• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی جامع تعریف

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اب وقت آگیاہے کہ بات کو دوبارہ موضوع پر لایاجائے۔
اس تھریڈ کا موضوع یہ تھاکہ تقلید کی جوتعریف طالب الرحمن اوررفیق طاہر نے پیش کی ہے وہ جامع ہے یانہیں۔
بقول رفیق طاہر،طالب الرحمن کا پیش کردہ تقلید کی تعریف "جامع"نہیں ہے اورجامع تعریف وہ ہے جو انہوں نے پیش کی ہے۔
انہوں نے ابن ہمام کی پیش کردہ تعریف کو بھی جامع اورمانع قراردیاہے۔
ابن ہمام کی پیش کردہ تعریف پر جواعتراض واردہورہے ہیں۔ وہ سابق میں مذکورہوچکے۔
رفیق طاہر صاحب کاکہناہے کہ ہم ایک ایک کرکے اعتراض پیش کریں۔
ان کی بات مانتے ہوئے ہم ایک ایک کرکے اعتراض پیش کررہے ہیں۔
اولا:تقلید کون کرے گااس کی وضاحت نہیں ہے۔
ثانیا:تقلید کس کی کرے گااس کی وضاحت نہیں ہے۔
ثالثا:تقلید کس چیز میں ہوگی اس کی وضاحت نہیں ہے۔
رابعا:ابن ہمام کی تقلید کی تعریف سے جو تقلید کی "جامع ومانع"تعریف رفیق طاہر صاحب نے مستنبط کی ہے۔وہ ماقبل میں بھی کسی سے منقول ہے یاپھریہ ان کا ذاتی "اجتہاد"ہے۔
باتیں اوربھی ہیں۔ فی الحال اتناہی سہی!
یاددہانی
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم ندوی صاحب !
کسی بھی چیز کی تعریف میں یہ باتیں شامل نہیں ہوتیں جنکا آپ نے سوال کیا ہے ‘ ہاں ضمنا اگر آجائیں تو علیحدہ بات ہے ۔ آپ اصول فقہ یا اصول حدیث کی کوئی سی کتاب بھی اٹھا لیں اور ان میں موجود تعریفات کو پڑھیں تو یہی سوالات ہر ہر تعریف پر آنجناب کی طرف سے پید ہونگے ۔ کیونکہ کسی بھی چیز کی تعریف میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں ۔
لہذا پہلے تو آپ یہ دلیل پیش فرمائیں کہ یہ باتیں کسی بھی چیز کی تعریف میں ضرور شامل ہوتی ہیں ۔ اور پھر مشتے از خروارے ہم آپکو اصول شاشی وغیرہ سے تعریفات کی بیسیوں مثالیں دے کر آپ سے بھی سوال کریں گے کہ یہ تعریفات جامع ہیں ہیں یا نہیں
ثانیا : کون کرے گا کا جواب اس تعریف میں ضمنا موجود ہے یعنی ہر وہ شخص کو کتاب وسنت کے خلاف کسی کی بات مانے گا وہ تقلید کرے گا
کس کی کرے گا کا جواب بھی اسی تعریف میں ضمنا موجود ہے کہ جس بھی شخص کی بات کتاب وسنت کے خلاف وہ مانے گا وہ اس کی تقلید ہی کرے گا
اور کس چیز میں ہوگی کا جواب بھی اسی تعریف میں ضمنا موجود ہے کہ ہر اس بات میں ہوگی جسے وہ کتاب وسنت کے خلاف ہونے کے باوجود مانے گا
اس تعریف کو جامع ومانع مجھے سے پہلے بھی بہت سوں نے قرار دیا ہے لیکن انکے ہستیوں کے اسامی مبارکہ پیش کرنے سے قبل آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے اعتراضات کیے ہیں یہی اعتراضات آپ سے پہلے بھی کبھی کسی نے کیے ہیں ؟؟؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
محترم ندوی صاحب !
