Tahir baig
مبتدی
- شمولیت
- فروری 27، 2018
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 6
آپ کی تمام باتوں میں بہت سے تضادات ہیں ۔ اور آپ ہی کے انداز گفتگو میں ، میں آپ سے کہتاہوں کہ آپ نے شائد فلکیات ، فزکس بھی پڑھی ہے کہ نہیں ۔انسان کو اللہ پاک نے علم کے تین ذرائع دیے ہیں۔ حواس خمسہ، عقل اور وحی الہی۔ سب سے پہلا علم انسان حواس خمسہ سے حاصل کرتا ہے، پھر اس حاصل شدہ علم کے مقدمات کو اس کی عقل ترتیب دیتی ہے اور وہ ایک نئی چیز دریافت کرتا ہے۔ جہاں عقل کی پرواز ختم ہوتی ہے وہاں وحی الہی آتی ہے لیکن وحی کا موضوع سائنس نہیں بلکہ ہدایت ابدی ہے۔ اس لیے ہماری بحث میں علم کے ذرائع صرف دو ہیں: حواس خمسہ اور عقل۔
پتا نہیں کہ آپ یہ بھی مانتے ہیں یا نہیں اور آپ نے منطق، فلسفے اور علم الکلام کی کوئی کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔ بہرحال میں یہ تصور کرتا ہوں کہ آپ یہ مانتے ہیں۔
آپ نے کہا ہے کہ میرے دعوے کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ آپ کے پاس کوئی بھی چیز رکھی ہوگی۔ اسے اٹھائیے اور چھوڑ دیجیے۔ خود ہی دیکھ لیجیے کہ وہ کہاں جاتی ہے؟ ظاہر ہے زمین پر گرے گی۔ لیکن کیوں؟ آسمان پر کیوں نہیں چلی جاتی؟ ہوا میں تیرنے کیوں نہیں لگ جاتی؟
پلاسٹک کی ایک طشتری اٹھائیں اور پانی کے اوپر ہوا میں چھوڑ دیں۔ وہ پانی تک نیچے جائے گی اور پانی کی سطح پر تیرنا شروع کر دے گی۔ آخر وہ پانی تک نیچے کیوں آئی اور پانی کو کاٹ کر نیچے کیوں نہیں گئی؟ یہی کام لوہے کی گیند کے ساتھ کریں تو وہ پانی کی تہہ میں اتر جائے گی۔
یہ سارے مشاہدے ہیں یعنی حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے علم۔ جب عقل سے انہیں جمع کیا تو معلوم ہوا کہ زمین میں کوئی ایسی قوت ہے جو زیادہ کثیف چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور انہیں ہوا میں تیرنے نہیں دیتی۔
اگر کوئی ان سب چیزوں کو عقل سے جمع نہیں کر سکتا تو پھر اس کا یہ موضوع ہی نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے:
یعنی کشتی سمندر کی سطح پر اور پرندہ ہوا میں اڑتا کیوں ہے اگر زمین میں کھینچنے کی قوت ہے؟
اگر مذہب کی زبان میں جواب دوں تو۔۔۔۔
أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ
یہ آیات خود ہی بتا رہی ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی قدرت سے کوئی ایسا سلسلہ مقرر کیا ہوا ہے جس نےعام قانون کے برعکس ان چیزوں کو متحرک رکھا ہوا ہے۔ جب اللہ پاک نے ایک سلسلہ مقرر کر دیا ہے اور ان چیزوں کو یہ قدرت دے دی ہے تو ہم انکار تو کر ہی نہیں سکتے۔ ہاں اس سلسلے کو تلاش کر سکتے ہیں۔
اسے تلاش کر کے انسان نے ہوائی جہاز بنا لیا۔ آج وہ آپ کو اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی ہوائی جہاز جب زمین پر ہوتا ہے تو ایک ٹھوس چیز ہونے کی وجہ سے چپکا ہوا ہوتا ہے اور جب آسمان پر اس کا انجن بند ہو جائے تو بھی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔ زمین کی کشش اپنی جگہ کام کرتی ہے اور ہوائی جہاز جب اڑتا ہے تو پرندوں کو اڑانے والا سلسلہ اپنی جگہ کام کرتا ہے۔ ان دونوں کا انکار کون کر سکتا ہے؟
