعتراض ہی کیا ہے، پھر میں یہ پوچھتا ہوں کہ آخر یہ یموت بن المزرح کون صاحب ہیں کہ ان کے کسی قول کی وقعت بھی ہماری نگاہ میں کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کیا ہیں ایک مجہول غیر معروف شخص کے قول سے دلیل لانا کوئی اچھا کام نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
محمد بن سلام حضرت عمر کے اس قول کے راوی ہیں کہ میں نے حدیث سے بہتر کوئی علم اور اہل حدیث سے زیادہ ذلیل کوئی مخلوق نہیں دیکھی۔ (دو اسلام ص ۶۶۔۶۷)
ازالہ
اول تو اس قول کی سند معتبر نہیں، پھر یہ عقلاً بھی محال ہے کہ جس چیز کو اشرف کہا جائے اس کے حاملین کو ذلیل کہا جائے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اہل حدیث خود صحابہ کرام تھے، کیا وہ ذلیل تریں مخلوق تھے، یہ بھی غلط ہے کہ علم حدیث علم قرآن سے بھی بہتر ہو، اگر یہ قول اہل حدیث کے خلاف ہے تو قرآن کے بھی خلاف ہے، اس قول سے قرآن کا استخفاف ہوتا ہے، غرض یہ کہ یہ قول سراسر باطل ہے، اور بہتان عظیم ہے۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
سفیان بن عینیہ مسعر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے کہا '' خدا میرے دشمن کو محدث بنا دے'' ایک اور موقعہ پر فرمایا '' کاش علم حدیث میرے سر پر شیشوں کا ایک ٹوکرا ہوتا جو گر کر چور چور ہو جاتا۔ (دو اسلام ص ۶۷)
ازالہ
یہ اقوال بھی بہتان ہیں ، ان کی سند میں خلف بن قاسم مجہول ہے، اور علی بن سعید رازی مجروح ہے۔ (برق اسلام ص ۷۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک دفعہ چند طلباء حدیث سفیان بن عینیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: تم میری آنکھ کی جلن ہو، اور ساتھ ہی کہا، اگر آج عمر بن خطاب زندہ ہوتے اور ہم سب کو دیکھ پاتے تو مار مار کر ہمارا پلستر بگاڑ دیتے۔ (دو اسلام ص ۶۷)
ازالہ
یہ بھی کذب و بہتان ہے ، اس کی سند میں محمد بن مسلمہ بن قاسم، احمد بن عیسیٰ اور ابراہیم بن سعید اکٹھے تین راوی مجروح ہیں۔ (برق اسلام ص ۷۷)
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
امام شعبہ نے فرمایا ایک زمانہ تھا کہ میں اصحاب حدیث سے مل کر خوش ہوتا تھا لیکن آج لیس شئی ابغض الی من ان اری واحدا منھم میرے ہاں جب سے زیادہ قابل نفرت یہی لوگ ہیں (دو اسلام ص ۶۷۔ ۶)
ازالہ
یہ قول بھی سر تا پاکذب ہے، اس کی سند میں احمد بن احمد متہم ہے، یعنی روایتیں گھڑا کرتا تھا، دوسرا راوی احمد بن الفضل منکر الروایت ہے، تیسرا راوی محمد بن عبداللہ الادرقی مجہول ہے۔ (برق اسلام ص ۷۵) لہٰذا یہ روایت بالکل باطل ہے، اور احمد بن محمد کی بنائی ہوئی ہے۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ چند طلبہ امام شعبہ کے پاس درس حدیث لینے کے لیے آئے، آپ نے کڑک فرمایا یہ حدیث تمہیں اللہ کے ذکر سے روکتی ہے، کیا تم باز نہیں آؤ گے۔ (دو اسلام ص ۶۸)
ازالہ
اس کی سند میں عبدالوارث مجہول ہے، دوسری سند میں احمد بن محمد بن غالب روایتیں گھڑنے والا ہے (برق اسلام ص ۷۵) لہٰذا یہ روایت بھی باطل اور جھوٹ ہے۔
 
Top