کسی بھی چیز کی تعریف میں یہ باتیں شامل نہیں ہوتیں جنکا آپ نے سوال کیا ہے ‘ ہاں ضمنا اگر آجائیں تو علیحدہ بات ہے ۔ آپ اصول فقہ یا اصول حدیث کی کوئی سی کتاب بھی اٹھا لیں اور ان میں موجود تعریفات کو پڑھیں تو یہی سوالات ہر ہر تعریف پر آنجناب کی طرف سے پید ہونگے ۔ کیونکہ کسی بھی چیز کی تعریف میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں ۔
لہذا پہلے تو آپ یہ دلیل پیش فرمائیں کہ یہ باتیں کسی بھی چیز کی تعریف میں ضرور شامل ہوتی ہیں ۔ اور پھر مشتے از خروارے ہم آپکو اصول شاشی وغیرہ سے تعریفات کی بیسیوں مثالیں دے کر آپ سے بھی سوال کریں گے کہ یہ تعریفات جامع ہیں ہیں یا نہیں
ثانیا : کون کرے گا کا جواب اس تعریف میں ضمنا موجود ہے یعنی ہر وہ شخص کو کتاب وسنت کے خلاف کسی کی بات مانے گا وہ تقلید کرے گا
کس کی کرے گا کا جواب بھی اسی تعریف میں ضمنا موجود ہے کہ جس بھی شخص کی بات کتاب وسنت کے خلاف وہ مانے گا وہ اس کی تقلید ہی کرے گا
اور کس چیز میں ہوگی کا جواب بھی اسی تعریف میں ضمنا موجود ہے کہ ہر اس بات میں ہوگی جسے وہ کتاب وسنت کے خلاف ہونے کے باوجود مانے گا
اس تعریف کو جامع ومانع مجھے سے پہلے بھی بہت سوں نے قرار دیا ہے لیکن انکے ہستیوں کے اسامی مبارکہ پیش کرنے سے قبل آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے اعتراضات کیے ہیں یہی اعتراضات آپ سے پہلے بھی کبھی کسی نے کیے ہیں ؟؟؟
ندوی صاحب موجود نہیں ہیں وہ کیااعتراض کریں گے مجھے نہیں معلوم لیکن آنجناب کی اس وضاحت پر کچھ عرض ومعروض تومیں بھی کرسکتاہوں۔
اولاجس کو آپ تعریف کہہ رہے ہیں وہ خلاصہ توہوسکتی ہے لیکن تعریف کسی بھی حال میں نہیں ہوسکتی۔
مثلاکوئی شخص کہے کہ دین کاخلاصہ ایمان اورعمل ہےتویہ خلاصہ ہوسکتاہے لیکن تعریف نہیں ہوسکتی
آپ ابھی کہہ رہے ہیں
کسی بھی چیز کی تعریف میں یہ باتیں شامل نہیں ہوتیں جنکا آپ نے سوال کیا ہے ‘ ہاں ضمنا اگر آجائیں تو علیحدہ بات ہے ۔
لیکن افسوس کہ اردومجلس میں اسی تقلید کی بحث میں آنجناب بال کی کھال نکال رہے تھے اورجامعیت ومانعیت کامطالبہ کررہے تھے شاید وہاں یہ باتیں نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔
کوئی بھی شخص اردومجلس کے لنک پر جاکر دیکھ سکتاہےکہ وہاں رفیق طاہر صاحب کو تقلید کی جامع ومانع تعریف کیلئے کیاکیاامور درکارتھے اوریہاں سب سے پہلوتہی ہے۔
شاید یہ فورم بدلنے کابھی اثر ہے۔ رات گئی بات گئی ۔فورم بدلااصول بحث بدلا
ویسے آپ نے یہ جوپوچھاہے
آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے اعتراضات کیے ہیں یہی اعتراضات آپ سے پہلے بھی کبھی کسی نے کیے ہیں ؟؟؟
آپ نے جوتقلید کاخلاصہ بیان کیاہے(میں اسے خلاصہ ہی سمجھتاہوں اوروہ بھی آپ کے ذہن کااوربزعم آنجناب تعریف)