ہاں اگر گہرائی میں جائیں تو ہوا بھی اپنی کثافت رکھتی ہے اور پانی بھی۔ زمین کی کوشش جیسے ٹھوس چیزوں کو اپنی جانب کھینچتی ہےویسے ہی مائع اور گیس یعنی پانی اور ہوا کو بھی اپنی جانب کھینچتی ہے۔ لیکن ان چیزوں کی کثافت اور وزن ٹھوس کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اس لیے ٹھوس کو اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ اس کے نیچے اتنے بڑے پیمانے پر پانی اور ہوا آ جائیں کہ ان کی مجموعی کثافت اس ٹھوس کی کثافت سے بڑھ جائے۔ پرندہ بھی جب ہوا پر تیرتا ہے تو وہ اپنے پر پھیلا لیتا ہے اور جب اس نے نیچے اترنا ہوتا ہے تو وہ اپنے پر سمیٹ لیتا ہے۔
آپ جس چیز کا انکار کر رہے ہیں اس کی بنیاد پر روز جہاز اڑ رہے ہیں۔ کسی دن ائیر پورٹ تشریف لے جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اندازہ یہ ہوگا کہ یہ عقلی موشگافیاں عملی کاموں کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔
پھر آپ مساوات تسلیم نہیں کریں گے میرے بھائی۔ کیا فائدہ جب اس پر عملی مظاہرہ آپ خود دیکھ رہے ہیں؟ راکٹ دیکھا ہے؟ جب اڑتا ہے تو اس کے نیچے سے آگ یا گیس نکلتی ہے۔ یہ گیس وہ قوت پیدا کرتی ہے جو زمین کی کشش کے مقابل ہوتی ہے اور اس طرح راکٹ کو اڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا نے راکٹ بنا بھی لیا ہے اور اڑا بھی رہی ہے۔ جیٹ طیارے بھی اسی اصول پر ہوا میں اٹھتے ہیں۔ ہم اس پر بحث کر رہے ہیں کہ یہ ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ کون سی عقل کی بات ہے؟
باقی ناسا اور دوسری ویب سائٹس سے میں مساوات نقل بھی کر سکتا ہوں ، اس پر بحث بھی کر سکتا ہوں اور اسے ریاضیاتی انداز میں بیان بھی کر سکتا ہوں لیکن آسٹرین اسکول آف اکنامکس کے مشہور اصول کے مطابق ہمیں ریاضی سے باہر نکل کر حقیقی دنیا کو دیکھنا چاہیے۔
جی ہاں نہ صرف میزائل فائر کرتے وقت زمین کی گولائی کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ قبلے کی تعیین کے وقت بھی زمین کی گولائی کو دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے کراچی سے قبلہ نوے ڈگری کے بجائے تقریباً بانوے ڈگری پر ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ آپ نے فلکیات کا علم پڑھا ہے یا نہیں۔
اسنائپر کا نشانہ جتنا دور ہو اسے اتنی ہی چیزیں ناپنی پڑتی ہیں (گوگل کر لیں)۔ البتہ اس کے سامنے موجود زمین کی گولائی کا اس پر اثر اس لیے کم ہوتا ہے کہ اس کی بندوق سے گولی نکلتے ہی زمین کی کشش کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے اور بتدریج گرتی جاتی ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ گولی کے پیچھے موجود قوت تیزی سے کم ہو رہی ہوتی ہے جو اس پر زمین کی کشش کو حاوی ہونے دے رہی ہوتی ہے۔ اگر اس کا نشانہ بہت دور ہو تو اس پر کافی اثر پڑتا ہے لیکن اگر اس کا نشانہ اس کی رینج میں ہو تو گولی کے پیچھے موجود قوت اور زمین کی کشش گولی کو گول زمین کے متوازی رکھتی ہیں۔ لیکن اسنائپر کا نشانہ اتنا دور نہیں ہوتا کہ اسے دیکھنے کے لیے زمین کی گولائی کا اثر ہو۔
