آپ نے کہا تھا
علماء احناف کے جو اقوال آپ نے ذکر کیے اس سے آپ نے مفہوم نکالا بقول آپ کے موئے سر بھی امام سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا. یعنی ہر معاملہ میں امام کی بات ماننی ہے. میں نے آپ سے اتنی بات کہی کہ اگر ان اقوال کا یہی مفہوم ہے تو مجھے ایک حنفی دکھا دیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کیا ہو جو آپ تاحال دکھانے سے قاصر ہیں
جس پر میں نے کہا کہ اگر ہم کو موئے سر بھی امام کے قول سے اختلاف کی اجازت نہیں تو شوال کے روزوں کے معاملے پر ہم نے کیوں قول امام چھوڑا. ظاہر ہے صحیح منصوص حدیث کی وجہ سے. لیکن آپ نے کہا کہ دوسرے مسائل مثلا رفع الیدین قرآت خلف الامام وغیرہ مسائل میں ہم کیوں قول امام نہیں چھوڑ تے تو محترم یہاں ہم نےقول امام پر اس لئے عمل کیا کیوں کہ ہم ان مسائل میں قول امام کو حق پر پایا
رہا کچھ علماء کا اختلاف تو دیکہیں انہوں جہاں سمجھا حق ہے اس پر عمل کیا لیکن وہ فقہ حنفی کا شاذ قول ہے مفتی بہ قول نہیں
آپ نے اگلا مطالبہ یہ کیا
پھر معتبرعلمائے احناف سےیہ اصول لے کر آئیں کہ اگر امام کا کوئی قول قرآن وحدیث کے خلاف ہوتو اسے چھوڑدیں گے
اس پر میں نے اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا یہ قول پیش کیا
اگر کسی اور جزئی میں بھی ہم کو معلوم ہوجائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں گے اور تقلید کے خلاف نہیں آخر بعض مواقع میں امام صاحب کے اقوال کو بھی چھوڑا گیا ھے
آگے چل کر مزید کہتے ہیں
اور خود امام صاحب ہوتے اور اس وقت اس سے دریافت کیا جاتا تو وہ بھی یہی فرماتے تو گویا اس چھوڑنے میں بھی امام صاحب کی اطاعت ہے
فقہ حنفی کے اصول و ضوابط صفحہ 32
اس پر آپ کہ رہے ہیں کہ
آپ صرف یہ بتادیں اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے قول کا آپ کے نزدیک کیا مطلب ہے . آپ اس قول کا مفہوم بتائیں گے تو آپ کی بات سمجھنا شاید آسان ہو جائے
جزاک اللہ خیرا
جو بات صاف اور واضح ہے اس کو سمجھنے میں کیا دقت ہے ؟
دیکھ لیں۔
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اشرف علی صاحب کی اس بات کو
اگر کسی اور جزئی میں بھی ہم کو معلوم ہوجائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں گے اور تقلید کے خلاف نہیں آخر بعض مواقع میں امام صاحب کے اقوال کو بھی چھوڑا گیا ھے
اولا : آپ کے بقول قول شاذ کہہ سکتے ہیں ۔
ثانیا: اسمیں احناف کے لئے حیلہ سازی کا بہانہ موجود ہے ۔ آپ ہی کا لکھا ہوا جملہ دیکھیں
حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں گے
یہ مخصوص الفاظ
حدیث صریح منصوص ایک چور درازہ ہے اس کے ذریعہ کہنا یہی چاہتے ہیں کوئی بات چھوڑی نہیں جائے گی ۔ وگرنہ جملہ یہ ہوتا کہ امام صاحب کی جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہوجائے اسے چھوڑدیں گے ۔ اسی بات کو تھانوی صاحب نے صراحت کے ساتھ اس طرح کہا ہے ۔
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
میں آپ کو بتاؤں گا کہ حنفی سنت سے کتنی دور ہیں ؟ پہلے ہمارا چیلنج جو آپ نے قبول کیا ہے اسے کماحقہ ثابت کرکے دکھائیں اور سیدھی سیدھی باتوں میں بھی الٹ پھیر نہ کریں ۔