وہ آپ سے پہلے کتنوں نے کی ہے؟صرف ابن حزم اوراسی قبیل کے کچھ ایک دو غیرمتشددین کے نام نکال دیں توتقریبااکثر علماء مذاہب اربعہ کی تقلید کے جواز پرمتفق ہیں اورتقلید کی تعریف پربھی۔
دوسرے ابن ہمام یادیگرعلماء کی تعریف سے خودساختہ اورخانہ ساز مطلب نکالناآپ ہی کو مبارک ہو ۔ لیکن جولوگ عربی سے واقف ہیں وہ اس پر ہنسیں گے کہ
کہ کس طرح آپ نے بھان متی کاکنبہ جوڑکر اپنی منمانی تعریف نکالی ہے۔

التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ
حقیقت یہ ہے کہ انسان اگراس جملہ کوبغیر کسی مسلکی تعصب کاچشمہ لگائے پڑھے گاتواسے معلوم ہوگاکہ
اس عبارت کا مقصود یہ ہے کہ تقلید ایسے شخص کے قول پرعمل کرنے کانام ہے جس کاقول بذاتہ حجت شرعیہ نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ اس کے قول پر حجت شرعیہ قائم ہے یانہیں ہے اس سے یہ تعریف خالی ہے
لیکن تقلید کسی مجتہد کی ہی ہوتی ہے اور
مجتہد کہتے ہی اس کو ہیں احکام فرعیہ شرعیہ کو ادلہ تفصیلہ سے مستنبط کرے
لہذااس کے قول پر ادلہ شرعیہ ضرور ہوں گے
کیااس عبارت کو سمجھنے میں کسی تکلیف اورعربی میں دکتوراہ کرنے کی ضرورت ہے؟ قطعانہیں !لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے فرصت ملتے ہی اردومجلس پر تقلید کی تعریف پر آنجناب کے تمام اشکالات محدث فورم پر نقل کرکے ایک موازنہ کرکے دکھاؤں گاکہ
اتناسب کچھ ہوتے ہوئے بھولے بابابننے کی ضرورت نہیں ہے
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
طحاوی دوراں صاحب !
اردو مجلس میں ہم نے ان تمام تر باتوں کو تقلید کی تعریف میں شامل نہیں قرار دیا تھا ۔ اگر ایسا ہے تو آپ اس عبارت کا اقتباس پیش فرمائیں ۔!
ہاں تقلید کے بارہ میں واضحتى سوالات ضرور کیے تھے ۔ اور وہ آپکو بھی حق ہے کہ آپ بھی کرلیں ۔ ہم انکے جواب دیں گے ان شاء اللہ ۔

رہی آپکی بات کہ
التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ
حقیقت یہ ہے کہ انسان اگراس جملہ کوبغیر کسی مسلکی تعصب کاچشمہ لگائے پڑھے گاتواسے معلوم ہوگاکہ
اس عبارت کا مقصود یہ ہے کہ تقلید ایسے شخص کے قول پرعمل کرنے کانام ہے جس کاقول بذاتہ حجت شرعیہ نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ اس کے قول پر حجت شرعیہ قائم ہے یانہیں ہے اس سے یہ تعریف خالی ہے
تووہ بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ تعریف میں موجود آخری الفاظ " بلا حجۃ" اسی بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ ماننے والے نے ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کی بات حجت نہیں اور اسکی بات پر بھی حجت نہیں ! کیونکہ جو مفہوم آپ بیان کرنا چاہ رہے ہیں وہ "بلا حجۃ" سے پہلے ہی پورا ہو چکا ہے ۔
فتدبر !
 

ابوطلحہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 13، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
0
طحاوی دوراں صاحب !