اب آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میں وہ مشاہدہ بیان کروں جس کے مطابق زمین گول ہے۔ تو آسان سی بات ہے۔ ایک عمدہ سی دوربین لے کر کراچی کی بندرگاہ پر کسی ایسے دن چلے جائیے جب مطلع صاف ہو۔ جب جہاز نمودار ہوگا تو پہلے اس کا ترشول، پھر عرشہ اور پھر نچلا حصہ نمودار ہوگا۔ جاتے وقت اس کے برعکس ہوگا۔ اگر زمین سیدھی ہوتو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ دوربین ایسی لے کر جائیے گا جو نمودار ہونے والے جہاز سے آگے تک دکھا سکتی ہو۔
اگر اس سے دل مطمئن نہ ہو تو کچھ رقم لگائیے اور بحر ہند سے اٹلانٹک تک اور وہاں سے مخالف سمت میں یورپ تک کا سفر کر لیجیے۔ وہاں سے آپ دوبارہ بحر ہند آ جائیں گے۔ یقین رکھیے آپ کہیں بھی زمین کے کنارے سے نیچے نہیں گریں گے اور نہ ہی کہیں سمندر کا پانی نیچے چھلک رہا ہوگا۔
بھائی جان وہ اس چیز کا خیال رکھتے ہیں کہ انہیں زمین پر یا زمین کے اندر کتنی گہرائی تک رہنا ہے۔ گولائی خود بخود سیٹ ہوتی رہتی ہے۔ وہ ایک ساتھ میلوں لمبا ایک ہی ٹریک لا کر تو نہیں بچھاتے۔ وہ تو چھوٹے چھوٹے ٹریک لگاتے ہیں۔ یہ کام تو آپ ربڑ کی ایک "پنگ پانگ" گیند پر بھی کر سکتے ہیں۔
جی بس یہی عرض ہے کہ جو چیزیں نہ صرف نظر آرہی ہیں بلکہ عملاً ان کا استعمال بھی ہو رہا ہے ان کا انکار صرف اس لیے نہیں کیجیے کہ آپ نے خود تجربہ نہیں کیا۔ تشریف لے جائیے اور تجربہ کر لیجیے۔
جب آپ عقل سے یہ مشاہدہ کر رہے تھے کہ کوئی بھی چیز گرائیں تو وہ نیچے کیوں آتی ہے ۔ تو اسی وقت ہیلئم کے غبارے کا بھی مشاہدہ کر لیتے جو ہوا میں اوپر جاتا ہے ۔ نیچے نہیں ۔ بڑے بیلونز جنہیں گرم ہوا کے زریعے اڑایا جاتا ہے ۔ وہ گریویٹی کو پھر غلط ثابت کر دیتے ہیں ؟ کیا یہ مشاہدہ آپ کی نظر نہیں کبھی گزرا ؟
پانی میں ایک سوئی ڈوب جاتی ہے اور جبکہ لکڑی نہیں ڈوبتی ۔ پھر آپ ے لکھا کہ زمین میں کوئی ایسی چیز ہے جو زیادہ کثیف چیزوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ تو محترم یہ کس کی تھیوری ہے ؟ یہ گریویٹی کی تعریف ہے نہیں ۔
مجھے آج حیرت ہورہی ہے کہ جس فورم سے میں مذہبی مسائل کا حل ڈھونڈتا رہا ہوں ۔ اس فورم پر علم کے حالات یہ دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔
آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ نے دفاع کس موقف کا کرنا ہے
گریویٹی کی یہ خود ساختہ تعریف کہ زیادہ کثیف چیزوں کو زمین کھینچتی ہے بالکل نئی اور آپ کی اپنی ہے ۔
گریویٹی ایک فیک تھیوری ہے سائنسدان خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ گریویٹی اصل میں ہے کیا ۔ جبکہ فلیٹ طرح ارتھرز کا موقف یہ ہے کہ ہوا سے زیادہ ڈینسٹی رکھنے والی چیز نیچے اور کم ڈینسٹی رکھنے والی اوپر جائے گی گریویٹی کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ ہیلئم گیس کم ڈینس ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھتی ہے ۔ زمین کی کور اگر آپ نے تصویروں میں دیکھی ہو تو وہ لیکوڈ فورم میں ہے اب آپ مجھے یہ ضرور سمجھا دینا کہ وہ گریویٹی کیسے جنریٹ کرتی ہے
پانی میں چیزیں ایسے ہی اوپر نیچے جاتی ہیں زیادہ ڈینسٹی کی نیچے اور پانی سے کم ڈینس اوپر ۔
آپ میں کہا کہ ناسا سے کہیں اور سے مساوات لکھ دیتا ہوں تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ناسا ایک جھوٹا ادارہ ہے اس کے مکمل ثبوت ہیں میرے پاس ۔