• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین رسالت بارے استفسارات اور ان کے جوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:توہین آمیز خاکوں کے ذریعے نبی ﷺ کی توہین کے مرتکب کے شرعی حکم پر رہنمائی فرمائیں اور ان حالات میں مسلمانوں کیکیا ذمہ داری بنتی ہے ؟
الجواب: دین و عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جن باتوں کو دین سمجھتا ہے اور ان پر عقیدہ رکھتا ہے وہ تمام کی تمام اس معتقد اور دین دار کے لئے مقدس ترین ہوتی ہیں اور ان میں بالخصوص شعائر کاتقدس و احترام اس کے ایمان کا ایک بدیہی تقاضا ہوتا ہے۔ تعلیمات اِسلامیہ بھی اسی حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے: ﴿وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقَوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج :۳۲) کا سبق دیتی ہے۔ ان مذہبی مقدسات میں ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات عالیہ، اس کی کلام وحی اور وہ ذات مقدس جس کا وحی کے لئے انتخاب ہوتاہے سرفہرست ہیں۔ کسی شخص کے مذہبی اور دین دار ہونے کا اس تقدس و احترام کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے مسلمانوں کے نزدیک ان مقدسات کا تحفظ اور ان کا دفاع اپنی جان اور مال سے بھی مقدم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لیکن کفر و اسلام کی جنگ اور حق و باطل کے معرکہ میں جہاں کفر وباطل اسلام اور دین کے خلاف جو بھی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ان میں اہل حق اور ان کے مقدسات کااستہزاء بھی ہے۔ جس سے اہل حق کو اذیت دینا اور دوسروں کو دین سے دور کرنے کی سعی نامشکور ہوتی ہے اور یہ کشمکش روزِ اوّل سے ہی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے انبیاء کرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْهِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِه یَسْتَهْزِؤُنَ﴾( یسین:۳۰)
لیکن ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور قانون بھی اتنا اٹل ہی ہے کہ جب قومیں اس جرم میں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں توعذاب الٰہی کا کوڑا بھی ان پر ضرور برستا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِیَء بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَاب﴾(الرعد:۳۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی اصول و قانون کے پیش نظر جب مشرکین مکہ نے آپﷺ کے خلاف یہ محاذکھولا تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر پیغمبر علیہ السلام کا دفاع فرماتے ہوئے اعلان فرمایا: ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ إنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَهْزِئِیْنَ﴾(الحجر:۹۵)
انبیاء کرام﷤سے یہ رویہ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ذلیل وخوار کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچ سکے۔ تاریخ عالم میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں:الصارم المسلول علی شاتم الرسول لابن تیمیۃ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں ایسے بدطینت و بدبخت عذاب الٰہی سے دوچار ہوتے ہیں وہاں ایسے افراد کی زبان کو لگام دینے کے لئے شرائع سماویہ میں ان کے خلاف سخت سے سخت سزا بھی مقرر کی گئی ہے کہ کسی بھی نبئ برحق کی گستاخی کرنے والے کی سزا موت ہی ہے۔ سیدنا ابوبکر کی مشہور حدیث جس میں آپ نے فرمایا:«لا واﷲ ما کانت لبشر بعد محمد»! (سنن أبي داؤد:۴۳۶۳، سنن النسائی:۴۰۷۲) کہ پیغمبر خدا کا ہی یہ رتبہ ہے کہ ان کی توہین کرنے والے کو قتل کیا جائے۔ ان کے علاوہ یہ تقدس کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہے۔ جناب عمر اور جناب علی و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے دوٹوک الفاظ میں یہ اعلان ہوتا ہے۔
«من سبّ نبیا قتل»
’’کہ پیغمبر برحق کی گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے۔‘‘(الصارم المسلول:ص۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بارہ میں جہاں مسلمانوں کے ہاں قانوناً وہ شخص واجب القتل ہے۔ وہاں مسلمانوں کی حساسیت اور فدائیت بھی مثالی ہے۔ جنگ بدر میں اگرچہ تمام کفار، کفار ہی تھے اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے۔ ان سب کے خلاف جنگ تھی۔ مگر معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء کا ہدف خاص ابوجہل ہی تھا۔ جب انہوں نے عبدالرحمن بن عوف سے پوچھا:«یا عم هل تعرف أباجهل؟» تو انہوں نے کہا: «ما حاجتک إلیه یا ابن أخی؟» بھتیجے تم اس کا کیوں پوچھتے ہو، کیا کام ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
«أخبرت أنه یسبّ رسول اﷲ! والذی نفسی بیده لئن رأیته لا یفارق سوادی سواده حتی یموت الأعجل منا» ( صحیح البخاری:۳۱۴۱)