رہی آپکی بات کہ

تووہ بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ تعریف میں موجود آخری الفاظ " بلا حجۃ" اسی بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ ماننے والے نے ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کی بات حجت نہیں اور اسکی بات پر بھی حجت نہیں ! کیونکہ جو مفہوم آپ بیان کرنا چاہ رہے ہیں وہ "بلا حجۃ" سے پہلے ہی پورا ہو چکا ہے ۔
فتدبر !
رفیق طاھر صاحب !
اگر رنجیدہ خاطر نہ ہو تو ایک بات تقلید کی اس تعریف کے حوالے سے ہم بھی عرض کریں
اور وہ یہ کہ آپ حضرات ابن ہمام کی تعریف :التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ کو درست طریقے سے سمجھے ہی نہیں ۔میرے نزدیک اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اور وہ عربی سے ناواقفیت ہے۔ عربی عبارے دیکھ کر تو میں فورا سمجھ گیا کہ آپ کو کہاں مغالطہ ہورہاہے۔مگر آپ کے لیے چونکہ تقلید جائز ہی نہیں اس لیے آپ علماے احناف کی تعریفات اور ان کی توجیہات و تشریحات کو کوئی وقعت ہی نہیں دیتے ۔اور خود سے ایک تعریف گڑدیتے ہیں اور اس پر فتوی کی مشق کرتے ہیں۔
آپ نے نحو پڑھا ہوگا اور اگر نہیں پڑھا تو کسی نحوی سے اس تعریف کی ترکیب کرایں ۔صحت تعریف کا یہ راز آپ پر کھل جاےگا۔
تعریف میں "بلاحجہ" (جار مجرور ) کا تعلق "العمل" مصدر کے ساتھ ہے "القول" کے ساتھ نہیں۔اور وجہ اس کی یہ ہے کہ "بقول" خود" العمل " کے ساتھ متعلق ہے ۔ امید بات واضح ہوگی اور مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اب مطلب بھی واضح ہوگیا ۔اس لیے کہ دوچیزین واضح ہوگئ:
١ ۔ جس قول کی تقلید کی جاےگی وہ قول بذاتہ حجج شرعیہ نہیں ہے۔یہ مطلب ہے اس عبارت کا" (يْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ)۔ (اس لیے کہ حجج شرعیہ تو صرف چار ہیں۔ اور اس پر تمام مقلدین کا اجماع ہے قول امام و مجتہد حجت شرعی نہیں ۔)
٢ ۔ بلا حجہ کا تعلق عمل ہے مطلب مقلد سے ہے مجتہد سے نہیں ۔ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ تقلید صرف ان اشیا ء میں کہلائی جاے گی جس پر کوئی حجت شرعی قائم نہ ہو۔ اگر حجت قائم ہو تو پھر وہ امام کی تقلید نہیں بلکہ اس حجت کی اتباع ہے اس لیے کہ خود امام اس کی اتباع کر رہا ہے ۔
اب یہ بات بھی سمجھو کہ جتنے بھی مسائل اختلافی ہیں ۔ خواہ فاتحہ خلف الامام ہو یا آمین بالجہر ہو یا رفع یدین ہو ان سب میں آپ جس پر فتوی دیں گے یا جس کو ترجیح دیں گے وہ آپ کی راے اور اجتہاد تو کہلای جاسکتی ہے مگر اتباع قران وسنت نہین ۔ اس لیے کہ اس ترجیح پر اور اس انتخاب پر قرآن و حدیث کی کو دلیل نہین ہے ۔ تو فرق صرف اتنا ہو کہ آپ یا تو اجتہاد کرتے ہیں یا کسی اور امام یا محدث کی تقلید کرتے ہیں ،پھر اس میں من مانی بھی کرتے ہیں کہ جس کو چاہا اس کے روایت پر عمل کیا اور جس کو چاہا اس کو چھوڑدیا ۔ تو اتباع شریعت نہ ہوئی بلکہ اتباع نفس ہوا ۔ ہم اسی اتباع نفس سے بچتے ہوے ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ وہ سب سے زیادہ دالائل کا علم رکھتے تھے اور ان کا قول سب سے زیادہ صحت اور تقوی کے قریب ہے ۔
 

ابوطلحہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 13، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
0
ابن ہمام الحنفی نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں انکا ترجمہ یہ ہے :
ایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا جسکا قول دلائل شرعیہ ( کتاب وسنت) میں سے نہ ہو۔
وضاحت :
اس تعریف کو ذرا غور سے سمجھیں کہ ایسے شخص کا قول مان لیا جائے جسکا قول قرآن یا حدیث نہ ہو یعنی اللہ اور اسکے رسول کے علاوہ کسی اور کا قول مان لیا جائے اور پھر اسکے قول پر کوئی دلیل بھی نہ ہو ۔
ا ۔
ابن ہمام کی تعریف کا جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ درست ہے مگر اس کی جو وضاحت پیش کی گئ ہے وہ سراسر غلط اور زبردست علمی خیانت ہے اور تعجب ہے کہ خود گیر مقلد اپنے بزرگوں کی اس طرح غلطیوں پر کوئی تنبیہ بھی نہیں کرتے ۔
ترجمہ میں فرمایا:(ایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ) مطلب واضح ہے کہ عمل کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔دونوں چیزیں ہیں : ایک قولؕ بلا دلیل پر عمل کرنا اور دوسراقول پر بلا دلیل عمل کرنا ۔جناب نے دوسرا اختیار فرمایا ہے ۔
اور وضاحت میں فرمایا کہ :(وضاحت :۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اس تعریف کو ذرا غور سے سمجھیں کہ ایسے شخص کا قول مان لیا جائے جسکا قول قرآن یا حدیث نہ ہو یعنی اللہ اور اسکے رسول کے علاوہ کسی اور کا قول مان لیا جائے اور پھر اسکے قول پر کوئی دلیل بھی نہ ہو)
کیا یہ بہت بڑی غلطی نہیں ۔ رفیق طاہر صاحب اپنی اس خیانت کا جواب دیں
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
تووہ بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ تعریف میں موجود آخری الفاظ " بلا حجۃ" اسی بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ ماننے والے نے ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کی بات حجت نہیں اور اسکی بات پر بھی حجت نہیں ! کیونکہ جو مفہوم آپ بیان کرنا چاہ رہے ہیں وہ "بلا حجۃ" سے پہلے ہی پورا ہو چکا ہے ۔
اب مجھے سمجھ میں آیاکہ آنجناب کی غلط فہمی کا مصدراورمنبع کہاں ہے
بلاحجۃ کا تعلق آپ نے کہاں سے جوڑاہے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
حضرت کم ازکم اصول فقہ کی شروحات کی جانب ایک نگاہ دوڑالیتے توایسی غلط فہمی تولاحق نہ ہوتی۔
اس کی وضاحت ابوطلحہ بھائی کرچکے ہیں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے
کم ازکم ابن ہمام کی اصول فقہ پر لکھی گئی شرح کے یہ جملے پڑھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں شاید کچھ کام کی بات نکل آئے۔