تو انہوں نے جواب دیا کہ سنا ہے کہ وہ رسول پاکﷺ کی توہین کرتا ہے ۔ رب کی قسم اگر میں رسول اللہﷺ کی گستاخی و توہین کرنے والے کو دیکھ لوں تو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا تو ایسے دیوانہ وار جھپٹے کہ لمحوں میں اس گستاخ کا کام تمام کردیا۔ حکم ربانی: ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِه وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَهُ اُوْلٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (الأعراف:۱۵۷) ﴿إنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرا وَّنَذِیْرًا لِّتُوْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾(الفتح:۹) کی عملی تصویر پیش کردی۔ ایسی مثالیں ایک نہیں بلکہ بیسیوں ہیں اور ہر دور و زمانہ میں مسلمانوں نے اپنے مقدسات کا دفاع کیاہے پیغمبر باری تعالیٰ کی توہین پر خاموش رہنا مسلمان کے لئے ہرگز ہرگز ناجائز ہے۔ آج کل اگر کفار نے اسلام کے خلاف یہ روِش اختیار کی ہے تو ایسے کفار سے مسلمانوں کو ہر صورت نمٹنا لازم و واجب ہوگا۔ گستاخانِ رسول کی جانب سے یہ عمل بار بار دہرا کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تو ایسے حالات میں تمام اَفراد اُمت پر بالعموم اور حکمرانوں پر بالخصوص لازم آتا ہے کہ ایسے مجرموں کے خلاف ہر طرح کی ممکن کارروائی کریں اور اقتصادی و سفارتی تعلقات بالکل منقطع کریں۔ ان سے اپنی عداوت و جنگ کا کھلے عام اعلان کریں، تمام اُمت مسلمہ کو متحد ہوکر اس محاذ پر لڑنالازم ہے اور غیرت ایمانی کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔
نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلمان ہو نہیں سکتا
نہ کٹ مروں جب تک خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہونہیں سکتا​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص توہین رسالت کا ارتکاب کرتاہے اس کی کیا سزا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
الجواب:شریعت اِسلامیہ کی رو سے جو شخص کافر ہو یا مسلمان، نبی محتشم، سید الاولین والآخرین، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین حضرت محمدمصطفی ﷺ کو سب و شتم کرتا ہے یا آپﷺ کی سیرت و کردا ریا زندگی کے کسی پہلو کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتاہے، مثلاً خاکے شائع کرتاہے یا کارٹون بناتاہے یا کتابیں ، رسالے اور ناول چھاپتا ہے یا آپؐ کی زندگی پر فلمیں بناتا ہے یا آپ کی طرف بُری باتیں منسوب کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں یہ حرکت کرتا ہے تو مسلمان حکومت پر اس کا قتل کرنا واجب وضروری ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم ہے اور غیر مسلم حکومتوں کی سرپرستی میں ایسی حرکت کررہا ہے تو تمام مسلم ممالک کو ان کے خلاف اعلان جہاد کرنا چاہئے اور جب تک توہین کے مرتکب افراد اپنے کیفر کردار کو نہیں پہنچ جاتے ان کا پیچھا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ تمام صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، محدثین عظامؒ، فقہاء کرامؒ اور محققین علماء کا یہی مذہب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِیْ الدُّنْیَا وَالاٰخِرَةِ وَأعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا﴾(الأحزاب : ۵۷)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیاہے۔‘‘
یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دینے والا واجب القتل ہے اور معاہدہ بھی اس کونہ بچا سکے گا۔ اس لئے کہ ہم نے معاہدہ اس بات پر نہیں کیا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ایذاء دے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍ ذَلِکَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوْا اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَمَنْ یُّشَاقِقِ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ فَاِنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾(الأنفال:۱۲،۱۳)
’’پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پرچوٹ لگاؤ یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کیااور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لئے نہایت سخت گیر ہے۔‘‘
یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب اسلامی ریاست معرض وجود میں آرہی تھی اور دشمنان اسلام اللہ کے رسولﷺ کی مخالفت اور ایذا رسانی پر کمربستہ ہوگئے تھے اس پاداش جرم میں ان کے لئے یہ سزا تجویز ہوئی۔
سورۂ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا سُنَّةَ اﷲِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اﷲِ تَبْدِیْلًا﴾(آیت :۶۱،۶۲)
’’یہ ملعون جہاں کہیں پائے جائیں پکڑے جائیں اور خوب قتل کئے جائیں جیسا کہ گذشتہ مفسدین کے بارے میں اللہ کی سنت ہے اور اللہ کے آئین اور عادت میں کوئی تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فتح مکہ کے دن آپﷺ نے عفو عام کا اعلان کرا دیا جنہوں نے آپ کے راستہ میں کانٹے بچھائے تھے اور جنہوں نے آپ پر پتھر برسائے تھے اور جو ہمیشہ آپ سے برسرِپیکار رہے اور جنہوں نے آپ کی ایڑیوں کو لہولہان کیا تھا سب کو معافی دے دی گئی مگر چند اَشخاص جو بارگاہِ نبوی میں غایت درجہ گستاخ اور دریدہ دہن تھے ان کے متعلق یہ حکم ہوا کہ جہاں کہیں ملیں قتل کردیئے جائیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ ذوالجلال کا یہی حکم ہے۔
 
Top