(مَسْأَلَةُ التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ) الْأَرْبَعِ الشَّرْعِيَّةِ (بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ) أَيْ مِنْ التَّقْلِيدِ عَلَى هَذَا؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ مِنْ الْحُجَجِ الْأَرْبَعِ، وَكَذَا لَيْسَ مِنْهُ عَلَى هَذَا عَمَلُ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَعَمَلُ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ إحْدَى الْحُجَجِ فَلَيْسَ الْعَمَلُ بِهِ بِلَا حُجَّةٍ شَرْعِيَّةٍ لِإِيجَابِ النَّصِّ أَخْذَ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَأَخْذَ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ، وَكَأَنَّهُ لَمْ يَتَعَرَّضَ لَهُمَا لِظُهُورِهِمَا بَلْ عَلَى هَذَا لَا يُتَصَوَّرُ تَقْلِيدٌ فِي الشَّرْعِ لَا فِي الْأُصُولِ وَلَا فِي الْفُرُوعِ فَإِنَّ حَاصِلَهُ اتِّبَاعُ مَنْ لَمْ يَقُمْ حُجَّةً بِاعْتِبَارِهِ، وَهَذَا لَا يُوجَدُ فِي الشَّرْعِ فَإِنَّ الْمُكَلَّفَ إمَّا مُجْتَهِدٌ فَمُتَّبِعٌ لِمَا قَامَ عِنْدَهُ بِحُجَّةٍ شَرْعِيَّةٍ، وَإِمَّا مُقَلِّدٌ فَقَوْلُ الْمُجْتَهِدِ حُجَّةٌ فِي حَقِّهِ فَإِنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - أَوْجَبَ الْعَمَلَ عَلَيْهِ بِهِ كَمَا أَوْجَبَ عَلَى الْمُجْتَهِدِ بِالِاجْتِهَادِ
یہ وہی بات ہے جومیں ماقبل مین دوہراچکاہوں کہ
رہی یہ بات کہ اس کے قول پر حجت شرعیہ قائم ہے یانہیں ہے اس سے یہ تعریف خالی ہے
لیکن تقلید کسی مجتہد کی ہی ہوتی ہے اور
مجتہد کہتے ہی اس کو ہیں احکام فرعیہ شرعیہ کو ادلہ تفصیلہ سے مستنبط کرے
لہذااس کے قول پر ادلہ شرعیہ ضرور ہوں گے
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم ابو طلحہ وجمشید صاحبان !
"بلاحجۃ" کا تعلق آپ قول کے ساتھ جوڑیں یا عمل کے ساتھ دونوں صورتوں میں مفہوم وہی بنتا ہے جو میں نے بیان کیا !
اگر عمل کے ساتھ تعلق جوڑیں تو معنى بنتا ہے مقلد کا بے دلیلا عمل جو کسی بھی ایسے شخص کی بات سن کر کیا جائے جسکا قول حجت نہیں ہے ۔
اور اگر قول کے ساتھ اسکا تعلق جوڑیں تو بھی مفہوم یہی نکلتا ہے کیونکہ معنى بنے گا کہ کسی ایسے شخص کی بے دلیلی بات سن کر عمل کرنا جس کا قول حجت نہیں ہے ۔
دونوں صورتوں میں کیا جانے والا عمل دلیل سے خالی ہے !!!
فتدبر !
اور یہ بات بھی معلوم رہے کہ اس تعریف کے مطابق تقلید صرف مقلد ہی کی نہیں بلکہ مقلد کی بھی ہوتی ہے !!!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
محترم ابو طلحہ وجمشید صاحبان !
"بلاحجۃ" کا تعلق آپ قول کے ساتھ جوڑیں یا عمل کے ساتھ دونوں صورتوں میں مفہوم وہی بنتا ہے جو میں نے بیان کیا !
اگر عمل کے ساتھ تعلق جوڑیں تو معنى بنتا ہے مقلد کا بے دلیلا عمل جو کسی بھی ایسے شخص کی بات سن کر کیا جائے جسکا قول حجت نہیں ہے ۔
اور اگر قول کے ساتھ اسکا تعلق جوڑیں تو بھی مفہوم یہی نکلتا ہے کیونکہ معنى بنے گا کہ کسی ایسے شخص کی بے دلیلی بات سن کر عمل کرنا جس کا قول حجت نہیں ہے ۔
دونوں صورتوں میں کیا جانے والا عمل دلیل سے خالی ہے !!!
فتدبر !
اگردانشوری کاحال یہی ہے کہ قول بلادلیل اورعمل بلادلیل دونوں ایک ہیں تو پھر اس پرصرف افسوس ہی کیاجاسکتاہے۔
اولا اس اعتراض کاجواب تاحال باقی ہے کہ رفیق طاہر صاحب کا پیش کردہ تعریف جامع ہے یاصرف خلاصہ ہے۔
ثانیاابن ہمام کی جس تعریف سے رفیق طاہر صاحب نے یہ نتیجہ نکالاہے ماضی میں کتنے علماء اس نتیجہ پر پہنچے ہیں
ثالثاتقلید ایک اصطلاح ہے یہ غیرمقلدین کی "اتباع"نہیں ہے جس کاہرجگہ معنی بدلتاجاتاہے۔تقلید اصطلاحافروعات فقیہہ میں ہواکرتی ہےلہذا تعریف میں اس کا خیال رکھناضروری ہےخصوصااس کو جس کا دعویٰ یہ ہو کہ یہ تعریف جامع اورمانع دونوں ہے۔
رابعاقول بلادلیل اورعمل بلادلیل میں فرق اتناواضح ہے کہ اس فرق کو نہ سمجھنے والے کے بارے میں صرف یہی کہاجاسکتاہے کہ یاتو بے چارہ اردو سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتا یاپھر کسی قسم کا تعصب اسے سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔مصنف ابن ابی شیبہ اورمصنف عبدالرزاق میں ہزاروں سائلین کے سوال کے جواب میں صحابہ کرام اورتابعین عطام نے صرف مسئلہ بتایااوراس کی دلیل ذکر نہیں کی۔دلیل جانے بغیر عمل کرنے والے کا عمل بلادلیل ہوگا یاپھر صحابہ کرام اورتابعین عظام کا قول بلادلیل ہوگا؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
لاحجۃ" کا تعلق آپ قول کے ساتھ جوڑیں یا عمل کے ساتھ دونوں صورتوں میں مفہوم وہی بنتا ہے جو میں نے بیان کیا !
قطعامفہوم ایک نہیں بنتاہاں "بزعم خود"کوئی کچھ سمجھ لے تواس کی بات دیگر ہے۔
اگر عمل کے ساتھ تعلق جوڑیں تو معنى بنتا ہے مقلد کا بے دلیلا عمل جو کسی بھی ایسے شخص کی بات سن کر کیا جائے جسکا قول حجت نہیں ہے ۔
عمل کے ساتھ تعلق جوڑنے میں مفہوم بنتاہے کہ کسی شخص کاایسے شخص کے قول پر بلادلیل معلوم کئے عمل کرناجس کا قول حجج شرعیہ میں سے نہیں ہے۔اب یہ بات کہ اس کے قول پر دلیل ہے یانہیں اس سے یہ تعریف خالی ہے لیکن فروعات فقیہہ میں تقلید کسی مجتہد کی ہی ہوتی ہے اورمجتہد کہتے اسی کو ہیں جو ادلہ تفصیلہ سے مسائل کا استنباط کرے لہذااس کے قول پر دلیل ضرور ہوگی۔
اور اگر قول کے ساتھ اسکا تعلق جوڑیں تو بھی مفہوم یہی نکلتا ہے کیونکہ معنى بنے گا کہ کسی ایسے شخص کی بے دلیلی بات سن کر عمل کرنا جس کا قول حجت نہیں ہے ۔
اگرچہ قول کے ساتھ جوڑنے مین زیادہ سے زیادہ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے تعبیر میں غلطی ہوئی ہے لیکن کہنے والے کاارادہ جیساکہ شراح نے بیان کیاہے یہی ہے کہ ایسے شخص کے قول پر بلادلیل طلب کئے عمل کرنا جس کا قول حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔بقیہ جوبات ماقبل مین ذکر ہوئی وہ یہاں بھی ہے۔
دونوں صورتوں میں کیا جانے والا عمل دلیل سے خالی ہے !!!
عمل دلیل سے خالی ہوسکتاہے لیکن جس قول پر عمل کیاجارہاہے اس پر دلیل ہے یانہیں اس کی نفی قطعی اوریقینی کہاں سے اورکس دلیل سے آنجناب کومعلوم ہوئی ۔ وہ توفرمائیں۔
 
Top